Dure-Mansoor - Az-Zumar : 63
لَهٗ مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۠   ۧ
لَهٗ مَقَالِيْدُ : اس کے پاس کنجیاں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ كَفَرُوْا : منکر ہوئے بِاٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیات کے اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ هُمُ : وہ الْخٰسِرُوْنَ : خسارہ پانے والے
اسی کے لئے آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں، اور جن لوگوں نے اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کیا یہ لوگ تباہ ہونے والے ہیں
1:۔ ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” لہ مقالید السموت والارض “ (اس کے قبضہ میں ہیں چابیاں آسمان کی اور زمین کی) یعنی اس کی چابیاں۔ 2:۔ الفریابی وعبد بن حمید وابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” لہ مقالید السموت والارض “ سے مراد ہیں چابیاں فارسی زبان میں۔ 3:۔ عبد الرزاق (رح) وعبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” لہ مقالید السموت والارض “ سے مراد ہیں چابیاں۔ 4:۔ ابن مردویہ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ ایک صبح کو ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا اپنی اس صبح میں دیکھا ہے (خواب میں) گویا کہ مجھے چابیاں اور ترازو دیئے گئے (اور) مقالید سے مراد ہیں چابیاں اور ترازو سے مراد ہیں تمہارے یہ ترازو کہ جن سے تم وزن کرتے ہو اور ترازو لائے گئے اور ان کو آسمان اور زمین کے درمیان رکھا دیا گیا مجھے ایک پلڑے میں رکھا گیا اور لکھا کہ امت کو لایا اور اس کو دوسرے پلڑوں میں رکھا گیا میں ان پر بھاری ہوگیا۔ پھر ابوبکر ؓ کو لایا گیا ان کو ایک پلڑے میں رکھا گیا اور اس کے ساتھ وزن کیا پھر عمر ؓ کو لایا گیا ان کو ایک پلڑے میں رکھا گیا دوسرے پلڑے میں امت کو رکھا گیا پھر ان کو وزن کیا گیا پھر ترازو کو اٹھایا گیا۔ 5:۔ ابویعلی ویوسف القاضی (فی سننہ) وابوالحسن القطان (فی المطولات) وابن سنی (فی عمل یوم ولیۃ) وابن المنذر (رح) وابن ابی حاتم (رح) وابن مردویہ (رح) نے عثمان بن عفان ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول ﷺ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت ) ” لہ مقالید السموت والارض “ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا اس سے مراد ہے : لا الہ الا اللہ اکبر سبحان اللہ الحمد للہ استغفر اللہ الذی لا الہ الا ھو الا ول والا خر والظاھر والباطن ویحی ویمیت وھو حی لا یموت بیدہ الخیر وھو علی کل شیء قدیر۔ اے عثمان ! جو اس کو ہر دن سو مرتبہ کہے اس کو دن خصلتیں عطا فرمائے گا (1) اس کے اگلے سب گناہ معاف کردے گا۔ (2) اس کے لئے آگ سے برأت لکھ دے گا۔ (3) دو فرشتے اس کے لئے مقرر کردے گا جو رات اور دن میں آفات اور بیماریوں سے اس کی حفاظت کریں گے۔ (4) اس کو بطور اجر کے قنطار (ثواب کا ڈھیر) عطا فرمائے گا (5) اس کے لئے اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے سو غلاموں کے آزاد کرنے کرنے کے برابر ثواب ہوگا (6) حورعین سے اس کی شادی کی جائے گی (7) ابلیس اور اس کے لشکر سے اس کی حفاظت کی جائے گی (8) وقار کا تاج اس کے سر پر رکھا جائے گا۔ (9) ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ہوگا (10) اپنے گھروالوں میں سے ستر آدمیوں کی شفارش کرے گا اے عثمان اگر تو طاقت رکھے تو کسی دن بھی یہ عمل تجھ سے فوت نہ ہو تو کامیاب ہونے والوں میں سے ہوجائے گا اور اس کے ذریعہ تو اولین اور آخرین سے سبقت لے جائے گا۔ 6:۔ ابن مردویہ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عثمان بن عفان ؓ نبی ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ مجھے (آیت ) ” لہ مقالید السموت والارض “ کے بارے میں بتائیے ؟ آپ نے فرمایا : اس سے مراد ہے : سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الہ اللہ واللہ اکبر لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم والا ول والا خر والظاھر والباطن بیدہ الخیر یحی ویمیت وھو علی کل شیء قدیر۔ اے عثمان ! جس نے ان کلمات کو دس مرتبہ صبح کے وقت اور شام کے وقت کہا تو اللہ تعالیٰ اس کو چھ خصلتیں عطا فرمائے گا : (1) ابلیس اور اس کے لشکر سے اس کی حفاظت فرمائے گا (2) اس کو قنطار (ثواب کا ڈھیر) عطا کیا جائے گا ، (3) اور عین سے اس کی شادی کرے گا (4) اور کے گناہ بخش دے گا (5) وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ہوگا (6) مرنے کے وقت بارہ فرشتے اس کے پاس آئیں گے جو اس کو جنت کی بشارت دیں گے اور قبر سے موقف کی طرف لے جائیں گے اگر اس کو قیامت کی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت پہنچے گی تو فرشتے کہیں گے تو کسی چیز کا اندیشہ نہ کر تو بلاشبہ امن سے رہے گا پھر اللہ تعالیٰ اس کا حساب آسانی کے ساتھ لے گا پھر اس کو جنت کی طرف لے جانے کا حکم دیا جائے گا فرشتے اسے موقف (یعنی میدان حشر سے) جنت کی طرف لے جائیں گے جس طرح دلہن کو لے جایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کو اللہ کے حکم سے جنت میں داخل کردیں گے اور لوگ حساب کی شدت میں ہوں گے۔ 7:۔ حارث بن ابی اسامہ وابن مردویہ (رح) نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عثمان بن عفان ؓ سے (آیت ) ” لہ مقالید السموت والارض “ کے بارے میں سوال کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس سے مراد ہے : سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الہ اللہ واللہ اکبر لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم “۔ 8:۔ العقیلی و بیہقی (رح) نے الاسماء والصفات میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ عثمان بن عفان ؓ نے نبی اکرم ﷺ (آیت ) ” لہ مقالید السموت والارض “ کی تفسیر کے بارے میں سوال کیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا مجھ سے کسی نے اس بارے میں سوال نہیں کیا اس سے مراد ہے۔ سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الہ اللہ واللہ اکبر لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم والا ول والا خر والظاھر والباطن بیدہ الخیر یحی ویمیت وھو علی کل شیء قدیر۔ 9:۔ ابن جریر (رح) نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” لہ مقالید السموت والارض “ سے مراد ہے کہ آسمان اور زمین کے خزانوں کی چابیاں اسی کی ہیں۔
Top