Dure-Mansoor - Az-Zumar : 74
وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَهٗ وَ اَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّةِ حَیْثُ نَشَآءُ١ۚ فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ
وَقَالُوا : اور وہ کہیں گے الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے صَدَقَنَا : ہم سے سچا کیا وَعْدَهٗ : اپنا وعدہ وَاَوْرَثَنَا : اور ہمیں وارث بنایا الْاَرْضَ : زمین نَتَبَوَّاُ : ہم مقام کرلیں مِنَ : سے۔ میں الْجَنَّةِ : جنت حَيْثُ : جہاں نَشَآءُ ۚ : ہم چاہیں فَنِعْمَ : سو کیا ہی اچھا اَجْرُ : اجر الْعٰمِلِيْنَ : عمل کرنے والے
اور وہ کہیں گے کہ سب تعریف ہے اللہ کے لئے جس نے ہم سے سچا وعدہ کیا اور ہمیں زمین کا وراث بنادیا، ہم جنت میں جہاں چاہیں قیام کریں، سو اچھا بدلہ ہے عمل کرنے والوں کا
1:۔ عبد بن حمید (رح) وابن المنذر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” واورثنا الارض “ (اور ہم کو زمین کا وارث بنا دیا) یعنی جنت کی زمین کا۔ 2:۔ امام ہناد نے ابوالعالیہ (رح) سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ 3:۔ ابن المنذر (رح) نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” نتبوا من الجنۃ حیث نشآء “ (کہ ہم جنت میں جہاں چاہیں گے قیام کریں گے) یعنی ان کی مشقت وہاں تک پہنچے گی جو ان کو عطا کیا گیا۔ 4:۔ عبد بن حمید (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ نبی کریم ﷺ سے جنت کی زمین کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا وہ سفید اور صاف شفاف ہے۔ 5:۔ عبد بن حمید (رح) نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ جنت کی زمین چاندی کا سنگ مرمر ہوگی۔ 6:۔ عبد بن حمید (رح) نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وتری المآئکۃ حآفین من العرش “ (اور آپ فرشتوں کو دیکھیں گے کہ وہ عرش کے اردگرد حلقہ باندھے ہوں گے) یعنی گھوم رہے ہوں گے۔ 7:۔ عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وتری المآئکۃ حآفین من العرش “ یعنی وہ عرش کو گھیرے ہوئے ہوں گے۔ 8:۔ ابن عساکر نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ جبل الخلیل، جبل طور اور جبل جودی ہر ایک ان میں سے قیامت کے دن سفید موتی کا ہوگا جو آسمان اور زمین کے درمیانی حصے کو روشن کردے گا، یعنی ان کو لوٹایا جائے گا بیت المقدس کی طرف یہاں تک کہ ان کو اس کے گوشوں میں رکھ دیا جائے گا اور اس پر اللہ جل شانہ کی کرسی رکھی جائے گی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ فرمائے گا جنت اور دوزخ والوں کے درمیان (فرمایا) (آیت ) ” وتری المآئکۃ حآفین من العرش یسبحون بحمد ربہم، وقضی بینہم بالحق “ (اور فرشتے عرش کے اردگرد حلقہ باندھے ہوں گے اور اپنے رب کی تسبیح وتحمید کرتے ہوں گے اور تمام بندوں میں ٹھیک ٹھاک فیصلہ کردیا جائے گا) 9:۔ عبد الرزاق (رح) وعبد بن حمید (رح) وابن المنذر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وقضی بینہم بالحق وقیل الحمد للہ رب العلمین “ اور ان کے درمیان ٹھیک ٹھاک فیصلہ کردیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ ساری تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں، فرمایا سب اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کا آغاز حمد سے کیا اور اس کا اختتام بھی حمد سے کیا، یعنی اس کا آغاز (آیت) الحمدللہ الذی خلق السموت والارض “ سے کہا اور اس کا اختتام (آیت) ” وقیل الحمد للہ رب العلمین “ سے کیا۔ 10:۔ عبد بن حمید (رح) نے وھب (رح) سے روایت کیا کہ جو شخص ارادہ کرے کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو اس کی مخلوق میں پہچان لے تو اس کو چاہئے کہ سورة زمر کے آخر کو پڑھ لے۔ الحمد للہ سورة الزمر مکمل ہوئی :
Top