Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 83
اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰهِ یَبْغُوْنَ وَ لَهٗۤ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ كَرْهًا وَّ اِلَیْهِ یُرْجَعُوْنَ
اَفَغَيْرَ : کیا ؟ سوا دِيْنِ : دین اللّٰهِ : اللہ يَبْغُوْنَ : وہ ڈھونڈتے ہیں وَلَهٗٓ : اور اس کے لیے اَسْلَمَ : فرمانبردار ہے مَنْ : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین طَوْعًا : خوشی سے وَّكَرْھًا : اور ناخوشی سے وَّاِلَيْهِ : اس کی طرف يُرْجَعُوْنَ : وہ لوٹائے جائیں
کیا اللہ کے دین کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرتے ہو، حالانکہ وہ سب اس کے فرمانبردار ہیں جو آسمانوں میں ہیں اور زمین میں ہیں خوشی سے اور مجبوری سے، اور اسی کی طرف سب واپس ہوں گے۔
(1) طبرانی نے ضعیف سند کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا لفظ آیت ” ولہ اسلم من فی السموت والارض طوعا وکرھا “ میں جو مخلوق آسمانوں میں ہے وہ فرشتے ہیں اور جو مخلوق زمین میں ہے اس سے مراد وہ مسلمان جو پیدا ہوا اور کرھا سے مراد دوسری قوموں کے وہ لوگ ہیں جو زنجیروں اور ہتھکڑیوں میں سے جکڑے ہوئے ہوں گے جن کو جنت کی طرف لے جایا جائے گا جبکہ وہ خوش نہ ہوں گے۔ (2) الدیلمی نے انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لفظ آیت ” ولہ اسلم من فی السموت والارض طوعا وکرھا “ سے مراد ہے کہ فرشتے اس کی اطاعت کرتے ہیں آسمان میں اور انصار صحابہ ؓ اور عبد قیس اس کی اطاعت کرتے ہیں زمین سے۔ (3) ابن جریر نے مجاہد کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ولہ اسلم من فی السموت والارض طوعا وکرھا “ سے مراد ہے کہ جب ان سے وعدہ لیا تھا تو انہوں نے اس وقت سر تسلیم خم کیا۔ (4) ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے علی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ سب اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے طوعا وکرھا (یعنی خوشی سے یا نا خوشی سے) اور یہی قول ہے اللہ تعالیٰ کا لفظ آیت ” وللہ یسجد من فی السموت والارض طوعا وکرھا “ (الرعد آیت 15) (5) ابن المنذر وابن ابی حاتم نے عکرمہ کے طریق حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” ولہ اسلم من فی السموت “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ جدا ہے لفظ آیت ” ومن فی السموت والارض طوعا وکرھا “ سے (یعنی جو زمین میں ہیں جن وانس وہ بھی خوشی یا نا خوشی سے اللہ تعالیٰ ہی کی فرمانبردار ہیں) ۔ (6) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ” ولہ اسلم “ سے مراد ہے معرفت (یعنی آسمان اور زمین میں ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھتی ہے) ۔ (7) عبد بن حمید اور ابن جریر نے مجاہد (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے لفظ آیت ” ولئن سالتہم من خلق السموت والارض لیقولن اللہ “ (یعنی جب آپ ان سے سوال کریں کہ کس نے آسمان و زمین کو پیدا فرمایا تو وہ کہیں گے اللہ تعالیٰ نے) یہی ان کا اسلام تھا۔ (8) ابن جریر وابن ابی حاتم نے ابو العالیہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ ہر آدمی اقرار کرتا ہے اپنی ذات سے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ میرا رب ہے اور میں اس کا بندہ ہوں پس جو اس کی عبادت میں شرک کرے گا تو یہ وہ شخص ہے جو اسلام مجبوری سے لایا اور جو شخص خاص اللہ کی عبادت کرتا ہے یہ وہ شخص ہے جو خوشی سے اسلام لایا۔ (9) ابن جریر نے حسن ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ کئی قومیں اسلام لانے پر مجبور کی گئیں اور کئی قومیں خود بخود فرمانبرداری کرتے ہوئے آئیں اسلام لائیں۔ (10) مطر الوراق (رح) نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ فرشتے خوشی سے انصار خوشی سے بنو سلیم خوشی سے اور عبد القیس خوشی سے اسلام لائے باقی اور سارے لوگوں نے مجبور اسلام قبول کیا۔ خوشی سے جو اسلام قبول کرے وہی مقبول ہے (11) عبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ مومن خوشی سے اسلام لاتا ہے اور اس چیز نے اسے نفع دیا اور اس سے یہ عمل قبول ہوا لیکن کافر جب اسلام لاتا ہے جب اللہ اللہ کے عذاب کو دیکھتا ہے اور اس کو اس بات کا نفع نہیں ہوتا اور اس سے (اس کا اسلام) قبول بھی نہیں کیا جاتا اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ” فلم یک ینفعہم ایمانہم لما راو باسنا “۔ (12) ابن ابی حاتم نے حسن ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ آسمانوں میں فرشتوں نے خوشی سے اور زمین میں انصار اور عبد القیس نے خوشی سے اطاعت کی۔ (13) شعبی (رح) نے فرمایا کہ ” ولہ اسلم من فی السموت والارض “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے اپنی اطاعت و فرمانبرداری کا تقاضا کیا۔ (14) ابو سفیان (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ولہ اسلم من فی السموت والارض “ سے معرفت مراد ہے کیونکہ جس سے بھی تو اس کے بارے میں سوال کرے گا یہ کہ وہ جانتا ہوگا۔ (15) عکرمہ ؓ نے فرمایا کہ ” وکرھا “ سے مراد وہ لوگ ہیں جو مشرکین عرب میں سے اور قیدیوں میں سے اسلام لائے یا جو مجبور ہو کر مسلمان ہوئے۔ (16) طبرانی نے الاوسط میں انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص غلاموں کے جانوروں بچوں کے ساتھ برا سلوک کرے تو اس کے کان میں پڑھ دو ” افغیر دین اللہ یبغون “۔ (17) ابن السنی نے عمل یوم ولیلۃ میں یونس بن عبید (رح) سے روایت کیا ہے کہ کوئی آدمی ایسا نہیں ہے کہ کسی سرکش سواری پر سوار ہو تو اس کے کان میں (یہ آیت) پڑھ دے لفظ آیت ” افغیر دین اللہ یبغون ولہ اسلم “ تو (یہ جانور) اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کے لیے تابعدار ہوجائے گا۔
Top