Dure-Mansoor - An-Nisaa : 71
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ لوگ جو ایمان لائے) (ایمان والو) خُذُوْا : لے لو حِذْرَكُمْ : اپنے بچاؤ (ہتھیار) فَانْفِرُوْا : پھر نکلو ثُبَاتٍ : جدا جدا اَوِ : یا انْفِرُوْا : نکلو (کوچ کرو) جَمِيْعًا : سب
اے ایمان والو ! تم اپنے بچاؤ کا سامان لے لو پھر نکل کھڑے ہو جماعتیں یا جماعتیں بنا کر
(1) ابن المنذر وابن ابی حاتم نے مقاتل بن حبان (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” خذوا حذرکم “ سے مراد ہے تم تیاری کرلو ہتھیاروں سے (یعنی اپنا اسلحہ لے لو) ۔ (2) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے علی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فانفروا ثبات “ سے مراد ہے علیحدہ علیحدہ ہو کر چھوٹے لشکروں کی صورت میں نکلو۔ ” او انفروا جمیعا “ یا سب اکٹھے نکلو۔ (3) الطستی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے نافع بن ازرق نے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول ” فانفروا اثبات “ کے بارے میں بتائیے انہوں نے فرمایا اس سے مراد ہے دس اور جو اس سے اوپر ہو پھر پوچھا کیا عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے عمرو بن کلثوم ثعلبی کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا ؟ فاما یوم خشیتنا علیہم فتصبح خیلنا عصبا ثباتا ترجمہ : ان کے خلاف ہماری جنگ کے دن ہمارے گھوڑے دس دس کی ٹولیوں میں نکلتے ہیں۔ (4) ابو داؤد نے اپنی ناسخ میں وابن المنذر وابن ابی حاتم و بیہقی نے اپنی سنن میں عطا کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سورة نساء میں (یہ آیت) ” خذوا حذرکم فانفروا اثبات او انفروا جمیعا “ سے مراد ہے جماعت بنا کر بھی اور متفرق بھی نکلو یا سب نکلو پھر فرمایا اس حکم کو اس آیت ” وما کان المؤمنون لینفروا کافۃ “ (الانعام آیت 141) نے منسوخ کردیا۔ (5) عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ ” ثبات “ سے مراد ہے چھوٹی جماعتیں۔ (6) ابن جریر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فانفروا ثبات “ سے مراد ہے جماعت یا گروہ (پھر فرمایا) ” او انفروا جمیعا “ یعنی نبی ﷺ کے ساتھ سب نکلو۔ (7) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” او انفروا جمیعا “ یعنی جب نبی ﷺ روانہ ہوں تو کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ پیچھے رہ جائے۔ (8) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے لفظ آیت ” وان منکم لمن لیبطئن “ سے لے کر ” فسوف نؤتیہ اجرا عظیما “ تک کے بارے میں روایت کیا کہ جو کچھ ان کے درمیان ہے وہ منافق کے بارے میں ہے۔ (9) ابن المنذر وابن ابی حاتم نے مقاتل بن حبان (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وان منکم لمن لیبطئن “ کے بارے میں یہ بات ہم کو پہنچی ہے کہ اس سے مراد عبد اللہ بن ابی سلول منافقین کا سردار مراد ہے، اور ” لیبطئن “ یعنی تم میں سے وہ بھی ہیں جو جہاد سے بیٹھ رہتے ہیں ” فان اصابتکم مصیبۃ “ یعنی جب کوئی تکلیف دشمن کی طرف سے یا زندگی میں مشقت پہنچتی ہے (پھر کہتا) ” قال قد انعم اللہ علی اذ لم اکن معہم شھیدا “ کہ (اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا) میں ان کے ساتھ حاضر نہ تھا اگر ان کے ساتھ ہوتا تو مجھے بھی ویسی ہی تکلیف پہنچتی جیسی ان کو تکلیف پہنچی (پھر فرمایا) لفظ آیت ” ولئن اصابکم فضل من اللہ “ یعنی اگر فتح ہوجاتی یا غنیمت یا رزق میں وسعت مل جاتی (پھر) فرمایا ” لیقولن “ یعنی وہ منافق کہتا اور وہ نادم ہوتا پیچھے رہ جانے میں ” کان لم تکن بینکم وبینہ مودۃ “ یعنی وہ کہتا تھا گویا کہ تمہارے اور اس کے درمیان کوئی محبت کا فرشتہ موجود نہیں اور وہ کہتا ہے ” یلیتنی کنت معہم فافوز فوزا عظیما “ یعنی تو وہ کہتا ہے ہائے کاش میں ان کے ساتھ ہوتا اور غنیمت سے وافر حصہ پاتا۔ (10) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن حاتم نے قتادہ (رح) وسلم سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وان منکم لمن لیبطئن “ سے مراد ہے کہ تم میں سے وہ لوگ بھی ہیں جو جہاد سے اور اللہ کے راستے میں جنگ کرنے سے گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں لفظ آیت ” فان اصابتکم مصیبۃ قال قد انعم اللہ علی اذ لم اکن معہم شھیدا “ فرمایا یہ جھوٹ بولنے والے کا قول ہے (اور) ” ولئن اصابکم فضل من اللہ لیقولن “ فرمایا یہ قول ہے حسد کرنے والے کا۔ (11) ابن جریر وابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وان منکم لمن لیبطئن “ سے مراد ہے کہ منافق جو مسلمان کے جہاد فی سبیل اللہ سے دیر لگاتا ہے ” فان اصابتکم مصیبۃ “ یعنی اگر تم کو مصیبت پہنچ جائے کسی دشمن سے مسلمان کے قتل ہوجانے سے تو ” قال قد انعم اللہ علی اذ لم اکن معہم شھیدا “ فرمایا یہ قول ہے دوسرے کی مصیبت پر خوش ہونے والے کا (اور) ” ولئن اصابکم فضل من اللہ “ کہ اگر مسلمان غالب ہوتے اپنے دشمنوں پر اور ان کو غنیمت کا مال مل جاتا ” لیقولن “ فرمایا یہ قول حاسد کا ہے۔ (12) ابن جریر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” الذین یشترون الحیوۃ الدنیا بالاخرۃ “ کہ وہ بیچ ڈالتے ہیں دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے میں۔ مجاہد غازی ہو یا شہید اجر کا مستحق ہے (13) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ” فیقتل “ یعنی وہ مشرکوں سے لڑتے ہیں لفظ آیت ” فی سبیل اللہ “ یعنی اللہ کی اطاعت میں لفظ آیت ” ومن یقاتل فی سبیل اللہ فیقتل “ یعنی وہ اس کو قتل کر دے ” او یغلب “ یعنی دشمن غلبہ پالے مشرکین میں سے ” فسوف نؤتیہ اجر عظیما “ یعنی وافر بدلہ جنت میں پھر قاتل اور مقتول مسلمان میں سے مشرکین کے جہاد میں دونوں اجر میں شریک ہوں گے۔ (14) ابن جریر (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لا تقاتلون فی سبیل اللہ والمستضعفین “ یعنی کمزوروں کی راہ میں کیوں جہاد نہیں کرتے۔ (15) ابن جریر وابن ابی حاتم نے عوفی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” المستضعفون “ سے مراد مسلمانوں کے لوگ جو مکہ میں تھے وہ وہاں سے کہیں نکل سکتے ہیں۔ (16) البخاری نے ابن عباس ؓ سے روایت کہ میں اور میری ماں ضعیف لوگوں میں سے تھے۔ (17) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ ایمان والوں کو حکم کیا گیا کہ وہ ان ضعیف لوگوں کی طرف سے قتال کریں جو مکہ میں تھے۔ (18) ابن ابی حاتم نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ربنا اخرجنا من ھذہ القریۃ الظالم اھلھا “ میں قریۃ سے مراد مکہ ہے۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ (19) ابن ابی حاتم نے مجاہد اور عکرمہ (رح) سے دونوں حضرت سے روایت کیا کہ ” واجعل لنا من لدنک نصیرا “ سے مراد ہے حجت ثابت۔ (20) ابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا لفظ آیت ” والذین کفروا یقاتلون فی سبیل اللہ الطاغوت “ سے مراد ہے شیطان کے راستے میں۔ (21) عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب تم شیطان کو دیکھو تو اس سے خوف نہ کرو اور اس پر حملہ کر دو (کیونکہ فرمایا) ” ان کید الشیطن کان ضعیفا “ مجاہد (رح) نے فرمایا کہ شیطان مجھے نماز میں دکھائی پڑتا ہے تو میں ابن عباس کا قول یاد کرلیتا ہوں اور اس پر حملہ کردیتا ہوں تو وہ مجھ سے بھاگ جاتا ہے۔
Top