Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 96
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَۚ
اِنَّ : بیشک اَوَّلَ : پہلا بَيْتٍ : گھر وُّضِعَ : مقرر کیا گیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے لَلَّذِيْ : جو بِبَكَّةَ : مکہ میں مُبٰرَكًا : برکت والا وَّھُدًى : اور ہدایت لِّلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہانوں کے لیے
بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے۔ جو برکت والا ہے اور لوگوں کے ہدایت ہے۔
(1) ابن المنذروابن ابی حاتم نے شعبی کے طریق سے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اس سے پہلے گھر تھے لیکن یہ پہلا گھر تھا جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے بنایا گیا۔ (2) ابن جریج نے حضرت ابوذر ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ لفظ آیت ” ان اول بیت وضع للناس “ سے وہ گھر مراد ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے ” للذی ببکۃ “ جو مکہ میں ہے۔ (3) ابن ابی شیبہ واحمد وعبد بن حمید و بخاری ومسلم وابن جریر والبیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابوذر ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کونسی مسجد سب سے پہلے بنائی گئی آپ نے فرمایا مسجد حرام (پھر) میں نے عرض کیا اس کے بعد کون سی مسجد بنائی گئی ؟ آپ نے فرمایا مسجد اقصیٰ (پھر) میں نے عرض کیا ان دونوں کے درمیان کتنی مدت ہے آپ نے فرمایا چالیس سال ! (4) ابن جریر وابن المنذر والطبرانی والبیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کو زمین کے دو ہزار سال پہلے بنایا جبکہ اس کا عرش پانی پر سفید جھاگ کی طرح تھا اور زمین اس کے نیچے گویا کہ ایک ابھری ہوئی چٹان کی مانند تھی پھر زمین کو اس کے نیچے پھیلا دیا گیا۔ (5) ابن المنذر نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ بلاشبہ کعبہ زمین سے دو ہزار سال پہلے پیدا کیا گیا جبکہ وہ زمین کا حصہ ہے وہ پانی پر ایک ابھری ہوئی چٹان تھی اس پر دو فرشتے تسبیح بیان کرتے تھے جب اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ زمین کو پیدا کیا جائے تو اس چٹان کو پھیلا دیا اور اس کعبہ کو زمین کے درمیان میں کردیا۔ (6) عبد بن حمید وابن جریر اور ازرقی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ قول لفظ آیت ” ان اول بیت وضع للناس “ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا قول ” کنتم خیر امۃ اخرجت للناس “ (آل عمران) ۔ (7) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ پہلا گھر اس دن تھا جس دن زمین پانی پر تھی اور ایک جھاگ تھی زمین پر جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا فرمایا تو اپنے گھر کو بھی اس کے ساتھ پید فرمایا وہ پہلا گھر ہے جو زمین میں رکھا گیا۔ (8) ابن المنذر نے حسن بصری (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ پہلا قبلہ جو سب لوگوں کے لیے بنایا گیا وہ مسجد حرام ہے۔ بیت اللہ کی فضیلت وعظمت (9) ابن المنذر اور الازرقی نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا ہے کہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ یہودیوں نے کہا بیت المقدس بڑی عظمت والا ہے کعبہ سے اس لیے کہ یہ انبیاء کی ہجرت گاہ ہے اور اس لیے کہ یہ مقدس سرزمین میں ہے مسلمانوں نے کہا کعبہ زیادہ عظمت والا ہے یہ بات نبی اکرم ﷺ کو پہنچی تو یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبرکا “ سے لے کر ” فیہ ایت بینت مقام ابراہیم “ تک بیت المقدس میں مقام ابراہیم نہیں ہے پھر فرمایا ” ومن دخلہ کان امنا “ (جو شخص اس میں داخل ہو تو امن والا ہوگا) اور یہ بات بیت المقدس میں نہیں ہے (پھر فرمایا) لفظ آیت ” وللہ علی الناس حج البیت “ اور یہ بات بیت المقدس میں نہیں ہے۔ (10) بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا زمین میں پہلا حصہ جو بنایا گیا وہ بیت اللہ کی جگہ ہے پھر اس سے زمین کو پھیلایا گیا اور پہلا پہاڑ جو اللہ تعالیٰ نے زمین کی سطح پر رکھا وہ ابو قیس ہے پھر اس سے پہاڑوں کو پھیلا یا گیا۔ (11) ابن جریر وابن ابی شیبہ نے عبد اللہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا ہے کہ اس کا نام بکہ اس لیے رکھا گیا کہ وہ لوگ اس کی طرف ہر جانب سے حج کرنے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔ (12) سعید بن منصور ابن جریر بیہقی نے شعب الایمان میں مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ اس کا نام ” بکہ “ اس لیے رکھا گیا کہ مرد اور عورتیں اس میں رش کرتے ہیں۔ (13) ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید اور بیہقی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ بکہ نام اس لیے رکھا گیا کیونکہ اس میں بعض ان کا بعض سے ازدحام کرتا ہے اور اس جگہ میں ایسے لوگ بھی آتے ہیں جو کسی اور جگہ نہیں جاتے۔ (14) عبد بن حمید ابن جریر اور بیہقی نے شعب الایمان میں قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ بکہ اس لیے نام رکھا گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو یہاں جمع کردیا تھا یہاں عورتیں مردوں کے آگے نماز پڑھتی ہیں جبکہ یہ کام کسی جگہ جائز نہیں۔ (15) سعید بن منصور عبد بن حمید ابن ابی شیبہ ابن المنذر ابن ابی حاتم نے عتبہ بن قیس (رح) سے روایت کیا ہے کہ اسے بکہ کا نام اس لیے دیا گیا کیونکہ مکہ میں کیے جانے والے ذکر کی وجہ سے یوں رویا جس طرح آدمی عورتوں کی طرح روتے ہیں پوچھا گیا یہ تو کس سے روایت کرتا ہے راوی نے کہا ابن عمر ؓ سے۔ (16) ابن ابی حاتم نے محمد بن زید بن مہاجر (رح) سے روایت کیا ہے کہ بکہ اس لیے نام رکھا گیا کیونکہ (کفر اور شرک کی) ظلمت کو دور کردیتا ہے۔ (17) ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید اور ابن ابی حاتم نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ بیت اللہ اور اس کے اردگرد بکہ ہے اور اس کے علاوہ مکہ ہے۔ (18) سعید بن منصور عبد بن حمید ابن ابی شیبہ اور ابن جریر نے ابو مالک غفاری (رح) سے روایت کیا کہ بکہ بیت اللہ کی جگہ ہے اور مکہ اس کے علاوہ ہے۔ مکہ اور مکہ کا تعین (19) ابن جریر نے ابن شہاب (رح) سے روایت کیا ہے کہ بکہ بیت اللہ اور مسجد ہے اور مکہ سارا حرم ہے۔ (20) ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ بکہ مکہ ہی ہے۔ (21) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ مکہ پہاڑوں کے درمیان چوڑے راستے سے لے کر تنعیم تک ہے اور بکہ بیت اللہ سے لے کر وادی بطحاء تک ہے۔ (22) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ بکہ کعبہ ہے اور مکہ جو اس کے اردگرد ہے۔ (23) ابن ابی حاتم نے مقاتل بن حبان (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” مبارکا “ سے مراد ہے کہ اس میں خیرو برکت رکھ دی گئی لفظ آیت ” وھدی للعلمین “ یعنی اس کے لیے اسے قبلہ بنا دیا۔ (24) عبد الرزاق نے مصنف میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں زہری (رح) سے روایت کیا ہے کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ انہوں نے مقام ابراہیم میں تین کاغذوں کو پایا اس میں ہر کاغذ میں لکھا ہوا تھا پہلے کاغذ میں یہ تھا میں اللہ ہوں کعبہ والا میں نے اس دن اس کو پیدا کیا جس دن سورج اور چاند کو بنایا اور اس کو سات عبادت گذار فرشتوں کے حوالے کردیا اور برکت ڈال دی اس کے رہنے والوں کے لیے گوشت میں اور دودھ میں اور دوسرے کاغذ میں یہ تھا میں اللہ مکہ کا مالک ہوں میں نے رحم کو پیدا کیا اور اس کو اپنے نام میں نکالا جو شخص اسکو ملائے گا میں بھی اس کو ملاؤں گا اور جو شخص اس کو کاٹے گا میں بھی اس کو کاٹ دوں گا اور تیسرے کاغذ میں یہ لکھا ہوا تھا میں اللہ بکہ کا خالق ہوں میں نے خیر اور شر کو پیدا کیا پس خوشخبری ہے اس شخص کے لیے کہ خیر اس کے ہاتھ پر ہو اور ہلاکت ہے اس شخص کے لیے کہ ہو شر اس کے ہاتھ پر۔ (25) الازرقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ مقام ابراہیم میں یہ لکھا ہوا پایا گیا یہ بیت اللہ الحرام بکہ ہے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو اپنے اہل و عیال کے رزق کے لیے تین راستوں میں برکت دی جائے گی اس کے اہل و عیال کے لیے گوشت میں پانی میں اور دودھ میں پہلا آنے والا اس کی رہائش نہیں ہوگا اس کے کمروں میں سے ایک کمرے میں پتھر کی بنی ہوئی ایک کتاب پائی گئی جس پر لکھا ہوا تھا کہ میں اللہ ہوں بکہ حرام کا خالق ومالک ہوں میں نے اسے اس وقت بنایا جب سورج اور چاند کو بنایا اور اس کو سات عبادت گذار فرشتوں کے حوالے کردیا وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلے گا یہاں تک کہ اس کے اردگرد والے پہاڑ سرک جائیں برکت رکھ دی گئی اس کے اہل کے لیے گوشت میں اور پانی میں۔ (26) جندی نے فضائل مکہ میں حضرت ابن عباس ؓ اور ابوہریرہ ؓ دونوں سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مکہ کو پیدا فرمایا اور اس کو مشکلات اور سیڑھیوں پر رکھا سعید بن جبیر (رح) سے پوچھا گیا یہ سیڑھیاں کیا ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا جنت کے درجات۔ (27) الازرقی اور جندی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے نہیں دیکھا آسمان کو زمین سے قریب مکہ سے بڑھ کر۔ (28) الازرقی نے عطاء بن کثیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ جو اس کو نبی اکرم ﷺ تک لے جاتے ہیں کہ آپ نے فرمایا مکہ میں ٹھہرنا سعادت ہے اور اس سے نکلنا شقاوت ہے۔ (29) الازرقی جندی اور بیہقی نے شعب الایمان میں اور اس کو ضعیف کہا اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے مکہ شریف میں رمضان کا مہینہ پایا اور سارے روزے رکھے اور راتوں کو جاگا (اور تلاوت کی) جو کچھ کتاب اللہ میں سے پڑھنا آسان ہوا تو اس کے لیے ایک لاکھ رمضان کے مہینوں کا ثواب ہے مکہ کے علاوہ دوسرے شہروں کے مقابلہ میں اور ہر دن اور ہر رات اس کے لیے ایک نیکی لکھی جائے گی اور ہر دن اور ہر رات ایک غلام کے آزاد کرنے کا ثواب لکھا جائے گا اور ہر دن اور ہر رات اللہ کی راہ میں وہی دئیے گھوڑے کی بار برداری کا اجر لکھا جائے گا اور ہر دن اس کی دعا قبول ہوگی۔ (30) الازرقی طبرانی نے الاوسط میں جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ اللہ کا گھر اسلام کا ستون ہے جس شخص نے اس گھر کا ارادہ کیا حج کرنے والا ہو یا عمرہ کرنے والا تو اس کی ضمانت اللہ پر ہے اگر اس کو موت دیں تو اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے اور اگر اس کو واپس لوٹا دیں تو ثواب یا غنیمت کے ساتھ لوٹائیں گے۔ (31) بیہقی نے شعب الایمان میں جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری مسجد میں نماز افضل ہے ہزار نمازوں دوسری مسجدوں کے مقابلہ میں سوائے مسجد حرام کے اور میری مسجد میں جمعہ افضل ہے ہزار جمعوں سے دوسری مسجدوں کے مقابلہ میں سوائے مسجد حرام کے اور رمضان کا مہینہ میری مسجد میں افضل ہے ہزار رمضان کے مہینوں سے دوسری مسجدوں کے مقابلہ میں سوائے مسجد حرام کے۔ (32) البزار وابن خزیمہ طبرانی اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابو درداء ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسجد حرام میں نماز پڑھنا ایک لاکھ نمازوں کی فضیلت رکھتا ہے دوسری مسجدوں کے مقابلہ میں اور میری مسجد میں (نماز پڑھنا) ایک ہزار نمازوں کی فضیلت رکھتا ہے اور بیت المقدس میں ایک نماز پانچ سو نمازوں کی فضیلت رکھتی ہے۔ (33) ابن ماجہ نے انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آدمی کا گھر میں نماز پڑھنا ایک نماز کا ثواب ہے اور اس کا قبیلہ کی مسجد میں نماز پڑھنا پچیس نمازوں کا ثواب ہے اور اس مسجد میں نماز پڑھنا جس میں جمعہ ہوتا ہو پانچ سو نمازوں کا ثواب ہے اور مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ہے اور میری مسجد میں نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ہے اور مسجد حرام میں نماز پڑھنا ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ہے۔ (34) ابن ابی شیبہ، مسلم، نسائی، ابن ماجہ نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری مسجد میں نماز پڑھنا افضل ہے ہزار نمازوں سے دوسری مسجدوں کے مقابلہ میں سوائے مسجد حرام کے۔ (35) طبالسی احمد، بزار، ابن عدی، بیہقی، ابن خزیمہ اور ابن حبان نے عبد اللہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری مسجد میں نماز پڑھنا ہزار نمازوں سے افضل ہے دوسری مسجدوں کے علاوہ سوائے مسجد حرام کے اور مسجد حرام میں نماز پڑھنا افضل ہے میری اس مسجد میں سو نمازیں پڑھنے سے عطا (رح) سے کہا گیا کہ یہ فضیلت جو ذکر کی گئی اکیلے مسجد حرام کے بارے میں ہے یا پورے حرم شریف میں بھی یہی ثواب ملے گا تو انہوں نے فرمایا نہیں بلکہ پورے حرم میں نماز پڑھنے کا ثواب ملے گا کیونکہ حرم شریف سارے کا سارا مسجد (کے حکم میں) ہے۔ مسجد نبوی ﷺ میں نماز کی فضیلت (36) احمد وابن ماجہ نے جابر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری مسجد میں نماز پڑھنا افضل ہے ہزار نمازوں سے اس کے علاوہ دوسری مسجدوں کے مقابلہ میں سوائے مسجد حرام میں نماز پڑھنا افضل ہے ایک لاکھ نمازوں سے۔ (37) ابن ابی شیبہ، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری اس مسجد میں نماز پڑھنا بہتر ہے ہزار نمازوں سے اس کے علاوہ دوسری مسجدوں کے مقابلہ میں سوائے مسجد حرام کے (38) البراز نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں خاتم الانبیاء ہوں اور میری مسجد تمام انبیاء کی مسجدوں کی خاتم ہے مسجدوں میں سے سب سے زیادہ حق دار یہ مسجدیں ہیں جن کی زیارت کی جائے اور ان کی طرف سواریوں پر سفر کیا جائے مسجد حرام اور میری مسجد۔ میری مسجد میں نماز پڑھنا ایک ہزار نماز سے افضل ہے دوسری مسجدوں کے مقابلہ میں سوائے مسجد حرام کے۔ (39) طیالسی ابن ابی شیبہ احمد ابن منیع الرویانی ابن خزیمہ اور طبرانی نے جبیر بن مطعم ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری اس مسجد میں نماز پڑھنا افضل ہے ہزار نمازوں سے دوسری مسجدوں کے مقابلہ میں سوائے مسجد حرام کے۔
Top