Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 68
اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْرٰهِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ وَ هٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ
اِنَّ : بیشک اَوْلَى : سب سے زیادہ مناسبت النَّاسِ : لوگ بِاِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم سے لَلَّذِيْنَ : ان لوگ اتَّبَعُوْهُ : انہوں نے پیروی کی انکی وَھٰذَا : اور اس النَّبِىُّ : نبی وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَاللّٰهُ : اور اللہ وَلِيُّ : کارساز الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
بلاشبہ انسانوں میں ابراہیم کے ساتھ سب سے زیادہ قریب تر وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کا اتباع کیا اور یہ نبی ہیں اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور اللہ سب مومنین کا ولی ہے۔
صحابہ نجاشی کے دربار میں (1) عبد بن حمید نے شھربن حوشب (رح) سے روایت کیا ہے کہ مجھ کو ابن غنم (رح) نے بیان کیا کہ جب نبی اکرم ﷺ کے صحابہ ؓ نجاشی کی طرف گئے تو عمرو بن عاص اور عمارہ بن ابی معیط بھی وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے ان صحابہ کرام ؓ پر سرکشی کا ارادہ کیا یہ لوگ نجاشی کے پاس آئے اور اس کو بتایا کہ یہ جماعت جو تیرے پاس مکہ سے آئی ہے یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ تجھ پر تیرے ملک کو بگاڑ دیں اور فساد کریں تیری زمین میں اور تیرے رب کو برا بھلا کہیں نجاشی نے ان لوگوں کو بلوایا جب یہ لوگ آگئے تو اس نے کہا کہ تم سنتے ہو کہ تمہارے یہ دونوں ساتھ تمہارے بارے میں کیا کہتے ہیں یعنی عمرو بن عاص اور عمارہ بن ابی معیط ان کا خیال ہے کہ تم اس لیے آئے ہو کہ مجھ پر میرے ملک کو بگاڑ دو اور میری زمین پر فساد کرو تو (اس پر) عثمان بن مظعون اور حمزہ ؓ نے کہا اگر تم چاہو تو ہم میں سے ایک نجاشی کے ساتھ بات کرے گا اگر بات صحیح ہوگئی تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو توفیق دینے والا ہے اگر بات بگڑ گئی تو تم کہہ دینا کہ یہ جوان آدمی ہے اس کو گفتگو کرنا نہیں آتا تم عذر پیش کردینا نجاشی نے اپنے علماء اور راہب اور ترجمان اکٹھے کئے پھر صحابہ سے سوال کیا کیا دیکھا ہے تم نے کہ تمہارا یہ ساتھی جس کے پاس سے تم آئے ہو تم کو کیا کہتا ہے ؟ کس بات کا تم کو حکم دیتا ہے اور کس بات سے تم کو منع کرتا ہے کیا اس کی کوئی کتاب ہے جس کو وہ پڑھتا ہو ؟ انہوں نے کہا ہاں ! یہ آدمی وہ کتاب پڑھتا ہے جو اللہ تعالیٰ اس پر نازل فرماتے ہیں اور تحقیق ہم نے اس میں سنا کہ وہ نیکی کا حکم کرتا ہے اور پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم فرماتا ہے اور یتیموں کے ساتھ بھی اچھے سلوک کا حکم دیتا ہے اور یہ بھی حکم کرتا ہے کہ اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی اور معبود کی عبادت نہ کرو (اس کے بعد) ان کو سورة روم عنکبوت اصحاب کہف اور مریم پڑھ کر سنائی جب قرآن میں عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر ہوا تو عمر و بن عاص نے ارادہ کیا کہ (اس بارے میں) نجاشی کو ان پر غصہ دلائے تو اس نے کہا اللہ کی قسم ! یہ لوگ تو عیسیٰ (علیہ السلام) کو برا کہتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں نجاشی نے کہا تمہارا ساتھ (یعنی تمہارے نبی ﷺ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں کیا کہتے ہیں جواب دیا کہ وہ فرماتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے اس کے رسول اس کی روح اور اس کا کلمہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس کو مریم (علیہا السلام) کی طرف القاء کیا تو نجاشی نے اپنے مسواک میں سے ایک ریشہ کو لیا جو اس تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں جو تمہارے ساتھی یعنی نبی ﷺ نے کہا تم کو خوشخبری ہو تم خوف نہ کرو یعنی حبشہ کی زبان میں آج کے دن تم ابراہیم (علیہ السلام) کے گروہ (یعنی جماعت) ہو عمروبن عاص نے کہا ابراہیم (علیہ السلام) کی جماعت کیا ہے ؟ اس نے کہا یہ جماعت اور ان کے نبی ہیں جن کے پاس سے یہ لوگ آئے ہیں اور جو لوگ ان کی تابعداری کرنے والے ہیں اور اس دن ان کے مخالف لوگوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی اور آپ مدینہ منورہ میں تھے لفظ آیت ” ان اولی الناس بابراہیم للذین اتبعوہ وھذا النبی والذین امنوا واللہ ولی المؤمنین “ (یعنی سب سے زیادہ ابراہیم (علیہ السلام) سے ان کے دین سے قرب رکھنے والے بیشک وہی لوگ ہیں جنہوں نے ابراہیم کی امت میں سے ان کی پیروی کی اور یہ نبی یعنی ( محمد ﷺ اور وہ لوگ جو ان پر ایمان لائے یہ لوگ بھی احکام میں ملت ابراہیم کے موافق ہیں۔ (2) سعید بن منصور، عبد بن حمید، ترمذی، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور حاکم نے (اس کو صحیح کہا) حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ ہر نبی کے لیے (دوسرے) نبیوں میں سے (کوئی) دوست ہوتا ہے اور انبیاء میں سے میرا دوست میر جد اعلی ہے جو میرے رب کا خلیل ہے پھر یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” ان اولی الناس بابرہیم للذین اتبعوہ وھذا النبی والذین امنوا واللہ ولی المؤمنین “۔ (3) ابن ابی حاتم نے حکم بن میناء ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے قریش کی جماعت ! لوگوں میں سے نبی ﷺ کے زیادہ قریب متقی لوگ ہوں گے سو تم اسی راستہ پر چلو پھر دیکھو ایسا نہ ہو کہ لوگ اپنے اعمال کے ساتھ آئیں تم دنیا کے ساتھ میرے پاس آؤ تو میں تم سے اپنا چہرہ پھیرلوں پس روکتا ہوں تم کو پھر آپ نے ان پر یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” ان اولی الناس بابرہیم للذین اتبعوہ وھذا النبی والذین امنوا واللہ ولی المؤمنین “۔ (4) ابن جریر وابن ابی حاتم نے علی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ان اولی الناس بابرہیم للذین اتبعوہ “ سے مومن لوگ مراد ہیں۔ (5) عبد بن حمید وابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ان اولی الناس بابرہیم للذین اتبعوہ “ سے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کا اتباع کیا ان کے دین کا ان کی سنت کا ان کے طریقے کا اور ان کی طبیعت کا (اور) ” والذین امنوا “ سے ایمان والے مراد ہیں۔ (6) ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ ہر مؤمن ابراہیم (علیہ السلام) کا دوست ہے خواہ ان لوگوں میں سے پھر جو گذر چکے یا ان لوگوں میں سے جو باقی ہیں۔ (7) احمد وابن ابی داؤد نے بعث میں، ابن ابی الدنیا نے العزاء میں، حاکم نے (اس کو صحیح کہا) بیہقی نے البعث والنشور میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومنین کی اولاد جنت کے پہاڑ میں سے ہے ان کی کفالت ابراہیم (علیہ السلام) اور (ان کی بیوی) سارہ (علیہا السلام) کرتے ہیں یہاں تک کہ قیامت کے دن ان کو ان کے والدین کی طرف لوٹا دیا جائے گا
Top