Dure-Mansoor - An-Nisaa : 143
مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِكَ١ۖۗ لَاۤ اِلٰى هٰۤؤُلَآءِ وَ لَاۤ اِلٰى هٰۤؤُلَآءِ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا
مُّذَبْذَبِيْنَ : ادھر میں لٹکے ہوئے بَيْنَ : درمیان ذٰلِكَ : اس لَآ : نہ اِلٰى هٰٓؤُلَآءِ : ان کی طرف وَلَآ : اور نہ اِلٰى هٰٓؤُلَآءِ : ان کی طرف ۭوَمَنْ : اور جو۔ جس يُّضْلِلِ اللّٰهُ : گمراہ کرے اللہ فَلَنْ تَجِدَ : تو ہرگز نہ پائے گا لَهٗ : اس کے لیے سَبِيْلًا : کوئی راہ
ادھر میں لٹکے ہوئے ہیں اس کے درمیان، نہ ان لوگوں کی طرف نہ ان لوگوں کی طرف، اور جسے اللہ گمراہ کر دے اس کے لئے تو ہرگز کوئی راستہ نہ پائے گا
(1) ابن ابی حاتم نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ مؤمن منافق اور کافر کی مثال تین آدمیوں کی طرح ہے جو ایک وادی کی طرف گئے ان میں سے ایک اس میں داخل ہوگیا اور اس نے اس کو عبور کرکے (دوسرے کنارے پر) آگیا۔ پھر ان میں سے دوسرا اس میں داخل ہوا جب وادی کے نصف پر پہنچا تو اس کو آواز دی اس آدمی نے جو وادی کے کنارے پر تھا ہلاکت ہو تیرے لئے تو کہاں ہلاکت کی طرف جا رہا ہے۔ لوٹ آ جہاں سے تو چلا تھا اور وہ آدمی اس کو آواز دیتا ہے جو (وادی) کو عبور کرچکا تھا ادھر آجا نجات اس طرف ہے تو اس نے کبھی ادھر اور کبھی ادھر دیکھنا شروع کیا اس درمیان ایک سیلاب آیا اور وہ اس میں غرق ہوگیا جو عبور کر گیا وہ مؤمن ہے جو غرق ہوا وہ منافق ہے جو کنارے پر ٹھہرا رہا وہ ادھر ادھر تذبذب کا شکار رہا وہ کافر ہے۔ (2) ابن جریر و ابن المنذر نے قتادہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ لفظ آیت ” مذبذبین بین ذلک، لا الی ھؤلاء ولا الی ھؤلاء “ یعنی (یہ لوگ) یہ مخلص ایمان والے ہیں اور نہ مشرک ہیں کہ جن کا شرک واضح ہو پھر فرمایا ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ اللہ کے نبی ﷺ مؤمن، کافر اور منافق کے لئے ایک مثال بیان فرماتے تھے جیسے مثال تین آدمیوں کی جو ایک نہر پر پہنچے مؤمن اس میں کور کر پار ہوگیا پھر منافق کو دا یہاں تک کہ قریب تھا کہ مؤمن کے پاس پہنچ جائے کافر نے اس کو آواز دی کہ میری طرف آجاؤ مجھے تجھ پر ڈر ہے کہیں ڈوب نہ جاؤ۔ مؤمن نے اس کو آواز دی کہ میری طرف آجاؤ میرے پاس تیرے لئے نجات ہے اور اس کے پاس جو کچھ ہوتا ہے وہ اس کی طرف پھینکتا ہے منافق برابر ان دونوں کے درمیان متردد رہتا ہے یہاں تک کہ اس پر پانی آتا ہے اور وہ غرق ہوجاتا ہے منافق برابر شک اور شبہ میں رہتا ہے یہاں تک کہ اس پر موت آجاتی ہے اور اس حال میں ہوتا ہے۔ (3) ابن جریر و ابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” مذبذبین بین ذلک “ سے منافق مراد ہے (پھر فرمایا) لفظ آیت ” لا الی ھؤلاء “ یعنی نہ تو وہ اصحاب محمد ﷺ کی طرف ہیں اور نہ ان یہودیوں کی طرف ہے۔ (4) ابن جریر نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” مذبذبین بین ذلک “ یعنی متردد ہیں اسلام اور کفر کے درمیان۔ (5) عبد بن حمید و بخاری نے اپنی تاریخ میں و مسلم و ابن جریر اور ابن المنذر نے ابن عمر رجی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا منافق کی مثال دو ریوڑوں میں بھاگنے والے بکری کی طرح ہے کبھی اس طرف بھاگتی ہے کبھی دوسری طرف بھاگتی ہے۔ وہ نہیں جانتی کہ کس کے پیچھے چلے۔ (6) احمد و بیہقی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا منافق کی مثال قیامت کے دن اس بکری کی طرح ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان دوڑتی پھرتی ہے جب اس ریوڑ کے پاس آئے تو اسے سینگ مارتی ہے۔ اور جب دوسرے ریوڑ کے پاس جائے تو وہ اسے ٹکر مارتی ہے۔
Top