Dure-Mansoor - Al-Ghaafir : 32
وَ یٰقَوْمِ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ یَوْمَ التَّنَادِۙ
وَيٰقَوْمِ : اور اے میری قوم اِنِّىْٓ اَخَافُ : میں ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر يَوْمَ التَّنَادِ : دن چیخ و پکار
اور اے میری قوم بلاشبہ میں تمہارے بارے میں (آیت) ” یوم التناد “ کا اندیشہ رکھتا ہوں
یوم التناد کون سا ہے : 1:۔ ابن المبارک وعبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ جب قیامت کا دن ہوگا اللہ تعالیٰ آسمان دنیا کو حکم دیں گے تو وہ نیچے اتریں گے اور ساری زمین کو اور جو کچھ اس میں سے ہے سب کو گھیر لیں گے پھر دوسرا آسمان پھر تیسرا آسمان پھر چوتھا آسمان پھر پانچواں آسمان پھر چھٹا آسمان اور پھر ساتواں آسمان پھٹے گا۔ سب فرشتے ایک دوسرے کے پیچھے صفیں بنالیں گے پھر بڑا فرشتہ نازل ہوگا تاکہ جہنم کو چلا کرلے آئے جب اس کو زمین والے دیکھیں گے تو بھاگیں گے وہ زمین کے کناروں میں سے جس کنارے پر آئیں گے تو فرشتوں کو سات صفوں کو پائیں گے اور اپنی جگہ کی طرف لوٹ کر آجائیں گے جہاں تھے اسی کو فرمایا (آیت ) ” یوم التناد “ (وہ دن جس میں کثرت سے پکار مچی ہوگی) یعنی دال کی تشدید کے ساتھ (آیت ) ” یوم تولون مدبرین “ جس دن تم پشت پھیر کر لوٹوگے) (آیت ) ” مالکم من اللہ من عاصم “ (تمہارے لئے اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا) اسی کو فرمایا (آیت ) ” وجآء ربک والملک صفاصفا (32) وجا یء یومئذ بجھنم “ (الفجر آیت 32) (اور آئے گا تیرا رب اور فرشتے صف باندھ کر اور جس دن جہنم کو لایا جائے گا) اور فرمایا (آیت ) ” یمعشرالجن والانس ان استطعتم ان تنفذوا من اقطار السموت والارض فانفذوا لا تنفذون الا بسلطن (23) ” (الرحمن آیت (23) اے جنوں اور انسانوں کے گروہ اگر تم آسمان اور زمین کی حدود سے باہر نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ تم بغیر زور کے نہ نکل سکوگے) اور فرمایا (آیت ) ” وانشقت السمآء فھی یومئذ واھیۃ (16) والملک علی ارجآء ھا “ آسمان پھٹ جائے گا اور وہ اس دن کمزور ہوگا اور اس کے کناروں پر فرشتے ہوں گے) یعنی آسمان پھٹ جائے گا اس درمیان کہ وہ اس حال پر ہوں گے اچانک وہ آواز سنیں گے اور حساب کی طرف متوجہ ہوں گے۔ 2:۔ ابن المنذر (رح) نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” یوم التناد “ سے مراد ہے کہ ہر قوم کو ان کے اعمال کے ساتھ بلایا جائے گا دوزخ والے جنت والوں کو پکاریں گے اور جنت والے دوزخ والوں کو پکاریں گے (آیت ) ” یوم تولون مدبرین “ یعنی آگ کی طرف (آیت ) ” مالکم من اللہ من عاصم “ یعنی کوئی مدد کرنے والا نہ ہوگا۔ 3:۔ عبدبن حمید (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ویقوم انی اخاف علیکم یو التناد “ (اے میری قوم میں ڈرتا ہوں تم پر اس دن سے جس میں کثرت سے پکار مچی ہوگی) جنت والے، دوزخ والوں کو پکاریں گے، (آیت ) ” ان قد وجدنا وعدنا ربنا حقا فھل وجدتم ما وعدربکم حقا “ (کہ ہم نے سچ پالیا جو ہم سے ہمارے رب نے وعدہ کیا تھا کیا تم نے بھی سچ پالیا جو تم سے تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا) اور دوزخ والے جنت والوں کو آواز دیں گے (آیت ) ” ان افیضوا علینا من المآء اومما رزقکم اللہ “ (کہ ہم پر بہادو پانی میں سے یا جو تم کو اللہ نے رزق دیا ہے) ہم کو دیدو۔ 4:۔ عبد بن حمید (رح) وابن المنذر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” یوم تولون مدبرین “ (جس دن تم پشت پھیر کر لوٹوگے اس حال میں کہ قادر ہوں گے عاجز نہیں ہوں گے۔
Top