Dure-Mansoor - Az-Zumar : 69
وَ اَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَ وُضِعَ الْكِتٰبُ وَ جِایْٓءَ بِالنَّبِیّٖنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ قُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
وَاَشْرَقَتِ : اور چمک اٹھے گی الْاَرْضُ : زمین بِنُوْرِ رَبِّهَا : اپنے رب کے نور سے وَوُضِعَ : اور رکھدی جائے گی الْكِتٰبُ : کتاب وَجِايْٓءَ : اور لائے جائیں گے بِالنَّبِيّٖنَ : نبی (جمع) وَالشُّهَدَآءِ : اور گواہ (جمع) وَقُضِيَ : اور فیصلہ کیا جائے گا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَهُمْ : اور وہ ان پر لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیا جائے گا
اور زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہوجائے گی اور اعمال نامے رکھ دیئے جائیں گے۔ اور پیغمبروں کو اور گواہوں کو لایا جائے گا اور لوگوں کے سامنے حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا
1:۔ ابن جریر (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” واشرقت الارض “ (اور زمین جگمگاجائے گی) یعنی روشن ہوجائے گی (آیت ) ” ووضع الکتاب “ (اور اعمال نامہ اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا) میں الکتاب سے مراد حساب ہے۔ 2:۔ عبد بن حمید وابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” واشرقت الارض بنورربھا “ یعنی وہ لوگ جس کے پورے سے کوئی تکلیف نہیں پائیں گے مگر اتنی تکلیف جیسے وہ صاف دن میں تکلیف محسوس کرتے ہیں جس میں دھواں نہ ہو (آیت) وجای ٓ ء بالنبین والشھدآء “ (اور لایا جائے گا نبیوں کو اور گواہوں کو) یہاں شہداء سے وہ لوگ مراد ہیں جن کو اللہ کے راستے میں شہید کیا گیا۔ 3:۔ عبد بن حمید (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) وجای ٓ ء بالنبین والشھدآء “ یعنی نبیوں سے مراد رسول ہیں (آیت ) ” والشھدآء “ سے مراد وہ گواہ ہیں جو پیغام حق کے پہچاننے کے بارے میں گواہی دیں گے۔ ان میں کوئی نہ طعن کرنے والا ہوگا اور نہ کوئی لعنت کرنے والا ہوگا۔ 4:۔ ابن جریر وابن مردویہ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) وجای ٓ ء بالنبین والشھدآء “ میں (آیت ) ” والشھد آء “ سے مراد وہ لوگ ہیں جو رسالت کا پیغام پہنچانے پر گواہی دیں اور خاص طور پر جن امتوں نے ان کو جھٹلایا اس بارے میں بھی گواہی دیں گے۔
Top