Dure-Mansoor - Az-Zukhruf : 67
اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَئِذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَؕ۠   ۧ
اَلْاَخِلَّآءُ : دوست يَوْمَئِذٍۢ : آج کے دن بَعْضُهُمْ : ان میں سے بعض لِبَعْضٍ : بعض کے لیے عَدُوٌّ : دشمن ہوں گے اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ : مگر تقوی والے
اس دن دوست آپس میں بعض بعض کے دشمن ہوں گے سوائے متقین کے
1:۔ ابن مردویہ (رح) نے سعد بن معاذ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کا دن ہوگا۔ تو (آپس میں) رشتہ داریاں ختم ہوجائیں گی اور نسبت کمزور پڑجائیں گی اور بھائی چارہ بھی جاتا رہے گا مگر اللہ کے لئے جو بھائی چارہ تھا (وہ باقی رہے گا) اسی کو فرمایا (آیت) ” الا خلآء یومئذ بعضھم لبعض عدو الا المتقین “ (تمام دنیوی دوست اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے سوائے خدا سے ڈرنے والوں کے) دنیا میں اللہ کی نافرمانی کرنے والے آپس میں دشمن ہوں گے : 2:۔ عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الا خلآء یومئذ بعضھم لبعض عدو الا المتقین “ سے مراد ہے دنیا میں اللہ کی نافرمانی کرنے والے آپس میں دشمن ہوں گے۔ 3:۔ عبد بن حمید (رح) نے قتادہ (رح) سے (آیت) ” الا خلآء یومئذ بعضھم لبعض عدو الا المتقین “ کے بارے میں روایت کیا کہ ہم کو یہ بات بتائی گئی کہ اللہ کے نبی کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ دوست چار ہیں دو مؤمن اور دو کافر مومنین میں سے (جب) ایک مرجاتا ہے تو اس کے دوست کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے اے اللہ میں نے کوئی دوست نہیں دیکھا کہ میں اس کو نیکی کا حکم دیتا ہوں اور نہ برائی سے روک سکتا ہوں اے اللہ اس کو ہدایت دے جیسے مجھے ہدایت دی اور اس کو موت دے اس (دین) پر جس پر مجھے موت دی اور جب کافروں میں سے ایک مرجاتا ہے تو اس سے اس کے دوست کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ اے اللہ تعالیٰ میں نے کوئی ایسا دوست نہیں دیکھا جو برائی کا حکم کرنے والا ہو اور نیکی سے روکنے والا ہو اے اللہ اس کو گمراہ کردے جیسے آپ نے مجھے گمراہ کیا اور اس کو اس (کفر) پر موت دے دے جس پر آپ نے مجھے موت دی فرمایا پھر ان کو قیامت کے دن اٹھایا جائے گا فرمایا وہ ایک دوسرے کے بارے میں رائے کا اظہار کریں گے بعض تو دونوں مومن ان میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کی اچھی تعریف کرے گا لیکن دونوں کا قرآن میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کی بری تعریف کرے گا۔ 4:۔ ابن ابی شیبہ نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ (لوگوں کو) خیر کی طرف (بلانے والے) سردار کو قیامت کے دن لائے جائے گا اس سے کہا جائیگا اپنے رب کو جواب دو اور اسے اپنے رب کے پاس لے جایا جائے گا اس سے اللہ تعالیٰ پر وہ نہیں فرمائیں گے اور اس کو جنت میں لے جائے گا حکم دیا جائے گا اور اپنے گھر کو دیکھے گا اور اپنے ساتھیوں کے گھروں کو بھی دیکھے گا جو بھلائی کے کاموں میں اس کی موافقت کرتے تھے اور اس کی مدد کرتے تھے اس سے کہا جائے گا یہ فلاں کا گھر ہے اور یہ فلاں کا گھر ہے اور دیکھے گا جو اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے جنت میں جو عزتیں بتائی ہیں اور اپنے گھر کو ان کے گھروں سے بہتر پائے گا اور جنت کے کپڑوں میں سے پہنایا جائے گا اور اس کے سر پر تاج رکھا جائے گا اور اس کو جنت کی خوشبو لگائی جائے گی اس کا چہرہ چمکے گا یہاں تک کہ وہ چاند کی چودھویں رات کی طرح ہوجائے گا وہ وہاں سے نکلے گا تو لوگوں میں سے جو بھی دیکھے گا تو کہے گا اے اللہ ! اس کو ان میں سے بنادے یہاں تک کہ وہ ان لوگوں کے پاس آئے گا جو بھلائی میں اس کے ساتھ اکٹھے ہوتے تھے اور اس کی مدد کرتے تھے وہ کہے گا اے فلانے تجھ کو خوشخبری ہو بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے جنت میں یہ یہ چیز تیار کر رکھی ہے اور وہ بھی ہزار ان کو خوشخبری دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جنت میں تیار کیا ہے اکرام میں یہاں تک کہ ان کے چہروں پر وہی روشنی آجائے گی جو چمک اس کے چہرے پر تھی۔ ان کو لوگ ان کے چہروں کی سفیدی سے پہچان لیں گے اور وہ کہیں گے یہ لوگ جنت والے ہیں اور برے اعمال کرنے والوں کے سردار کو لایا جائے گا اس سے کہا جائے گا اپنے رب کو جواب دو اسے اپنے رب کی طرف لے جایا جائے گا اللہ تعالیٰ اس سے پردہ فرمائے گا اور اس کو آگ کی طرف لے جانے کا حکم دیا جائے گا وہ اپنے گھر اور اپنے ساتھیوں کے گھروں کو دیکھے گا اور اس سے کہا جائے گا یہ فلاں کا گھر ہے اور یہ فلاں کا گھر ہے اور وہ دیکھے گا جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ذات تیار کر رکھی ہوگی وہ اسے دیکھے گا اور وہ اپنے گھر کو ان کے گھروں سے زیادہ برا دیکھے گا اس کا چہرہ کالا ہوجائے گا اور اس کی آنکھیں نیلی ہوجائیں گی اور آگ کی ایک ٹوپی اس کے سر پر رکھی جائے گی وہ وہاں سے نکلے گا تو اسے جو جماعت بھی دیکھے گی مگر وہ اس سے اللہ کی پناہ مانگے گی اور وہ کہے گا اللہ تعالیٰ مجھ سے تم کو کیسے پناہ دے گا اے فلانے کیا تجھ کو فلاں فلاں برائی یاد نہیں ہے وہ ان کو گناہ یاددلائے گا جو وہ اس کے ساتھ مل کر کیا کرتے تھے اور اس پر اس کی مدد کرتے تھے وہ برابر انکو بتاتا رہے گا جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے آگ میں تیار کیا ہوگا یہاں تک کہ ان کے چہروں پر ایسی سیاہی چھاجائے گی جیسے اس کے چہرہ پر تھی لوگ ان کو پہچان لیں گے ان کے چہروں کی سیاہی سے اور کہیں گے یہ دوزخ والے ہیں۔ مؤمن و کافر دوستوں کا حال : 5:۔ عبدالرزاق (رح) وعبد بن حمید ل وحید بن زنجویہ فی ترغیبہ وابن جریر (رح) وابن ابی حاتم (رح) وابن مردویہ (رح) اور بیہقی (رح) نے شعب الایمان میں علی بن ابی طالب ؓ سے (آیت ) ” الاخلآء یومئذ بعضہم لبعض عدو الا المتقین “ کے بارے میں روایت کیا کہ دو دوست مؤمن ہیں اور دو دوست کافر ہیں دونون میں سے ایک مؤمن وفات پا جاتا ہے تو اس کو جنت کی خوشخبری دی جاتی ہے وہ اپنے دوست کو یاد کرکے کہتا ہے اے اللہ ! میرا فلاں دوست مجھے تیری اطاعت اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کا حکم دیتا تھا اور مجھے نیکی کا حکم کرتا تھا اور برائی سے روکتا تھا اور مجھے بتاتا تھا کہ میں آپ سے ملاقات کروں گا اے اللہ ! اس کو میرے بعد گمراہ نہ کرنا یہاں تک کہ اس کو وہ چیز دکھانا جو آپ نے مجھے دکھائی (یعنی جنت کا گھر) اور اس سے راضی ہوجا جیسے آپ مجھ سے راضی ہوئے اس سے کہا جائے گا چلا جا اگر تو جانتا جو کچھ اس کے لئے میرے پاس ہے تو تو زیادہ ہنستا اور تھوڑا روتا پھر (دوسرا مؤمن) وفات پا جاتا ہے تو ان دونوں کی روحوں کو جمع کردیا جائے گا اور کہا جائے چاہئے کہ ہر ایک تم میں سے اپنے ساتھی کی تعریف کرے تو ان میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کے بارے میں کہے گا کہ کتنا بہترین ساتھی کتنا اچھا دوست تھا اور جب کافروں میں سے ایک مرتا ہے تو اس کو دوزخ کی خوشخبری دی جاتی ہے وہ اپنے دوست کو یاد کرکے کہتا ہے اے اللہ میرا فلاں دوست تھا جو مجھے تیری نافرمانی اور تیرے رسول کی نافرمانی کا حکم دیتا تھا اور مجھے برائی کا حکم دتیا تھا اور نیکی سے روکتا تھا اور مجھے بتاتا تھا کہ آپ سے ملاقات نہ ہوگی۔ اے اللہ میرے بعد اس کو ہدایت نہ دینا یہاں تک کہ اسے بھی وہ چیز دکھا جیسے آپ نے مجھے دکھائی ہے اور تو اس پر ناراض ہو جیسے آپ مجھ پر ناراض ہوئے پھر جب دوسرا کافر مرے گا تو (اللہ تعالیٰ دونوں کی روحوں کو جمع کرے گا اور کہا جائے گا چاہئے کہ ہر ایک تم میں سے اپنے ساتھی کی تعریف کرے تو ان میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کے بارے میں کہے گا کہ کتنا برا بھائی تھا اور کتنا برا ساتھی تھا اور کتنا برا دوست تھا۔ 6:۔ ابن جریر (رح) نے سلیمان تیمی ؓ سے روایت کیا کہ میں نے سنا کہ لوگ جب قیامت کے دن اٹھیں گے تو ان کو کوئی پریشانی نہ ہوگی مگر گبھراہٹ ایک آواز دینے والا آواز دے گا (آیت ) ” یعباد لا خوف علیکم الیوم ولا انتم تحزنون “ (اے میرے بندو ! آج تم پر کوئی خوف نہیں ہے اور تم غمگین نہ ہوں گے) تو سب لوگ اس بات سے امید رکھے ہوئے اس کے پیچھے ہولیں گے (اور وہ کون لوگ ہوں گے اس کے بارے میں فرمایا (آیت ) ” الذین امنوا بایتنا وکانوا مسلمین “ (وہ لوگ جو ہماری آیات پر ایمان لائے اور وہ مسلمان تھے ) 7:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” تحبرون “ سے مراد ہے کہ تم اکرام کئے جاؤ گے واللہ اعلم تعالیٰ : 8:۔ ابن المبارک ابن ابی الدنیا فی الصفۃ الجنۃ والطبرانی فی الاوسط بسند رجالہ ثقات نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو میں نے یہ فرماتے ہوئے سنا سب جنت والوں میں سے سب سے کم درجے والا وہ ہوگا کہ جس نے سرہانے دس ہزار خادم ہوں گے ہر ایک کے ہاتھ میں دو پیالے ہوں گے ایک سونے کا اور دوسرا چاندی کا ہر ایک میں ایسا رنگ ہوگا جو دوسرے میں نہیں ہوگا وہ ان میں سے آخری سے بھی ایسے کھائے گا جیسے وہ پہلے میں سے کھائے گا ان میں سے آخری میں سے ایسی خوشبو اور لذت پائے گا جیسے اس کے پہلے سے پائے گا یہ تیز مشک کی خوشبو ہوگی۔ وہاں نہ پیشاب کریں گے نہ پاخانہ کریں گے اور نہ ناک صاف کریں گے، پلنگوں پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے بھائی بھائی بن کربیٹھے ہوں گے۔ 9:۔ ابن جریر (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ بصحاف سے مراد ہے بڑے پیالے۔ 10:۔ ابن ابی شیبہ نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ ادنی جنتی قیامت کے دن مرتبہ کے لحاظ سے (ایسا ہوگا) کہ ستر ہزار پیالوں میں اس کا دوپہر کا کھانا لایا جائے گا ہر پیالہ میں ایسا رنگ ہوگا جو دوسرے سے مختلف ہوگا اور وہ آخری پیالے سے وہی والی لذت کو پائے گا جبکہ پہلا اس کی جنت میں سے نہ ہوگا۔ 11:۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا (آیت ) ” واکواب “ سے مراد ہے چاندی کے برتن۔ 12:۔ ہناد وابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” واکواب “ سے مراد ہے وہ برتن جس کا (پکڑنے کے لئے) دستہ نہ ہو۔ 13:۔ طستی (رح) نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق نے ان سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت ) ” واکواب “ کے بارے میں پوچھا تو فرمایا اس سے مراد ہے مٹکے جن کا (پکڑے کے لئے) کوئی دستہ نہ ہو پھر پوچھا کیا عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں فرمایا ہاں ! کیا تو نے ھذلی کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا : فلم ینطق الدیک حتی ملأت کو ب الذباب لہ فاستدارا ترجمہ : مرغ نہیں بولا یہاں تک کہ وہ بھر گیا اس کے لئے مکھی کا پیالہ تو وہ گھوم گیا۔ 14:۔ ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” واکواب “ سے مراد ہے ایسے گھڑے جس کا (پکڑے کیلئے) کوئی دستے نہ ہو نبطی میں اسے گولی کہتے ہیں۔ 15:۔ عبد بن حمید (رح) نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دوزخ والوں میں سے سب سے ہلکا عذاب کے لحاظ سے وہ آدمی ہوگا جو انگارے پر چلے گا تو اس سے اس کا دماغ کھولے گا۔ ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا کہ یا رسول اللہ ! اس کا جرم کیا ہوگا ؟ تو فرمایا کہ اس کے جانور تھے جن کو کھیتی کے قریب لے جاتا اور اس کھیتی کو نقصان پہنچاتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا ہے کھیتی کو اور جو اس کے اردگرد کا اتنا حصہ جہاں تک پتھر پھینکا جاتا ہے سو تم اپنے مالوں میں سے دنیا میں ایسی محبت نہ کرو ورنہ تم اپنی جانوں کو آخرت میں ہلاک کردو گے۔ اور فرمایا کہ ادنی جنتی مرتبہ کے لحاظ سے کہ جس کے بعد جنت میں کوئی داخل نہ کرو رونہ تم اپنی جانوں کو آخرت میں ہلاک کردو گے۔ اور فرمایا کہ ادنی جنتی مرتبہ کے لحاظ سے کہ جس کے بعد جنت میں کوئی داخل نہ ہوگا۔ اس کے لئے اس کی نظر ایک سال کی مسافت تک پھیلا دی جائے گا جس میں سونے کے محلات اور موتیوں کے خیمے ہوں گے کہ اس میں ایک بالشت بھی جگہ نہیں ہوگی جو آباد نہ ہو اس کی ہر روز صبح شام ستر ہزار پیالوں کے ساتھ کھانا پیش کیا جائے گا ہر ایک پیالے میں ایسے رنگ کا کھانا ہوگا کہ اس کی طرح دوسرے میں نہ ہوگا اس کی خواہش اس کے آخری کے بارے میں ایسے ہوگی جیسے پہلے کے بارے میں تھی اگر تمام زمین والے اس کے مہمان بن جائیں تو اسے جو کچھ عطا کیا گیا وہ ان کو کافی ہوجائے گا اور اسے جو کچھ عطا کیا گیا اس میں سے کچھ بھی کم نہ ہوگا۔ اہل جنت کی ہر خواہش پوری ہوگی : 16:۔ ابن جریر (رح) نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ جنت میں سے ایک آدمی ایک پرندے کی خواہش کرے گا اور وہ اڑ رہا ہوگا (اچانک) وہ ٹکرے ٹکرے پکا ہوا اس کے ہاتھ میں آجائے گا وہ اس میں سے کھائے گا یہاں تک کہ وہ کھاچکے گا تو پھر ہو پرندہ اڑجائے گا اور پینے کی خواہش کرے گا تو لوٹا اس کے ہاتھ میں واقع ہوجائے گا اس میں جو ارادہ کرے گا پیئے گا پھر وہ اپنی چمک لوٹ آئے گی۔ 17:۔ عبدالرزاق (رح) وعبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” واکواب “ سے وہ برتن مراد ہیں جو اباریق سے چھوٹے ہوتے ہیں اور ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ اس کا سرا گول ہوتا ہے۔ 18:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابو امامہ ؓ نے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو ارشاد فرمایا اور جنت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس ذات جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ ضرور تم میں سے ایک لقمہ کو لے گا اور اس کو اپنے منہ میں رکھ دے گا، پھر اس کے دل میں دوسرے کھانے کا خیال آئے گا تو وہ کھانا اس کھانے سے بدل دیا جائے گا جو اس کے منہ میں تھا جس کی اس نے خواہش کی ہوگی۔ پھر یہ (آیت ) ” پڑھی وفیھاما تشتھہہ الانفس وتلذ الاعین وانتم فیھا خلدون “ (اور اس میں وہ چیزیں ہوں گے جو تمہارے دل چاہیں گے اور آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی اور تم اس میں ہمیشہ رہوگے۔ 19:۔ ابن ابی الدنیا نے صفۃ الجنہ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انار جنت کے اناروں میں سے ایک انار پر بہت سے لوگ جمع ہو کر کھائیں گے اگر کسی کے دل اس کا خیال گزرے گا تو جہاں وہ کھارہا ہوگا۔ تو وہ اس کو اسی جگہ ہی پالے گا۔ 20:۔ ابن ابی الدنیا والبزار وابن المنذر والبیہقی (رح) نے البعث میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو عنقریب جنت میں ایک پرندے کی طرف دیکھے گا اور اس کی خواہش کرے گا تو وہ تیرے آگے بھنا ہوا گرپڑے گا۔ 21:۔ ابن ابی الدنیا نے میمونہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ آدمی جنت میں پرندے کی خواہش کرے گا تو وہ بختی اونٹ کی طرح آئے گا یہاں تک کہ اس کے دستر خوان پر واقع ہوجائے گا نہ اس کو دھواں پہنچے گا اور نہ آگ وہ اس میں سے کھائے گا یہاں تک کہ سیر ہوجائے گا پھر وہ پرندہ (صحیح سالم ہوکر) اڑ جائے گا۔ 22:۔ ابن ابی شیبہ وابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اہل جنت میں سے سب سے گھٹیامرتبہ کے لحاظ سے وہ ہوگا جس کے ستر ہزار خادم ہوں گے ہر خادم کے پاس سونے کا پیالہ ہوگا اگر وہ کھانا ساری دنیا والوں کے لئے نازل کردیا جائے تو ان سب کو پہنچ جائے اور جو چیز انکے غیر کے پاس ہوگی وہ ان کے لئے طلب نہیں کی جائے گی۔ (یعنی یہی کھانا ان کیلئے کافی ہوجائے گا اور کسی سے طلب کرنے کی ضرورت نہ رہے گی۔ 23:۔ ابن ابی شیبہ (رح) وابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا کیا جنت میں اولاد ہوگی تو فرمایا اگر جنتی چاہیں گے (تو اولاد پیدا ہوجائے گی) 24:۔ احمد وھناد ولدارمی عبد بن حمید و ترمذی (رح) (وحسنہ) وابن ماجہ وابن المنذر (رح) وابن حبان (رح) اور بیہقی (رح) نے البعث میں ابوسعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ ہم نے کہا یا رسول اللہ ﷺ نے کہ اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک میں سے اور پوری خوشی میں سے ہے کیا جنت والوں کی اولاد (پیدا) ہوگی تو آپ ﷺ نے فرمایا اگر مومن جنت میں اولاد کی خواہش کرے گا تو اس کا حمل اور اس کی ولادت اور اس کا بڑا ہونا ایک گھڑی میں ہوجائے گا جیسے وہ چاہے گا۔ 25:۔ عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے ابن سابط (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا جنت میں گھوڑے ہوں گے کیونکہ میں گھوڑوں سے محبت رکھتا ہوں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کردے گا پھر تو جو چیزچا ہے گا تو وہ مل جائے گا دیہاتی نے کہا کیا جنت میں اونٹ ہوگا کیونکہ میں اونٹ سے محبت کرتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اے دیہاتی ! اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کردے تو تجھ کو (ہر وہ چیز) ملے گی جو تیرا دل چاہے گا اور تیری آنکھ اس سے لذت اٹھائے گی۔ 26:۔ ابن ابی شیبہ (رح) و ترمذی (رح) وابن مردویہ (رح) نے بریدہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا کیا جنت میں گھوڑا ہوگا کیونکہ میں اس کو پسند کرتا ہوں فرمایا اگر تو اس کو پسند کرتا ہے تو تیرے پاس سرخ یاقوت کا گھوڑا لایا جائے گا وہ تیرے ساتھ جنت میں اڑے گا جہاں تو چاہے گا۔ ایک اور آدمی نے کہا کہ میں اونٹ کو پسند کرتا ہوں کیا جنت میں اونٹ ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ کے بندے ! اگر تجھ کو جنت میں داخل کردیا جائے گا تو تیرے لئے ہر وہ چیز ہوگی جو تیرا دل چاہے گا اور تیری آنکھیں لذت حاصل کریں گی۔ 27:۔ عبد بن حمید (رح) نے کثیر بن مرہ حضرمی (رح) سے روایت کیا کہ بادل جنت والوں پر گزرے گا تو کہے گا تم پر کیا برساؤں ؟ 28:۔ ابن ابی شیبہ (رح) نے ابن سابط (رح) سے روایت کیا کہ ایک قاصد جنت کے درختوں میں سے ایک درخت کی طرف آئے گا اور کہے گا کہ میرا رب تجھ کو حکم دیتا ہے کہ تو اس کیلئے ہو پھل نکال وہ جو چاہے پھر وہ قاصد اہل جنت میں سے ایک آدمی کے پاس آئے گا اس کو لباس پہنائے گا تو وہ جنتی کہے گا یقینی بات ہے کہ میں نے جوڑے دیکھے ہیں لیکن اس جیسا نہیں دیکھا۔ 29:۔ ابن ابی شیبہ (رح) نے عمر بن قیس (رح) سے روایت کیا کہ اہل جنت میں سے ایک آدمی پھل کی خواہش کرے گا تو وہ پھل آئے گا یہاں تک کہ ہو اس کے منہ میں بہنے لگے گا اور اس کی اصل اس کے درخت میں ہوگی۔ 30:۔ ابوالشیخ (رح) نے العظمہ میں عبدالرحمن بن سابط (رح) سے روایت کیا کہ اہل جنت میں سے ایک آدمی پانچ سوحوروں سے شادی کرے گا چار سو کنواری ہوں گی اور آٹھ ہزار ثیبہ (یعنی خاوند دیکھتی ہوگی) ان میں سے ہر ایک ایسی ہوگی جس کے ساتھ دنیا کی عمر (کے برابر) معانقہ کرے گا ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی وہاں اپنا ساتھی نہیں پائے گا کہ اس کیلئے اس کے دسترخوان کو رکھا جائے گا۔ اس میں سے اس کی حرص ختم نہیں ہوگی۔ ساری دنیا کی عمر کے برابر اور اس کے پاس ایک فرشتہ اس کے رب کی طرف سے مبارک بادی لے کر آئے گا۔ اور اس کی انگلیوں کے درمیان سو یا ستر جوڑے ہوں گے اور وہ کہے گا میرے رب کی طرف سے جو چیز مجھے ملی ہے اس سے زیادہ میرے لئے خوبصورت نہیں۔ وہ فرشتہ کہے گا کیا تو یہ پسند کرتا ہے وہ کہے گا ہاں تو وہ فرشتہ جن کے قریب تیرین درخت سے کہے گا تو رنگ بدل دے فلاں کے لئے جو اس کا دل چاہے۔ 31:۔ ابن جریر (رح) نے ابو ظبیۃ سلمی (رح) سے روایت کیا کہ جنتیوں کی ایک جماعت پر بادل سایہ کرے گا وہ کہے گا میں تم پر کیا برساؤں لوگوں میں سے جو بھی کسی چیز کی دعا کرے گا تو وہ بادل ان پر بارش برسادے گا یہاں تک کہ ایک کہنے والا کہے گا ہم پر ہم عمر ابھرے ہوئے سینے والیاں برساؤ۔
Top