Dure-Mansoor - An-Nisaa : 101
وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ١ۖۗ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ اِنَّ الْكٰفِرِیْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَاِذَا : اور جب ضَرَبْتُمْ : تم سفر کرو فِي الْاَرْضِ : ملک میں فَلَيْسَ : پس نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : کہ تَقْصُرُوْا : قصر کرو مِنَ : سے الصَّلٰوةِ : نماز اِنْ : اگر خِفْتُمْ : تم کو ڈر ہو اَنْ : کہ يَّفْتِنَكُمُ : تمہیں ستائیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنَّ : بیشک الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) كَانُوْا : ہیں لَكُمْ : تمہارے عَدُوًّا مُّبِيْنًا : دشمن کھلے
اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ نماز میں قصر کرلو اگر تم کو اس بات کا خوف ہے کہ کافر لوگ تمہیں فتنہ میں ڈال دیں گے، بیشک کافر تمہارے کھلے ہوئے دشمن ہیں
(1) ابن ابی شیبہ عبد بن حمید احمد ومسلم ابو داؤد و ترمذی و نسائی وابن ماجہ وابن جار ودوابن خزیمہ والطحاوی وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والنحاس نے اپنی ناسخ میں وابن حبان نے یعلی بن امیہ (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عمر بن خطاب ؓ سے پوچھا کہ آیت میں یہ حکم ہے جبکہ لوگ تو امن میں رہیں لفظ آیت ” فلیس علیکم جناھ ان تقصروا من الصلوۃ ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا “ تو عمر نے مجھ سے فرمایا کہ میں نے تعجب کیا اس چیز سے جس سے تو نے تعجب کیا میں نے رسول صلی اللہ تم پر صدقہ فرمایا تو اس صدقہ کو قبول کرلو۔ شرعی مسافر پر نماز میں قصر واجب ہے (2) ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید نے ابو حنظلہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے ابن عمر ؓ سے سفر کی نماز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا دو رکعت ہیں میں نے کہا اللہ تعالیٰ کے اس قول کا کیا مطلب ہے ؟ لفظ آیت ” ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا “ اور ہم (اب) امن میں ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔ (3) عبد بن حمید و نسائی وابن ماجہ وابن حبان والبیہقی نے اپنی سنن میں امید بن عبد اللہ بن خالد بن اسد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے ابن عمر ؓ سے سوال کیا کہ آپ مجھے سفر میں نماز کی قصر کرنے کے بارے میں بتائیے میں اس کو اللہ کی کتاب میں نہیں پاتا ہوں ہم صرف خوف کی نماز کا ذکر پاتے ہیں ابن عمر ؓ نے فرمایا اے میرے بھتیجے ! اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو بھیجا ہم کچھ بھی نہیں جانتے تھے ہم اسی طرح عمل کرتے ہیں جیسے ہم نے رسول اللہ ﷺ کو کرتے دیکھا سفر میں نماز کی قصر کرنا سنت ہے رسول اللہ ﷺ نے اس کا طریقہ مقرر فرمایا۔ (4) ابن ابی شیبہ واحمد بخاری ومسلم وابو داؤد والترمذی والنسائی نے حارثہ بن وھب خزاعی ؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبی ﷺ کے ساتھ ظہر اور عصر منیٰ میں پڑھی دو رکعت جبکہ لوگ کتنے ہی زیادہ اور کتنے ہی امن میں تھے۔ (5) ابن ابی شیبہ و ترمذی (نے اس کو صحیح کہا) و نسائی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے اور ہم امن میں تھے ہم کو کسی چیز کا خوف نہیں تھا دو رکعت نماز پڑھی۔ (6) ابن جریر نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ میں نے مکہ کی طرف سفر کیا میں دو رکعت پڑھتا تھا مجھے اس علاقہ کے رہنے والے قراء میں سے کچھ لوگ ملے انہوں نے کہا تو نے کس طرح نماز پڑھی میں نے کہا دو رکعت انہوں نے کہا یہ سنت (میں ہے) یا قرآن (میں سے) ہے میں نے کہا سنت اور قرآن دونوں سے ثابت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے دو رکعت پڑھی انہوں نے کہا کہ وہ جنگ میں تھے میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” علیما (26) لقد صدق اللہ رسولہ الرء یا بالحق لتدخلن المسجد الحرام انشاء اللہ امنین محلقین رء و سکم ومقصرین لا تخافون “ اور فرمایا ” واذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوۃ “ یہ پڑھا اور یہاں تک پہنچے۔ ” واذا طمأنتم “۔ (7) ابن ابی شیبہ و ترمذی (اس نے اس کو صحیح کہا) و نسائی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دو رکعت پڑھیں (جب) ہم مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے اور ہم امن میں تھے ہم کو کسی چیز کا خوف نہیں تھا۔ (8) ابن جریر نے علی ؓ سے روایت کیا کہ حرون میں سے ایک قوم نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! ہم زمین پر چلتے رہتے ہیں ہم کس طرح نماز پڑھیں تو اللہ تعالیٰ نے اتارا لفظ آیت ” واذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوۃ “ پھر وحی منقطع ہوگئی پھر جب دوسرا سال تھا تو نبی ﷺ نے جنگ کی اور آپ نے ظہر کی نماز پڑھی مشرکین نے کہا محمد ﷺ اور ان کے اصحاب نے تم کو پشت کی جانب موقع دیا ہے کیا تم ان پر حد نہیں کرو گے ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا ان کے لئے ان کے پیچھے اتنی مقدار اور بھی ہوتی ہے تو دو نمازوں کے درمیان پر حصہ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ” ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا ان الکفرین کانوا لکم عدوا مبینا (101) واذا کنت فیہم فاقمت لہم الصلوۃ فلتقم طائفۃ منہم معک “ سے لے کر ” ان الکفرین کافر لکم عدوا مبینا “ تک تو خوف کی نماز کا حکم نازل ہوا۔ (9) ابن ابی شیبہ نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ! میں ایک تاجر آدمی ہوں میں بار بار بحرین کی طرف جاتا ہوں تو آپ نے اس کو دو رکعت پڑھنے کا حکم فرمایا۔ قصر کا حکم خوف کے ساتھ خاص نہیں ہے (1) ابن جریر وابن المنذر نے ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس طرح پڑھا لفظ آیت ” فاقصرو من الصلاۃ ان تفتنکم الذین کفروا “ اور ” ان خفتم “ نہیں پڑھتے تھے اور یہ عثمان کے مصحف میں تھا ” ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا “۔ (11) ابن جریر نے عمر بن عبد اللہ بن محمد بن عبد الرحمن بن ابی بکر الصدیق ؓ سے روایت کیا کہ میں نے اپنے والد کو یہ فرماتے ہوئے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ سفر میں اپنی نماز کو پورا کرو لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سفر میں دو رکعت پڑھتے تھے تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جنگ میں تھے اور وہ دشمنوں سے ڈرتے تھے کیا تم (اب) ڈرتے ہو۔ (12) ابن جریر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عطار سے پوچھا کون سے رسول اللہ ﷺ کے اصحاب سفر میں پوری نماز پڑھتے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ عائشہ ؓ اور سعد بن ابی وقاص ؓ (پوری نماز پڑھتے تھے) ۔ (13) ابن جریر نے امیر بن عبد اللہ سے روایت کیا کہ انہوں نے عبد اللہ بن عمر سے کہا کہ ہم اللہ کی کتاب میں خوف (کی حالت) میں نماز کی قصر پاتے ہیں اور ہم مسافر کی نماز کی قصر کو نہیں پاتے تو عبد اللہ نے فرمایا ہم نے نبی اکرم ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے اسی لئے ہم بھی اس طرح کرتے ہیں۔ (14) عبد الرزاق ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (یہ آیت) ” فلیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوۃ “ اس دن نازل ہوئی جب نبی ﷺ عسفان میں تھے اور مشرک ضبحنان میں تھے صحابہ نے اکٹھے نماز پڑھی اور نبی ﷺ نے اپنے اصحاب کو ظہر کی نماز چار رکعت پڑھائی اور رکوع سجود اور قیام سب صحابہ اکٹھے کر رہے تھے مشرکوں نے ارادہ کیا کہ ان کے سامان اور ہتھیاروں کو لوٹ لیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” فلتقم طائفۃ منہم معک “ (النساء آیت 102) آپ نے عصر کی نماز پڑھی تو اپنے اصحاب کی دو صفیں بنا دیں پھر ان سب نے اکٹھے تکبیر کہی پھر پہلی جماعت نے آپ کے ساتھ سجدہ کیا اور دوسری جماعت ٹھہری رہی انہوں نے سجدہ نہیں کیا یہاں تک کہ نبی ﷺ کھڑے ہوگئے پھر آپ نے تکبیر کہی اور سب نے رکوع کیا دوسری جماعت آگے ہوگئی اور پہلی جماعت پیچھے چلی گئی انہوں نے باری باری سجدہ کیا جیسے پہلی مرتبہ اور عصر کی نماز دو رکعتوں پر قصر کی گئی۔ (15) عبد الرزاق نے طاؤس (رح) سے لفظ آیت ” ان تقصروا من الصلوۃ ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا “ کے بارے میں روایت کیا خوف اور جنگ کی وجہ سے نماز میں قصر سے کہ جس سمت منہ کرے سوار ہو یا پیدا پھر فرمایا نبی ﷺ کی نماز دو رکعت تھی سفر کی حالت میں لوگوں کا دو رکعت پڑھنا قصر نہیں ہے بلکہ یہ پوری رنیا ہے۔ (16) عبد الرزاق نے عمر وبن دینار (رح) سے لفظ آیت ” ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ نماز اس وقت تھی جب کافروں سے خوف ہو اور نبی ﷺ نے بعد میں دو رکعت ادا کرنے کی سنت قائم فرمائی وہ قصر نہیں ہے بلکہ وہ پوری نماز ہے۔ (17) ابن جریر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے لفظ آیت ” واذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوۃ “ کے بارے میں روایت کیا کہ جب سفر میں دو رکعت نماز پڑھتے تو یہ پوری نماز ہے اور قصر کرنا حلال نہیں ہے مگر جب کافروں سے خوف ہو کہ وہ تجھ کو فتنہ میں ڈالیں گے اور قصر نماز ایک رکعت ہے امام قیام کرے گا اور اس کے ساتھ دونوں جماعتیں کھڑی ہوں گی ایک جماعت اس کے پیچھے اور ایک جماعت دشمن کے سامنے ہوگی اب وہ جماعت جو آپ کے ساتھ ہے وہ ایک رکعت پڑھے گی پھر پچھلے پاؤں چلتے ہوئے اس جماعت تک پہنچ جائے گی جہاں دوسری جماعت کھڑی تھی یہ لوگ وہاں پر کھڑے ہوجائیں گے اور یہ چلنا الٹے پاؤں ہوگا۔ پھر دوسری جماعت آئے گی اور وہ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھے گی پھر امام بیٹھ جائے گا اور سلام پھیر دے گا اب یہ لوگ کھڑے ہو کر ایک رکعت اپنی طرف سے پڑھیں گے پھر اپنی صف کی طرف لوٹ جائیں گے اور پھر دوسری جماعت کھڑی ہوجائے گی اپنی رکعت کے ساتھ دوسری رکعت ملائیں گے جو امام کی رکعت کے قائم مقام ہوجائے گی پس امام کے لئے دو رکعت ہوں گی جبکہ ان کی امام کے ساتھ ایک ایک رکعت ہوگی اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” واذا کنت فیہم فاقمت لہم الصلوۃ “ سے لے کر ” وخذوا حذرکم “ تک۔ (18) الطستی نے اپنے مسائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق (رح) نے ان سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” ان یفتنکم الذین کفروا “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا ھوانز کی لغت میں فتنہ کا معنی ہے عذاب اور جہالت ہے پھر پوچھا کیا عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے شاعر کا قول نہیں سنا۔ کل امری من عباد اللہ مضطھد ببطن مکۃ مقھوز ومفتون ترجمہ : ہر انسان اللہ کے بندوں میں سے مکہ کی وادی میں مجبور مظلوم اور فتنہ میں پڑا ہوا ہے۔ (19) عبد بن حمید وابن جریر نے سماک حنفی (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن عمر ؓ سے سفر کی نماز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا دو رکعت پوری نماز ہے قصر نہیں بلاشبہ قصر صرف خوف کی نماز ہے۔ میں نے کہا خوف کی نماز کیا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا امام ایک جماعت کو ایک رکعت پڑھائے پھر یہ جماعت اس جماعت کی جگہ پر چلی جائے اور وہ جماعت اس جماعت کی جگہ پر آجائے امام ان کو بھی ایک رکعت پڑھائے تو امام کے لئے دو رکعت ہوں گی اور ہر جماعت کے لئے ایک ایک رکعت ہوگی۔ (20) مالک وعبد بن حمید و بخاری ومسلم نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ سفر اور حضر میں نماز دو رکعت فرض کی گئی پھر سفر کی نماز فرض کی گئی اسی حال میں ثابت رہی اور حضر کی نماز کو زیادہ کردیا گیا۔ (21) عبد الرزاق وعبد بن حمید نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ مکہ میں نبی ﷺ پر دو رکعت فرض کی گئی جب آپ مدینہ منورہ کی طرف تشریف لے گئے تو چار رکعت فرض کی گئی اور سفر کی نماز دو رکعت برقرار رکھی گئی۔ (22) احمد و بیہقی نے اپنی سنن میں عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نماز دو رکعت فرض کی گئی سوائے مغرب کے جو تین رکعت فرض کی گئی اور رسول اللہ ﷺ جب سفر فرماتے تھے تو پہلی والی (یعنی دو رکعت) پڑھتے تھے اور جب ایک گھر پر قیام فرماتے تھے تو ہر دو رکعت کے ساتھ دو رکعت زیادہ کردیتے تھے سوائے مغرب کے کیونکہ وہ تین رکعت ہے اور صبح کی نماز دو رکعت ہی رہی کیونکہ اس میں لمبی قرات ہوتی ہے۔ (23) بیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے مکہ والے ! نماز کو قصر نہ کرو چار برد سے کم مسافت میں اور یہ مسافت مکہ سے عسفان تک ہے۔ (24) شافعی اور بیہقی نے عطا بن ابی رباح (رح) سے روایت کیا کہ عبد اللہ بن عمر عبد اللہ بن عباس ؓ دونوں چار برد میں دو رکعت نماز ادا فرماتے اور روزہ افطار کرتے یا اس سے زیادہ فاصلہ ہوتا تو پھر بھی یہی کرتے۔ (25) ابن ابی شیبہ و بیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا کہ آپ عرفہ کے سفر میں قصر کرتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا نہیں لیکن عسفان جدہ اور طائف تک سفر کروں تو قصر کرتا ہوں۔ (26) ابن ابی شیبہ وابن جریر والنحاس نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کی زبان پر حضر میں نماز کو چار رکعت فرض فرمایا اور سفر میں دو رکعت اور خوف میں ایک رکعت۔ (27) ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واذا ضربتم فی الارض “ سے مراد ہے نماز کا قصر کرنا جب تو دشمن کا سامنا کرے جبکہ نماز کا وقت ہوچکا ہو تو تکبیر کہے اور اپنے سر کا جھکا لے اشارہ کرتے ہوئے (چاہے) تو سوار ہو یا پیدل ہو۔ (28) ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے لفظ آیت ” فلیس علیکم جناھ ان تقصروا من الصلوۃ “ کے بارے میں روایت کیا کہ نماز میں قصر جنگ کے وقت ہے کہ آدمی سوار ہو کر نماز پڑھے اور تکبیر کہے جس طرف بھی منہ ہو۔
Top