Dure-Mansoor - Al-Maaida : 101
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ١ۚ وَ اِنْ تَسْئَلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ١ؕ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والے لَا تَسْئَلُوْا : نہ پوچھو عَنْ : سے۔ متعلق اَشْيَآءَ : چیزیں اِنْ تُبْدَ : جو ظاہر کی جائیں لَكُمْ : تمہارے لیے تَسُؤْكُمْ : تمہیں بری لگیں وَاِنْ : اور اگر تَسْئَلُوْا : تم پوچھوگے عَنْهَا : ان کے متعلق حِيْنَ : جب يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ : نازل کیا جارہا ہے قرآن تُبْدَ لَكُمْ : ظاہر کردی جائینگی تمہارے لیے عَفَا اللّٰهُ : اللہ نے درگزر کی عَنْهَا : اس سے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا حَلِيْمٌ : بردبار
اے ایمان والو ! ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو کہ اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تم کو ناگوار ہوں اور اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کرو گے جس وقت قرآن نازل ہو رہا ہو تو وہ تمہارے لئے ظاہر کردی جائیں گی اللہ نے ان کے بارے میں معافی دے دی اور اللہ بخشنے والا اور حلم والا ہے۔
بےموقع سوالات کی ممانعت (1) امام بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابن جریر، ابن مردویہ اور ابو الشیخ نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا خطبہ ارشاد فرمایا کہ میں نے اس جیسا کبھی نہیں سنا ایک آدمی نے کہا میرا باپ کون ہے آپ ﷺ نے فرمایا فلاں تو یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت لا تسئلوا عن اشیآء (2) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے قتادہ ؓ کے طریق سے انس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت یایھا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیآء ان تبدلکم تسوکم کے بارے میں فرمایا کہ لوگوں نے نبی ﷺ سے سوال کیا یہاں تک کہ سوالوں سے آپ کو گھیر لیا۔ ایک دن آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور منبر پر چڑھ گئے اور فرمایا تم مجھ سے آج کے دن جس چیز کے بارے میں پوچھو گے تو میں تم کو اس کے بارے میں بتاؤں گا۔ جب یہ بات صحابہ نے سن لی تو انہوں نے گمان کیا کہ ہمارے لئے کوئی خاص حکم آچکا ہے۔ میں دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ہر آدمی نے اپنے کپڑے کو اپنے سر کے ساتھ لپیٹ لیا اور رو رہا ہے۔ ایک آدمی آیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا تیرا باپ حذافہ ہے اور اسے غیر باپ کی طرف منسوب کیا جاتا تھا۔ عمر بن خطاب ؓ نے (یہ حال دیکھ کر) فرمایا ہم راضی ہیں اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر اور ہم پناہ مانگتے ہیں برے فتنے سے۔ (یہ سن کر) نبی ﷺ نے فرمایا میں نے آج جیسی خیر اور شر میں کبھی نہیں دیکھی۔ بلاشبہ جنت اور دوزخ میرے لئے جسم مثال کی صورت میں پیش کی گئی۔ یہاں تک کہ میں نے ان دونوں کو اس دیوار کے پیچھے دیکھا۔ قتادہ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کو وہ سب کچھ دکھاتا ہے۔ جو تم نہیں دیکھتے اور وہ سناتا ہے جو تم نہیں سن سکتے راوی نے کہا ان پر یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت یایھا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیآء (الآیہ) قتادہ نے فرمایا کہ ابی بن کعب کی قرأت میں یوں ہے لفظ آیت قد سالھا قوم من قبلکم ثم اصبحوا بھا کفرین (3) امام بخاری، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے لوگ مذاق کرتے ہوئے سوال کرتے تھے۔ ایک آدمی نے کہا میرا باپ کون ہے ؟ دوسرے آدمی نے کہا میری اونٹنی گم ہوگئی۔ کہاں ہے ؟ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری لفظ آیت یایھا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیآء یہاں تک کہ پوری آیت سے فارغ ہوگئے۔ بے جا سوال کر کے علماء کا وقت ضائع کرنا گناہ ہے (4) امام ابن جریر نے ابن عون (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عکرمہ سے سوال کیا جو ابن عباس کے غلام تھے لفظ آیت یایھا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیآء ان تبدلکم تسوکم کے بارے میں تو انہوں نے فرمایا ایک دن نبی ﷺ صحابہ کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا آج کے دن تم مجھ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کرو گے تو میں تم کو خبر دوں گا۔ ایک آدمی کھڑا ہوا مسلمانوں نے اس دن اس کا کھڑے ہونا ناپسند کیا اس نے کہا یا رسول اللہ میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا تیرا باپ حذافہ ہے۔ تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (5) امام عبد الرزاق اور ابن جریر نے طاؤس سے روایت کیا کہ یہ آیت لفظ آیت لا تسئلوا عن اشیآء ان تبدلکم تسوکم ایک آدمی کے بارے میں نازل ہوئی جس نے کہا یا رسول اللہ میرا باپ کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تیرا باپ فلاں ہے۔ (6) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت یایھا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیآء کے بارے میں فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن غصہ ہوئے اور خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور فرمایا مجھ سے سوال کرو جو تم مجھ سے جس چیز کے بارے میں سوال کرو گے تو میں تم کو بتاؤں گا۔ قریش کے قبیلہ بنی سہم میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا۔ جس کو عبد اللہ بن حذافہ کہا جاتا تھا اور وہ اس میں مطعون کیا جاتا تھا۔ اس نے کہا یا رسول اللہ میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا تیرا باپ فلاں ہے۔ اس کو اس کے باپ کے نام سے پکارو (یہ دیکھ کر) حضرت عمر ؓ نے آپ کی طرف کھڑے ہوئے اور آپ کے پاؤں کو بوسہ دے کر عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم راضی ہیں اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر۔ آپ کے نبی ہونے پر اور قرآن کے امام ہونے پر ہم کو معاف کر دیجئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو معاف فرما دیں گے۔ عمر ؓ برابر اس بات کو کہتے رہے یہاں تک کہ آپ راضی ہوگئے۔ اس دن آپ نے فرمایا اور اولاد خاوند کے لئے ہے۔ اور بدکار کے لئے پتھر ہیں۔ اور اس پر (یہ آیت) اتری لفظ آیت قد سالھا قوم من قبلکم (7) امام فریابی، ابن جریر اور ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ کا چہرہ غصہ سے سرخ تھا یہاں تک کہ آپ منبر پر بیٹھ گئے۔ ان کی طرف ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا میرے آباؤ اجداد کہاں ہیں ؟ آپ نے فرمایا آگ میں دوسرا آدمی کھڑا ہوا۔ اور اس نے کہا میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا تیرا باپ حذافہ ہے۔ عمر بن خطاب ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا ہم اللہ کے رب ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر اور محمد ﷺ کے نبی اور قرآن کے امام ہونے پر راضی ہیں۔ یا رسول اللہ ہم جاہلیت اور شرک کے زمانے سے نئے نئے آئے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد کون ہیں۔ تو آپ ﷺ کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ لفظ آیت یایھا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیآء (8) امام ابن حبان نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا اے لوگو اللہ تعالیٰ نے تم پر حج کو فرض فرمایا ہے۔ ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہا ہر سال کے لئے یا رسول اللہ ؟ آپ اس سے خاموش ہوگئے یہاں تک کہ اس نے تین بار سوال کو لوٹایا پھر آپ نے فرمایا اگر میں ہاں کہہ دیتا تو (ہر سال حج) فرض ہوجاتا۔ اور اگر فرض ہوجاتا تو تم اس کو قائم نہ کرسکتے۔ مجھ کو چھوڑ دو جو کچھ میں نے تمہارے لئے چھوڑا ہے۔ تم سے پہلے لوگ اپنے کثرت سوال اور ان کے اپنے نبیوں کے ساتھ تکرار کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ جب میں تم کو کسی چیز سے منع کروں تو اس سے رک جاؤ۔ اور جب میں تم کو کسی چیز کا حکم دوں تو اس کو بجا لاؤ جتنی تم طاقت رکھتے ہو۔ اور یہ بات ذکر کی گئی کہ سورت مائدہ کی یہ آیت یعنی لفظ آیت یایھا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیآء ان تبدلکم تسوکم اس واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ (9) امام ابن جریر، ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ ہم کو رسول اللہ ﷺ نے خطبہ ارشاد کرتے ہوئے فرمایا کہ اے لوگو اللہ نے تم پر حج کو فرض کردیا ہے۔ عکاتہ بن محصن الاسدی اٹھے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا ہر سال میں (حج فرض ہے) فرمایا خبردار اگر میں ہاں کر دوں تو ہر سال حج فرض ہوجائے۔ اگر تم پر فرض ہوجاتا تو تم اس کو چھوڑ دیتے تو تم گمراہ ہوجاتے۔ تم مجھ سے خاموش ہوجاؤ جب تک میں تم سے کچھ نہ کہوں۔ تم سے پہلے لوگ سوال کرنے اور اپنے نبیوں سے تکرار کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو اتارا لفظ آیت یایھا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیآء ان تبدلکم تسوکم آخری آیت تک۔ (10) امام ابن جریر، طبرانی اور ابن مردویہ نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کردیا ہے۔ لوگوں میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا۔ اور کہا ہر سال میں (حج فرض ہے ؟ ) آپ نے لمبی خاموشی اختیار فرمائی پھر آپ نے بات کی اور فرمایا سائل کون ہے ؟ اس نے کہا میں ہوں آپ نے فرمایا تجھ پر افسوس ہے تجھے کون بچاتا کہ اگر میں نعم کہہ دیتا اللہ کی قسم اگر میں نعم کہہ دیتا تو (ہر سال حج) فرض ہوجاتا۔ اگر فرض ہوجاتا تو تم چھوڑ بیٹھتے۔ اور اگر تم چھوڑ بیٹھتے تو تم کفر کرتے خبردار تم سے پہلے لوگوں کو ان لوگوں نے ہلاک کیا جو سوال کر کے لوگوں کو مصیبت میں ڈالتے رہے۔ اللہ کی قسم اگر میں زمین کی ہر چیز تمہارے لئے حلال کردوں اور حرام کر دوں تم پر اس میں سے اونٹ کے پاؤں کی جگہ تو تم اس میں واقع ہوجاتے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری لفظ آیت یایھا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیآء آخر آیت تک۔ (11) امام ابن مردویہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تم پر حج کو فرض کردیا ہے ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ہر سال ؟ آپ نے اس سے اعراض فرمایا پھر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اگر میں نعم کہہ دیتا تو (ہر سال حج) فرض ہوجاتا اور اگر واجب ہوجاتا تو تم اس کی طاقت نہ رکھتے اور اگر تم اس کو چھوڑ دیتے تو تم کفر کرتے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری لفظ آیت یایھا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیآء (12) امام ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا میرا باپ کہاں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا جہنم میں۔ پھر دوسرا آدمی آیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ حج ہر سال ہے ؟ رسول اللہ ﷺ ناراض ہوگئے اور آپ گھر میں داخل ہوگئے آپ باہر تشریف لائے اور فرمایا تم جو سوال کرو گے میں تم کو اس کا جواب دوں گا۔ پھر فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اگر میں نعم کہہ دیتا تو تم پر ہر سال حج فرض ہوجاتا پھر تم انکار کردیتے تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو اتارا لفظ آیت یایھا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیآء (13) امام احمد، ترمذی، ابن ماجہ، ابن منذر، ابن ابی حاتم، دار قطنی، ابن مردویہ، حاکم نے علی ؓ سے روایت کیا کہ جب (یہ آیت) نازل ہوئی لفظ آیت وللہ علی الناس حج البیت (آل عمران آیت 97) تو صحابہ نے کہا یا رسول اللہ کیا ہر سال حج فرض ہے ؟ آپ خاموش رہے صحابہ ؓ نے کہا کیا ہر سال میں (حج ہے ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا نہیں میں نعم کہتا تو (حج کرنا) واجب ہوجاتا تو (یہ آیت) نازل ہوئی لفظ آیت یایھا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیآء ان تبدلکم تسوکم (14) امام ابن جریر اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب حج کی آیت نازل ہوئی تو نبی ﷺ نے لوگوں میں اس کا اعلان کیا اور فرمایا اے لوگو اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے۔ پس حج کرو صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ایک سال یا ہر سال ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ ایک سال اگر میں ہر سال کہہ دیتا تو (ہر سال) واجب ہوجاتا اگر واجب ہوجاتا تو تم انکار کردیتے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت یایھا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیآء (الآیہ) حج زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے (15) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں میں اعلان کیا اور فرمایا اے میری قوم تم پر حج فرض کیا گیا ہے۔ نبی اسلم میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہا یا رسول اللہ کیا ہر سال میں ؟ تو آپ ﷺ سخت غصہ ہوئے اور فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اگر میں نعم کہہ دیتا تو ہر سال حج فرض ہوجاتا، یہ ہر سال فرض ہوجاتا تو تم طاقت نہ رکھتے بلکہ اس کا تم انکار کردیتے تم مجھے کچھ نہ کہا کرو جب تک میں تم کو چھوڑے رکھوں جب میں تم کو کسی چیز کا حکم دوں۔ تو تم اس کو کرلو اور جب میں تم کو کسی چیز سے روک لوں تو اس سے رک جاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری لفظ آیت یایھا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیآء ان تبدلکم تسوکم اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو منع فرمایا کہ وہ اس قسم کے سوال نہ کریں جیسے نصاری نے دستر خوان کا سوال کیا تھا۔ پھر کافر ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا اور فرمایا لفظ آیت لا تسئلوا عن اشیآء یعنی جب قرآن نازل ہو اور اس میں سختی ہو تو یہ تم کو برا لگے گا لیکن تم انتظار کرو۔ جب قرآن نازل ہو رہا ہو۔ تو تم جس چیز کے بارے میں سوال کرو گے تم اس کا بیان پالو گے۔ (16) امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت یایھا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیآء کے بارے میں فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے حج کا ذکر فرمایا تو کہا گیا یا رسول اللہ کیا وہ ہر سال فرض ہے ؟ فرمایا نہیں اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال تم پر فرض ہوجاتا اور اگر (وہ ہر سال) واجب ہو جاتاتو تم اس کی طاقت نہیں رکھتے اور اگر تم اس کی طاقت نہیں رکھتے اس کا انکار کردیتے۔ پھر فرمایا مجھ سے سوال کرو۔ میری اس مجلس میں کوئی آدمی کسی چیز کے بارے میں مجھ سے سوال کرے گا تو میں اسے اس کا جواب دوں گا۔ اگرچہ تم مجھ سے اپنے باپ کے بارے میں سوال کرو۔ آپ ﷺ کی طرف ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا میرا باپ کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تیرا باپ حذافہ بن قیس ہے۔ حضرت عمر ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم اللہ کے رب ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر اور محمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی ہیں اور ہم اللہ سے پناہ مانگتے ہیں اس کے غصہ سے اور اس کے رسول کے غصہ سے۔ (17) امام ابن منذر نے سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کیا کہ وہ لوگ سوال کرتے ہیں ایسی چیز کے بارے میں جو ان کے لئے حلال تھی مگر وہ برابر سوال کرتے رہتے تھے یہاں تک کہ وہ ان پر حرام کردی جاتی۔ جب وہ ان پر حرام کردی گئی تو وہ اس میں جا پڑے۔ (18) امام شافعی، احمد، بخاری، مسلم، ابو داؤد اور ابن منذر نے سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسلمانوں میں سے سب سے بڑا مسلمان جرم کے لحاظ سے وہ ہے کہ اس نے ایک ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا جو ان پر حرام نہ تھی۔ پھر اس کے پوچھنے کی وجہ سے حرام کردی گئی۔ (19) ابن جریر، ابن منذر اور حاکم نے (اور اس کی تصحیح بھی کی) ابو ثعلبہ خشنی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ اللہ کے لئے حدود مقرر ہیں اس سے تجاوز نہ کرو۔ اور تمہارے لئے فرائض مقرر فرمائے ان کو ضائع نہ کرو کچھ چیزوں کو حرام فرمایا ان کو پامال نہ کرو۔ اور کچھ چیزوں کو چھوڑ دیا غیر نسیان میں لیکن یہ رحمت ہے اس کی طرف سے تمہارے لئے اس کو قبول کرو اور اس کے بارے میں جستجو نہ کرو۔ (20) سعید بن منصور، ابن جریر، ابن منذر، ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے خصیف کے طریق سے مجاہد (رح) سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت لا تسئلوا عن اشیآئ کے بارے میں فرمایا یعنی بحیرہ سائبہ وصیلہ اور حام کے بارے میں سوال کیا تو نے نہیں دیکھا کہ وہ اس کے بعد فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نہیں بتایا اس طرح سے اور نہ اس طرح سے اور عکرمہ نے فرمایا کہ وہ لوگ ان سے پوچھتے تھے آیات کے بارے میں تو ان کو اس سے منع کردیا گیا پھر فرمایا لفظ آیت قد سالھا قوم من قبلکم ثم اصبحوا بھا کفرین میں نے کہا مجاہد نے ابن عباس سے اس کے خلاف مجھ سے بیان فرمایا تو تم کو یہ کہنے کا کیا حق ہے ؟ تو عکرمہ ؓ نے کہا اس کو لے لو۔ (21) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے عبد الکریم کے طریق سے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت یایھا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیآء کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد وہی صحابی ہے جس نے نبی ﷺ سے سوال کیا تھا کہ میرا باپ کون ہے ؟ اور سعید بن جبیر ؓ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے بحیرہ اور سائبہ کے بارے میں سوال کیا تھا اور مقسم نے کہا یہ ان امتوں کے بارے میں ہے جنہوں نے اپنے انبیاء سے آیات کے بارے میں سوال کیا تھا۔ (22) امام عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے نافع (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت لا تسئلوا عن اشیآء کے بارے میں فرمایا ہمیشہ سے سوال کی زیادتی ناپسند کی جاتی ہے۔ (23) امام عبد بن حمید نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس کو یوں پڑھا لفظ آیت تبدلکم تاء کے رفع اور دال کے نصب کے ساتھ۔ (24) امام ابو الشیخ نے عبد الملک بن ابی جمعہ ازدی (رح) سے روایت کی انہوں نے کہا میں حضرت حسن سے بھنگی کی کمائی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھ سے فرمایا اس چیز کے بارے میں تو نہ پوچھ اگر تمہارے گھروں میں (کوڑا) چھوڑ دیا جائے تو تم پر تنگی ہوجائے۔ پھر یہ آیت تلاوت کی لفظ آیت یایھا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیآء ان تبدلکم تسوکم (25) امام احمد، ابو الشیخ، طبرانی اور ابن مردویہ نے ابو امامہ ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں وقوف عرفہ کیا اور فضل بن عباس کو پیچھے بٹھاتے ہوئے اپنے اونٹ پر۔ آپ نے فرمای اے لوگو ! علم کو لے لو پہلے اس سے کہ وہ اٹھا لیا جائے یا اس کو قبض کرلیا جائے۔ راوی نے کہا کہ ہم اس آیت کے نازل ہونے کے بعد یعنی لفظ آیت لا تسئلوا عن اشیآء ان تبدلکم تسوکم ہم نے ایک دیہاتی کو آگے کیا ہم نے سوال کے بدلہ میں اس کو ایک چادر دی اس نے اسے عمامہ بنا لیا یہاں تک کہ میں نے چادر کا کنارہ اس کے دائیں کندھے پر دیکھا ہم نے اس سے کہا رسول اللہ ﷺ سے سوال کر کس طرح یہ علم اٹھا لیا جائے گا جب کہ یہ قرآن ہمارے درمیان ہے۔ ہم نے اس کو سیکھا اور ہم نے اپنی عورتوں اپنی اولاد اور اپنے خادموں کو سکھایا ؟ رسول اللہ ﷺ نے اپنا سر مبارک اوپر اٹھایا اور آپ کا چہرہ غصہ سے سرخ تھا۔ آپ نے فرمایا کیا یہود و نصاری کے پاس مصاحت نہیں ہیں۔ اب ان کی یہ حالت ہوگئی کہ اس میں سے ایک حرف کے ساتھ بھی ان کا تعلق نہیں۔ ان چیزوں میں سے جو کہ ان کے انبیاء لائے تھے۔ خبردار کہ علم کے چلے جانے کا مطلب یہ ہے کہ علم والے چلے جائیں۔ (26) امام احمد، ابن ابی حاتم اور طبرانی اور بیہقی نے ابو مالک اشعری (رح) سے روایت کیا کہ نبی ﷺ کے پاس تھا جب یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت لا تسئلوا عن اشیآء ان تبدلکم تسوکم ہم سوال کرتے تھے کہ آپ نے فرمایا بلاشبہ اللہ کے کچھ ایسے بندے ہیں جو نہ انبیاء ہیں اور نہ شہداء ہیں۔ ان پر نبی اور شہداء رشک کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کے قریب اور ان کے بیٹھنے کی جگہ پر قیامت کے دن دیہاتی نے کہا یا رسول اللہ وہ کون ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ لوگ اللہ کے بندوں میں سے ایسے بندے ہیں جو مختلف شہروں سے مختلف قبیلوں سے (ایک جگہ جمع ہوتے ہیں) ان کے درمیان نہ رشتہ داری ہوگی کہ وہ اس کے ذریعہ آپس میں وابستہ ہوں نہ ان کے درمیان دنیاوی تعلق ہوں گے جن کا وہ ایک دوسرے سے تبادلہ کرتے ہوں وہ ایک دوسرے سے اللہ کے لئے محبت کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے چہروں کو روشن بنا دیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے لئے موتیوں کے منبر بنا دیں گے اپنے سامنے لوگ گھبرائے ہوئے ہوں گے اور وہ نہیں گھبرائیں گے۔ لوگ ڈر رہے ہوں گے اور وہ نہیں ڈریں گے۔ عسقلان کے ستر شہداء (27) امام ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے عبد اللہ بن مالک بن بحینہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے قبرستان میں مدفون لوگوں پر تین مرتبہ برکت کی دعا کی اور یہ واقعہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ہوا لفظ آیت یایھا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیآء ان تبدلکم تسوکم کے (یہ سن کر) صحابہ ؓ چپ ہوگئے۔ ابوبکر کھڑے ہوئے اور عائشہ ؓ کے پاس آکر فرمایا کہ نبی ﷺ نے مقبرہ والوں پر برکت کی دعا کی ہے ؟ عائشہ ؓ نے فرمایا (رسول اللہ ﷺ سے) عرض کیا گیا مقبرہ والوں پر آپ نے برکت کی دعا کی ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ مقبرہ عسقلان میں سے ہے اس مٰن ستر ہزار شہداء اٹھائے جائیں گے۔ (28) امام محمد بن نصر المروزی نے کتاب الصلوۃ میں اور خرائطی سے مکارم الاخلاق میں معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ تھے آپ کی سواری آپ کو آگے لے گئی پھر میری سواری آپ کی سواری سے مل گئی۔ یہاں تک کہ میرے گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے مل گئے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں آپ سے ایک ایسے کام کے بارے میں سوال کرنے کا ارادہ کرتا ہوں مگر یہ آیت سوال کرنے سے منع کرتی ہے۔ یعنی لفظ آیت یایھا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیآء ان تبدلکم تسوکم آپ نے فرمایا معاذ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا وہ کون سا عمل ہے جو مجھے جنت میں داخل کر دے اور آگ سے بچا لے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تو نے بڑی چیز کے بارے میں سوال کیا جبکہ وہ چیز چھوٹی سی ہے وہ یہ عمل ہے لا الہ الا اللہ کی شہادت اور بیشک میں اللہ کا رسول ہوں۔ نماز قائم کرنا، زکوٰۃ دینا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا پھر فرمایا خبردار میں تجھ کو خبر نہ دوں اس کام کی جڑ اور اس کے ستون اور اس کی چوٹی کے بارے میں ؟ رائس الامر سے مراد، اسلام ہے۔ اور اس کا ستون نماز ہے۔ اس کی چوٹی جہاد ہے۔ پھر فرمایا روزہ ڈھال ہے۔ اور صدقہ گناہوں کو مٹانے والا ہے۔ رات کا قیام کرنا ہے اور یہ آیت پڑھی لفظ آیت تتجا فی جنوبھم عن المضاجع سے لے کر آخری آیت تک، پھر فرمایا میں تم کو خبر نہ دوں کونسی چیز لوگوں پر غالب ہے۔ پھر آپ نے اپنی زبان کو نکالا اور اس کو اپنی دونوں انگلیوں کے درمیان پکڑا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہر وہ بات جو ہم بولتے ہیں ہم پر لکھی جاتی ہے ؟ آپ نے فرمایا تیری ماں تجھ پر روئے لوگ جہنم میں اپنی کھیتی سے منہ کے بل گرتے ہیں۔ جب تو اسے روکے رکھے گا تو بلاشبہ تو برابر سلامت رہے گا۔ جب تو کوئی بات کرے گا تو تیرے خلاف لکھا جائے گا یا تیرے حق میں لکھا جائے گا۔
Top