Dure-Mansoor - Az-Zukhruf : 44
وَ اِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَ لِقَوْمِكَ١ۚ وَ سَوْفَ تُسْئَلُوْنَ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ لَذِكْرٌ : البتہ ذکر ہے لَّكَ : تیرے لیے وَلِقَوْمِكَ : اور تیری قوم کے لیے وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَ : اور عنقریب تم پوچھے جاؤ گے
اور بلاشبہ یہ قرآن شرہے آپ کیلئے اور آپ کی قوم کے لئے اور عنقریب تم سے سوال کیا جائے گا
قرآن کریم کا باعث شرف ہونا : 1:۔ ابن جریر (رح) وابن ابی حاتم (رح) والطبرانی (رح) وابن مردویہ (رح) اور بیہقی (رح) نے شعب الایمان میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وانہ لذکرلک ولقومک “ (اور بلاشبہ یہ قرآن آپ کیلئے اور آپ کی قوم یعنی قریش کے لئے عظیم الشان شرف ہے یعنی یہ قرآن عزت (کا باعث) ہے آپ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے۔ 2:۔ عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وانہ لذکرلک “ یعنی یہ قرآن (آپ کے لئے) اور آپ کی قوم کے لئے یعنی جو آپ کی تابعداری کرے گا آپ کی امت میں سے (سب کیلئے عزت کا باعث ہے ) ۔ 3:۔ الشافعی وعبد الرزاق و سعید بن منصور وعبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) وابن ابی حاتم (رح) والبیہقی (رح) نے مجاہد (رح) سے (آیت ) ” وانہ لذکرلک ولقومک “ کے بارے میں روایت کیا کہ پوچھا گیا یہ آدمی (یعنی یہ نبی) کس قوم میں سے ہیں ؟ کہا گیا عرب میں سے پھر پوچھا گیا عرب کے کس قبیلہ سے ؟ کہا گیا قریش میں سے پھر پوچھا قریش کے کس قبیلہ سے ؟ کہا گیا بنوھاشم میں سے۔ 4:۔ ابن عدی (رح) وابن مردویہ (رح) نے علی (رح) اور ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ اپنے آپ کو قبائل پر پیش کیا کرتے تھے اور انکو غلبے کا وعدہ دیتے تھے، جب وہ پوچھتے آپ کے بعد بادشاہ کون ہوگا تو آپ خاموش ہوجاتے اور ان کو کوئی جواب نہ دیتے کیونکہ اس بارے میں کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ یہاں تک کہ یہ (آیت ) ” وانہ لذکرلک ولقومک “ نازل ہوئی پھر جب آپ سے سوال کیا جاتا تو آپ فرماتے قریش والوں نے کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ اس کو انصار نے اسی شرط پر قبول کرلیا۔ 5:۔ طبرانی (رح) وابن مردویہ (رح) نے عدی بن حاتم ؓ سے روایت کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا آپ نے ارشاد فرمایا خبردار میرے دل میں جو اپنی قوم کی محبت ہے اللہ تعالیٰ اسے جانتین ہیں تو اس نے ان میں مجھے شرف عطا فرمایا اور ارشاد فرمایا (آیت ) ” وانہ لذکرلک ولقومک وسوف تسئلون “ اللہ نے اپنی کتاب میں اس آیت میں میری قوم لئے ذکر اور شرف کو رکھا اس کے بعد فرمایا (آیت ) ” انذر عشیرتک الاقربین (214) واخفض جناح لمن اتبعک من المؤمنین (215) (الشعرء آیت 215) (اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے اور ایمان والوں میں جو آپ کی اتباع کرے اس کے لئے نرمی کا برتاؤ کیجئے) بس اللہ کا شکر ہے کہ اس نے صدیق کو میرے قرم میں سے بنایا اور شہید کو میری قوم میں سے بنایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو پشت اور پیٹ میں پلٹا ہے اور عرب کے بہترین لوگ قریش ہیں قریش ہی وہ بابرکت درخت ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا (آیت ) ” مثلا کلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبۃ “ (ابراہیم آیت 24) (اور مثال پاکیزہ کلمہ کی جیسے درخت ہو پاکیزہ) یعنی اس کے ساتھ قریش کی مثال بیان فرمائی (آیت ) ” أصلھاثابت “ (اس کی جڑ مضبوط ہے) یعنی اس کی جڑ کرم ہے (آیت ) ” وفرعہا فی السماء “ (اور اس کی شاخیں آسمان میں ہیں) یعنی وہ عزت جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اسلام کے ذریعہ عطا فرمائی جو ان کو ہدایت دی اور ان کو ہدایت والا بنایا پھر ان کے بارے میں اللہ کی کتاب میں سے ایک سورة مکہ میں نازل کی یعنی (آیت ) ” لایلف قریش “ اس کے آخرتک عدی بن حاتم نے فرمایا میں نے نہیں دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے کبھی قریش کا ذکر خیر آیا ہو اور آپ خوش نہ ہوئے ہوں یہاں تک کہ تمام لوگوں کے لئے آپ کی خوشی آپ کے چہرے سے ظاہر ہوتی تھی اور آپ نے اکثر اس آیت کی تلاوت فرمائی (آیت ) ” وانہ لذکرلک ولقومک وسوف تسئلون “ (اور یہ قرآن آپ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے عظیم الشان شرف ہے اور عنقریب تم سے پوچھا جائے گا۔
Top