Dure-Mansoor - Al-Fath : 20
وَعَدَكُمُ اللّٰهُ مَغَانِمَ كَثِیْرَةً تَاْخُذُوْنَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هٰذِهٖ وَ كَفَّ اَیْدِیَ النَّاسِ عَنْكُمْ١ۚ وَ لِتَكُوْنَ اٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَ یَهْدِیَكُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ
وَعَدَكُمُ : وعدہ کیا تم سے اللّٰهُ : اللہ نے مَغَانِمَ كَثِيْرَةً : غنیمتیں کثرت سے تَاْخُذُوْنَهَا : تم لوگے انہیں فَعَجَّلَ : تو جلددیدی اس نے تمہیں لَكُمْ : تمہیں هٰذِهٖ : یہ وَكَفَّ : اور روک دئیے اَيْدِيَ النَّاسِ : ہاتھ لوگوں کے عَنْكُمْ ۚ : تم سے وَلِتَكُوْنَ اٰيَةً : اور تاکہ ہو ایک نشانی لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کیلئے وَيَهْدِيَكُمْ : اور وہ ہدایت دے تمہیں صِرَاطًا : ایک راستہ مُّسْتَقِيْمًا : سیدھا
اللہ تعالیٰ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کر رکھا ہے جن کو تم لوگے، سردست تم کو یہ دے دی ہے اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیئے اور تاکہ یہ اہل ایمان کیلئے نمونہ ہوجائے اور تاکہ تم کو ایک سیدھی راہ پر ڈال دے
26:۔ ابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وعدکم اللہ مغانم کثیرۃ تاخذونھا “ (اور اللہ تعالیٰ تم سے بہت غنیمتوں کا وعدہ فرماتے ہیں جو تم اس کو لوگے) یعنی وہ کثیر غنیمتیں جو وعدہ دیئے گئے وہ انہوں نے آج کے دن حاصل نہیں کیں (آیت ) ’ ’ فعجل لکم ھذہ “ (سو سردست تم کو یہ دے دی گئی) یعنی ان کو خیبر (کی غنیمت جلدی عطا کردی گئی) 27:۔ ابن جریر (رح) وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وعدکم اللہ مغانم کثیرۃ تاخذونھا فعجل لکم ھذہ “ سے فتح (مکہ) مراد ہے (یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو جلدی فتح عطا فرمادی) 28:۔ ابن مردویہ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وعدکم اللہ مغانم کثیرۃ تاخذونھا فعجل لکم ھذہ “ سے خبیر کی فتح مراد ہے (آیت ) ” وکف ایدی الناس عنکم “ (اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیئے) یعنی مکہ والوں (کے ہاتھ) (آیت ) ” ان یستحلوا ما حرم اللہ اویستحل لکم وانتم حرم ولتکون ایۃ للمومنین “ (کہ تم حلال کرلو ایسی چیزیں کو جس کو اللہ نے حرام کیا اور تم حلال کرلو (شکار کو) حالانکہ تم احرام میں ہوتا کہ مومنین کے لئے نشانی ہوجائے۔ یعنی تمہارے بعد آنے والوں کے لئے سنت ہوجائے۔ 29:۔ ابن مردویہ (رح) و بیہقی (رح) نے دلائل میں مروان ومسور بن مخرمہ (رح) دونوں حضرات سے روایت کیا رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ کے سال واپس آئے ان پر سورة فتح مکہ اور مدینہ کے درمیان نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اس میں آپ کو خیر عطا فرمایا (آیت ) ” وعدکم اللہ مغانم کثیرۃ تاخذونھا فعجل لکم ھذہ “ سے مراد خیبر ہے نبی کریم ﷺ ذی الحجہ میں مدینہ منورہ تشریف لائے وہاں تھوڑا ساقیام فرمایا پھر محرم میں خیبر کی طرف چلے اور پھر رسول اللہ ﷺ وجیع مقام پر غطفان اور خیبر کے درمیان وادی میں تشریف لائے آپ کو خوف ہوا غطفان والے ان کی مدد کریں گے چناچہ آپ نے رات وہاں گزاری اور صبح کے وقت ان پر حملہ کردیا۔ 30:۔ عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” فعجل لکم ھذہ “ سے مراد ہے خیبر (آیت ) ” وکف ایدی الناس عنکم “ (اور لوگوں کے ہاتھوں کو ان سے روک دیا) یعنی ان کے سامان اور ان کے اہل و عیال سے جو مدینہ میں تھے (ان سے کافروں کو روک دیا) جب وہ مدینہ سے خبیر کی طرف چلے۔ 31:۔ عبد بن حمید (رح) وابن المنذر (رح) نے عطیہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” فعجل لکم ھذہ “ سے فتح خیبر مراد ہے۔ 32:۔ ابن المنذر (رح) نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وکف ایدی الناس عنکم “ سے مراد ہے کہ دو حلیف اسد اور عطفان کہ ان پر متزاد عیینہ بن حصن اور اس کے ساتھ مالک بن عوف النصری ابونصر ابوخیبر والے سب معونہ کے کنویں پر تھے (مگر) اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا وہ لوگ شکست کھاگئے، اور نبی کریم ﷺ کے مقابلہ میں نہ آئے پھر فرمایا (آیت ) ” ولو قاتلکم الذین کفروا “ اور وہ اسد اور غطفان مراد ہیں۔ (آیت ) ” لولوا الادبار “ سے لے کر (آیت ) ” ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا “ (وہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے یہاں تک کہ اللہ کے طریقے کو بدلا ہوا نہیں پائیں گے) یعنی اللہ کے طریقے ان لوگوں کے بارے میں جو پہلے سے گزر چکے کہ جس کسی نے بھی اس کے نبی سے قتال کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو ذلیل ورسوا کیا پس اسے یا تو ہلاک کردیا یا اس پر رعب ڈال دیا تو وہ شکست کھاگئے اور تو ہرگز دشمن کو نہیں سنے گا مگر یہ کہ وہ شکست کھائیں گے اور صلح کی پیشکش کریں گے۔ 33:۔ عبد بن حمید (رح) وابن المنذر (رح) وابن ابی حاتم (رح) وابن مردویہ (رح) اور بیہقی (رح) نے دلائل میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” واخری لم تقدروا علیھا “ (اور ایک فتح اور بھی ہے جو ابھی تمہارے قابو میں نہیں آئی) سے مراد ہے یہ وہ فتوحات ہیں جو آج تک ہوتی رہیں۔ 34:۔ البیہقی (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” قد احاط اللہ بھا انھا ستکون لکم “ (خدا تعالیٰ کا علم اس کو احاطے میں کئے ہوئے ہے کہ عنقریب وہ تمہارے لئے ہوگا) یہ اس قول کی طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو علم کے لحاظ سے احاطے میں لئے ہوئے ہے کہ وہ تمہارے لئے ہے۔ 35:۔ ابن ابی شیبہ (رح) ابوالاسود دیلمی (رح) سے روایت کیا کہ زبیر بن عوام جب بصرہ تشریف لائے بیت المال میں داخل ہوئی اچانک سونے اور چاندی کو دیکھ کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت ) ” وعدکم اللہ مغانم کثیرۃ تاخذونھا فعجل لکم ھذہ کف ایدی الناس عنکم، ولتکون ایۃ للمؤمنین ویھدیکم “ فرمایا یہ ہمارے لئے ہے۔ 36:۔ ابن عساکر (رح) نے علی اور ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وعدکم اللہ مغانم کثیرۃ “ میں خیبر کے وقت سے لے کر تمام فتوحات مراد ہیں (آیت ) ” تاخذونھا “ یعنی تم اس کو لوگے اور تم غنیمت کو پاؤ گے جو اس میں ہوگا (آیت ) ” فعجل لکم “ پس ان میں سے خیبر تم کو جلدی عطا فرما دیا۔ (آیت) ” وکف ایدی الناس “ یعنی قریش کے ہاتھوں کو تم سے روک دیا۔ (آیت ) ” عنکم “ (تم سے) یعنی صلح کے ذریعہ حدیبیہ کے دن (آیت ) ” ولتکون ایۃ للمؤمنین “ اور تاکہ وہ نشانی بن جائے ایمان والوں کے لئے تاکہ جیہ اس کے بعد آنے والے مؤمنین کے لئے ان کے پورا ہونے پر شاہد اور دلیل ہوجائے (آیت ) ” واخری لم تقدروا علیھا “ یعنی کئی مزید فتوحات جن کے علم پر تم قدرت نہیں رکھتے تھے اور ان میں اللہ تعالیٰ نے تمہارے درمیان فارس اور روم کو تقسیم فرمادیا۔ 37:۔ سعید بن منصور (رح) وعبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) والبیہقی (رح) نے عبدالرحمن بن ابی یعلی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” واخری لم تقدروا علیھا “ اور دوسری غنیمت جس پر ابھی قادر نہیں ہوئے یہ فارس اور روم (کی غنیمتیں) ہیں۔
Top