Dure-Mansoor - Al-Fath : 26
اِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْحَمِیَّةَ حَمِیَّةَ الْجَاهِلِیَّةِ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى وَ كَانُوْۤا اَحَقَّ بِهَا وَ اَهْلَهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠   ۧ
اِذْ جَعَلَ : جب کی الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا فِيْ قُلُوْبِهِمُ : اپنے دلوں میں الْحَمِيَّةَ : ضد حَمِيَّةَ : ضد الْجَاهِلِيَّةِ : زمانۂ جاہلیت فَاَنْزَلَ اللّٰهُ : تو اللہ نے اتاری سَكِيْنَتَهٗ : اپنی تسلی عَلٰي رَسُوْلِهٖ : اپنے رسول پر وَعَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ : اور مومنوں پر وَاَلْزَمَهُمْ : اور ان پر لازم فرمادیا كَلِمَةَ : بات التَّقْوٰى : تقوی کی وَكَانُوْٓا : اور وہ تھے اَحَقَّ بِهَا : زیادہ حقدار اس کے وَاَهْلَهَا ۭ : اور اس کے اہل وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کو عَلِيْمًا : جاننے والا
جب کہ ان کافروں نے اپنے دلوں میں عار کو جگہ دی اور عار بھی جاہلیت کی تھی سو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اور مومنین کو اپنی طرف سے تحمل عطا فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو تقوی کی بات پر جمائے رکھا اور وہ اس کے زیادہ مستحق ہیں اور اس کے اہل ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے
1:۔ ابن ابی شیبہ (رح) واحمد والبخاری (رح) ومسلم (رح) والنسائی وابن جریر والطبرانی وابن مردویہ (رح) اور بیہقی (رح) نے دلائل میں سہل بن حنیف (رح) سے روایت کیا کہ آپ نے صفین کے دن فرمایا تم نے اپنے آپ کو بدگمان کیا اور البتہ یقینی طور پر تو نے ہمیں دیکھا حدیبیہ کے دن کہ ہم صلح کے دن خوف کھارے تھے جو نبی کریم ﷺ اور مشرکین کے درمیان ہوئی اور اگر ہم لڑائی کو دیکھتے تو ہم ضرور لڑتے حضرت عمر ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے عرض کیا یا رسول اللہ کی ہم حق پر نہیں ہیں اور وہ لوگ باطل پر ؟ فرمایا کیوں نہیں پھر عرض کیا کیا ہمارے مقتول جنت میں نہیں ہیں۔ اور ان کے مقتول آگ میں ؟ فرمایا کیوں نہیں پھر عرض کیا ہم کیوں اپنے دین کے بارے میں کمزوری دکھا رہے ہیں اور اس کی طرف لوٹ رہے ہیں جب اللہ تعالیٰ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ فرمائیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اے خطاب کے بیٹے ! بلاشبہ میں اللہ کا رسول ہوں اللہ ہرگز مجھے کبھی ضائع نہیں کریں گے عمر غصہ ہو کر لوٹ گئے اور صبر نہ کرسکے یہاں تک کہ ابوبکر ؓ کے پاس آگئے اور کہا اے ابوبکر ؓ ہم حق پر نہیں ہیں۔ اور وہ باطل پر نہیں ہیں ابوبکر ؓ نے فرمایا کیوں نہیں پھر عمر ؓ نے کہا ہمارے مقتول جنت میں نہیں اور ان کے مقتول دوزخ میں نہیں ہیں ابوبکر ؓ نے فرمایا کیوں نہیں پھر عمر ؓ نے کہا پھر ہم اپنے دین کے بارے میں کمزوری کا مظاہرہ کیوں کررہے ہیں ابوبکر ؓ نے فرمایا اے خطاب کے بیٹے بلاشبہ وہ اللہ کے رسول ہیں اللہ تعالیٰ ہرگز ان کو ضائع نہیں کریں گے تو سورة فتح نازل ہوئی رسول اللہ ﷺ نے عمر ؓ کو بلا بھیجا اور خاص طور پر ان کے سامنے اس سورة کو پڑھا عمر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا یہ فتح ہے ؟ فرمایا ہاں۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر سکینہ نازل ہونا : 2:۔ النسائی والحاکم (وصححہ) من طریق ابی ادریس، ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس طرح پڑھتے تھے (آیت ) ” اذ جعل الذین کفروا فی قلوبھم الحمیۃ حمیۃ الجاھیلۃ “ اگر تم بھی اسی طرح ضد کرتے جیسے انہوں نے ضد کی تو زمین میں فساد ہوجاتا۔ (آیت ) ” فانزل اللہ سکینۃ علی رسولہ “ جب ان کافروں نے اپنے دلوں میں عار کو جگہ دی اور عار بھی جاہلیت کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر سکینہ کو نازل فرمایا یہ بات عمر ؓ کو پہنچی تو ان پر بہت بھاری گزری تو آپ نے ان کو اپنی طرف بلایا تو وہ ان کے پاس آئے تو حضرت عمر ؓ نے صحابہ کرام میں سے بھی کچھ لوگوں کو بلایا جس میں زید بن ثابت ؓ بھی تھے اور فرمایا تم میں سے سورة فتح کون پڑھے گا ؟ تو زید نے ہماری آج کی قرأت کے مطابق پڑھا تو اس پر غصہ آگیا تو ابی ؓ نے کہا کیا میں بات کروں انہوں نے کہا آپ بات کریں فرمایا البتہ یقینی بات ہے تم جانتے ہو میں نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوتا تھا اور آپ ﷺ مجھے پڑھاتے تھے اور آپ دروازہ پر ہوتے۔ اگر آپ پسند کریں کہ میں لوگوں کو اس طرح پڑھاؤں جیسے آپ ﷺ نے مجھے پڑھائی ہے تو میں پڑھاتا ہوں ورنہ جب تک میں زندہ ہوں ایک حروف بھی نہ پڑھاؤں گا تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا نہیں بلکہ تم لوگوں کو پڑھاؤ۔ 3:۔ ابن المنذر (رح) نے ابن جریج (رح) سے (آیت ) ” حمیۃ الجاھیلۃ “ کے بارے میں روایت کیا کہ قریش نے ضد کی محمد ﷺ کے داخل ہونے کے بارے میں اور انہوں نے کہا ہو کبھی ہم پر داخل نہیں ہوسکتے تو اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ اور آپ کے اصحاب کی حمیت کو ہٹا دیا (یعنی ضد کو ختم کردیا) 4:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے اجلح (رح) سے روایت کیا حمزہ بن عبدالمطلب ؓ خوبصورت بالوں والے خوبصورت شکل و صورت والے اور شکار کرنے والے تھے (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ ابوجہل کے پاس سے گزرے تو اس نے آپ کو روکا اور آپ کو تکلیف دی حمزہ شکار سے لوٹے ان دونوں کی ان ان کے پیچھے چلنے لگیں ان میں سے ایک نے کہا اگر حمزہ جان لیتے کہ جو کچھ ان کے بھتیجے کے پاس کیا گیا تو چلنے سے رک جاتے۔ حمزہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا وہ کیا معاملہ ہے ؟ اس عورت نے کہا ابوجہل نے محمد ﷺ کے ساتھ ایسا ایسا کیا ہے (یہ سنتے ہی) ان میں حمیت آگئی (یعنی غیرت جوش میں آئی وہ آئے یہاں تک کہ مسجد میں داخل ہوگئے اس میں ابوجہل موجود تھے تو اپنی کمان کے ساتھ اس کے سر پر ضرب لگائی پھر کہا میرا دین محمد ﷺ کا دین ہے اگر تم سچ بولنے والوں میں سے ہو تو مجھے روک دو ، قریش اس کے طرف کھڑے ہوئے اور کہنے لگے اے ابویعلی ! تو اللہ تعالیٰ نے یہ (آیت) نازل فرمائی ” اذ جعل الذین کفروا فی قلوبھم الحمیۃ حمیۃ الجاھیلۃ “ (سے لے کر) (آیت ) ” والزمھم کلمۃ التقوی “ تک۔ اس سے مراد حمزہ ؓ ہیں (جبکہ ان کافروں نے اپنے دلوں میں عار کو جگہ دی اور عار بھی جاہلیت کی سو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مؤمنوں کو اپنی طرف سے تحمل عطا کیا اور مسلمانوں کو تقوی کے منصب پر جمائے رکھا) اماقولہ تعالیٰ : (آیت ) ” والزمھم کلمۃ التقوی “ 5:۔ الترمذی و عبداللہ بن احمد فی زوائد المسند وابن جریر ودارقطنی فی الافراد وابن مردویہ : (رح) والبیہقی (رح) فی الاسماء والصفات ابی ابن کعب ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ (آیت ) ” والزمھم کلمۃ التقوی “ (اور مسلمانوں کو تقوی کی ملت پر جمائے رکھا) سے مراد ہے ” لا الہ الا اللہ “ 6:۔ ابن مردویہ (رح) نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” والزمھم کلمۃ التقوی “ سے مراد ہے ” لا الہ الا اللہ “ 7:۔ ابن مرودیہ (رح) نے سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” والزمھم کلمۃ التقوی “ سے مراد ہے ” لا الہ الا اللہ “ 8:۔ عبدالرزاق والفریابی وعبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) وابن ابی حاتم والحاکم (وصححہ) والبیہقی (رح) نے الاسماء والصفات میں علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” والزمھم کلمۃ التقوی “ سے مراد ہے ” لا الہ الا اللہ “ 9:۔ ابن جریر (رح) نے وابو الحسین بن مروان اپنے فوائد میں علی ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” والزمھم کلمۃ التقوی “ سے مراد ہے ” لا الہ الا اللہ واللہ اکبر “ 10:۔ احمد نے حمران مولی عثمان بن عفان ؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بلاشبہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ جو بندہ حق سمجھ کر اس کو اپنے دل سے کہے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کو حرام کردیتے ہیں عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا میں تم کو بتاتا ہوں کہ وہ اخلاص کا کلمہ کیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ اور آپ کے اصحاب پر لازم کردیا اور وہی تقوی کا کلمہ ہے جو اللہ کے نبی ﷺ نے اپنے چچا ابو طالب پر پیش فرمایا تھا ان کی موت کے وقت اور وہ ” لا الہ الا اللہ “ کی شہادت ہے۔ 11:۔ ابن جریر (رح) وابن المذر (رح) وابن ابی حاتم (رح) وابن مردویہ (رح) اور بیہقی (رح) نے الاسماء والصفات میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” والزمھم کلمۃ التقوی “ سے مراد ہے ” لا الہ الا اللہ “ کی گواہی اور یہ ہر تقوی کی بنیاد ہے۔ 12:۔ عبد الرزاق و سعید بن منصور (رح) وابن جریر وابن المنذر وابن مردویہ والبیہقی نے علی ازدی (رح) سے روایت کیا کہ میں ابن عمر کے ساتھ مکہ اور منی کے درمیان تھا آپ نے لوگوں سے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے ” لا الہ الا اللہ واللہ اکبر (یہ سن کر) حضرت علی ؓ نے فرمایا ہاں یہی ہے، یہی ہے ، (وہ کلمہ) میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ تو آپ ؓ نے فرمایا (آیت ) ” والزمھم کلمۃ التقوی “۔ 13:۔ ابن ابی حاتم والدارقطنی نے الافراد میں مسور بن مخرمہ اور مروان بن الحکم ؓ دونوں سے روایت کیا کہ (آیت ) ” والزمھم کلمۃ التقوی “ سے مراد ہے ” لا الہ الا اللہ وحدلا شریک لہ “ 14:۔ ابن جریر نے ابن جریج کے طریق سے مجاہد وعطا رحمہما اللہ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” والزمھم کلمۃ التقوی “ کے بارے میں ان دو میں سے ایک نے کہا کہ اس سے اخلاص مراد ہے اور دوسرے نے کہا کلمہ التقوی سے مراد ہے ” لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر “۔ 15:۔ ابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” والزمھم کلمۃ التقوی “ سے کلمہ اخلاص مراد ہے۔ 16:۔ ابن جریر (رح) نے عمرو بن میمون (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” والزمھم کلمۃ التقوی “ سے ” لا الہ الا اللہ “ مراد ہے۔ 17:۔ عبد بن حمید وابن جریر (رح) نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” والزمھم کلمۃ التقوی “ سے مراد ہے ” لا الہ الا اللہ “ 18:۔ عبد بن حمید (رح) نے مجاہد حسن، قتادہ ابراہیم التیمی اور سعید بن جبیر ؓ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ 19:۔ عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے عطا خراسانی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” والزمھم کلمۃ التقوی “ سے مراد ہے ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “۔ 20:۔ عبد الرزاق (رح) وعبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) وابن المنذروابن ابی حاتم (رح) نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” والزمھم کلمۃ التقوی “ سے مراد ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم “ 21:۔ ابن جریر (رح) نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وکانوا احق بھا واھلھا “ (اور وہ اس کے زیادہ مستحق اور اس کے اہل بھی ہیں) یعنی مسلمان زیادہ حقدار ہیں اس کے اور وہ اس کے لائق ہیں۔
Top