Dure-Mansoor - An-Nisaa : 5
وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِیٰمًا وَّ ارْزُقُوْهُمْ فِیْهَا وَ اكْسُوْهُمْ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَلَا : اور نہ تُؤْتُوا : دو السُّفَھَآءَ : بےعقل (جمع) اَمْوَالَكُمُ : اپنے مال الَّتِىْ : جو جَعَلَ : بنایا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لئے قِيٰمًا : سہارا وَّارْزُقُوْھُمْ : اور انہیں کھلاتے رہو فِيْھَا : اس میں وَاكْسُوْھُمْ : اور انہیں پہناتے رہو وَقُوْلُوْا : اور کہو لَھُمْ : ان سے قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : معقول
اور بیوقوفوں کو اپنے مال مت دو جن کو اللہ نے تمہارے لئے زندگی گذارنے کا ذریعہ بنایا ہے، اور ان مالوں سے ان کو کھانے پینے کے لئے دے دو اور ان کو کپڑے پہنا دو ، اور ان سے بھلی بات کہہ دو
(1) ابن جریر نے حضرمی (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے اپنا مال اپنی بیوی کو دے دیا تو اس نے ناحق کاموں میں خرچ کر ڈالا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت :” ولا تؤتوا السفھاء اموالکم “۔ (2) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے علی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” ولا تؤتوا السفھاء اموالکم “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ تو اپنے مال کی طرف قصد نہ کر کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تجھ کو عطا کیا اور تیرے لئے اس کو زندگانی کا ذریعہ بنایا کہ اس کو اپنی بیوی کو اور اپنے بیٹوں کو دے دے پھر تو مجبور ہوجائے اس مال کی طرف جو کچھ ان کے ہاتھوں میں ہے لیکن تو روک لے اپنے مال کو اور اس کو مناسب طریقے پر خرچ کرتا رہے اور تو وہ آدمی بن جا جو ان پر خرچ کرتا ہے ان کے لباس میں ان کے رزق میں اور ان کی ضروریات میں اور فرمایا لفظ آیت ” میثاقا “ یعنی (مال کو) تمہاری زندگی کو قائم رکھنے کا ذریعہ بنایا۔ (3) ابن جریر وابن ابی حاتم نے عوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ اپنی اولاد میں سے کسی بیوقوف کو اپنے مال پر مسلط نہ کر بلکہ انسان کو حکم دیا کہ اس میں سے کھلائے اور اس کو پہنائے۔ (4) ابن ابی حاتم نے ضحاک کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ولا تؤتوا السفھاء “ سے تیرے بیٹے اور عورتیں مراد ہیں۔ (5) ابن ابی حاتم نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عورتیں بیوقوف ہوتی ہیں مگر جو عورت اطاعت کرے اپنے شوہر کی۔ (6) ابن ابی حاتم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ولا تؤتوا السفھاء “ سے خدام مراد ہیں اور انسانوں کے شیطان ہیں۔ (7) ابن جریر وابن المنذر نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ولا تؤتوا السفھاء “ سے عورتیں اور بچے مراد ہیں۔ (8) سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے حسن (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اس سے چھوٹے بچے اور عورتیں مراد ہیں کہ وہ بیوقوف ہوتے ہیں۔ (9) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ مردوں کو منع کیا گیا کہ وہ عورتوں کو اپنے مال دیں اور عورتیں بیوقوف ہوتی ہیں وہ بیویاں ہوں یا بیٹیاں ہوں اور ان سے اچھی بات کہیں۔ (10) عبد بن حمید وابن جریر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ولا تؤتوا السفھاء “ سے یتیم اور عورتیں مراد ہیں۔ (11) عبد بن حمید وابن المنذر نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ولا تؤتوا السفھاء اموالکم “ سے وہ یتیم کا مال مراد ہے جو تمہارے پاس ہے فرماتے ہیں کہ مال اس کو نہ دو اور اس پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائے۔ (12) ابن المنذر وابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ولا تؤتوا السفھاء “ سے یتامیٰ مراد ہیں اور ” اموالکم “ سے ان کے مال مراد ہیں اس قول کی طرح جیسے فرمایا لفظ آیت ” ولا تقتلوا انفسکم “ (کہ اپنی جانوں کو قتل نہ کرو اسی طرح فرمایا کہ یتیموں کا مال نہ کھاؤ) ۔ (13) ابن جریر نے مورق (رح) سے روایت کیا ہے کہ ایک عورت عبد اللہ بن عمر ؓ کے پاس سے گذری جو حسن و جمال اور زیب وزینت والی تھی حضرت ابن عمر ؓ نے اس کے لیے فرمایا لفظ آیت ” ولا تؤتوا السفھاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیما “۔ (14) حاکم (نے اس کو صحیح کہا) اور بیہقی نے شعب میں ابو موسیٰ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں لیکن ان کی دعا قبول نہیں ہوتی ایک وہ آدمی کہ اس کی بیوی برے اخلاق والی ہو اور وہ اس کو طلاق نہ دے دوسرا وہ آدمی کہ کس آدمی پر اس کا مال لازم ہو مگر وہ گواہی نہ دے تیسرا وہ آدمی جو بیوقوف کو اس کا مال دے دے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ولا تؤتوا السفھاء اموالکم “ (کہ بیوقوفوں کو ان کے مال نہ دو ) ۔ (15) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مال کے بارے میں حکم فرمایا کہ اس کو جمع کرلیا جائے ضرورت کے لیے اور پھر اس خزانے کی اچھی طرح دیکھ بھال کی جائے اور بیوقوف عورت کو اور کسی بچے کو اس کا مالک نہ بنادے۔ (16) عبد الرزاق وابن جریر نے حسن (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” قیما “ سے مراد ہے تیری زندگی کو قائم رکھنے والا۔ (17) ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے ” قیما “ الف کے ساتھ پڑھا پھر فرمایا کہ تیر زندگی کو قائم رکھنے والا۔ (18) ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” جعل اللہ لکم قیما “ سے مراد ہے کہ (مال) تمہارے دین کو بچانے والا اور تمہاری (زندگی کو) قائم کرنے والا ہے۔ (19) ابن جریر وابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ” وارزقوہم “ سے مراد ہے کہ ان پر (یعنی اہل و عیال پر) خرچ کرو۔ (20) ابن جریر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وقولوا لہم قولا معروفا “ سے مراد ہے کہ مردوں کو حکم کیا گیا کہ ان کے لیے اچھی بات کہو نیکی کرنے اور صلہ رحمی میں۔ (21) ابن جریر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وقولوا لہم قولا معروفا “ سے مراد ہے کہ ایسا وعدہ جو تم ان سے کرتے ہو۔ (22) ابن جریر نے ابن زید (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” وقولوا لہم قولا معروفا “ سے مراد ہے کہ اگر تیری اولاد نہیں ہے اور نہ ان لوگوں میں سے کوئی ہے جس پر خرچ کرنا تم پر فرض ہو تو اس کو (کم سے کم) اچھی بات کہو اور اس کو کہو اللہ تعالیٰ ہم کو اور تم کو معاف کر دے اور اللہ تعالیٰ تجھ میں برکت دے۔
Top