Dure-Mansoor - Al-Ahzaab : 28
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی قُلْ : فرمادیں لِّاَزْوَاجِكَ : اپنی بیبیوں سے اِنْ : اگر كُنْتُنَّ : تم ہو تُرِدْنَ : چاہتی ہو الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت فَتَعَالَيْنَ : تو آؤ اُمَتِّعْكُنَّ : میں تمہیں کچھ دے دوں وَاُسَرِّحْكُنَّ : اور تمہیں رخصت کردوں سَرَاحًا : رخصت کرنا جَمِيْلًا : اچھی
اے نبی آپ اپنی بیویوں سے فرمادیجیے کہ اگر تم دنیا والی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں فائدہ پہنچادوں اور تمہیں خوبی کے ساتھ چھوڑدوں
ازواج مطہرات کا آپ ﷺ سے نفقہ کا مطالبہ 1۔ احمد ومسلم والنسائی وابن مردویہ نے ابی الزبیر کے طریق سے جابر ؓ سے روایت کیا کہ ابوبکر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے کی اجازت طلب کی اور لوگ آپ کے دروازے پر جمع تھے اور نبی ﷺ تشریف فرما تھے مگر ان کو اجازت نہیں دی گئی۔ پھر ابوبکر اور عمر ؓ دونوں کو اجازت مل گئی دونوں اندر داخل ہوئے اور نبی ﷺ بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کی ازواج مطہرات آپ کے ارد گرد تھیں اور آپ خاموش تھے عمر ؓ نے فرمایا میں ضرور رسول اللہ ﷺ سے بات کروں گا شاید کہ آپ مسکرا پڑیں۔ عمر نے فرمایا اگر میں کہ زید کی بیٹی (عمر ؓ کی بیوی) بھی مجھ سے نفقہ طلب کرے تو میں اسکی گردن مروڑ دوں یہ سنکر نبی ﷺ ہنس پڑے یہاں تک کہ آپکی داڑھیں ظاہر ہوگئیں اور فرمایا یہ عورتیں بھی میرے اردگرد مجھ سے نفقہ کا سوال کر رہی ہیں اس پر ابوبکر عائشہ کی طرف کھڑے ہوئے تاکہ اس کو ماریں اور عمر حفصہ کی طرف کھڑے ہوئے دونوں یہ کہہ رہے تھے کہ نبی ﷺ سے ایسی چیز کا سوال کرتی ہو جو ان کے پاس نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے دونوں کو منع فرمادیا اور آپ کی ازواج نے کہا۔ اللہ کی قسم ہم رسول اللہ ﷺ سے اس مجلس کے بعد کسی ایسی چیز کا سوال نہیں کریں گی جو آپ کے پاس نہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ نے دو باتوں سے ایک بات کو اختیار کرنے کا حکم نازل فرمایا آپ نے عائشہ سے گفتگوکا آغاز فرمایا اور فرمایا میں تجھ سے ایسی بات کرنے والا ہوں اور میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ تو اس میں جلدی کرے یہاں تک کہ تو اپنے والدین سے مشورہ کرے عائشہ ؓ نے پوچھا وہ کیا بت ہے تو آپ نے یہ آیت یا ایہان النبی قل الازواجک اے نبی پنی بیویوں سے فرمادیجیے، یہ سن کر عائشہ نے فرمایا کیا آپ کے بارے میں میں والدین سے حکم طلب کروں گی بلکہ میں اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرتی ہو اور یہ بھی عرض کرتی ہوں کہ جن عورتوں کے بارے میں آپ کو اختیار دیا گیا ہے کس سے اس کا ذکر نہ کریں آپ نے فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ نے کسی کی لغزش کی جستجو کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے سکھانے وال اخوشخبری دینے والا بنا کر بھیجا ہے جن عورتوں کے بارے میں مجھے اختیار دیا گیا ہے ان میں سے جو بھی مجھ سے سوال کرے گی میں اسے وہ دے دوں گا۔ 2۔ ابن سعد نے ابو سلمہ حضرمی (رح) سے روایت کیا کہ میں بیٹھا ہوا تھا ابو سعید خدری اور جابر بن عبداللہ ؓ کے پاس اور وہ دونوں باتیں کر رہے تھے اور جابر کی بینائی جا چکی تھی ایک آدمی آیا اور بیٹھ گیا پھر پوچھا اے ابوعبداللہ ! عروہ بن زبیر نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے کہ میں آپ سے اس بارے میں سوال کروں کہ کس لیے رسول اللہ ﷺ نے اپنی عورتوں سے علیحدہ اختیار کی تھی جاب رنے فرمایا کہ ہم کو رسول اللہ ﷺ نے ایک رات اس حال میں چھوڑا کہ آپ نماز کے لیے باہر تشریف نہ لائے اگلی پچھلی مصیبتوں نے ہم کو اپنی گرفت میں لے لیا ہم آپ کے دروازے پر جمع ہوگئے آپ ہماری گفتگو سن رہے تھے کہ ہماری جگہ کو جانتے تھے ہمارا ٹھہرنا لمبا ہوگیا نہ آپ نے ہم کو اندر آنے کی اجازت دی اور نہ ہی آپ ہماری طرف باہر نکلے ہم نے کہا رسول اللہ ﷺ ہمارے بیٹھنے کو جانتے ہیں آپ اجازت دینے کا ارادہ فرماتے تو تم کو اجازت دے دیتے۔ اس لیے اب چلے جاؤ اور ان کو تکلیف نہ دو سب لوگ عمر کے علاوہ چلے گئے وہ کھانسے اور انہوں نے بات کی اور اجازت طلب کی یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی اجازت دیدی عمر نے فرمایا کہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں آپ اپنے اپنے ہاتھ مبارک کو اپنے رخسار پر رکھے ہوئے تھے جس سے میں نے آپ کے سخت رنج کو پہنچان لیا میں نے عرض کیا یارسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یا رسول اللہ وہ کونسی چیز ہے جس نے آپ کو غم میں ڈال دیا صحابہ کو کیا ہو جو آپ کی زیارت سے محروم ہیں۔ فرمایا اے عمر عورتوں نے مجھ سے ایسی بات کا سوال کیا ہے جو میرے پاس نہیں اس وجہ سے مجھ کو رنج پہنچا ہے جو تو دیکھ رہا ہے۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ! میں نے جمیلہ بن ثابت کو ایسا طمانچہ مارا ہے جس سے اس کا رخسار زمین سے جا لگا کیونکہ انہوں نے مجھ سے ایسی چیز کا سوال کیا ہے جو میرے پاس نہیں تھی اور یارسول اللہ آپ سے تو اللہ کا وعدہ ہے وہ تنگی کے بعد آسانی لانے والا ہے۔ عمر نے فرمایا کہ میں برابر آپ سے بات کرتا رہا یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ سے کچھ غصہ جاتا رہا میں باہر نکلا اور ابوبکر صدیق سے ملا اور میں نے ان کو ساری باتیں بتائیں تو ابوبکر عائشہ کے پاس گئے اور فرمایا تو خوب جانتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ تم سے چھپا کر کوئی چیز ذخیرہ نہیں رکھتے سو تو ان سے ایسی چیز کا سوال نہ کر جو آپ کے پاس نہ ہو اپنی ضور کو دیکھو تو مجھ سے کہہ دی کرو اور عمر حفصہ کی طرف گئے اور اس کو اسی طرح کہا پھر دونوں حضرات باری باری امہات المومنین کے پاس گئے اور ان کو بھی اسی طرح نصیحت کی تو اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں یہ آیت نازل فرمائی آیت یا ایہا النبی قل لا ازواجک ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتہا فتعالین امتعکن واسرحکن سراحا جمیلا۔ اے نبی اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیوی زندگی اور اس کی سجاوٹ کی خواستگار ہو تو آؤ میں تم کو سامان دیدوں اور خوبصورتی کے ساتھ تم کو رخصت کردوں سراح سے مراد طلاق ہے یعنی ان کو اچھی طرح طلاق دے دو ۔ آیت وان کنتن تردن اللہ ورسولہ والدار الاٰخرۃ فان اللہ اعد للمحسنت منکن اجر عظیما۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور دار آکرت کی خواستگارہو کہ بلاشبہ اللہ نے تم میں سے نیک کاروں کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔ رسول اللہ ﷺ تشریف لے گئے اور عائشہ ؓ سے گفتگو کا آغاز فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں تم سب کو اختیار دے دوں دو باتوں کے درمیان کہ چاہو تو تم اللہ تعالیٰ کے رسول اور آخرت کے گھر کو اختیار کرلو چاہو تو دنیا اور اس کی زینت کو اختیار کرلو اور اور میں نے تیرے ساتھ اس بات کو شورع کیا ہے اور میں نے تجھ کو اختیار دیا ہے کہ جس بات کو چاہے اختیار کرلے عائشہ نے عرض کیا آپ نے مجھ سے پہلے بھی کسی سے گفتگو کی ہے آپ نے فرمایا نہیں تو عائشہ نے کہا بالشبہ میں اللہ اسکے رسول اور آخرت کے گھر کو اختیار کرتی ہوں میری یہ بات چھپائے رکھیں اور اپنی عورتوں میں سے کسی کو نہ بتائیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلکہ میں نے ان کو ضرور بتاؤں گا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے سب کو یہ بات بتادی تو سب نے اللہ اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو اختیار کرلیا یہ دنیا اور آخرت کے درمیان اختیار تھا کہ تم اختیار کرلو دنیا کو یا آخرت کو تو فرمایا آیت وان کنتن تردن اللہ ورسولہ والدار الاٰخرۃ فان اللہ اعد للمحسنت منکن اجر عظیما ازواج مطہرات نے اسے پسند کیا کہ وہ آپ کے بعد نکاح نہیں کریں گی پھر فرمایا آیت النبی من یات منکن بفاحشۃ مبینۃ اے نبی کی بیوی جو تم سے کھلی ہوئی بیہودگی کرے گی اس کو دگنی سزا دی جائے گی یعنی کوئی بدکاری کرے گی یضعف لہا العذاب ضعفین یعنی اس کو دگنی سزا دی جائے گی آخرت میں آیت وکان ذلک علی اللہ یسیرا اور یہ دوہرا عذاب دینا اللہ پر آسان ہے۔ آیت ومن یقنت منکن للہ ورسولہ یعنی جو تم میں سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گی۔ آیت وتعمل صالحا نوتہا اجرہا مرتین اور نیک عمل کرے گی تو ہم اس کو دوگنا اجر دیں گے۔ یعنی اس کے لیے دہرا اجر ہوگا آخرت میں آیت واعتدنا لہا رزقا کریما اور اس کے لیے ہم نے بہت عمدہ رزق تیار کر رکھا ہے۔ آیت ینساء النبی لستن کا حد من النساء ان اتقیتن فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض۔ اے نبی کی عورتو ! تم کسی دوسری عورت کی طرح نہیں ہو اگر تم تقویٰ اختیار کرو گی اور چبا کر بات نہ کیا کرو کہیں اس شخص کو جس کے دل میں بیماری ہے کچھ لالچ ہونے گے۔ یعنی بدکاری کا مرض ہے۔ آیت ولا تبرجن (اور نہ جاہلیت والا بناؤ سنگھار کرو) یعنی دور جاہلیت والی زب وزینت ظاہر نہ کرے بلکہ پردہ ڈالیں پھر جابر نے فرمایا کیا حدیث اسی طرح نہیں تو ابو سعید خدری نے فرمایا کیوں نہیں اسی طرح ہے۔ 3۔ البخاری ومسلم والترمذی وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ والبیہقی نے اپنی سنن میں عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے جب ان کو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ اپنی بیویوں کو اختیار دے دو تو آپ نے مجھ سے شروع فرمایا آپ نے فرمایا میں تجھ سے ایک بات ذکر کرنے والا ہوں اس میں جلدی نہ کرنا بلکہ اپنے والدین سے مشورہ کرنا اور رسول اللہ ﷺ کو علم تھا کہ میرے والدین مجھے آپ سے جدائی کی اجازت نہیں دیں گے اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت یا ایہا النبی قل لازواجک ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتہا دو آیتوں کے ختم تک تو میں نے عرض کیا اس میں سے بات کے بارے میں اپنے والدین سے مشورہ کروں بلاشبہ میں اللہ تعالیٰ اس کے رسول اور آخرت تو ترجیح دیتی ہوں اور نبی ﷺ کی ساری بیویوں نے ایسا ہی کیا جیسے میں نے کیا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ کی عقلمندی 4۔ ابن سعد نے عمرو بن سعید (رح) سے روایت کیا اور وہ اپنے دادا اور والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی عورتوں کو اختیار دیا تو عائشہ سے شروع کتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے اختیار دیا ہے تو عائشہ نے فرمایا میں اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرتی ہوں۔ پھر حفصہ نے اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کیا اور سب عورتوں نے کہا ہم نے اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کیا ہے سوائے عامر یہ کے کہ اس نے اپنی قوم کو اختیار کیا پھر وہ بعد میں کہتی تھیں کہ میں بدبخت ہوں وہ مینگنیاں اٹھاتی اور ان کو بیچتی تھی اور نبی ﷺ کی بیویوں کے پاس آتی اور کہتی تھی میں بدبخت ہوں۔۔ 5۔ ابن سعد نے ابو جعفر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی عورتیں ہم سے مہنگے مہر والی عورتیں نہیں تھیں اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی لیے غیرت کی اور اپنے رسول کو حکم دیا کہ ان سے علیحدگی اختیار کریں تو رسول اللہ ﷺ کی نے ان سے انتیس دن کی علیحدگی اختیار کرلی پھر ان کو حکم دیا کہ ان کو اختیار دے دو تو آپ نے ان کو اختیار دے دیا۔ 6۔ ابن سعد نے ابو صالح (رح) سے روایت کیا سوائے عامرہ کے سب نے آپ ﷺ کو اختیار کیا وہ بےعقل تھیں یہاں تک کہ وہ مرگئی۔ 7۔ ابن المنذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ نے عائشہ ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے قسم کھائی کہ آپ ایک ماہ تک ہم سے الگ رہیں گے پھر آپ انتیسویں دن کی صبح کو میرے پاس تشریف لائے میں نے عرض کیا یارسول اللہ کیا آپ نے یہ قسم نہ اٹھائی تھی کہ آپ ایک ماہ تک ہمارے پاس نہیں آئیں گے۔ فرمایا مہینہ اتنے اتنے دنوں کا ہوتا ہے اور آپ سارا ہاتھ مارتے پھر پیچھے کرلیتے پھر آپ نے تیسری مرتبہ ایک انگلی کو بند کیا پھر فرمایا اے عائشہ میں تجھ سے ایک بات کرنے والا ہوں تم جلدی نہ کرنا یہاں تک کہ تو اپنے والدین سے مشورہ کرلے اور رسول اللہ ﷺ کو میری چھوٹی عمر کا خوف تھا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ کیا بات ہے آپ نے فرمایا مجھے تمہارے بارے میں اختیار کا حکم دیا گیا ہے پھر یہ آیت تلاوت فرمائی آیت یا ایہا النبی قل لازواجک ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتہا سے لے کر اجرا عظیما تک عائشہ نے کہا یا رسول اللہ میں کس بارے میں اپنے والدین سے مشورہ کروں بلکہ میں اللہ اور اس کے رسول کو پسند کرتی ہوں اس سے رسول اللہ ﷺ خوش ہوگئے اور جب آپ کی ازواج مطہرات نے یہ بات سنی تو انہوں نے یہی جواب دیا۔ ٌآ ؓ ٌَآ 8۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات کو دنیا اور آخرت میں سے ایک کے انتخاب کا اختیار دیا۔ 9۔ ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ ہ اور حسن ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم فرمایا کہ ان کو دنیا اور آخرت اور دوزخ کے درمیان اختیار دے دو اور حسن نے فرمایا کہ انہوں نے دنیا کی کسی چیز کا مطالبہ کیا تھا اور قتادہ نے فرمایا کہ حضرت عائشہ نے ایک معاملہ میں غیرت کی تھی ان دنوں نو عورتیں آپ کے نکاح میں تھیں پانچ عورتیں قریش میں سے عائشہ حفصہ ام حبیبہ بنت ابو سفیان، سودہ بنت زمعہ اور ام سلمہ بنت ابو امیہ اور صفیہ بھی آپ کے نکاح میں تھیں جو خبیر کے سردار کی بیٹی تھیں اور میمونہ بنت الحارث الہلالیہ اور زینب بنت جحش الاسدیہ اور جویریہ بنت الحارث بنو مصطلق میں سے آپ نے عائشہ سے گفتگو کا آغاز فرمایا تو انہوں نے اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو اختیار کرلیا یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک میں خوشی ظاہر ہوئی یہ سن کر تمام ازواج نے ایسا ہی کیا جب آپ نے ان کو اختیار دیا اور انہوں نے اللہ اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس بات پر ان کی تعریف کی اور فرمایا آیت لا یحل لک النساء من بعد ولا ان تبدل بہن من ازواج ولو اعجبک حسنہن یعنی ان کے علاو اور عورتیں آپ کے لیے حلال نہیں ہیں اور نہ یہ درست ہے کہ آپ ان بیویوں کی جگہ دوسری بیویاں کرلیں خواہ آپ کو ان کا حسن اچھا لگے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان پر محدود کردیا اور وہ ازواج مطہرات تھیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کیا تھا۔ 10۔ ابنب حاتم نے سعید بن جبیر ؓ سے اس آیت ینساء النبی من یات کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو حکم فرمایا کہ اس آیت کے ذریعہ اپنی ازواج مطہرات کو خبر دے، چناچہ ان میں سے کسی نے بھی اپنے آپ کو اختیار نہیں کیا سوائے حمیرہ کے۔ یہ روایت ابن ابی حاتم میں بلاسند مذکور ہے، صحیح روایت میں ہے کہ اس موقع پر تمام ازواج مطہرات نے آپ کو قبول کیا تھا اور عامر کا یہ واقعہ اور موقع کا ہے۔ 11۔ البیہقی نے سنن میں مقاتل بن سلیمان (رح) سے روایت کیا کہ آیت ینساء النبی من یات منکن بفاحشۃ مبینۃ اے نبی کی بیویو جو تم میں سے کھلی ہوئی بیہودگی کرے گی اس کو دہری سزا دی جائے گی یعنی نبی ﷺ کی نافرمانی کرے گی۔ آیت یضعف لہا العذاب ضعفین اس کے یے عذاب دگنا کیا جائے گا یعنی آخرت میں آیت وکان ذالک علی النبی عبدل اور یہ دہرا عذاب دینا اللہ پر آسان ہے یعنی اس کا عذاب اللہ کے نزدیک آسان ہے۔ آیت ومن یقنت یعنی جو تم میں سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گی آیت وتعمل صالحا نوتہا اجرہا مرتین یعنی جو تم میں سے نیک عمل کرے گی ہم اس کو دہرا اجر دیں گے یعنی آخرت میں ہر نماز روزہ صدقہ یا تکبیر یا تسبیح زبان کے ساتھ کہ ہر نیکی کی جگہ ہم بیس نیکیاں لکھیں گے۔ آیت واعتدنا لہا رزقا کریما اور ہمارے پاس اس کے لیے عمدہ رزق ہے۔ آیت یعنی رزقا کریما سے مراد جنت ہے۔ 12۔ عبدالرزاق وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت یضعف لہا العذاب ضعفین سے مراد ہے دنیا کا عذاب اور آخرت کا عذاب۔ 13۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر رحمۃ اللہ عیہ سے روایت کیا کہ آیت یضعف لہا العذاب ضعفین سے مراد ہے کہ ان کے عذاب کو دگنا کردیا جائے گا۔ اور جس نے ان پر جھوٹی تہمت لگائی اس پر بھی دگنی حد ہوگی۔ 14۔ ابن ابی حاتم نے ربیع بن انس (رح) سے روایت کیا کہ آیت ینساء النبی (پوری آیت) سے مراد ہے کہ گناہ کے بارے میں انبیاء کے خلاف گواہی متبعین سے سخت ہوتی ہے اور علماء کے خلاف گواہی دوسرے لوگوں کے خلاف گواہی سے سخت ہوتی ہے نبی ﷺ کی بیویو کے خلاف گواہی دوسری عورتوں کے خلاف گواہی سے سکت ہوتی ہے۔ اسی لیے فرمایا جس نے تم میں سے نافرمانی کی تو مومن کی عورتوں سے ان کو دگنا عذاب دیا جائے گا۔
Top