Dure-Mansoor - Al-Ghaafir : 41
وَ یٰقَوْمِ مَا لِیْۤ اَدْعُوْكُمْ اِلَى النَّجٰوةِ وَ تَدْعُوْنَنِیْۤ اِلَى النَّارِؕ
وَيٰقَوْمِ : اور اے میری قوم مَالِيْٓ : کیا ہوا مجھے اَدْعُوْكُمْ : میں بلاتا ہوں تمہیں اِلَى : طرف النَّجٰوةِ : نجات وَتَدْعُوْنَنِيْٓ : اور بلاتے ہو تم مجھے اِلَى : طرف النَّارِ : آگ (جہنم)
اور اے میری قوم کیا بات ہے میں تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے دوزخ کی طرف بلاتے ہو
1:۔ فریابی (رح) و سعید بن منصور (رح) وعبد بن حمید (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ویقوم مالی ادعوکم الی النجوۃ “ (اور اے میری قوم یہ کیا بات ہے کہ میں تم کو نجات (کے راستہ) کی طرف بلاتا ہوں) یعنی ایمان کی طرف (آیت ) ” لا جرم انما تدعوننی الیہ لیس لہ دعوۃ فی الدنیا “ (یعنی بات یہ ہے کہ جس چیز کی عبادت کی طرف تم مجھے بلاتے ہو وہ دنیا میں پکارے جانے کے لائق نہیں) فرمایا کہ بت کوئی چیز نہیں (کہ ان کی عبادت کی جائے) (آیت ) ” وان المسرفین “ (اور حد سے گزرنے والے) یعنی خون کو بہانے والے ناحق (آیت ) ” ھم اصحب النار “ وہ دوزخ والے ہیں۔ 2:۔ عبدبن حمید (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) لیس لہ دعوۃ فی الدنیا ولا فی الاخرۃ “ (وہ نہ تو دنیا ہی میں پکارے جانے کے لائق ہے اور نہ آخرت میں) یعنی نہ وہ نقصان دیتے ہیں اور نہ نفع دیتے ہیں۔ (آیت ) ” وان المسرفین ھم اصحب النار “ (اور بلاشبہ حد سے گزرنے والے وہ دوزخ والے ہیں) یعنی ہمارے سب ساتھی (دوزخ والے ہیں) 3:۔ عبد بن حمید (رح) وعبدالرزاق (رح) اور ابن المنذر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” فوقہ اللہ سیات ما مکروا “ (اللہ نے اس کو فرعون اور فرعونوں کی ضرررساں تدبیروں سے محفوظ رکھا قبطی فرعون کی قوم میں سے تھا اور اس نے موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے ساتھ (مل کر) نجات پائی جب بنی اسرائیل نے نجات پائی۔
Top