Dure-Mansoor - Al-Ghaafir : 56
اِنَّ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ بِغَیْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰىهُمْ١ۙ اِنْ فِیْ صُدُوْرِهِمْ اِلَّا كِبْرٌ مَّا هُمْ بِبَالِغِیْهِ١ۚ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يُجَادِلُوْنَ : جھگڑتے ہیں فِيْٓ : میں اٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیات بِغَيْرِ : بغیر سُلْطٰنٍ : کسی سند اَتٰىهُمْ ۙ : ان کے پاس آئی ہو اِنْ : نہیں فِيْ : میں صُدُوْرِهِمْ : ان کے سینے (دل) اِلَّا : سوائے كِبْرٌ : تکبر مَّا هُمْ : نہیں وہ بِبَالِغِيْهِ ۚ : اس تک پہنچنے والے فَاسْتَعِذْ : پس آپ پناہ چاہیں بِاللّٰهِ ۭ : اللہ کی اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ السَّمِيْعُ : وہی سننے والا الْبَصِيْرُ : دیکھنے والا
بلاشبہ جو لوگ اللہ کی آیات کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں بغیر دلیل کے جو ان کے پاس آئی ہو ان کے سینوں میں تکبر ہی ہے وہ کبھی بھی اس تک پہنچنے والے نہیں ہیں سو آپ اللہ سے پناہ طلب کیجئے بلاشبہ وہ سننے والا دیکھنے والا ہے
1:۔ عبد بن حمید (رح) وابن ابی حاتم (رح) نے (صحیح سند کے ساتھ) ابوالعالیہ (رح) سے روایت کیا کہ یہودی نبی کریم ﷺ کے پاس آئے انہوں نے کہا : دجال آخری زمانہ میں ہم میں سے ہوگا اور اس کے کاموں میں سے یہ چیزیں ہوں گی اور انہوں نے اس کے کاموں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور کہنے لگے کہ وہ اس طرح کرے گا تو اللہ تعالیٰ نے یہ (آیت) نازل فرمائی ” ان الذین یجادلون فی ایت اللہ بغیر سلطن اتھم ان فی صدورھم الا کبر ما ھم ببالغیہ “ (جو لوگ بغیر کسی سند کے جو ان کے پاس موجود ہو خدا کی آیتوں میں جھگڑن نے نکلا کرتے ہیں کہ وہ اس تک کبھی پہنچنے والے نہیں ہیں) فرمایا جو وہ کہتا ہے اس تک نہیں پہنچے گا (آیت ) ” فاستعذ باللہ “ (اللہ سے پناہ مانگئے) تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم فرمایا کہ (دجال کے فتنے سے پناہ مانگو) (آیت ) ” لخلق السموت والارض اکبر من خلق الناس “ (البتہ آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنا آدمیوں کے پیدا کرنے سے بڑا کام ہے) یعنی زمین و آسمان کو پیدا کرنا ان کو پیدا کرنے سے بڑا کام ہے۔ 2:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے کعب بن احبار ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ان الذین یجادلون فی ایت اللہ بغیر سلطن “ سے مراد یہودی ہیں ان کے بارے میں (یہ آیت) نازل ہوئی اس بارے میں کہ وہ دجال کے معاملے میں انتظار کررہے تھے۔
Top