Dure-Mansoor - An-Nisaa : 59
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ١ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے (ایمان والے) اَطِيْعُوا : اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَاَطِيْعُوا : اور اطاعت کرو الرَّسُوْلَ : رسول وَاُولِي الْاَمْرِ : صاحب حکومت مِنْكُمْ : تم میں سے فَاِنْ : پھر اگر تَنَازَعْتُمْ : تم جھگڑ پڑو فِيْ شَيْءٍ : کسی بات میں فَرُدُّوْهُ : تو اس کو رجوع کرو اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف وَالرَّسُوْلِ : اور رسول اِنْ : اگر كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ : تم ایمان رکھتے ہو بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ : اور روز الْاٰخِرِ : آخرت ذٰلِكَ : یہ خَيْرٌ : بہتر وَّاَحْسَنُ : اور بہت اچھا تَاْوِيْلًا : انجام
اے ایمان والو ! فرمانبرداری کرو اللہ کی اور فرمانبرداری کرو رسول کی، اور ان لوگوں کی فرمانبرداری جو اولو الامر ہیں تم میں سے، پس اگر تم آپس میں کسی چیز کے بارے میں جھگڑنے لگو تو اس کو لوٹا دو اللہ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے بہت خوب تر ہے۔
(1) عبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم نے عطا (رح) سے لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد ہے رسول کی اطاعت اور کتاب وسنت کی اتباع لفظ آیت ” واولی الامر منکم “ سے مراد حاجت فقہ اور صاحب علم ہیں۔ اطاعت رسول ﷺ کا اہم واقعہ (2) بخاری ومسلم وابی داؤد اور ترمذی و نسائی ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم و بیہقی نے دلائل میں سعید بن جبیر کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا اطیعوا الرسول واولی الامر منکم “ یہ آیت عبد اللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی کے بارے میں نازل ہوئی جب ان کو نبی ﷺ نے ایک جنگ میں بھیجا۔ (3) ابن جریر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے خالد بن ولید کو ایک لشکر میں بھیجا اس میں عمار بن یاسر بھی تھے۔ یہ لوگ اس قوم کی طرف چل دئیے جس قوم کا ارادہ تھا جب قریب پہنچے تو رات کو آرام کے لئے اتر گئے۔ ایک آدمی قوم کے پاس آیا ان کو (لشکر کے آنے کی) خبر دی تو وہ سب لوگ سوائے ایک آدمی کے بھاگ گئے صبح ہوتے ہی اس نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا انہوں نے اپنا سامان اکٹھا کیا پھر رات کے اندھیرے میں آیا یہاں تک کہ خالد کے لشکر میں پہنچا اور عمار بن یاسر کے بارے میں پوچھا اور ان کے پاس آکر کہنے لگا اے جاگنے والوں کے باپ (یہ اس آدمی نے عمار بن یاسر سے کہا) میں مسلمان ہوچکا ہوں اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور میری قوم نے جب تمہارے بارے میں سنا تو وہ بھاگ گئے اور میں باقی ہوں کیا میرا مسلمان ہونا مجھے نفع دے گا ورنہ کل کو میں بھی بھاگ جاؤں گا عمار نے فرمایا بلکہ وہ تجھ کو نفع دے گا پس تو ٹھہر جا تو وہ ٹھہر گیا جب صبح ہوئی تو حضرت خالد نے حملہ کیا تو ایک آدمی کے سوا کسی کو نہ پایا تو انہوں نے اس کو بھی اور اس کے مال کو بھی لے لیا یہ خبر عمار ؓ کو پہنچی تو وہ خالد کے پاس آئے اور کہا اس آدمی کو چھوڑ دو کیونکہ یہ مسلمان ہوچکا ہے اور وہ میری امان میں بھی ہے خالد نے فرمایا تم اس کو کس طرح امان دے سکتے ہو دونوں نے ایک دوسرے کو سخت الفاظ کہے اور معاملہ نبی ﷺ تک پہنچا آپ نے عمار کی امان کو جائز رکھا اور ان کو دوسری مرتبہ کسی کو امان دینے سے منع فرمایا کسی امیر کی اجازت کے بغیر نبی ﷺ کے پاس دونوں نے آپس میں سخت الفاظ کہے اور خالد نے کہا یا رسول اللہ ! کیا آپ اس بےنسل غلام کو اجازت دیں گے کہ وہ مجھے برا بھلا کہتا رہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے خالد ! عمار کو برا نہ کہو جو آدمی عمار کو برا کہے گا اللہ تعالیٰ بھی اس کو برا کہیں گے اور جو آدمی عمار سے بغض رکھے گا اللہ تعالیٰ اس سے بغض رکھیں گے اور جو آدمی عمار کو لعنت کرے گا اللہ تعالیٰ بھی اس کو لعنت کریں گے تو عمار بھی غصہ ہوگئے اور کھڑے ہوگئے خالد نے (یہ سن کر) اس کے پیچھے گئے یہاں تک کہ ان کے کپڑے کو پکڑ لیا اور ان سے معذرت کی تو وہ راضی ہوگئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ابن عساکر نے سدی کے طریق سے ابو صالح سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے۔ (4) ابن جریر نے میمون بن مہران سے لفظ آیت ” واولی الامر منکم “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد نبی ﷺ کے زمانہ میں لشکروں کے امیر ہیں۔ (5) سعید بن منصور وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واولی الامر منکم “ سے وہ امراء مراد ہیں جو تم میں سے ہیں اور دوسرے لفظ میں یوں ہے کہ لشکروں کے امیر مراد ہیں۔ (6) ابن جریر نے مکحول (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واولی الامر منکم “ سے اس آیت والے مراد ہیں جو اس سے پہلے تھی یعنی لفظ آیت ” ان تؤدوا الامنت الی اھلھا “ آخر آیت تک۔ (7) ابن ابی شیبہ و بخاری ومسلم وابن جریر وابن حاتم نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی تو گویا اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی گویا اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی گویا اس نے میری نافرمانی کی۔ (8) ابن جریر نے ابن زید (رح) سے لفظ آیت ” واولی الامر منکم “ کے بارے میں روایت کیا کہ ابی ؓ نے فرمایا کہ اس سے مراد سلاطین ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم پر اطاعت لازم ہے تم پر اطاعت لازم ہے۔ اور اطاعت میں آزمائش ہے اور فرمایا اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو حکومت کو انبیاء میں رکھتا یعنی لوگوں کے لئے حکمران اور انبیاء ساتھ ساتھ بھیجتا۔ کیا تم نہیں دیکھتے جب حکمران نے یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) کے قتل کا حکم دیا۔ امیر کی اطاعت لازم ہے (9) البخاری نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حکمرانوں کا حکم سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تم پر ایک حبشی کو حکمران بنا دیا جائے جس کا سر کشمش کے دانے جتنا ہو۔ (10) احمد و ترمذی اور حاکم (نے اس کو صحیح کہا) اور بیہقی نے شعب میں ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حجۃ الوداع میں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا اپنے رب کی عبادت کرو اور پانچ نمازیں پڑھو۔ اور مہینہ بھر کے روزے رکھو اور اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرو اور اپنے امیر کی اطاعت کرو تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔ (11) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم اور حاکم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واولی الامر منکم “ سے مراد ہیں غصہ اور دین والے اور اللہ کی اطاعت کرنے والے جو لوگون کو اپنے دین کے معانی کو جانتے ہیں اور ان کو نیکی کا حکم کرتے ہیں اور ان کو برائی سے روکتے ہیں تو اللہ نے ان کی اطاعت بندوں پر واجب کردی۔ (12) ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید والحکیم الترمذی نے نوادر الاصول میں وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم اور حاکم نے (اس کو صحیح کہا) جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واولی الامر منکم “ سے فقہاء اور نیک لوگ مراد ہیں۔ (13) ابن عدی نے الکامل میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” واولی الامر منکم “ سے علم والے مراد ہیں۔ (14) سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” واولی الامر “ سے فقہا اور علماء مراد ہیں۔ (15) ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” واولی الامر “ سے اصحاب محمد ﷺ اور فقہا اور دین والے مراد ہیں۔ (16) ابن ابی شیبہ وابن جریر نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ ” واولی الامر “ سے مراد ہے علم والے کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” ولو ردوہ الی الرسول والی اولی الامر منہم لعلمہ الذین یستنبطونہ منہم “ (17) ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واولی الامر “ سے مراد ہے اصحاب رسول اللہ ﷺ کیونکہ وہی لوگ دین کی دعوت دینے والے روایت کرنے والے ہیں۔ (18) عبد بن حمید وابن جریر ابن ابی حاتم وابن عساکر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واولی الامر “ سے ابوبکر وعمر ؓ مراد ہیں۔ (19) عبد بن حمید نے کلبی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واولی الامر “ سے ابوبکر و عثمان وعلی وابن سعد ؓ مراد ہیں۔ (20) سعید بن منصور نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ ان سے امہات الاولاد کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا وہ آزاد ہیں ان سے پوچھا گیا کہ آپ کس دلیل سے یہ فرماتے ہیں انہوں نے فرمایا قرآن سے لوگوں نے کہا کس آیت سے ؟ تو انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا یہ قول لفظ آیت ” اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم “ اور حضرت عمر اولی الامر میں سے تھے پھر فرمایا وہ لونڈی آزاد ہے جس کا حمل گرگیا تھا۔ گناہ کے کام میں امیر کی اطاعت جائز نہیں (21) ابن ابی شیبہ وابن جریر نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا مسلمان آدم پر لازم ہے کہ امراء کی بات کو سنے اور اطاعت کرے۔ وہ بات پسند کرے یا ناپسند کرے مگر یہ کہ وہ کسی گناہ کا حکم دیا جائے (تو اطاعت نہ کرے) جو شخص کسی گناہ کا حکم کرے تو اس کو نہ سنے اور نہ اطاعت کرے۔ (22) ابن جریر نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا تم میرے بعد عنقریب تم پر حکمران ہوں گے اور تم سے ملے گا نیک آدمی کے ساتھ اور برا آدمی اپنی برائی کے ساتھ ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو ہر اس کام میں جو حق کے موافق ہو اور ان کے پیچھے نماز پڑھو اگر وہ نیک کام کریں تو وہ ان کے لئے اور تمہارے لئے فائدہ ہے اور اگر وہ برا کام کریں تو تمہارے لئے فائدہ ہوگا ان پر وبال ہوگا۔ (23) احمد نے انس ؓ سے روایت کیا کہ حضرت معاذ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ بتائیے اگر ہم پر ایسے آدمی حاکم ہوں کہ جو آپ کے طریقے پر نہ چلیں اور آپ کے حکم کو نہ اپنائیں تو آپ کیا حکم فرماتے ہیں ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو اللہ کی اطاعت نہیں کرتے اس کی کوئی اطاعت نہیں۔ (24) ابن ابی شیبہ واحمد وابو یعلی وابن خزیمہ وابن حبان والحاکم نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے علقمہ بن بجزر کو ایک مہم پر روانہ کیا اس لشکر میں میں بھی تھا جب ہم روانہ ہوئے تو انہوں نے لشکر میں سے ایک طائفہ کو اجازت دی اور ان پر عبد اللہ بن خزامہ بن قیس سہمی کو امیر بنایا گیا جو بدر والوں میں سے تھے اور ان میں دعا یہ بھی تھے ہم بعض راستوں پر اترے اور قوم نے آگ جلائی تاکہ اپنے لئے کھانا تیار کریں امیر صاحب نے ان سے فرمایا کیا تم پر لازم نہیں میرا پیغام سننا اور اس کی اطاعت کرنا ؟ صحابہ نے کہا کیوں نہیں ؟ امیر صاحب نے کہا پس میں تم کو اگر چیز کا حکم دیتا ہوں کیا تم اس کو کرو گے صحابہ نے فرمایا کیوں نہیں ؟ پھر انہوں نے کہا میں تم کو اپنے حق اور اپنی اطاعت کی قسم دیتا ہوں کہ تم ایک دوسرے پر اس آگ میں کود کر دکھاؤ لوگ کھڑے ہو کر تیاری کرنے لگے یہاں تک کہ جب انہوں نے یہ خیال کرلیا کہ وہ کودنے والے ہیں تو امیر صاحب نے فرمایا اپنے آپ کو روک لو میں تمہارے ساتھ مذاق کر رہا تھا۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کو ذکر کی گئی واپس آنے کے بعد تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص تم کو کسی گناہ کا حکم دے تو اس کی اطاعت نہ کرو۔ (25) ابن الضریس نے ربیع بن انس ؓ سے روایت کیا کہ یہ بات پہلی کتاب میں لکھی ہوئی تھی جو شخص کسی کو اللہ کی نافرمانی میں دیکھے جبکہ اس پر دیکھنے والے کی اطاعت لازم تھی۔ تو دیکھنے والے کا عمل اللہ تعالیٰ قبول نہ کرے گا جب تک وہ اسی حال میں رہے گا اور جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر راضی ہوا تو اللہ تعالیٰ اس کا عمل قبول نہیں کرے گا جب تک وہ اس حالت میں رہے گا۔ (26) ابن ابی شیبہ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں خالق کی نافرمانی میں۔ (27) ابن ابی شیبہ نے عمران بن حصین ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں (مخلوق) کی کوئی اطاعت نہیں۔ (28) ابن ابی شیبہ نے ابن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ جب کسی آدمی کو گونر بناتے تھے تو اس کے عہد نامہ پر لکھتے تھے اس کے حکم کو سنو اور اس کی اطاعت کرو جب تک وہ تمہارے اندر عدل و انصاف کرے۔ (29) ابن ابی شیبہ نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تمہارے اوپر ایک حبشی ناک کٹے ہوئے غلام کو امیر بنا دیا جائے۔ اگر وہ مجھ کو نقصان پہنچائے اور وہ تم کو کسی چیز سے محروم کردے تو صبر کرو اور اگر وہ ایسے کام کا ارادہ کرے جس سے تیرے دین میں نقصان آتا ہے تو کہہ دے میرا خون میرے دین سے کم مرتبہ ہے آزمائش میں ڈالے گئے۔ (30) ابن ابی شیبہ نے ابو سفیان ؓ سے روایت کیا کہ ابن زبیر ؓ نے ہم کو خطبہ ارشاد فرمایا اور فرمایا ہم آزمائش میں ڈالے گئے جو تم دیکھ رہے ہو سو جو کچھ ہم تم کو حکم کریں اللہ کے حکم کے ساتھ تو تم پر لازم ہے اس کا سننا اور اطاعت کرنا اور جو ہم تم کو اللہ کے حکم کے ساتھ حکم نہ کریں تو تم پر اس کا نہ سننا لازم ہے اور نہ اطاعت کرنا۔ حبشی غلام کی بھی اطاعت لازم ہے (31) ابن ابی شیبہ و ترمذی نے ام الحصین حمیہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبی ﷺ کو خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا اور آپ پر ایک چادر تھی جس میں آپ لپٹے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے اگر تم پر ایسا حبشی غلام امیر بنا دیا جائے جس کے اعضاء کٹے ہوئے ہوں تو اس کے حکم کو سنو اور اطاعت کرو جب تک وہ تم کو اللہ کی کتاب کے ساتھ تمہاری قیادت کرے۔ (32) ابن ابی شیبہ نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ مسلمانوں پر یہ حق ہے کہ وہ (امیر کی بات کو) سنیں اور اطاعت کریں اور اس کی دعوت کو قبول کریں جب وہ دعوت دے۔ (33) ابن ابی شیبہ نے عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ اللہ کی نافرمانی میں کسی انسان کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ (34) ابن ابی شیبہ نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کی نافرمانی میں کسی بشر کی اطاعت جائز ہے۔ (35) ابن ابی شیبہ نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر بھیجا اور اس پر انصار میں سے ایک آدمی کو امیر بنایا اور ان کو حکم فرمایا کہ امیر کی بات سنو اور اطاعت کرو۔ حضرت علی اللہ عنہ نے فرمایا ان لوگوں نے امیر کو کسی بات پر ناراض کردیا تو امیر نے کہا میرے لئے لکڑیاں اکٹھی کرو انہوں نے لکڑیاں اکٹھی کیں پھر اس نے کہا آگ جلاؤ انہوں نے آگ جلائی اس نے (پھر) کہا اگر میں تم کو حکم کروں تو تم سنو گے اور اطاعت کرو گے سب نے کہا ہاں تو اس نے کہا اس آگ میں داخل ہوجاؤ تو بعض بعض کی طرف دیکھنے لگے۔ اور کہنے لگے ہم رسول اللہ ﷺ کی طرف آگ سے بھاگے تھے۔ تو امیر کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور آگ بجھ گئی جب یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور اس بات کو ذکر کیا تو آپ نے فرمایا اگر تم اس میں داخل ہوجاتے تو اس سے نہ نکلتے بلاشبہ اطاعت نیک کاموں میں ہے (برے کاموں میں نہیں ) ۔ (36) الطبرانی نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ زیاد نے ایک لشکر پر حکم بن عمرو غفاری کو امیر بنایا تو اس نے عمران بن حصین سے ملاقات کی اور فرمایا کیا تو جانتا ہے کس لئے میں تیرے پاس آیا ہوں کیا تجھے یاد نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب یہ خبر پہنچی تھی کہ امیر نے حکم دیا ہے کہ کھڑا ہوجاؤ اور آگ میں کود جاتو وہ آدمی کھڑا ہوا تاکہ اس میں کود جائے میں نے اس کی رہنمائی کی تو وہ رک گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا اگر وہ اس میں واقع ہوجاتا تو دوزخ کی آگ میں داخل ہوجاتا۔ اللہ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں (یہ سن کر) اس نے کہا ہاں پھر عمران بن حصین نے فرمایا میں نے ارادہ کیا کہ میں تم کو یہ حدیث سناؤں۔ (37) بخاری نے اپنی تاریخ و نسائی و بیہقی نے شعب میں حارث اشعری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تم کو پانچ چیزوں کا حکم کرتا ہوں اللہ تعالیٰ نے مجھ کو ان کا حکم فرمایا جماعت کے ساتھ ہو (یعنی مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہو) (امیر کی بات کو) سنو اور اطاعت (دین کے لئے) ہجرت کرو اور جہاد فی سبیل اللہ کرو اور جو شخص مسلمانوں کی جماعت سے ایک بالشت بھی ہٹ گیا تو اس نے اسلام کے پھندے کو اپنی گردن سے نکال دیا مگر یہ کہ وہ پھر لوٹ آئے (جماعت کی طرف) ۔ (38) بیہقی نے مقدام ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنے امراء کی اطاعت کرو اگر وہ تم کو حکم دیں اس دین کے ساتھ جس کو میں تمہارے پاس لا یا بلاشبہ وہ اس پر اجر دئیے جائیں گے اور تم بھی ان کی اطاعت پر اجر دئیے جاؤ گے اور اگر تم کو حکم دیں اس دین کے ساتھ جس کو میں تمہارے پاس نہیں لایا تو اس کا گناہ ان پر ہوگا اور تم اس سے بری ہوگے جب تم اللہ سے ملاقات کرو تو کہنا آج کوئی ظلم نہیں ہے اور وہ بھی فرمائیں آج کوئی ظلم نہیں ہے پھر تم کہو گے اے ہمارے رب آپ نے ہمارے پاس رسول بھیجا ہم نے اس کی اطاعت کی آپ کی اجازت سے اور آپ نے ہم پر خلفاء بھیجے ہم نے ان کی اطاعت کی آپ کی اجازت سے اور تو نے ہم پر امیر بنائے ہم نے ان کی اطاعت کی تیرے حکم سے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تم نے سچ کہا اس کا وبال انہیں پر ہے۔ اور تم اس سے بری ہو۔ (39) احمد و بیہقی نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم پر ایسے حکمران ہوں گے کہ ان کی طرف دل مطمئن ہوں گے اور ان کے لئے کھالیں نرم ہوں گی پھر تم پر ایسے حکمران ہوں گے کہ دل ان سے نفرت کریں گے اور جن سے کھالیں کانپیں گی ایک آدمی نے کہا کیا ہم ان سے قتال کریں یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے فرمایا نہیں جب تک وہ نماز کو قائم کرتے رہیں۔ (40) البیہقی نے عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا عنقریب تم میرے بعد ایسی چیزیں دیکھو گے جن کو تم ناپسند کرو گے ہم نے کہا پھر ہمارے لئے کیا حکم ہے یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا حق ادا کرتے رہو جو تم پر ہے اور اللہ تعالیٰ سے اس چیز کا سوال کرو جو تمہارا حق ہے۔ امیر کو ذلیل کرنا بڑا گناہ ہے (41) احمد نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ ہم کو رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا اور فرمایا میرے بعد بادشاہ ہوں گے ان کو ذلیل کرنا جو شخص اس کو ذلیل کرنے کا ارادہ کرے گا تو اس نے اسلام کے پھندے کو اپنی گردن سے اتار دیا اور اس سے کوئی عمل مقبول نہیں ہوگا یہاں تک کہ اس رخنے کو بند کر دے جو اس نے رخنہ ڈالا ہے اور وہ ایسا کرنے والا نہ ہوگا پھر وہ اپنے رویے پر لوٹ جائے گا اور ان لوگوں میں ہوجائے گا جو اس کی عزت کرتے ہیں ہم کو رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا کہ ہم تین چیزوں کے بارے میں مغلوب نہ ہوں کہ ہم نیکی کا حکم کریں۔ برائیں سے روکیں اور ہم لوگوں کو سنتوں کی تعلیم دیتے رہیں۔ (42) احمد نے حذیفہ بن یمان ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص (مسلمانوں کی) جماعت سے الگ ہوا اور امارت کو ذلیل کرنا چاہا تو اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ ان کے نزدیک اس کی کوئی حیثیت نہ ہوگی۔ (43) احمد نے ابو عبیدہ بن جراح ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا بادشاہ کو گالی مت دو کیونکہ وہ اللہ کا سایہ ہے اس کی زمین میں۔ (44) ابن سعد والبیہقی نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ ہم کو محمد ﷺ کے اکابر صحابہ نے حکم فرمایا کہ ہم اپنے حکمرانوں کو گالیان نہ دیں اور نہ ان کو دھوکہ دیں اور نہ ان کی نافرمانی کریں اور ہم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہیں اور صبر کریں کیونکہ امر (یعنی قیامت) قریب ہے۔ (45) البیہقی نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ لوگوں کے معاملات نیک امیر یا برا امیر ہی درست کرسکتا ہے لوگوں نے کہا نیک حکمران تو ٹھیک ہے اور برا کیسے (درست کرے گا) تو انہوں نے فرمایا برے حکمران کے ذریعہ اللہ تعالیٰ راستوں کو پر امن بناتا ہے اور اس کے ذریعہ دشمن سے جہاد کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ مال غنیمت لایا جاتا ہے۔ اور اس کے ذریعہ حدود قائم کئے جاتے ہیں اور اس کے ذریعہ بیت اللہ کا حج کیا جاتا ہے اور اس کی حکومت میں مسلمان امن کے ساتھ عبادت کرتے ہیں یہاں تک کہ اس کی موت آجاتی ہے۔ (46) سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فان تنازعتم فی شیء “ یعنی اگر علماء تنازعہ کریں (تو فرمایا) لفظ آیت ” فردوہ الی اللہ والرسول “ یعنی تو (اس فیصلہ کو) اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کی طرف لوٹا دو ۔ پھر (یہ آیت) پڑھی لفظ آیت ” ولو ردوہ الی الرسول والی اولی الامر منہم لعلمہ الذین یستنبطونہ منہم “۔ (47) ابن جریر وابن المنذر نے میمون بن مھران (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ کی طرف لوٹانے سے مراد ہے اللہ کی کتاب کی طرف لوٹانا اور لوٹانا اس کے رسول کی طرف جب تک وہ زندہ رہیں جب وہ وفات پاجائیں تو ان کی سنت کی طرف۔ ابن جریر نے قتادہ سے اسی طرح روایت کیا۔ (48) ابن جریر وابن المنذر قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ذلک خیر واحسن تاویلا “ سے مراد ہے (کہ یہ طریقہ) اچھا ہے ثواب کے لحاظ سے اور بہتر ہے انجام کے لحاظ سے۔ (49) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واحسن تاویلا “ سے مراد ہے اچھا ہے جزا کے لحاظ سے۔ (50) ابن جریر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واحسن تاویلا “ سے مراد ہے اچھا ہے انجام کے لحاظ سے۔
Top