Dure-Mansoor - An-Nisaa : 95
لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَ الْمُجٰهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ١ؕ فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِیْنَ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَةً١ؕ وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى١ؕ وَ فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِیْنَ عَلَى الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًاۙ
لَا يَسْتَوِي : برابر نہیں الْقٰعِدُوْنَ : بیٹھ رہنے والے مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (مسلمان) غَيْرُ : بغیر اُولِي الضَّرَرِ : عذر والے (معذور) وَ : اور الْمُجٰهِدُوْنَ : مجاہد (جمع) فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِهِمْ : اور اپنی جانیں فَضَّلَ اللّٰهُ : اللہ نے فضیلت دی الْمُجٰهِدِيْنَ : جہاد کرنے والے بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِهِمْ : اور اپنی جانیں عَلَي : پر الْقٰعِدِيْنَ : بیٹھ رہنے والے دَرَجَةً : درجے وَكُلًّا : اور ہر ایک وَّعَدَ : وعدہ دیا اللّٰهُ : اللہ الْحُسْنٰي : اچھا وَ : اور فَضَّلَ : فضیلت دی اللّٰهُ : اللہ الْمُجٰهِدِيْنَ : مجاہدین عَلَي : پر الْقٰعِدِيْنَ : بیٹھ رہنے والے اَجْرًا عَظِيْمًا : اجر عظیم
جو مسلمان عذر والے نہیں ہیں، ان میں جو بیٹھ رہنے والے ہیں اور جو اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں برابر نہیں، جو لوگ اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرنے والے ہیں ان کو بیٹھے رہ جانے والوں پر اللہ نے بڑے درجہ کی فضیلت دی ہے اور سب سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ فرمایا اور اللہ نے فضیلت دی ہے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہ جانے والوں پر اجر عظیم عطا فرما کر
(1) ابن سعد وعبد بن حمید و بخاری و ترمذی وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم وابن الانباری نے مصاحف میں والبغوی نے اپنی معجم میں والبیہقی نے اپنی سنن میں براء بن عازب ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ” لا یستوی القعدون من المؤمنین “ نازل ہوئی تو نبی نے فرمایا فلان کو بلاؤ اور دوسرے لفظ میں یوں ہے زید کو بلاؤ وہ آئے اور ان کے ساتھ ایک دوات ایک تختی اور ایک کندھا تھا آپ نے فرمایا لفظ آیت ” لا یستوی القعدون من المؤمنین غیر اولی الضرر والمجھدون فی سبیل اللہ “ نبی اکرم ﷺ نے ابن ام کلثوم کو اپنا نائب بنایا انہوں نے عرض کیا رسول اللہ ! میں نابینا ہوں تو اس کی جگہ یہ آیت نازل ہوئی۔ لفظ آیت ” لا یستوی القعدون من المؤمنین غیر اولی الضرر والمجھدون فی سبیل اللہ “۔ معذورین پر جہاد فرض نہیں (2) ابن سعد واحمد وعبد بن حمید و بخاری ابو داؤد و ترمذی وابن جریر وابن المنذر وابو نعیم نے دلائل میں والبیہقی نے ابن شہاب (رح) کے طریق سے فرمایا کہ مجھ کو سہل بن سعد ساعدی نے بیان کیا کہ مروان بن حکم نے ان کو بتایا کہ زید بن ثابت ؓ نے ان کو بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو یہ لکھوایا لفظ آیت ” لا یستوی القعدون من المؤمنین غیر اولی الضرر والمجھدون فی سبیل اللہ “ ابن ام کلثوم آئے اور آپ مجھ لکھوا رہے تھے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں اگر جہاد کی طاقت رکھتا تو ضرورجہاد کرتا اور وہ نابینا تھے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ پر وحی فرمائی اور آپ کی ران میری ران پر تھی اور مجھ پر اتنا بوجھ پڑھا یہاں تک کہ مجھے خوف ہوا کہ میری ران ٹوٹ نہ جائے پھر آپ سے یہ کیفیت دور ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری ” لا یستوی القعدون من المؤمنین غیر اولی الضرر والمجھدون فی سبیل اللہ “ آخری آیت تک۔ ابن ام کلثوم نے فرمایا اور وہ نابینا آدمی تھے جب انہوں نے مجاہدین کی فضیلت کو سنا تو کہا یا رسول اللہ صلی کس طرح ہوگا جو مومنین میں سے جہاد کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ جب اس کی بات ختم ہوئی تو رسول اللہ ﷺ پر (دوبارہ) سکینہ چھا گیا آپ کی ران میری ران پر واقع ہوگئی دوسری مرتبہ بھی میں نے اس کا بوجھ پہلی مرتبہ کی طرح پایا پھر یہ کیفیت رسول اللہ ﷺ سے جاتی رہی تو آپ نے فرمایا : اے زید پڑھو تو میں نے پڑھا لفظ آیت ” لا یستوی القعدون من المؤمنین “ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ بھی لکھو ” غیر اولی الضرر “ اور زید نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس کو الگ نازل فرمایا میں نے اس آیت کے ساتھ ملا دیا اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے گویا میں اس کے الحاق کو مونڈھے کی ہڈی پر جہاں شگاف تھا دیکھ رہا ہوں۔ (4) ابن فہر نے کتاب فضائل مالک میں وابن عساکر نے عبد اللہ بن رافع (رح) سے روایت کیا کہ ہارون الرشید مدینہ منورہ میں آئے تو برمکی کو امام مالک کی طرف بھیجا اور ان سے (خلیفہ ہارون الرشید کی طرف سے پیغام دیتے ہوئے) کہا کہ میرے پاس وہ کتاب لے آئے جو آپ نے تصنیف کی ہے یہاں تک کہ آپ سے اس کو سن لوں امام ابن مالک نے برمکی سے کہا میرا ان کو سلام کہہ دیجئے اور ان سے کہہ دیجئے کہ علم کی زیارت کی جاتی ہے علم زیارت کے لئے نہیں آتا اور علم کے پاس آیا جاتا ہے وہ خود چل نہیں آتا برمکی ہارون کے پاس واپس گئے اور ان سے کہا اے امیر المومنین اہل عراق کو یہ بات پہنچے گی کہ آپ نے مالک کو پیغام بھیجا مگر اس نے آپ کی مخالفت کی اس پر سختی کیجئے تاکہ وہ آپ کے پاس آجائے اچانک امام مالک (امیر المومنین کے پاس) داخل ہوئے اور ان کے ساتھ کتاب نہیں تھی اور آپ سلام کرنے کے لئے تشریف لائے تھے اور فرمایا اے امیر المومنین ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ مقام آپ کے علم کی وجہ سے عطا فرمایا ہے آپ ان لوگوں میں سے پہلے فرونہ بنیں جو کہ علم کو گرائے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بھی آپ کو گرا دے میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو حسب ونسب سے تعلق نہیں رکھتے وہ علم کی تعظیم کرتے ہیں تم اس کے زیادہ مستحق ہو کہ تم حضور ﷺ کے عطا کردہ غلام کی عزت کرو امام مالک لگاتار ایسی باتیں کرتے رہے اور یہاں تک کہ ہارون رو پڑے پھر فرمایا فرمایا مجھے زہری نے خبر دی خارجہ ابن زید کی طرف سے کہ زید بن ثابت نے فرمایا میں نبی ﷺ کے سامنے ہڈی پر آیت لکھ رہا تھا۔ لفظ آیت ” لا یستوی القعدون من المؤمنین غیر اولی الضرر والمجھدون “ وابن ام مکتوم جو نبی ﷺ کے پاس بیٹھے تھے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے جہاد کی فضیلت میں نازل فرمایا اور میں نابینا آدمی ہوں کیا میرے لئے رخصت ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نہیں جانتا زید بن ثابت نے فرمایا میرا قلم (ابھی) خشک نہیں ہوا کہ نبی ﷺ کی غشی طاری ہوگئی اور آپ کی ران میری ران پر واقع ہوئی یہاں تک کہ قریب تھا کہ وحی کے بوجھ سے ٹوٹ جاتی پھر یہ کیفیت دور ہوئی تو آپ نے مجھ سے فرمایا اے زید لکھو لفظ آیت ” غیر اولی الضرر “ پس اے امیر المومنین ! اس ایک حرف کے لئے جبرئیل اور فرشتے پچاس ہزار سال کے سفر سے بھیجے گئے تاکہ وہ نبی ﷺ تک اسے پہنچائیں کیا مجھے یہ لائق نہیں کہ میں اس کی تعظیم کروں ؟ (5) ترمذی (نے اس کو حسن کہا) و نسائی وابن جریر وابن المنذر والبیہقی نے اپنی سنن میں مقسم کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (یہ آیت) ” لا یستوی القعدون من المؤمنین غیر اولی الضرر “ غزوہ بدر میں شریک نہ ہونے والوں اور شریک ہونے والوں کے بارے میں نازل ہوئی جب غزوہ بدر ہوا تو عبد اللہ بن حجش اور ابن مکتوم ؓ دونوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! ہم دونوں نے کہا یا رسول اللہ ! ہم دونوں نابینا ہیں کیا ہمارے لئے رخصت ہے ؟ تو (یہ آیت) نازل ہوئی لفظ آیت ” لا یستوی القعدون من المؤمنین غیر اولی الضرر “ اور اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو قاعدین پر ایک درجہ فضیلت عطا فرمائی۔ اور بیٹھنے والے بغیر عذر والے تھے (پھر فرمایا) لفظ آیت ” وفضل اللہ المجہدین علی القعدین اجرا عظمیا “ یعنی مجاہدوں نے معذوروں کے علاوہ گھر میں بیٹھے رہنے والوں پر کئی درجے فضیلت دی ہے۔ (6) عبد الرزاق وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم مقسم کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” لا یستوی القعدون من المؤمنین “ کہ یہ آیت غزوہ بدر میں شریک ہونے والوں اور شریک نہ ہونے والوں میں نازل ہوئی۔ (7) ابن جریر و طبرانی نے الکبیر میں اپنی سند کے ساتھ جس کے رجال ثقہ ہیں زید بن ارقم ؓ سے روایت کیا کہ جب (یہ آیت) ” لا یستوی القعدون من المؤمنین غیر اولی الضرر والمجھدون فی سبیل اللہ “ نازل ہوئی تو ابن ام مکتوم آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا میرے لئے رخصت ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں انہوں نے کہا اے اللہ ! میں نابینا ہوں میرے لئے رخصت فرمائیے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ” غیر اولی الضرر “ تو رسول اللہ ﷺ نے اس کو لکھنے کا حکم فرمایا۔ (8) عبد بن حمید والبزار وابو یعلی وابن حبان و طبرانی نے فلتان بن عاصم ؓ سے روایت کیا کہ ہم نبی ﷺ کے پاس تھے کہ ان پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اور جب آپ پر وحی نازل ہوئی تو آپ کی نظر ایک جگہ ٹھہر جاتی اور آنکھیں کھلی ہوئیں اور آپ کے کان اور آپ کا دل (اس کے سننے کے لئے) خالی ہوجاتے جب یہ امر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا تو ہم آپ سے پہچان لیتے (کہ آپ کے پاس وحی آرہی ہے) تو آپ نے کاتب سے فرمایا کہ لفظ آیت ” لا یستوی القعدون من المؤمنین غیر اولی الضرر والمجھدون فی سبیل اللہ “ تو ایک نابینا کھڑا ہوگیا اور کہا یا رسول اللہ ! ہمارا کیا گناہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے پھر وحی فرمائی۔ اور ہم نے نابینا سے کہا کہ نبی ﷺ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ وہ ڈرا کہ میرے معاملے میں پتہ نہیں کون سی چیز نازل ہوگی وہ کھڑا رہا اور کہتا رہا میں پناہ مانگتا ہوں رسول اللہ ﷺ کے غضب سے آپ نے کاتب سے فرمایا لکھو ” غیر اولی الضرر “۔ (9) ابن جریر نے عوفی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (جب یہ آیت نازل ہوئی) ” لا یستوی القعدون من المؤمنین غیر اولی الضرر والمجھدون فی سبیل اللہ “ تو عبد اللہ بن ام مکتوم نابینا نے اس کو سنا تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے جہاد کے بارے میں نازل فرمایا میں نے جان لیا اور میں نابینا آدمی ہوں جہاد نہیں کرسکتا میرے لئے اللہ کی طرف سے رخصت ہے اگر میں جہاد میں شرکت نہ کروں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تیرے بارے میں مجھے کوئی حکم نہیں ملا۔ میں نہیں جانتا کہ تیرے اور تیرے ساتھیوں کے بارے میں رخصت ہوگی یا نہیں ابن ام مکتوم نے کہا اے اللہ ! میں آپ کو اپنی آنکھ کا واسطہ دیتا ہوں تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” لا یستوی القعدون من المؤمنین غیر اولی الضرر “۔ (10) عبد بن حمید و طبرانی و بیہقی نے ابو نضرہ کے طریق سے ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ یہ ان لوگوں کے بارے میں ہوئی کہ جن کو امراج اور دوروں نے جہاد سے روک دیا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے عذر کو آسمان سے نازل فرمایا۔ (11) سعید بن منصور وعبد بن حمید نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت ابن ام مکتوم کے بارے میں نازل ہوئی یعنی ” غیر اولی الضرر “ اور میں مسلمانوں کو بعض جگہوں میں دیکھا کہ ان کے اس جھنڈا ہوتا تھا۔ (12) سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن جریر نے عبد اللہ بن شداد ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ” لا یستوی القعدون من المؤمنین “ نازل ہوئی تو ابن ام مکتوم نے کھڑے ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نابینا ہوں جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ” غیر اولی الضرر “ کو نازل فرمایا۔ (13) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ یہ آیت جب نازل ہوئی تو عبد اللہ بن ام مکتوم نے کہا اے اللہ کے نبی ! میرا عذر ہے (اس کا کیا بنے گا) اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ”” غیر اولی الضرر “۔ (14) ابن جریر نے سعید ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت ” لا یستوی القعدون من المؤمنین غیر اولی الضرر والمجھدون فی سبیل اللہ “ نازل ہوئی تو نابینا آدمی نے کہا اے اللہ کے نبی ! میں جہاد کو محبوب رکھتا ہوں لیکن میں جہاد کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو یہ نازل ہوا ”” غیر اولی الضرر “۔ (15) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ابن ام مکتوم نے فرمایا یا رسول اللہ میں نابینا ہوں جہاد کی طاقت نہیں رکھتا تو اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ”” غیر اولی الضرر “۔ (16) ابن سعد وعبد بن حمید وابن جریر نے زیاد بن فیاض کے طریق سے ابو عبد الرحمن (رح) سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ” لا یستوی القعدون “ نازل ہوئی تو عبد اللہ بن ام مکتوم نے فرمایا اے میرے رب ! میں تو آزمائش میں ڈالا گیا ہوں اب میں کیا کرو ؟ تو یہ نازل ہوا ” ” غیر اولی الضرر “۔ (17) ابن سعد وابن المنذر نے ثابت کے طریق سے عبد الرحمن بن ابی لیلی (رح) سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ” لا یستوی القعدون من المؤمنین غیر اولی الضرر والمجھدون فی سبیل اللہ “ نازل ہوئی تو ابن ام مکتوم نے کہا اے میرے رب میرا عذر اے میرے رب میرے عذر کا کیا بنے گا تو یہ آیت نازل ہوئی ”” غیر اولی الضرر “ تو ان کو درمیان میں رکھ دیا گیا اس کے بعد وہ جنت میں شریک ہوئے تھے اور کہتے تھے کہ مجھ کو جھنڈا دے دو اور مجھ کو کھڑا کر دو صفوں کے درمیان میں ہرگز نہیں بھاگوں گا۔ (18) ابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ چار آیات ابن مکتوم کے بارے میں نازل ہوئی یعنی لفظ آیت ” لا یستوی القعدون من المؤمنین غیر اولی الضرر “ اور ان کے بارے میں نازل ہوا ” لیس علی الاعمی حرج “ (النور آیت 61) ان کے بارے میں نازل ہوا ” فانھا لا تعمی الابصار “ (الحج آیت 16) اور ان کے بارے میں نازل ہوا ” عبس وتولی “ نبی ﷺ نے ان کو بلایا اور ان کو اپنے قریب کر کے فرمایا کہ تو وہ ہے کہ تیرے بارے میں مجھے میرے رب نے عتاب فرمایا۔ (19) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ گھر میں بیٹھے والا دشمن کے مقابلہ میں مجاہد کے درجہ کے برابر نہیں ” وکلا “ اور سب یعنی المجاہد اور قائد معذور (اور) فرمایا ” وفضل اللہ المجہدین علی القعدین “ کہ وہ لوگ جن کا کوئی عذر نہیں تھا ” اجرا عظیما (95) درجت “ یعنی فضائل میں ” وکان اللہ غفورا رحمیا “ یعنی ستر درجوں کی فضیلت۔ (20) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے علی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” غیر اولی الضرر “ سے عذر والے مراد ہیں۔ (21) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ ” فضل اللہ المجہدین باموالہم وانفسہم علی القعدین درجۃ “ یعنی عذر والوں پر مجاہدین کو فضیلت عطا فرمائی۔ (22) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ” وکلا وعد اللہ الحسنی “ یعنی جنت اور اللہ تعالیٰ ہر فضل والے کو اپنا فضل عطا فرماتے ہیں۔ (23) ابن جریر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وفضل اللہ المجھدین علی القعدین اجرا عظیما۔ درجت منہ ومغفرۃ ورحمۃ “ یعنی اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو ان مومنوں پر فضیلت دی ہے جو گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں لفظ آیت ” غیر اولی الضرر “ یعنی جو معذور نہ ہوں۔ (24) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے ” درجت منہ ومغفرۃ ورحمۃ “ کے بارے میں روایت کیا کہ کہا جاتا ہے اسلام ایک درجہ ہے اور ہجرت ایک درجہ ہے اسلام میں اور جہاد ہجرت میں ایک درجہ ہے اور جہاد میں (دشمن کو) قتل کرنا ایک درجہ ہے۔ (25) ابن جریر نے ابن وھب (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن زید (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول ” وفضل اللہ المجھدین علی القعدین اجرا عظمیا (95) درجت منہ “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا درجات سات ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے سورة براۃ میں ذکر فرمایا یعنی ” ما کان لاھل المدینۃ ومن حولہم من الاعراب ان یتخلفوا عن رسول اللہ ولا یرغبوا بانفسہم عن نفسہ ذلک بانہم لا یصیبہم ظما ولا نصب “ اس کو انہوں نے پڑھا اور یہاں تک کہ پہنچے ” احسن ما کانوا یعملون “ پوچھا کیا یہ سات درجات ہیں ؟ یہ پہلی چیز تھی جہاد کا درجہ مجمل تھا وہ شخص جس نے جہاد کیا اپنے مال کے ساتھ اس کا اس آیت میں ذکر ہے۔ جب یہ درجات فضیلت کے ساتھ آئے تو ان سے اسے خارج کردیا گیا ان میں سے اس کا حصہ نفقہ رہ گیا پھر اس آیت میں ذکر ہے۔ جب یہ درجات فضیلت کے ساتھ آئے تو ان سے اسے خارج کردیا گیا ان میں سے اس کا حصہ نفقہ رہ گیا پھر یہ آیت تلاوت کی ” لا یصیبہم ظما ولا نصب “ اور فرمایا کہ صاحب نفقہ کے لئے نہیں ہے پھر یہ پڑھا ” وما انفقتم من نفقۃ “ اور فرمایا یہ قائد کا نفقہ ہے۔ (26) عبدبن حمید، وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن محیریز (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول ” وفضل اللہ المجھدین علی القعدین اجرا عظیما (95) درجت “ کے بارے میں روایت کیا کہ درجات میں ستر درجے ہیں اور دو درجوں کے درمیان گھوڑے کے ستر سال کے دوڑنے کا فاصل ہے۔ (27) عبد الرزاق نے مصنف میں ابو مجلز (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول ” وفضل اللہ المجھدین علی القعدین اجرا عظیما (95) درجت “ کے بارے میں روایت کیا کہ درجات میں ستر درجے ہیں اور دو درجوں کے درمیان گھوڑے کے ستر سال کے دوڑنے کا فاصلہ ہے۔ شہید کے لئے چھ بھلائیاں ہیں (28) ابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ” درجت منہ ومغفرۃ ورحمۃ “ کے بارے میں روایت کیا کہ ہم کو یہ ذکر کیا گیا کہ معاذ بن جبل ؓ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ کے راستے میں مقتول کے لئے چھ بھلائیاں ہیں خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اس کے تمام گناہوں کو مٹا دیا جاتا ہے اور اس کو ایمان کا جوڑا پہنایا جاتا ہے۔ پھر عذاب سے محفوظ کیا جاتا ہے پھر بڑی گبھراہٹ سے امن دیا جاتا ہے پھر جنت میں ٹھہرایا جاتا ہے پھر حورعین سے اس کی شادی کی جاتی ہے۔ (29) بخاری و بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت میں سو درجے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کے لئے تیار فرمایا ہے دو درجوں کے درمیان آسمان و زمین کا فاصلہ ہے جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو اس سے جنت الفردوس کا سوال کرو کیونکہ وہ سب سے بہترین اور اونچی جنت ہے اور اس کے اوپر رحمن کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔ (30) عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت میں سو درجے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ان مجاہدین کے لئے تیار کیا ہے جو اس کے راستے میں جہاد کرتے ہیں ہر دو درجوں کے درمیان آسمان زمین کا فاصلہ ہے۔ (31) مسلم، ابو داؤد و نسائی اور حاکم نے ابو سعید ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص راضی ہو اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر اور محمد ﷺ کے رسول ہونے پر اس کے لئے جنت واجب ہوگئی ابو سعید نے تعجب فرمایا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھ کو دوبارہ بتائیے تو آپ نے ان کو دوبارہ بتایا پھر فرمایا ایک اور عمل بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ بندہ کے سو درجے جنت کے بلند کر دے گا اور دو درجوں کے درمیان آسمان و زمین کا فاصلہ ہے انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! وہ کیا ہے آپ نے فرمایا اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ (32) ابن ابی حاتم وابن مردویہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کو ایک تیر اللہ کے راستہ میں پہنچا اس کے لئے درجہ ہے ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ! درجہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا خبردار یہ تیر ماں کی چوکھٹ نہیں ہے بلکہ دو درجوں کے درمیان سو سال کا سفر ہے۔ (33) ابن ابی حاتم وابن مردویہ نے عبادہ بن صامت ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت میں سو درجے ہیں ہر دو درجوں کے درمیان آسمان و زمین کا فاصلہ ہے۔ (34) ابن ابی حاتم نے یزید بن ابو مالک (رح) سے روایت کیا کہ کہا جاتا تھا جنت میں دو سو درجے ہیں ہر دو درجوں کے درمیان زمین و آسمان کا فاصلہ ہے اس میں یا قوت ہیں، گھوڑے ہیں، ہر درجہ میں ایک امیر ہوگا وہ دیکھتے ہیں جس کی فضیلت اور سرداری کو لوگ دیکھیں گے۔
Top