Dure-Mansoor - An-Nisaa : 87
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ لَیَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَا رَیْبَ فِیْهِ١ؕ وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِیْثًا۠   ۧ
اَللّٰهُ : اللہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : عبادت کے لائق اِلَّا ھُوَ : اس کے سوا لَيَجْمَعَنَّكُمْ : وہ تمہیں ضرور اکٹھا کرے گا اِلٰى : طرف يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت لَا رَيْبَ : نہیں شک فِيْهِ : اس میں وَمَنْ : اور کون اَصْدَقُ : زیادہ سچا مِنَ اللّٰهِ : اللہ سے حَدِيْثًا : بات میں
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ضرور بالضرور قیامت کے دن تمہیں جمع فرمائے گا جس میں کوئی شک نہیں، اور اللہ سے زیادہ کس کی بات سچی ہوگی۔
سلام کا جواب دینا واجب ہے (1) احمد نے الزھد میں وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والطبرانی وابن مردویہ نے (حسن سند کے ساتھ) سلمان فارسی ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا السلام علیک یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا وعلیک السلام ورحمۃ اللہ پھر دوسرا آدمی آیا اور کہا السلام علیک یا رسول ورحمۃ اللہ ! آپ نے فرمایا وعیک السلام ورھمۃ اللہ وبرکاتہ پھر اور آدمی آیا اور کہا السلام علیک ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ نے جواب ارشاد فرمایا وعلیک اس آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے نبی آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں آپ کے پاس فلاں اور فلاں آیا انہوں نے آپ پر سلام کیا تو آپ نے ان دونوں کو زیادہ کلمات کے ساتھ جواب دیا آپ نے فرمایا تو نے ہمارے لئے کوئی چیز نہیں چھوڑی اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” واذا حییتم بتحیۃ فحیوا باحسن منھا اور دوھا “ فرمایا ہم نے انہی کلمات کو تجھ پر لوٹا دیا۔ (2) بخاری نے الادب المفرد میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا اور آپ مجلس میں تشریف فرما تھے اس نے کہا سلام علیک آپ نے فرمایا دس نیکیاں دوسرا آدمی گزرا تو اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ آپ نے فرمایا بیس نیکیاں پھر تیسرا آدمی گزرا اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ نے فرمایا تیس نیکیاں (اس کو ملیں گیں) ۔ (3) بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے آکر سلام کیا اور کہا السلام علیکم نبی ﷺ نے فرمایا دس نیکیاں دوسرا آیا اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ آپ نے فرمایا بیس نیکیاں تیسرا آیا تو اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ نے فرمایا تیس نیکیاں ملیں گی۔ سلام کے ہر لفظ پر دس نیکیاں ملتی ہیں (4) بیہقی نے سہل بن حنیف ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص السلام علیکم کہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے دس نیکیاں لکھ دیتے ہیں اور اگر السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے بیس نیکیاں لکھ دیتے ہیں اور اگر السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے تیس نیکیاں لکھ دیتے ہیں۔ (5) احمد ودارمی وابو داؤد ترمذی نے اس کو حسن کہا و نسائی و بیہقی نے عمران بن حصین ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا السلام علیکم آپ نے اس کا جواب دیا اور فرمایا (دس نیکیاں) پھر دوسرا آدمی آیا اور اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ آپ نے اس کا جواب دیا پھر وہ بیٹھ گیا آپ نے فرمایا بیس پھر تیسرا آدمی آیا اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ نے اس کا جواب دیا پھر وہ بیٹھ گیا آپ نے فرمایا تیس نیکیاں۔ (6) ابو داؤد و بیہقی نے معاذ بن انس جہنی ؓ سے روا یت کیا کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور معنی میں روایت کیا اور وہ یہ الفاظ زیادہ کئے کہ پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ آپ نے فرمایا چالیس نیکیاں پھر فرمایا اسی طرح فضائل ہوتے ہیں۔ (7) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واذا حییتم بتحیۃ فحیوا باحسن منھا اور دوھا “ یعنی تم پر کوئی سلام کرے تو تو کہہ وعلیک السلام ورحمۃ اللہ یا جیسے اس نے کہا ویسے ہی کہہ دو ۔ (8) ابن جریر وابن المنذر نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واذا حییتم بتحیۃ فحیوا باحسن منھا اور دوھا “ یہ سب (سلام) اہل اسلام میں ہیں۔ (9) بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ جب کوئی آدمی کسی کو سلام کرے تو اس کو لوٹا دو جیسے اس نے کہا اگر وہ کہتا ہے السلام علیکم تو اللہ کا بندہ کہے السلام علیکم۔ (10) بیہقی نے عروہ بن زبیر (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے ان کو سلام کیا اور کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عروہ نے کہا کیا تو نے ہمارے لئے کچھ نہیں چھوڑا کیونکہ سلام وبرکاتہ پر ختم ہوجاتا ہے۔ (11) بخاری نے الادب المفرد میں سالم (رح) سے روایت کیا کہ جو عبد اللہ بن عمر کے غلام تھے ابن عمر کو جب کوئی سلام کرتا تو آپ زیادہ الفاظ سے جواب دیتے میں آپ کے پاس آیا اور میں نے کہا السلام علیکم تو انہوں نے فرمایا السلام علیکم ورحمۃ اللہ پھر میں دوسری مرتبہ آیا میں نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ تو انہوں نے فرمایا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پھر میں تیسری مرتبہ آیا تو میں نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ نے فرمایا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ وطیب صلواتہ۔ (12) بیہقی نے المبارک میں فضالہ کے طریق سے حسن (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فحیوا باحسن منھا “ کہ یعنی جب تیرا مسلمان بھائی تجھ کو سلام کرے اور کہے السلام علیک تو تو کہہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ لفظ آیت ” اور دوھا “ اگر تو اسے السلام علیک ورحمۃ اللہ نہیں کہتا تو وہی الفاظ اس پر لوٹا دے جیسے اس نے کہا السلام علیکم اور صرف وعلیک نہ کہہ۔ (13) ابن المنذر نے یونس بن عبید کے طریق سے حسن (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ لفظ آیت ” باحسن منھا “ مسلمانوں کے لئے ہے ” اور دوھا “ اہل کتاب کے لئے ہے اور حسن نے فرمایا یہ احکام مسلمانوں کے لئے ہے۔ (14) ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جو شخص تجھ پر سلام کرے اللہ کی مخلوق میں سے تو اس کو جواب دے دو اگرچہ وہ یہودی یا نصرانی یا مجوسی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” واذا حییتم بتحیۃ فحیوا باحسن منھا اور دوھا “۔ (15) بخاری نے الادب المفرد میں ابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ فرعون مجھے یہ کہتا کہ اللہ تجھ میں برکت دے تو میں بھی کہتا ہوں اور تجھ میں بھی اللہ تعالیٰ برکت دے۔ (16) بخاری نے الادب المفرد میں وابن جریر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ سلام کرنا مستجب ہے اور جواب دینا فرض ہے۔ (17) ابن ابی حاتم وابن مردویہ اور بیہقی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا السلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو زمین میں رکھا اسے باہم پھیلایا جب کوئی آدمی کسی قوم سے گزرے تو سلام کرے تو وہ لوگ اس کا جواب دیں سلام کرنے والے کو ایک درجہ فضیلت حاصل ہے کیونکہ اس نے ان کو سلام یاد دلایا۔ اگر وہ اسے جواب نہ دیں تو اسے وہ جواب دے گا جو ان میں سے بہتر اور افضل ہے۔ امام بخاری (رح) نے الادب المفرد میں ابن مسعود ؓ سے موقوف روایت نقل کی ہے۔ (18) بخاری نے الادب المفرد میں انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ السلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر رکھا آپس میں اس کو پھیلاؤ۔ (19) بیہقی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر رکھا۔ آپس میں پھیلاؤ۔ (20) بیہقی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ السلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے اگر تو اس کی کثرت کرے گا تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی کثرت کرے گا۔ ” السلا “ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ہے (21) ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ السلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی مخلوق میں رکھ دیا جب کوئی مسلمان کو سلام کرے تو اس پر لازم ہے کہ اس کا ذکر اچھے طریقے سے کرے۔ (22) ابن مردویہ نے عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آپس میں سلام کو پھیلاؤ کیونکہ یہ اہل جنت کا سلام ہے۔ جب کوئی آدمی کسی آدمی کسی آدمی پر گزرے تو ان پر سلام کرے تو اس کے لئے ان پر ایک درجہ ہوگا اگر وہ اس کو جواب دیں اگر وہ اس کا جواب نہ دیں تو ان سے بہتر مخلوق فرشتے اس کا جواب دیں گے۔ (23) الحکیم الترمذی نے نوادر الاصول میں ابوبکر صدیق ؓ سے روایت کیا کہ سلام کرنا اللہ کی امان ہے زمین میں۔ (24) الحکیم الترمذی نے ابو امامہ (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص سلام میں پہل کرے تو وہ افضل ہے اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک۔ (25) بخاری نے الادب میں وابن مردویہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہود نے تم سے کسی چیز میں حسد نہیں کیا جو حس انہوں نے تم سے سلام اور آمین کے بارے میں کیا اور ابن مردویہ کے الفاظ یہ ہیں فرمایا کہ یہود حسد کرنے والی قوم ہے اور انہوں نے مسلمان پر سلام سے بڑھ کر کسی چیز سے حسد نہیں کیا اللہ تعالیٰ نے ہم کو دنیا میں عطا فرمایا اور وہ قیامت کے دن جنت والوں کا تحفہ ہے اور اسی طرح امام کے پیچھے آمین کہنے پر بھی انہوں نے حسد کیا۔ (26) البیہقی نے حارث بن شریح ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے جب اس سے ملاقات کرے تو سلام کا اس طرح جواب دے جیسا اس نے سلام کیا یا اس سے بہتر کوئی کلمات کہے۔ جب کوئی اس سے مشورہ مانگے تو اس کی خیر خواہی کرے اور جب وہ اس سے اپنے دشمنوں پر مدد مانگے تو مدد کرے اور جب وہ راستے کے بارے میں پوچھے تو اس کے لئے سہولت عطا کرے اور اس کے لئے وضاحت کر دے اور جب وہ کسی سے دشمن پر حملہ کرنے کے لئے کہے تو اس پر حملہ کرے اور جب وہ کسی مسلمان کے خلاف غارت گری کا مطالبہ کرے تو اس کی مدد نہ کرے اور جب وہ ڈھال مانگے تو اس کو عاریت پردے دے اور اس سے ماعون کو نہ روکے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی ! ماعون کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا عون میں پتھر پانی اور لوہا شامل ہے عرض کیا لوہا کونسا ہے ؟ فرمایا تانبے کی دیگچی، لوہے کا کلہاڑا، جس سے تم محنت مزدوری کرتے ہو پھر عرض کیا یہ پتھر کیا ہے فرمایا پتھر کی دیگچی۔ (27) البیہقی نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب دو مؤمن آپس میں ملیں تو ان دونوں میں سے ہر ایک سلام کرے اپنے ساتھ پر اور دونوں مصافحہ کریں ان دونوں پر سو رحمتیں نازل ہوں گی شروع کرنے والے کے لئے نوے اور مصافحہ کرنے والے کے لئے دس۔ (28) البیہقی نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا صدقہ میں سے یہ بھی ہے کہ تو لوگوں کو ہنستے ہوئے چہرہ کے ساتھ سلام کرے۔ (29) الطبرانی اور بیہقی نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے سلام کو ہماری امت کا سلام بنا دیا اور اہل ذمہ کے لئے امان بنا دیا۔ سلام کے اداب (30) البیہقی نے زید بن اسلم ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا سوار پیدل چلنے کو سلام کرے اور پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے پر اور تھوڑے زیادہ پر اور چھوٹا بڑے پر سلام کرے اور جب کسی قوم پر گزرے تو ان میں سے ایک نے سلام کردیا تو ان سب کی طرف سے کافی ہوجائے گا اور ایک بھی جواب دے دے تو ان سب کی طرف سے کافی ہوجائے گا۔ (31) حاکم نے (اس کو صحیح کہا) اور ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس سے گزرا اور وہ دو سرخ کپڑے پہنے ہوئے تھے اس نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے اس کو جواب نہیں دیا۔ (32) البیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ میں خط کا جواب حق سمجھتا ہوں جس طرح تم سلام کا جواب حق خیال کرتے ہو۔ (34) ابن ابی حاتم نے سفیان بن عینیہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واذا حییتم بتحیۃ فحیوا باحسن منھا “ کہ تم (اس حکم کو) صرف سلام میں خیال کرتے ہو (حالانکہ) یہ ہر چیز میں ہے جو تیرے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کر اور اس کا بدلہ دو اگر کوئی چیز نہ پاؤ (جو بدلہ دے سکو) تو اس کے لئے دعا کرو یا اس کے بھائیوں کے پاس اس کی تعریف کرو۔ (35) سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ان اللہ کان علی کل شیء “ کہ اللہ تعالیٰ سلام اور دوسری چیزوں کا گواہ ہے۔ (36) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” حسیبا “ سے مراد ” حفیظا “ حفاظت کرنے والا۔
Top