Dure-Mansoor - An-Nisaa : 88
فَمَا لَكُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْنِ وَ اللّٰهُ اَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوْا١ؕ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَهْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللّٰهُ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا
فَمَا لَكُمْ : سو کیا ہوا تمہیں فِي الْمُنٰفِقِيْنَ : منافقین کے بارے میں فِئَتَيْنِ : دو فریق وَاللّٰهُ : اور اللہ اَرْكَسَھُمْ : انہیں الٹ دیا (اوندھا کردیا) بِمَا كَسَبُوْا : اس کے سبب جو انہوں نے کمایا (کیا) اَتُرِيْدُوْنَ : کیا تم چاہتے ہو اَنْ تَهْدُوْا : کہ راہ پر لاؤ مَنْ : جو۔ جس اَضَلَّ : گمراہ کیا اللّٰهُ : اللہ وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّضْلِلِ : گمراہ کرے اللّٰهُ : اللہ فَلَنْ تَجِدَ : پس تم ہرگز نہ پاؤ گے لَهٗ : اس کے لیے سَبِيْلًا : کوئی راہ
سو منافقین کے بارے میں تم کو کیا ہوا کہ وہ دو گروہ بن گئے اور اللہ نے ان کے کرتوتوں کی وجہ سے انہیں الٹا پھیر دیا، کیا تم چاہتے ہو کہ اسے ہدایت پر لے آؤ جسے اللہ نے گمراہ کردیا اور جسے اللہ گمراہ کر دے سو تو اس کے لئے کوئی راستہ نہ پائے گا
(1) الطیالسی وابن ابی شیبہ واحمد وعبد بن حمید و بخاری ومسلم و ترمذی و نسائی وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والطبرانی والبیہقی نے دلائل میں زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ احد کی طرف نکلے کچھ لوگ لوٹ آئے جو آپ کے ساتھ نکلے تھے اور رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی ان کے بارے میں دو جماعتیں ہوگئیں ایک جماعت وہ تھی جو کہتی تھی کہ ہم ان سے قتال کریں گے اور ایک جماعت کہتی تھی ہم قتال نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ” فما لکم فی المنفقین فئتین “ اتاری رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مدینہ منورہ پاکیزہ شہر ہے اور یہ میل کچیل کو دور کردیتا ہے جیسا کہ آگ چاندی کی میل کو دور کردیتی ہے۔ (2) سعید بن منصور وابن المنذر وابن ابی حاتم نے عبد العزیز بن محمد کے طریق سے زید بن اسلم سے اور انہوں نے سعد بن معاذ انصاری ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت ” فما لکم فی المنفقین فئتین واللہ ارکسہم بما کسبوا “ ہمارے بارے میں نازل ہوئی رسول اللہ ﷺ نے خطبہ فرمایا جو مجھے اذیت دیتا ہے کون مجھے اس سے چھٹکارا دلائے گا اور کون اس کو روکے گا جو جمع کرتا ہے اپنے گھر میں مجھے اذیت دینے والوں کو۔ سعد بن معاذ کھڑے ہوئے اور کہا اگر وہ ہم میں سے ہے تو ہم اس کو قتل کردیں گے اور اگر وہ ہمارے بھائی خزرج میں سے ہے آپ ہم کو حکم دیں گے تو ہم آپ کی اطاعت کریں گے سعد بن عبادہ ؓ کھڑے ہوئے اور کہا اے ابن معاذ تو منافق ہے تو منافقوں کو پسند کرتا ہے۔ محمد بن مسلمہ کھڑے ہوئے اور کہا اے لوگوں چپ ہوجاؤ ہمارے درمیان رسول اللہ موجود ہیں وہ ہم کو حکم دیں گے تو ہم آپ کے حکم کو نافذ کریں گے اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” فما لکم فی المنفقین فئتین (الآیہ) ۔ (3) ابن جریر وابن ابی حاتم نے عون کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک قوم مکہ میں تھی انہوں نے زبانی اسلام قبول کرلیا تھا جبکہ وہ مدد کرتے تھے مشرکین کی جب وہ لوگ مکہ سے نکلے اپنی جانب کے لئے تو کہنے لگے اگر ہم محمد ﷺ کے صحابہ سے ملے تو ہم کو ان سے کوئی خطرہ نہیں جب مؤمنین کو ان کے بارے میں خبر ملی کہ وہ مکہ سے نکل چکے ہیں تو ایمان والوں میں سے ایک جماعت نے کہا ان خبیث لوگوں کی طرف نکلو اور ان کو قتل کردو اس لئے کہ وہ تمہارے دشمن کی مدد کرتے ہیں اور ایمان والون میں سے ودسری جماعت نے کہا سبحان اللہ ! تم قتل کرو گے ایسی قوم کو کہ جنہوں نے وہی بات کی جو تم نے بات کی تم ان کو اس لئے قتل کرتے ہو کہ انہوں نے ہجرت نہیں کی اور اپنے گھروں کو نہ چھوڑا تو تم حلال کرتے ہو ان کے خونوں کو اور ان کے مالوں کو اس طرح پھر صحابہ کی دو جماعتیں ہوگئیں اور رسول اللہ ﷺ ان کے درمیان موجود تھے آپ کیسی جماعت کو منع نہ کرتے تھے یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” فما لکم فی المنفقین فئتین “ سے لے کر ” حتی یھاجروا فی سبیل اللہ “ تک ! پھر فرمایا حتی کہ وہ کریں گے جیسا تم نے کہا ” فان تولوا “ اگر وہ ہجرت سے منہ پھیر لیں۔ منافقین کو مدینہ پسند نہیں (4) احمد نے ایسی سند سے جس میں انقطاع ہے عبد الرحمن بن عوف ؓ سے روایت کیا کہ عرب میں سے ایک قوم رسول اللہ ﷺ کے پاس مدینہ منورہ آئی وہ مسلمان ہوگئے لیکن ان کو مدینہ منورہ میں وبا یعنی بخار لگ گیا تو وہ واپس لوٹے اور مدینہ سے نکل گئے صحابہ کی ایک جماعت ان کے سامنے آئی اور ان سے کہا تم کس لئے لوٹے ہو انہوں نے کہا ہم کو مدینہ کی وبا لگ گئی تو صحابہ نے کہا رسول اللہ ﷺ کی ذات میں تمہارے لئے کوئی طریقہ موجود نہیں (کہ جس کی تم پیروی کرتے) ان کے بعض نے کہا یہ منافق ہوگئے اور بعض نے کہا منافق نہیں ہوئے یہ لوگ مسلمان ہیں اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا لفظ آیت ” فما لکم فی المنفقین فئتین “۔ (5) ابن ابی حاتم نے (وجہ آخر سے) عبد الرحمن ؓ سے روایت کیا کہ کچھ لوگوں نے عرب کی جماعتوں میں سے ہجرت کی رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے ایک جماعت سے ملے انہوں نے ان کو پہچان لیا اور ان سے پوچھا کیوں لوٹ رہے ہو ؟ انہوں نے صحابہ کے سامنے عذر پیش کیا صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے کہا ان کے لئے کہ تم منافق ہوگئے یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا یہاں تک کہ یہ بات ان میں پھیل گئی تو یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” فما لکم فی المنفقین فئتین “۔ (6) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فما لکم فی المنفقین فئتین “ سے وہ قوم مراد ہے جو مکہ سے نکلے اور مدینہ منورہ میں آئے وہ گمان کرتے تھے کہ وہ ہجرت کرنے والے ہیں پھر اس کے بعد دین سے پھرگئے انہوں نے نبی ﷺ سے اجازت لی مکہ کی طرف جانے کی تاکہ وہ اپنا سامان لے آئیں تجارت کریں ان کے بارے میں مومنین نے اختلاف کیا کچھ کہتے یہ منافق ہیں کچھ کہتے وہ مومن ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے نفاق کو بیان فرمایا اور ان کو قتل کا حکم فرمایا وہ اپنا سامان لے آئے اس سے مراد بلال بن عویمر اسلمی لیتے اس کا محمد ﷺ سے معاہدہ تھا اور اس کا سینہ تنگ ہوگیا کہ مومنین کو قتل کرے یا اپنی قوم کو قتل کرے اس کا یہ طرز عمل اس چیز کو رد کردیتا ہے کہ وہ اس سے مراد حلال لیتے اور اس کا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ معاہدہ تھا۔ (7) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے لفظ آیت ” فمالم فی المنفقین فئتین “ کے بارے میں روایت کیا کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ قریش میں سے دو آدمی تھے اور یہ دونوں مکہ میں قریش کے ساتھ رہتے تھے اور انہوں نے زبانی اسلام قبول کرلیا تھا اور نبی ﷺ کی طرف ہجرت نہیں کی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے کچھ لوگ چلے اور وہ مکہ کی طرف جارہے تھے بعض صحابہ نے کہا ان کے خون اور ان کے مال حلال ہیں اور بعض نے کہا تمہارے لئے حلال نہیں ہیں ان میں اختلاف ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے اتارا لفظ آیت ” فمالکم فی المنفقین فئتین “ یہاں تک پہنچے ” قومہم ولو شاء اللہ لسلطہم علیکم فلقتلوکم “۔ (8) ابن جریر نے معمر بن راشد (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے مکہ والوں میں سے کچھ لوگوں نے نبی ﷺ کو لکھا کہ وہ اسلام لے آئے یا ان کی طرف سے جھوٹ تھا صحابہ کرام ان سے ملے تو ان کے بارے میں اختلاف کیا ایک جماعت نے کہا ان کے خون حلال ہیں اور ایک جماعت نے کہا ان کے خون حرام ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ” فما لکم فی المنفقین فئتین “ (9) ابن جریر نے ضحاک (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ وہ لوگ تھے جو اللہ کے نبی ﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے اور یہ لوگ مکہ میں ٹھہر گئے اور ایمان کا اعلان کیا مگر ہجرت نہ کی تو ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے اصحاب نے اختلاف کیا رسول اللہ ﷺ کے کچھ صحابہ نے ان سے دوستی کی اور کچھ صحابہ نے ان کو دوستی سے برات کا اظہار کیا اور کہنے لگے یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر گھروں میں بیٹھے رہے اور ہجرت بھی نہیں کی اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو منافقین کہا ہے اور ایمان والے ان کی مدد سے آزاد ہوگئے اور ان کو حکم دیا کہ تم ان سے دوستی نہ کرو حتی کہ وہ ہجرت نہ کریں۔ (10) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ منافقین میں سے کچھ لوگوں نے مدینہ منورہ سے نکلنے کا ارادہ کیا اور انہوں نے مومنین سے کہا ہم مدینہ میں بیمار ہوگئے ہیں اور ہمارے پیٹ خراب ہوگئے ہیں شاید ہم کھلی فضا کی طرف نکل جائیں تو ٹھیک ہوجائیں تو پھر ہم واپس آجائیں گے بلاشبہ ہم جنگلوں میں رہنے والے ہیں وہ لوگ چلے گئے تو ان کے بارے میں نبی ﷺ کے اصحاب میں اختلاف ہوا۔ ایک جماعت نے کہا یہ اللہ کے دشمن منافق ہیں اور ہم اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہم کو اجازت دیں تو ہم ان سے جنگ کریں دوسری جماعت نے کہا نہیں ! بلکہ یہ ہمارے بھائی ہیں مدینہ منورہ کی آب وہوا نے ان کے پیٹ خراب کر دئیے ہیں تو وہ بیمار ہوگئے ہیں وہ کھلی فضا کی طرف نکل گئے جب ٹھیک ہوگئے تو واپس لوٹ آئیں گے اللہ نے یہ آیت اتاری لفظ آیت ” فما لکم فی المنفقین فئتین “۔ (11) عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں نے مشرکوں سے مال لیا اور یمامہ کی طرف سے تجارت کرنے کے لئے گئے ان کے بارے میں مسلمانوں میں اختلاف ہوا ایک جماعت نے کہا اگر ہم ان سے ملے تو ہم ان کو قتل کردیں گے اور جو کچھ ان کے ہاتھوں میں ہے وہ لے لیں گے اور ان کے بعض لوگوں نے کہا تمہارے لیے یہ ٹھیک نہیں ہے تمہارے بھائی ہیں جو تجارت کے لئے گئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” فما لکم فی المنفقین فئتین “۔ (12) ابن جریر نے ابن وھب کے طریق سے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فما لکم فی المنفقین فئتین “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ (منافق) ابن ابی کے بارے میں نازل ہوئی۔ جب اس نے حضرت عائشہ ؓ کے بارے میں نازیبا باتیں کی تھیں تو اس کے قول کی طرف (یہ آیت) نازل ہوئی لفظ آیت ” فلا تتخذوا منہم اولیاء حتی یھاجروا فی سبیل اللہ “ سعد بن معاذ نے فرمایا کہ میں اس کی دوستی سے اللہ اور اس کے رسول کی جانب برات کا اظہار کرتا ہوں وہ اس بات سے عبد اللہ بن ابی سلول کا ارادہ کررہے تھے۔ (13) ابن ابی حاتم نے زید بن عبد الرحمن بن زید بن اسلم سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا اس آدمی کے بارے میں تم کیا جانتے ہو جو رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کے درمیان ذلیل ورسوا ہوا ہو اور رسول اللہ ﷺ کے اہل و عیال کے بارے میں بری باتیں کہتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کو (یعنی عائشہ ؓ کو) بری کردیا۔ پھر اس کو پڑھا جو اللہ تعالیٰ نے عائشہ ؓ کی برات کے بارے میں نازل فرمایا۔ اور اسی بارے میں قرآن نازل ہوا۔ لفظ آیت ” فما لکم فی المنفقین فئتین “ (الآیہ) اس آیت کے بعد کوئی بھی اس بارے میں کوئی بات نہیں کرتا تھا۔ (14) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے علی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واللہ ارکسہم “ سے مراد ہے کہ اللہ ان کو گرا دیتا ہے۔ (15) ابن جریر وابن المنذر نے عطا خراسانی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ارکسہم “ یعنی اللہ نے ان کو رد کردیا۔ (16) الطستی نے اپنے مسائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق (رح) نے ان سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول ” ارکسہم “ کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے فرمایا ان کے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کو جہنم میں قید کردیں پوچھا کیا عرب کے لوگ اس سے واقف ہیں فرمایا کیا تو نے امیہ بن ابی صلت کا یہ شعر نہیں سنا۔ ارکسوا فی جھنم انہم کانوا عتاۃ یقولوا امینا وکذبا وزورا ترجمہ : ان کو محبوس کردیا گیا جہنم میں یقیناً وہ سرکش تھے کہ بکواس جھوٹ موٹ کہا کرتے تھے۔ (17) عبد الرزاق وابن جریر وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کہ لفظ آیت ” ارکسہم بما کسبوا “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال کے بدلے ان کو ہلاک کردیا۔ (18) ابن جریر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ ” ارکسہم “ یعنی (اللہ نے) ان کو گمراہ کردیا۔
Top