Dure-Mansoor - Az-Zumar : 30
اِنَّكَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّهُمْ مَّیِّتُوْنَ٘
اِنَّكَ : بیشک تم مَيِّتٌ : مرنے والے وَّاِنَّهُمْ : ار بیشک وہ مَّيِّتُوْنَ : مرنے والے
بلاشبہ آپ مرنے والے ہیں۔ اور بلاشبہ یہ لوگ بھی مرنے والے ہیں
1:۔ عبد بن حمید (رح) و نسائی (رح) وابن ابی حاتم (رح) و طبرانی (رح) وابن مردویہ (رح) ابن مردویہ (رح) ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ہم ایک زمانہ تک رہے اور ہم یہ گمان کرتے رہے تھے کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی اور جو اہل کتاب ہم سے پہلے گزرے ہیں ان کے بارے میں بھی (آیت) ” انک میت وانہم میتون (30) ثم انکم یوم القیمۃ عند ربکم تختصمون “ (بلاشبہ آپ کو بھی مرنا ہے اور ان کو بھی مرنا ہے پھر تم سب قیامت کے دن جھگڑو گے اپنے مقدمات پیش کروگے) ہم اپنے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ہم کس طرح آپس میں جھگڑیں گے حالانکہ ہمارا نبی ایک ہے اور ہماری کتاب ایک ہے ؟ یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ ہمارا بعض، بعض کے چہروں کو تلوار سے ماررہا ہے، تو میں نے پہچان لیا کہ یہ آیت صرف ہمارے بارے میں نازل ہوئی۔ 2:۔ نعیم بن حماد فی الفتن وحاکم (رح) (وصححہ) وابن مردویہ (رح) نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ اپنے زمانے میں کیچھ عرصہ زندہ رہے تو ہم خیال کرتے تھے کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی (آیت) ” انک میت وانہم میتون (30) ثم انکم یوم القیمۃ عند ربکم تختصمون “ میں نے کہا ہم کیوں جھگڑیں گے یہ ہم ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور ہمارا دین اسلام ہے اور ہماری کتاب قرآن ہے۔ ہم اس کو کبھی بھی نہیں بدلیں گے اور ہم کتاب میں تحریف نہیں کریں گے اور ہمارا قبلہ کعبہ ہے اور ہمارا حرم ایک ہے اور ہمارے نبی محمد ﷺ ہیں ہم کس طرح جھگڑیں گے یہاں تک کہ ہم میں سے بعض، بعض کو تلوار سے مارنے لگا تو میں نے پہچان لیا کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی۔ 3:۔ عبد بن حمید (رح) وابن مودریہ (رح) ابن عمر ؓ سے روایت کیا یہ آیت (آیت) ” ثم انکم یوم القیمۃ عند ربکم تختصمون “ ہم پر نازل ہوئی ہم نہیں جانتے تھے کہ اس کی تفسیر کیا ہے اور عبد بن حمید (رح) کے یہ الفاظ ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ کس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ ہم نے کہا ہمارے درمیان کوئی جھگڑے کی جڑ نہیں تو ہم آپس میں کیوں جھگڑیں گے ؟ یہاں تک فتنہ آگیا ہم نے کہا یہ وہ ہے جس کا ہمارے رب نے ہم سے وعدہ کیا کہ تم آپس میں جھگڑو گے۔ 4:۔ عبدالرزاق (رح) وعبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) وابن عساکر (رح) نے ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا کہ ہم یہ آیت (آیت) ” انک میت وانہم میتون (30) ثم انکم یوم القیمۃ عند ربکم تختصمون “ نازل ہوئی تو ہم نہیں جانتے تھے کہ یہ کس بارے میں نازل ہوئی۔ ہم نے کہا کہ ہمارے درمیان کتو کوئی جھگڑا ہے ہی نہیں صحابہ نے بھی کہا کہ ہمارے درمیان تو کوئی جھگڑا نہیں اور ہم تو بھائی بھائی ہیں جب عثمان بن عفان ؓ کو شہید کردیا گیا تو صحابہ کرام ؓ نے فرمایا یہ وہ جھگڑا ہے جو ہمارے درمیان ہوا۔ 5:۔ عبد بن حمید (رح) نے فضل بن عیسیٰ (رح) سے روایت کیا کہ جب میں نے یہ آیت (آیت) ” انک میت وانہم میتون (30) ثم انکم یوم القیمۃ عند ربکم تختصمون “ پڑھی تو پوچھا گیا یا رسول اللہ ! یہ جھگڑا کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا خون کے بہانے میں۔ 6:۔ عبد بن حمید (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” انک میت وانہم میتون “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو آپ کی وفات کی خبردی اور تم کو تمہاری موت کی خبر دی۔ 7:۔ عبدالرزاق واحمد وابن منعی وعبد بن حمید و ترمذی (رح) (صححہ) وابن ابی حاتم وحاکم (رح) (صححہ) وابن مردویہ (رح) وابو نعیم فی الحلیہ اور بیہقی (رح) نے البعث والنشور میں زبیر بن عوام ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ (آیت) ” انک میت وانہم میتون (30) ثم انکم یوم القیمۃ عند ربکم تختصمون “ نازل ہوئی، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہمارے خاص گناہوں کے علاوہ دنیا میں جو آپس میں جھگڑتے ہوتے ہیں ان کو ناپسند کیا جائے گا (یعنی ان کا بھی حساب ہوگا ؟ ) فرمایا ہاں ! یہ چیز تم پر ناپسند کی جائے گی یہاں تک کہ ایک صاحب ہر حق والے کا حق ادا کرے گا۔ حضرت زبیر ؓ نے فرمایا اللہ کی قسم ! (یہ) معاملہ بڑا سخت ہوگا۔ 8:۔ ابن جریر (رح) و طبرانی (رح) وابن مردویہ ؓ اور ابونعیم (رح) سے عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت (آیت) ” انک میت وانہم میتون (30) ثم انکم یوم القیمۃ عند ربکم تختصمون “ نازل ہوئی تو زبیر ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ! کیا خاص گناہوں کے علاوہ جو ہمارے درمیان آپس میں جھگڑتے ہیں ان کے بارے میں بھی ہم سے حساب ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں تم سے اس بارے میں حساب لیاجائے گا یہاں تک کہ ایک آدمی ہر حق والے کا حق ادا کرے گا۔ زبیر ؓ نے فرمایا (یہ) معاملہ بڑا سخت ہوگا۔ 9:۔ سعید بن منصور نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ ( آیت) ثم انکم یوم القیمۃ عند ربکم تختصمون “ نازل ہوئی تو ہم کہا کرتے تھے کہ ہمارا رب ایک ہے ہمارا دین ایک ہے یہ جھگڑا کیسے ہوگا (لیکن) جب جنگ صفین ہوئی اور ہمارے بعض نے بعض پر تلوار چلائی ہم نے کہا : (ہاں) ! یہ وہ ہے۔ 10:۔ احمد نے حسن سند کے ساتھ ابوہریرہ ؓ کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ضرور ضرور اپنے حق کے بارے میں ہر چیز جھگڑے گی قیامت کے دن یہاں تک کہ دو بکریاں بھی جھگڑیں گیں جنہوں نے ایک دوسرے کو سینگ مارے ہوں گے۔ 11:۔ طبرانی (رح) وابن مردویہ (رح) (بسند لاباس بہ) نے ابو ایوب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن مرد عورت کا جھگڑا پیش ہوگا۔ اللہ کی قسم عورت اپنی زبان سے بات نہیں کرے گی مگر اس کے ہاتھ اور اس کے پاؤں اس پر گواہی دیں گے جو خاوند کے حق میں ہوگی اور اس مرد کے ہاتھ پاؤں خود اس کے خلاف گواہی دیں گے جن کا خاوند ذمہ دار تھا۔ پھر اسی طرح آدمی اور اس کے خادم کو بلایا جائے گا پھر بازاروں کو بلایا جائے گا اور ان چیزوں کو جو وہاں پائی جاتی تھیں پھر چھوڑے درہم اور قیراط کو طلب کیا جائے گا۔ بلکہ ظالم کی نیکیاں مظلوم کو دی جائیں گی، اور مظلوم کے گناہ ظالم پر ڈال دیئے جائیں گے جابروں کو لوہے کی بیڑیوں میں لایا جائے گا اور حکم ہوگا کہ ان کو دوزخ کی طرف لے جاؤ اللہ کی قسم ! میں ان کے داخل ہونے کو نہیں جانتا یا جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت ) ” وان منکم الا واردھا “ (مریم آیت 71) 12:۔ احمد و طبرانی (رح) نے حسن سند کے ساتھ عقبہ بن عامر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب سے پہلے جھگڑنے والے قیامت کے دن دو پڑوسی ہوں گے۔ 13:۔ البزار نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ظالم بادشاہ کو لایا جائے گا تو اس کی رعایا اس سے جھگڑے گی۔ 14:۔ ابن مندہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ کہ لوگ قیامت کے دن جھگڑیں گے یہاں تک کہ روح جسم سے جھگڑے گی روح جسم سے کہے گی تو نے ایسا کیا۔ اور جسم روح سے کہے گا تو نے یہ حکم دیا تھا اور تو نے اس عمل کو تیزی کرکے پیش کیا تھا تو اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجیں گے جو ان کے درمیان فیصلہ کرے گا اور ان دونوں سے کہے گا بلاشبہ تم دونوں کی مثال ان دو آدمیوں کی طرح ہے جن میں سے ایک اپاہج اور دیکھنے والا ہے اور دوسرا اندھا ہے۔ دونوں ایک باغ میں داخل ہوئے۔ اپاہج نے اندھے سے کہا میں یہاں پھل دیکھتا ہوں لیکن میں اس کی طرف نہیں پہنچ سکتا اندھے نے اس سے کہا مجھ پر سوار ہوجا اور اس پھل کو لے لے وہ اپاہج اس پر سوار ہوگیا اور اس پھل تک پہنچ گیا تو بتاؤ ان میں سے کون زیادتی کرنے والا ہے تو ان دونوں نے کہا کہ دونوں زیادتی کرنے والے ہیں تو فرشتے نے ان سے کہا بلاشبہ دونوں نے اپنے خلاف فیصلہ کرلیا ہے یعنی کہ جسم روح کے لئے سواری کی طرح ہے جبکہ روح اس پر سوار کرنے والا ہے۔ 15:۔ ابن جریر (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ثم انکم یوم القیمۃ عند ربکم تختصمون “ سے مراد ہے کہ جھگڑا کرے گا سچھ بولنے والا جھوٹ بولنے والے سے اور مظلوم ظالم سے اور ہدایت پانے والا گمراہ ہونے والے سے اور کمزور تکبر کرنے والے سے۔ 16:۔ احمد نے (الزھد میں) ابودرداء ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے جنازہ کو دیکھا تو پوچھا یہ کون ہے ؟ ابو درداء ؓ نے فرمایا یہ تو ہے یہ تو ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت) ” انک میت وانہم میتون ’‘
Top