Dure-Mansoor - An-Nisaa : 78
اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَةٍ١ؕ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ یَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ١ۚ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِكَ١ؕ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ١ؕ فَمَالِ هٰۤؤُلَآءِ الْقَوْمِ لَا یَكَادُوْنَ یَفْقَهُوْنَ حَدِیْثًا
اَيْنَ مَا : جہاں کہیں تَكُوْنُوْا : تم ہوگے يُدْرِكْكُّمُ : تمہیں پالے گی الْمَوْتُ : موت وَلَوْ كُنْتُمْ : اور اگرچہ تم ہو فِيْ بُرُوْجٍ : برجوں میں مُّشَيَّدَةٍ : مضبوط وَاِنْ : اور اگر تُصِبْھُمْ : انہیں پہنچے حَسَنَةٌ : کوئی بھلائی يَّقُوْلُوْا : وہ کہتے ہیں هٰذِهٖ : یہ مِنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس (طرف) وَاِنْ : اور اگر تُصِبْھُمْ : انہیں پہنچے سَيِّئَةٌ : کچھ برائی يَّقُوْلُوْا : وہ کہتے ہیں هٰذِهٖ : یہ مِنْ : سے عِنْدِكَ : آپ کی طرف سے قُلْ : کہ دیں كُلٌّ : سب مِّنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس (طرف) فَمَالِ : تو کیا ہوا هٰٓؤُلَآءِ : اس الْقَوْمِ : قوم لَا يَكَادُوْنَ : نہیں لگتے يَفْقَهُوْنَ : کہ سمجھیں حَدِيْثًا : بات
تم جہاں بھی ہو تم کو موت پکڑ لے گی، اگرچہ تم مضبوط قلعوں کے اندر ہو اور اگر ان کو کوئی اچھی حالت پیش آجاتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے ہے، اور اگر ان کو کوئی بری حالت پیش آجاتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تیری وجہ سے ہے، آپ فرما دیجئے کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے، سو ان لوگوں کو کیا ہوا کہ بات سمجھنے کے قریب بھی نہیں جاتے
(1) ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” این ما تکونوا “ یعنی زمین میں تم جہاں کہیں بھی ہو۔ (2) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولو کنتم فی بروج مشیدۃ “ یعنی مضبوط محلات میں۔ (3) ابن المنذر وابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فی بروج مشیدۃ “ سے مراد ہے ایسے محلات جن پر پلستر کیا گیا ہو۔ (4) ابن جریر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فی بروج مشیدۃ “ سے مراد آسمان دنیا میں بنائے ہوئے سفید محل۔ (5) ابن جریر وابن ابی حاتم نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ ” فی بروج مشیدۃ “ سے آسمان میں محلات مراد ہیں۔ (6) عبد بن حمید وابن المنذر نے سفیان (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ وہ دیکھیں گے کہ یہ محل آسمان میں ہیں۔ (7) ابن جریر وان ابی حاتم وابو نعیم نے الحلیہ میں مجاہد (رح) سے روایت کیا نبی ﷺ کی بعثت سے پہلے ایک عورت تھی اس کا ایک خادم تھا اس عورت نے ایک بچی کو جنم دیا اس نے اپنے خادم سے کہا جاؤ اور میرے لئے آگ کا ایک انگارہ لے آؤ خادم چلا تو اچانک دو آدمی دروازہ پر کھڑے ہوئے تھے ان میں سے ایک نے اپنی ساتھی سے کہا اس عورت نے کیا جنا ؟ اس نے کہا ایک بچی جنی ہے ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا یہ بچی نہیں مرے گی یہاں تک کہ سو مردوں سے بدکاری کرے گی اور پھر خادم سے شادی کرے گی اور اس کی موت مکڑی سے آئے گی خادم نے کہا لیکن اللہ کی قسم میں تم دونوں کی بات کو ضرور جھٹلاؤں گا اور جو اس کے ہاتھ میں تھا اس کو پھینک دیا۔ اور ایک چھری لے کر اس کو تیز کیا اور کہا کیا یہ وہ خیال کرتے ہیں کہ میں اس بچی سے شادی کروں گا جب وہ سو مردوں سے بدکاری کرچکی ہوگی تو اس نے چھری اس کے سینہ میں گھونپ دی پھر چھری پھینک دی اور یہ گمان کیا کہ اس نے اس کو قتل کردیا ہے بچی نے چیخ ماری اس کی ماں کھڑی ہوئی اس کے پیٹ کو دیکھا جو پھٹ چکا تھا تو اس نے اس کو سی دیا اور دوا کرتی رہی یہاں تک کہ وہ ٹھیک ہوگئی اور وہ خادم سر پٹ دوڑا اور جب تک اللہ پاک نے چاہا وہ ٹھہرا رہا۔ خادم کو مال (کثیر) مل گیا تو اس نے ارادہ کیا تو وہ اپنا علاقہ دیکھے کہ کون ان میں سے مرگیا اور کون ان میں سے باقی ہے۔ وہ ایک بڑھیا کے پاس آیا اور کہا کہ میں ایک خوبصورت عورت کو اس شہر میں چاہتا ہوں کہ میں اس سے جماع کروں اور اس کو میں (بہت مال) عطا کروں۔ وہ بڑھیا اسی عورت کے پاس گئی (جس بچی کو اس نے چھری سے چاک کیا تھا) اور وہ اس شہر میں سب سے زیادہ خوبصورت لڑکی تھی بوڑھی نے اس کو اس مرد کی طرف بلایا اور اس سے کہا کہ تو اس سے بہت زیادہ مال پائے گی لڑکی نے انکار کیا اور بولی وہ برا کام ہے جو گزشتہ زمانہ میں مجھ سے ہوتا رہا۔ لیکن آج کے دن مجھے یہ مناسب لگا کہ میں ایسا کام نہ کروں وہ بڑھیا اس آدمی کے پاس واپس آئی اور اس کو یہ بات بتائی تو اس نے کہا اس کو میری طرف سے نکاح کا پیغام دے دے اس نے پیغام دیا اور اس سے شادی ہوگئی۔ مرد اس عورت سے شادی کر کے بہت خوش ہوا جب مرد اس عورت سے مانوس ہوگیا تو اپنا واقعہ سنایا اور کہنے لگی اللہ کی قسم ! اگر تو سچا ہے تو تحقیق میری ماں نے تیری بات مجھ کو بتادی۔ اور بلاشبہ میں وہی لڑکی ہوں اس نے کہا تو ہے ؟ کہنے لگی میں ہوں اس نے کہا اللہ کی قسم ! ان دونوں آدمیوں نے مجھ سے سچ کہا تھا۔ اللہ کی قسم تو نے سو مردوں سے بدکاری بھی کی ہوگی اور میں وہی خادم ہوں اور میں نے تجھ سے شادی کی ہے اور تیری بات بھی پوری ہوگئی اور تیر موت ضرور مکڑی سے ہوگی اس عورت نے کہا اللہ کی قسم ! مجھ سے یہ فعل صادر ہوتا ہے۔ لیکن میں نہیں جانتی کہ وہ سو تھے یا تھوڑے تھے یا زیادہ تھے اس نے کہا اللہ کی قسم ایک کم ہوگا اور نہ ایک زیادہ ہوگا پھر وہ بستی کے کنارے چلا گیا وہاں اس نے گھر بنوایا مکڑی سے ڈرتے ہوئے جب تک اللہ نے چاہا وہ وہاں رہا یہاں تک کہ جب موت کو وقت قریب آیا تو اس نے دیکھا کہ ایک مکڑی اس کے گھر کی چھت میں ہے جبکہ وہ عورت اس کے ساتھ تھی اس نے کہا اللہ کی قسم میں مکڑی کو گھر کی چھت میں دیکھ رہا ہوں کہنے لگی یہ وہی ہے جس کے بارے میں تو خیال کرتا ہے کہ یہ مجھ کو مار ڈالے گی اللہ کی قسم میں اس کو مار ڈالوں گی پہلے اس سے کہ یہ مجھے مار ڈالے وہ آدمی کھڑا ہوا اس کو تلاش کیا اور اس کو نیچے گرا دیا وہ کہنے لگا اللہ کی قسم ! میرے علاوہ اس کو کوئی نہیں مارے گا اپنی انگلی کو اس پر رکھ دیا اور اس کے سر کو کچل دیا زہر اڑا یہاں تک کہ ناخن اور گوشت کے درمیان واقع ہوگیا اس کا پاؤں سیاہ ہوگیا اور وہ مرگئی اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر یہ حکم نازل فرمایا جب وہ مبعوث ہوا یعنی لفظ آیت ” این ما تکونوا یدرککم الموت ولو کنتم فی بروج مشیدۃ “۔ (8) عبد الرزاق اور ابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ” وان تصبہم حسنۃ “ سے نعمت مراد ہے اور ” وان تصبہم سیءۃ “ سے مصیبت مراد ہے (اور فرمایا) ” قل کل من عند اللہ “ یعنی نعمتیں اور مصائب (اللہ کی طرف سے ہیں) ۔ (9) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ ” وان تصبہم حسنۃ یقولوا ھذہ من عندہ اللہ وان تصبہم سیءۃ یقولوا ھذہ من عندک “ یعنی یہ خوشحالی اور تنگدستی کے بارے میں اور ” ما اصابک من حسنۃ فمن اللہ وما اصابک من سیءۃ فمن نفسک “ یہ نیکیوں اور برائیوں کے بارے میں ہے (یعنی وہ نیکیوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے اور برائیوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ تیری وجہ سے ہے) ۔ (10) ابن جریر نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وان تصبہم حسنۃ “ کہ یہ آیات جنگ کی حالت میں نازل ہوئیں (پھر فرمایا) لفظ آیت ” قل کل من عند اللہ “ یعنی فتح اور شکست (اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے) ۔ (11) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے علی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” قل کل من عند اللہ “ یعنی نیکی اور برائی اللہ کی طرف سے ہے لیکن نیکی کہ یہ اللہ تعالیٰ کا تجھ پر انعام ہے اور برائی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تجھے آزمائش میں ڈالا اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول لفظ آیت ” ما اصابک من حسنۃ فمن اللہ “ یعنی بدر کے دن اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی اور مال غنیمت حاصل ہوا (اور فرمایا) ” وما اصابک من سیءۃ “ یعنی جو کچھ آپ کو احد کے دن تکلیف پہنچی آپ کا چہرہ مبارک زخمی ہوا اور سامنے کے دانت ٹوٹ گئے۔ (12) ابن ابی حاتم نے مطرف بن عبد اللہ (رح) سے روایت کیا کہ تم جو تقدیر کو جاننا چاہتے ہو تو تمہارے لئے وہ آیت کافی ہے۔ جو سورة نساء کی ہے لفظ آیت ” ما اصابک من حسنۃ “ (الآیہ ) ۔ (13) ابن ابی حاتم نے عطیہ العوفی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فمن اللہ وما اصابک من سیءۃ فمن نفسک “ یعنی اس سے احد کا دن مراد ہے جو مصیبت تم کو پہنچی وہ تمہارے گناہ کی وجہ سے تھی اور میں نے اس کو تم پر مقدر کردیا تھا۔ (14) سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابو صالح (رح) وسلم سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وما اصابک من سیءۃ فمن نفسک “ اور میں نے تجھ پر اس کو مقدر کردیا تھا۔ (15) عبد بن حمید وابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وما اصابک من سیءۃ فمن نفسک “ یعنی اے ابن آدم یہ تیرے گناہ کی سزا ہے اور ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ اللہ کے نبی ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ کسی آدمی کو (کوئی تکلیف مثلاً ) لکڑی کی خراش قدم کی ٹھوکر یا رگ کا پھڑکنا ہوتا ہے تو اس کے گناہ کی وجہ سے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ جو معاف فرمادیتے ہیں اس کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ (16) ابن جریر نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وما اصابک من سیءۃ فمن نفسک “ یعنی تیرے گناہ کی وجہ سے جیسا کہ احد والوں کے لئے فرمایا لفظ آیت ” اولما اصابتکم مصیبۃ قد اصبتم مثلیھا قلتم انی ھذا قل ھو من عند انفسکم “ (سورۃ آل عمران آیت 165) یعنی تمہارے گناہوں کی وجہ سے تم کو یہ مصیبت پہنچی۔ (17) ابن المنذر وابن الانباری نے مصاحف میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ابی بن کعب اور عبد اللہ بن مسعود ؓ کی قرات اس طرح ہے لفظ آیت ” ما اصابک من حسنۃ فمن اللہ وما اصابک من سیءۃ فمن نفسک وانا کتبتھا علیک “۔ (18) ابن المنذر نے مجاہد کے طریق سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ یوں پڑھتے تھے لفظ آیت ” وما اصابک من سیءۃ فمن نفسک وانا کتبتھا علیک “ مجاہد (رح) نے فرمایا اور اسی طرح ابی اور ابن مسعود کی قرات میں ہے۔
Top