Dure-Mansoor - Faatir : 34
وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ١ؕ اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَكُوْرُۙ
وَقَالُوا : اور وہ کہیں گے الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَذْهَبَ : دور کردیا عَنَّا : ہم سے الْحَزَنَ ۭ : غم اِنَّ : بیشک رَبَّنَا : ہمارا رب لَغَفُوْرٌ : البتہ بخشنے والا شَكُوْرُۨ : قدر دان
اور وہ کہیں گے کہ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جس نے ہم سے غم کو دور فرمادیا، بلاشبہ ہمارا رب بڑا بخشنے والا ہے خوب قدر دان ہے
34:۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جنت والے جب جنت میں داخل ہوں گے تو وہ کہیں گے (آیت) ” وقالوا الحمد للہ الذی اذھب عنا الحزن “ کہ ساری تعریفین اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ہم سے رنج کو دور کردیا یعنی وہ ایسے لوگ تھے جو دنیا میں اللہ سے ڈرتے تھے اور اپنے رب کی عبادت میں چھپے ہوئے اور اعلانیہ طور پر کوشش کیا کرتے تھے اور ان کے دلوں میں ان گناہوں کا رنج ہوگا جو گناہ ان سے پہلے ہوئے اور وہ ڈرتے ہوں گے کہ ان کی وجہ سے ان کی یہ عبادت (شاید) قبول نہ کی جائے ان گناہوں کی وجہ سے جو گزر چکے۔ اور اللہ تعالیٰ کے پاس (یوں کہیں گے) (آیت) ” وقالوا الحمد للہ الذی اذھب عنا الحزن ان ربنا لغفور شکور “ یعنی ہماری مغفرت عظیم ہے۔ اور ہمارے اعمال کی طرف سے نعمتوں پر جو شکر ہوا وہ تھوڑا ہے۔ 35:۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم اور حاکم (نے اس کو صحیح کہا ہے، ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الحمد للہ الذی اذھب عنا الحزن “ حزن سے مراد جہنم کا غم ہے۔ 36:۔ عبد بن حمید وابن جریر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الذی اذھب عنا الحزن “ یعنی جو وہ عمل کیا کرتے تھے اس کا غم مراد ہے۔ اہل جنت کے کلمات حمد : 37:۔ حاکم وابو نعیم وابن مردویہ نے صہیب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو میں نے فرماتے ہوئے سنا کہ مہاجرین ہی آگے بڑھنے والے ہیں جو اعتماد کرنے والے ہیں اپنے رب پر اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے کہ بلاشبہ یہ لوگ قیامت کے دن آئیں گے اپنے کندھوں پر ہتھیار اٹھائے ہوئے اور وہ جنت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے جنت کا داروغہ ان سے پوچھے گا تم کون ہو ؟ تو وہ کہیں گے ہم مہاجرین ہیں تو داروغے ان سے کہیں گے کیا تم سے حساب لیا گیا ؟ (یہ سن کر) وہ اپنے گھٹنوں کے بل کھڑے ہوجائیں گے اور اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھائیں گے اور کہیں گے اے ہمارے رب کیا اس کے ساتھ تمہارا حساب کیا جائے گا حالانکہ ہم نکل گئے اور ہم نے اپنے اہل کو مال کو اور اولاد کو چھوڑ دیاتو اللہ تعالیٰ ان کے سونے کے پر بنا دیں گے جو زبر جد اور یاقوت سے مرصع کئے ہوئے ہوں گے پھر یہ لوگ اڑیں گے یہاں تک کہ جنت میں داخل ہوجائیں گے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا یہی مقصد ہے (آیت) ” الحمد للہ الذی اذھب عنا الحزن “ سے لے کر ولا یمسنا فیھا لغوب “ (اور ہم کو اس میں سے کوئی خستگی نہ پہنچے گی) (پھر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت میں ان کے مکانات دنیا میں ان کے مکانات سے زیادہ نمایاں ہوں گے۔ 38:۔ ابن المنذر نے شمر بن عطیہ (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب وہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے تو کہیں گے (آیت) ” الحمد للہ الذی اذھب عنا الحزن “ یعنی ان کا غم یہی غم ہوگا۔ 39:۔ ابن المنذر نے شمرین بن عطیہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الحمد للہ الذی اذھب عنا الحزن “ میں ” الحزن “ سے مراد بھوک ہے۔ 40:۔ ابن ابی حاتم نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الحمد للہ الذی اذھب عنا الحزن “ (کہ ساری تعریفیں اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہم سے رنج کو دور کردیا) سے مراد ہے کہ دنیا میں روٹی کی طلب ہے (لیکن اب) ہم اس کا اہتمام نہیں کرتے جتنا اہتمام دنیا میں صبح شام کے کھانے کا کرتے تھے۔ 41:۔ ابن ابی حاتم نے ابراہیم تیمی (رح) سے روایت کیا کہ اس شخص کے لئے جو غمگین رہتا ہے اس کو چاہئے کہ اس بات سے ڈرتا رہے کہ (شاید) وہ جنت والوں میں سے خارج نہ ہو کیونکہ جنتیوں کا یہ قول ہے (آیت) ” الحمد للہ الذی اذھب عنا الحزن “ (یہ سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہم سے غم کو دور کردیا) اور اس شخص کو چاہئے جو ڈرنے والا ہے کہ وہ اس بات سے ڈرتا رہے کہ شایدوہ جنت والوں سے خارج نہ ہو کیونکہ وہ کہیں گے (آیت) ” قالوا اناکنا قبل فی اھلنا مشفقین “ (الطور آیت 26) (وہ کہیں گے کہ اس سے پہلے ہم اپنے اہل و عیال میں ڈرتے رہتے ہیں ) 42:۔ سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن ابی حاتم اور بیہقی نے شعب الایمان میں شمربن عطیہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الحمد للہ الذی اذھب عنا الحزن “ سے مراد ہے کھانے میں (ہم سے دور کردیا ہے) (آیت) ” ان ربنا لغفور شکور “ (بلاشبہ ہمارا رب البتہ بخشنے والا ہے، اور قدر دانی کرنے والا ہے) فرمایا کہ ان کے گناہوں کو بخش دیا گیا جو انہوں نے عمل کئے تھے اور ان کی نیکیاں قبول کرلیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے رہنمائی کی تھی انہوں نے ان پر عمل کیا اور ان پر ان کو بدلہ عطا فرمایا۔ 43:۔ ابن ابی حاتم نے ابورافع (رح) سے روایت کیا کہ ہر ایک بندہ قیامت کے دن تین رجسڑوں کے ساتھ آئے، ایک رجسٹر میں نعمتوں کا ذکر ہوگا اور دوسرے رجسٹر میں اس کے گناہوں کا ذکر ہوگا اور تیسرے رجسٹر میں اس کی نیکیوں کا ذکر ہوگا اللہ تعالیٰ نے اس بندے پر جو سب سے چھوٹی نعمت کی ہوگی اسے کہا جائے گا کہ کھڑی ہوجا اور اس کی نیکیوں میں سے اپنا پورا حصہ لے لے، وہ کھڑی ہوگی اور اس کی ساری نیکیوں کو وہ نعمت طلب کرلے گی (یعنی ساری نیکیاں لے لی) اور اس پر کی جانے والی باقی نعمتیں اور اس کے سارے گناہ باقی رہیں گے پھر وہ بندہ کہے گا جب اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کرے گا (وہ کہے گا) (آیت) ” ان ربنا لغفور شکور “ کہ بلاشبہ ہمارا رب البتہ بخشنے والا اور قدر دانی کرنے والا ہے۔ 44:۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ان ربنا لغفور شکور “ کہ بلاشبہ ہمارا رب البتہ بخشنے والا اور قدر دانی کرنے والا ہے) یعنی بخشنے والے ہیں ان کے گناہوں کو ” شکور “ قدر دانی کرنے والے ہیں ان کی نیکیوں کی (آیت) ” الذی احلنا دار المقامۃ من فضلہ “ (کہ انہوں نے ہم کو اپنے فضل سے قیام کرنے کے گھر میں اتار دیا یعنی پھر وہ جنت میں مقیم ہوں گے نہ وہ خود وہاں سے نکلیں گے اور نہ ان کو نکالا جائے گا (آیت) ” لا یمسنا فیھا نصب ولا یمسنا فیھا لغوب “ (جہاں ہم کو نہ کوئی کلفت پہنچے گی اور نہ مشکل پہنچے گی) فرمایا دنیا میں یہ قوم اللہ کی اطاعت میں کوشش کرتے تھے اور یہ وہ قوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو تھوڑے وقت کے لئے مشقت میں ڈالا پھر ان کو زیادہ وقت کیلئے راحت دی تو ان کے لئے مبارک بادی ہو۔
Top