Dure-Mansoor - Az-Zumar : 73
وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْهَا وَ فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَ قَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْهَا خٰلِدِیْنَ
وَسِيْقَ : ہنکا (لے جایا) جائے گا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اتَّقَوْا : وہ ڈرے رَبَّهُمْ : اپنا رب اِلَى الْجَنَّةِ : جنت کی طرف زُمَرًا ۭ : گروہ در گروہ حَتّىٰٓ : یہاں تک کہ اِذَا : جب جَآءُوْهَا : وہ وہاں آئیں گے وَفُتِحَتْ : اور کھول دیے جائیں گے اَبْوَابُهَا : اس کے دروازے وَقَالَ : اور کہیں گے لَهُمْ : ان سے خَزَنَتُهَا : اس کے محافظ سَلٰمٌ : سلام عَلَيْكُمْ : تم پر طِبْتُمْ : تم اچھے رہے فَادْخُلُوْهَا : سو اس میں داخل ہو خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہنے کو
اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرے انہیں جنت کی طرف گروہ گروہ بنا کر روانہ کردیا جائے گا، یہاں تک کہ جب جنت کے قریب پہنچ جائیں گے اس حال میں کہ اس کے دروازے پہلے سے کھلے ہوئے ہوں گے اور ان سے جنت کے محافظ کہیں گے کہ تم پر سلام ہو تم خوشی کے ساتھ رہو، سو تم اس میں ہمیشہ رہنے کے لئے داخل ہوجاؤ
1:۔ احمد وعبد بن حمید (رح) ومسلم نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پہلی جماعت جو جنت میں داخل ہوگی (ان کے چہرے) چودھویں رات کے چاند کی صورت پر (چمکتے ہوئے) ہوں گے اور وہ لوگ جو ان سے ملے ہوئے ہوں گے (ان کے چہرے) آسمان میں روشنی کے لحاظ سے سب سے زیادہ چمکدار ستارے کی طرح ہوں گے۔ 2:۔ ابن المبارک فی الزھد وعبد الرزاق وابن ابی شیبہ وابن راہویہ وعبد بن حمید (رح) وابن ابی الدنیا فی صفۃ الجنۃ و بیہقی (رح) نے البعث میں اور الضیاء نے المختارہ میں علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے تھے وہ جماعت کی صورت میں جنت کی طرف روانہ کئے جائیں گے یہاں تک کہ جب اس کے دروازوں میں سے کسی دروازہ پر پہنچیں گے تو اس کے پاس ایک درخت کو پائیں گے۔ اس کے تنے کے نیچے دو جاری چشمے نکل رہے ہوں گے وہ لوگ ارادہ کریں گے ان میں سے ایک چشمے کی طرف اس میں پئیں گے تو ان کے پیٹوں میں جو کچھ ہوگا تکلیف یا آلودگی اور خوف ہوگا وہ نکل جائے گا پھر دوسرے چشمے کی طرف ارادہ کریں گے تو اس سے پاک ہوجائیں گے اور ان پر نعمتوں کی تروتازگی ہوگی اس کے بعد انکی خوشیاں کبھی بھی ہرگز تبدیل نہیں ہوں گی۔ اور ان کے بال ہرگز پراگندہ نہیں ہوں گے گویا کہ وہ تیل لگے ہوئے ہیں پھر وہ جنت اور باغوں تک پہنچے گے تو وہ کہیں گے (آیت ) ” سلم علیکم طبتم فادخلوھا خلدین “ (تم پر سلام ہو تم مزے میں رہو اور اس جنت میں ہمیشہ رہنے کیلئے داخل ہوجاؤ) پھر ان سے بچے ملاقات کریں گے جو ان کے گرد چکرلگائیں گے جیسے دنیا والے گہرے دوست کے گرد چکر لگاتے ہیں اور وہ کہیں گے بشارت ہو جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے عزت تیار کر رکھی ہے پھر ان بچوں میں سے ایک بچہ حورعین میں سے اس کی بعض بیویوں کی طرف جائے گا اور کہے گا یقینی بات ہے فلاں آگیا اس کا نام لے گا جس کے ذریعہ وہ دنیا میں پکارا جاتا تھا حور کہے گی تو نے اس کو دیکھا ہے ؟ وہ کہے گا میں نے اس کو دیکھا ہے۔ خوشی اسے ہلکا بنادے گی، یہاں تک کہ وہ اس کے دروازے کی چوکھٹ پر کھڑی ہوگی جب وہ جنتی اپنے گھر تک پہنچے گا تو ایک چیز کو دیکھے گا مکان کی بنیاد میں تو اچانک وہ موتیوں کی چٹان ہوگی کہ اس کے اوپر سبز زرد اور سرخ اور ہر قسم کے موتی ہیں پھر سر کو اٹھائے گا اور اس کی چھت کی طرف دیکھے گا تو گویا وہ بجلی کی طرح ہے اگر اللہ تعالیٰ یہ مقدر نہ فرماتے کہ کوئی تکلیف نہ ہوگی تو اس کی نظر جاتی رہتی۔ پھر اپنی نظر کو جھکائے گا تو اپنی بیویوں کو دیکھے گا وہاں یہ چیز پڑی ہوں گی جن کا ذکر قرآن میں ہے (آیت ) ” واکواب موضوعۃ (14) ونمارق مصفوفۃ (15) وزرابی مبثوثۃ (16) (سورۃ جاثیہ) (اور آبخورے سامنے رکھے ہوئے اور گاؤتکیے قطار سے لگے ہوئے اور مخملی فرش بچھے ہوئے) وہ ان نعمتوں کی طرف دیکھے گا پھر ٹیک لگائے گا اپنے پلنگوں میں سے ایک پلنگ پر پھر کہے گا (آیت ) ” وقالوا الحمد للہ الذی ھدنا لھذا وما کنا لنھتدی لولا ان ھدنا اللہ “ (سورۃ الاعراف) (ساری تعریفیں اس ذات کیلئے ہیں جس نے ہم کو ہدایت دی اس بات کی اور ہم البتہ ہدایت پانے والے نہ تھے اگر ہم کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہ فرماتے) پھر ایک آواز دینے والا آواز دے گا تم زندہ رہوگے اور کبھی نہیں مرو گے اور تم ہمیشہ مقیم رہو گے اور کبھی (یہاں سے) کوچ نہ کرو گے اور تم صحت مند رہو گے اور کبھی بیمار نہ ہو گے۔ (واللہ تعالیٰ اعلم) قولہ تعالیٰ : وفتحت ابوابھا “ 3:۔ بخاری (رح) ومسلم و طبرانی (رح) نے سہل بن سعد ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت میں آٹھ دروازے ہیں انمیں سے ایک دروازہ جس کو ریان کہا جاتا ہے اس میں روزہ دار کے علاوہ کوئی داخل نہ ہوگا۔ 4:۔ مالک واحمد و بخاری ومسلم و ترمذی (رح) و نسائی (رح) وابن حبان (رح) نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جس نے دو جوڑے اپنے مال میں سے اللہ کے راستے میں خرچ کئے تو اسے جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا۔ اور جنت کے کئی دروازے ہیں جو شخص نماز والوں میں سے ہوگا۔ تو نماز کے دروازہ سے بلایا جائے گا اور جو شخص روزہ والوں میں سے ہوگا تو وہ باب الریان سے بلایاجائے گا اور جو شخص صدقہ کرنے والا ہوگا تو باب الصدقہ سے بلایا جائے گا اور جو شخص جہاد والوں میں سے ہوگا جہاد کے دروازہ میں سے بلایا جائے گا، ابوبکر ؓ نے فرمایا : یا رسول اللہ ! کیا کوئی آدمی ہے جو سارے دروازوں سے بلایا جائے گا آپ نے فرمایا ہاں ! اور میں امید کرتا ہوں کہ تم اسی میں سے ہوگے۔ جنت کے آٹھ دروازے : 5:۔ ابن ابی الدنیا (فی الجنۃ) وابو یعلی و طبرانی (رح) وحاکم (رح) نے ابو مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت کے آٹھ دروازے ہیں : سات بند ہیں اور ایک دروازہ توبہ کیلئے کھلا ہے یہاں تک کہ سورج اس جانب سے طلوع ہو (یعنی مغرب کی طرف سے) 6:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں ” نماز پڑھنے والوں کا دروازہ، روزہ رکھنے والوں کا دروازہ، حج کرنے والوں کا دروازہ، عمرہ کرنے والوں کا دروازہ، مجاہدین کا دروازہ، ذاکرین کا دروازہ، اور شکر کرنے والوں کا دروازہ۔ 7:۔ احمد نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر عمل والے کیلئے جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے، وہ اس دروازہ سے اس عمل کرنے والے کو بلائیں گے۔ 8:۔ بزار (رح) نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب قیامت کا دن ہوگا تو انسان کو اس کے اپنے بڑے عمل والے دروازہ سے بلایا جائے گا اگر اس کی نماز افضل ہوگی تو نماز والے دروازہ سے بلایا جائے گا اور اگر اس کا روزہ افضل ہوگا تو اس کو روزہ والے دروازے سے بلایا جائے گا، اور اگر اس کا جہاد افضل ہوگا۔ تو اس کو جہاد کرنے والے دروازے سے بلایا جائے گا۔ ابوبکر ؓ نے عرض کیا : کیا کوئی اپنے دو عملوں کی وجہ سے بلایا جائیگا ؟ آپ نے فرمایا اور وہ تو ہوگا۔ 9:۔ طبرانی (رح) علیہفی الاوسط وخطیب نے المتفرق میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ایک دروازہ ہے اس کو ضحی کہا جاتا ہے جب قیامت کا دن ہوگا تو ایک آواز دینے والا آواز دے گا وہ لوگ کہاں ہیں جو ضحی (یعنی چاشت) کی نماز ہمیشہ پڑھتے تھے یہ تمہارا دروازہ ہے اس میں داخل ہوجاؤ اللہ کی رحمت سے۔ 10:۔ احمد نے معاویہ بن حیدہ ؓ سے روایت کیا کہ جنت کے کو اڑوں میں سے کو اڑوں کا فاصلہ چالیس سال کا ہے اور ان پر ضرور ایسا دن آئے گا کہ اس پر ہجوم ہوگا۔ 11:۔ ابن ابی شیبہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے جنت کے کو اڑوں میں سے دو کو اڑوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور ہجر کے درمیان ہے یا جیسے مکہ اور بصرہ کے درمیان ہے۔ 12:۔ ابن ابی شیبہ نے عتبہ بن غزوان (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے خطبہ دیا کہ جنت کے کو اڑوں میں سے دو کو اڑوں کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہے اور جنت کے دروازوں پر ضرور ایسا دن آئے گا کہ اس میں سے (ہر) دروازہ پر ہجوم ہوگا۔ 13:۔ ابن ابی شیبہ (رح) نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ جنت کے دو کو اڑوں کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہے تیز رفتار گھوڑ سوار کیلئے اور اس پر ایک دن ضرور ایسا آئے گا کہ اس پر سخت بھیڑ ہوگی۔ 14:۔ ابن ابی شیبہ (رح) نے ابو حرب بن ابی الاسود الدیلمی (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی اپنے گناہ کی وجہ سے جنت کے دروازہ پر سو سال تک رکا رہے گا وہ البتہ دیکھے گا اپنی بیویوں کو اور اپنے خاد میوں کو۔ 15:۔ ابوداؤد البزار نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت کی چابیاں ل : لا الہ اللہ “ کی گواہی دینا ہے۔ 16:۔ طیالسی (رح) ودارمی (رح) نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت کی چابیاں نماز ہے۔ 17:۔ ابن ابی شیبہ (رح) واحمد ودارمی (رح) نے مسلم وابو داؤد وابن ماجہ نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو کوئی تم میں سے اچھی طرح وضو کرے پھر یوں کہے ” اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ : تو اس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں جس سے چاہے داخل ہوجائے۔ 18:۔ نسائی (رح) وحاکم (رح) وابن حبان (رح) نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو آدمی پانچوں نمازیں پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، اور زکوٰۃ نکالے اور سات بڑے گناہوں سے بچے تو قیامت کے دن اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے۔ 19:۔ احمد وابن جریر (رح) و بیہقی (رح) نے عتبہ بن عبداللہ سلمی ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس آدمی کے تین نابالغ بچے مرجائیں تو وہ اس کا جنت کے آٹھوں دروازوں سے استعمال کریں گے جس سے چاہے داخل ہو۔ 20:۔ طبرانی (رح) نے الاوسط میں عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس آدمی کی دو بیٹیاں ہیں یا دو بہنیں یا دو پھوپھیاں یا دو خالائیں ہوں ان کی اچھی خبر گیری کرے تو اس کیلئے جنت کے اٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے۔ رب تعالیٰ سے ڈرنے والی عورت کی فضیلت : 21:۔ طبرانی نے الا وسط میں (حسن سند کے ساتھ) ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا کہ جو کوئی عورت اپنے رب سے ڈرے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے تو اس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اس سے کہا جائے گا۔ جس دروازہ سے چاہے داخل ہوجا۔ 22:۔ ابونعیم نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے میری امت کو چالیس حدیثیں یاد کرائیں کہ جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ان کو نفع دے گا تو اس سے کہا جائے گا جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجا۔ 23: عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” سلم علیکم طبتم “ (سلام ہو تم پر کہ تم مزے میں ہو) یعنی تم اللہ کی اطاعت کی وجہ سے پاکیزہ ہو۔
Top