Dure-Mansoor - Al-Maaida : 103
مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِیْرَةٍ وَّ لَا سَآئِبَةٍ وَّ لَا وَصِیْلَةٍ وَّ لَا حَامٍ١ۙ وَّ لٰكِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ١ؕ وَ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ
مَا جَعَلَ : نہیں بنایا اللّٰهُ : اللہ مِنْۢ بَحِيْرَةٍ : بحیرہ وَّلَا : اور نہ سَآئِبَةٍ : سائبہ وَّلَا : اور نہ وَصِيْلَةٍ : وصیلہ وَّلَا حَامٍ : اور نہ حام وَّلٰكِنَّ : اور لیکن الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا يَفْتَرُوْنَ : وہ بہتان باندھتے ہیں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر الْكَذِبَ : جھوٹے وَاَكْثَرُهُمْ : اور ان کے اکثر لَا يَعْقِلُوْنَ : نہیں رکھتے عقل
اللہ نے مقرر نہیں فرمایا نہ کوئی بحیرہ اور نہ کوئی سائبہ اور نہ کوئی وصیلہ اور نہ کوئی حام، لیکن جن لوگوں نے کفر اختیار کیا وہ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور ان میں اکثر وہ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔
سائبہ وصیلہ اور حام کی حرمت (1) امام بخاری، مسلم، عبدالرزاق، عبد بن حمید، نسائی، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے سعید بن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ بحیرہ وہ اونٹنی ہوتی تھی جس کا دودھ بتوں کے لئے روکا جاتا تھا اور لوگوں میں سے اس کو نہ دوہتا تھا۔ اور سائبہ سے مراد وہ اونٹنی ہے جسے لوگ اپنے بیوی کے لئے مختص کرلیتے اور ان پر کوئی چیز نہ لادی جاتی اور ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے عمر بن عامر خزاعی کو دیکھا جو دوزخ میں اپنی انتڑیاں گھسیٹے پھر رہا تھا کیونکہ اسی نے سب سے پہلے اونٹنی کو سائبہ کیا تھا۔ ابن المسیب (رح) نے فرمایا وصیلہ اس با کرہ اونٹنی کو کہتے ہیں جو پہلی جفتی سے بچہ جنے اور دوسری دفعہ میں مؤنث جنے وہ اپنے بتوں کے لئے مختص کردیتے۔ اگر ایک دوسری کے ساتھ جا ملتی جن کے درمیان مذکر نہ ہوتا۔ حامی نر اونٹ کو کہتے ہیں جو مقرر کردہ جفتی کرتا جب اس کی مقرر کردہ جفتیاں پوری ہوجاتیں اسے بتوں کے لئے چھوڑ دیتے اور اس پر کوئی بوجھ نہ لادتے اسے حامی کہتے۔ (2) امام احمد، عبد بن حمید، حکیم ترمذی سے نوادار الاصول میں، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابو الاحوص (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس پرانے کپڑوں میں آیا آپ نے مجھ سے فرمایا کیا تیرے پاس مال ہے ؟ میں نے کہا ہاں ! فرمایا کون سا مال ہے ؟ میں نے کہا ہر قسم کا مال ہے۔ اونٹ، بکریاں، گھوڑے اور غلام (سب کچھ ہے) آپ ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ تجھ کو مال دیتا ہے تو وہ تجھے دیکھتا بھی ہے۔ (یعنی اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ اچھے کپڑے پہن) پھر فرمایا تیری اونٹنی صحیح سالم کان والے بچے جنتی ہے ؟ میں نے کہا ہاں پھر فرمایا اسی طرح بچے دیتے ہیں۔ پھر فرمایا شاید کہ تو استرا لے کر ان میں سے بعض کے کان کاٹ دیتا ہوگا اور کہتا ہوگا یہ بحیرہ ہے بعض کے کان کاٹتا ہوگا اور کہتا ہوگا کہ یہ صرم ہے۔ میں نے کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا ایسا مت کر، ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے تجھے عطا کرتا ہے وہ حلال ہوتا ہے۔ پھر فرمایا لفظ آیت ما جعل اللہ من بحیرۃ ولا سائبۃ ولا وصیلۃ ولا حام ابو الألحوص نے فرمایا بحیرہ سے مراد مادہ جانور ہے کہ اس کے کان کاٹے ہوں اور اسکی بیٹی یا اس کے خاندان کا کوئی اس سے نفع حاصل نہیں کرسکتے تھے اس کی اون سے، اس کی ریشم سے اس کے بالوں سے اور نہ اس کے دودھ سے۔ جب وہ جانور مرجاتا تو اس میں سب شریک ہوجاتے اور سائبہ وہ مادہ جانور ہے جس کو اپنے بتوں کے لئے خاص کردیتے۔ اور وصیلہ سے مراد وہ بکری ہے جو چھ دفعہ بچے دیتی اور ساتویں دفعہ ایک بچہ جنتی۔ تو وہ کہتے ہیں کہ یہ وصیلہ ہوگئی ہے وہ اسے ذبح نہ کرتے نہ اسے مارا جاتا اور نہ ہی اسے حوض سے روکا جاتا۔ اور جب وہ مرجاتی تو سب اس میں برابر کے شریک ہوتے۔ اور حام وہ اونٹ ہے جب اس کی صلب سے دس بچے ہوجاتے اور سب جفتی کے قابل ہوجاتے تو کہتے کہ اس نے اپنی پیٹھ کو محفوظ کرلیا اور اس کو حام کہتے تھے۔ اس کی اون سے نفع نہیں اٹھاتے تھے نہ اس کو ذبح کرتے تھے اور نہ اس کی پیٹھ پر سوار ہوتے تھے جب وہ مرجاتی تو اس میں سب برابر کے شریک ہوتے تھے۔ (3) امام ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے علی بن ابی طلحہ کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بحیرہ وہ اونٹنی ہے جب پانچ بچے جن لیتی تو پانچویں کی طرف دیکھتے اگر وہ نر ہوتا تو اس کو ذبح کردیتے اور اس کو صرف مرد کھاتے سوائے عورتوں کے اگر وہ مادہ ہوتی تو اس کے کانوں کو چیر دیتے اور کہتے کہ یہ بحیرہ ہے۔ وہ سائبہ وہ اونٹنی ہے جس کو وہ لوگ اپنے جانوروں میں سے اپنے بتوں کے لئے مختص کردیتے تھے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ اس کا دودھ پیتے اور نہ اس کی اون سے نفع اٹھاتے اور نہ اس پر کوئی چیز لادتے اور وصیلہ وہ بکری ہے کہ جب وہ سات بچے جن لیتی تو ساتویں کو دیکھتے اگر وہ نر یا مادہ مردہ حالت میں ہوتی تو اس میں صرف مرد شریک ہوتے سوائے عورتوں کے اور اگر وہ مادہ ہوتی تو وہ زندہ چھوڑ دیتے۔ اور اگر نر اور مادہ دونوں اس کے پیٹ میں سے پیدا ہوتے تو ان دونوں کو زندہ چھوڑ دیتے۔ اور کہتے کہ اس بہن نے اس کو وصیلہ بنا دیا ہے اور اسے ہمارے اوپر حرام کردیا اور حام وہ نر اونٹ ہوتا تھا کہ جب اس کی اولاد سے اولاد ہوتی۔ تو کہتے کہ اس بچے نے اس کی پشت کو حامی بنا دیا ہے۔ اس پر کوئی چیز نہ لادتے اس کی اون سے نفع نہ اٹھاتے اور نہ کسی چراگاہ سے اس کو روکتے اور نہ کسی حوض سے روکتے کہ جس سے وہ پانی پیتا۔ اگرچہ حوض اس کے مالک کے علاوہ کسی اور کا ہوتا۔ (4) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے عوفی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ما جعل اللہ من بحیرۃ کے بارے میں فرمایا کہ بحیرہ ایک اونٹنی ہے جب وہ پانچ بچے دیتی تو وہ پانچویں بچے کو دیکھتا اگر وہ عیب دار نہیں ہے تو اس کے کان چیر دیتا۔ اس کے بال نہ کاٹتا اور نہ ہی اس کا دودھ چکھتا تو یہ بحیرہ ہوگئی۔ (پھر فرمایا) لفظ آیت ولا سائبۃ آدمی اپنے مال میں سے جس کو چاہتا اس کو بتوں کے لئے مختص کردیتا۔ (پھر فرمایا) لفظ آیت ولا وصیلۃ وہ بکری جو ساتواں بچہ جنتی تو وہ ساتویں کی طرف دیکھتا اگر وہ نر ہے تو ذبح کردیتا۔ اور اگر وہ مادہ ہوگئی تو چھوڑ دیتا۔ اور اگر اس کے پیٹ میں دو بچے ہوتے نر اور مادہ اور وہ دونوں کو جنتی تو کہتے کہ یہ مل گئی اپنے بھائی سے تو ان دونوں کو چھوڑ دیتے کسی کو ذبح نہ کرتے یہ وصیلہ تھی۔ (پھر فرمایا) لفظ آیت ولا حام کسی آدمی کا کوئی نر اونٹ ہوتا تھا۔ اور جب وہ دس مرتبہ جفتی کردیتا تو کہا جاتا یہ حام ہے تو اس کو کھلا چھوڑ دیتے۔ (5) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ما جعل اللہ من بحیرۃ کے بارے میں فرمایا کہ بحیرہ وہ اونٹنی ہے جاہلیت کے لوگ جس کو حرام کردیتے تھے۔ اس کے اون اور اس کے گوشت کو اور اس کے دودھ کو عورتوں پر حرام کردیتے مگر مردوں کے لئے حلال ہوتا جب وہ مذکر اور مؤنث بچہ جنتی تو اپنی حالت میں رہتی اگر وہ اونٹنی مرجاتی تو اس کے گوشت کھانے میں مرد اور عورت سب شریک ہوتے۔ جب (وہ اونٹ) جفتی کرتا بحیرہ کی اولاد میں سے تو وہ حامی ہوجاتا اور وہ سائبہ بکری میں بھی اسی طرح ہوتی۔ مگر ایک بچے سے لے کر چھ بچوں تک جنتی تو ایسے ہی رہتی اور جب ساتویں مرتبہ میں بچہ جنتی نر یا مادہ دو نر تو ان کو ذبح کر کے کھا جاتے ان کے مرد سوائے ان کی عورتوں کے اور اگر نر اور مادہ اکھٹے پیدا ہوتے تو یہ وصیلہ تھی۔ مادہ کی وجہ سے نر کو ذبح کرنا چھوڑ دیتے اور اگر یہ دونوں مادہ ہوتیں تو بھی دونوں کو چھوڑ دیتے۔ بلی کو ظلما باندھنے کی وجہ سے جہنم میں جلنا (6) امام ابن منذر نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو ظہر کی نماز پڑھائی۔ تو آپ ہٹ گئے اپنے قبلہ سے چہرہ مبارک کو پھیرلیا اور آپ نے اللہ کے ساتھ پناہ مانگی۔ پھر آپ اپنے قبلہ سے قریب ہوگئے حتیٰ کے ہم کو دیکھا کہ آپ اپنے ہاتھ سے کوئی چیز پکڑ رہے ہیں۔ جب رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیرا ہم نے کہا اے اللہ کے نبی ! آج آپ نے اپنی نماز میں کچھ ایسا کام کیا جو آپ (پہلے) نہ کرتے تھے آپ نے فرمایا ہاں ! میرے اس مقام پر جنت اور دوزخ کو میرے سامنے پیش کیا گیا۔ میں نے دوزخ میں وہ چیز دیکھی جو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور میں نے اس میں حمیرہ بلی والی کو دیکھا جس نے بلی کو باندھ دیا تھا اور اس کو نہ کھلایا، نہ پلایا اور نہ اس کو چھوڑا تاکہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھاتی۔ یہاں تک کہ وہ اسی حالت میں مرگئی اور میں نے اس میں عمرو بن لحی کو دیکھا جو دوزخ میں آنتوں کو گھسیٹ رہا تھا۔ یہ وہ آدمی ہے جس نے جانوروں کو سائبہ بنایا اور بحیرہ بنایا اور بتوں کو نصب کیا اور اسماعیل کے دین کو تبدیل کردیا۔ اور میں نے اس میں عمران الغفاری کو دیکھا اس کے ساتھ محجنہ بھی تھا جس کے ساتھ وہ حاجیوں کی چوری کرلیتا تھا۔ راوی نے کہا کہ میرے لئے آپ نے چوتھے آدمی کا نام بھی لیا جس کو میں بھول گیا۔ میں نے جنت کو دیکھا میں نے اس کی مثل نہیں دیکھا جو اس میں ہے۔ میں نے اس میں ایک خوشہ لینا چاہا تاکہ میں اس کو تم کو دکھاؤں مگر میرے اور اس کے درمیان کسی چیز کو حائل کردیا گیا صحابہ ؓ میں سے ایک آدمی نے کہا اس میں سے ایک کیسا دانہ ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا گویا کہ وہ بڑا ڈول ہے۔ محمد بن اسحاق (رح) نے فرمایا میں نے چوتھے آدمی کے بارے میں پوچھا۔ تو انہوں نے کہا وہ آدمی جس نے رسول اللہ ﷺ کے دو دانت اکھیڑ دیئے تھے۔ (7) امام بخاری اور ابن مردویہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے جہنم کو دیکھا کہ اس کا بعض حصہ بعض کو کھائے جاتا ہے۔ اور میں نے عمرو بن لحی کو دیکھا کہ وہ اپنی آنتوں کو دوزخ میں گھسیٹ رہا ہے۔ وہ پہلا آدمی تھا جس نے سب سے پہلے جانوروں کو سائبہ بنایا۔ (8) امام ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن مردویہ، الحاکم (اور انہوں نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اکثم بن الجون کے لئے یہ فرماتے ہوئے سنا اے اکثم ! مجھ پر آگ کو پیش کیا گیا۔ میں نے اس میں عمر بن لحی بن قمع بن خندف کو دیکھا کہ وہ اپنی آنتوں کو دوزخ کی آگ میں گھسیٹ رہا تھا اور میں نے کوئی آدمی ایسا نہیں دیکھا جو تجھ سے زیادہ اس کے مشابہ ہو اور نہ کسی ایسے آدمی کو دیکھا جو اس سے بڑھ کر تیرے مشابہ ہو۔ اکثم نے کہا مجھے ڈر ہے کہ اس کی مشابہت مجھ کو تکلیف نہ دے یا رسول اللہ آپ نے فرمایا نہیں بلاشبہ تو مؤمن ہے اور وہ کافر ہے۔ وہ پہلا آدمی تھا جس نے ابراہیم کے دین کو تبدیل کیا یا بحیرہ بنایا سائبہ کو سائبہ بنایا اور حامی کو حامی بنایا۔ (9) امام احمد، عبد بن حمید اور ابن مردویہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا جس آدمی نے سب سے پہلے جانوروں کو سائبہ بنایا اور بتوں کی عبادت کی وہ ابو خراعہ بن عامر تھا اور میں نے اس کو دیکھا ہے کہ وہ اپنی آنتوں کو دوزخ کی آگ میں گھسیٹ رہا ہے۔ شرک کی بنیاد کس نے ڈالی (10) امام عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید اور ابن جریر نے زید بن اسلم ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ میں خوب جانتا ہوں اس آدمی کو جس نے سب سے پہلے جانوروں کو سائبہ بنایا اور بت کو نصب کیا۔ اور جس نے سب سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کو تبدیل کیا۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا وہ کون ہے ؟ یا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ عمرو بن لحی جو بنو کعب کا بھائی ہے۔ میں نے اس کو دیکھا ہے کہ وہ اپنی آنتوں کو دوزخ میں گھسیٹ رہا ہے۔ دوزخ والے اس کی آنتوں کی بدبو سے تکلیف اٹھاتے ہیں۔ اور بلاشبہ میں خوب جانتا ہوں جس نے جانوروں کو بحیرہ بنایا صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا بنو مدلج میں سے ایک آدمی ہے، اس کی دو اونٹنیاں تھیں اس نے دونوں کے کان کاٹ دیئے۔ ان کے دودھ اور پٹھوں کو حرام کرلیا۔ اور کہا یہ دونوں اللہ کے لئے ہے۔ پھر ان کی طرف ضرورت پڑی۔ تو ان کا دودھ پینے لگا اور ان پر سوار ہونے لگا۔ فرمایا میں نے اس کو دوزخ میں دیکھا ہے کہ وہ دونوں اونٹنیاں اپنے مونہوں سے اس کو کاٹ رہی ہیں اور اپنے پاؤں سے روند رہی ہیں۔ (11) امام احمد اور حاکم نے (اور اس کی تصحیح بھی کیا ہے) ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ اس درمیان ہم ظہر کی نماز میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے اور لوگ آپ کے پیچھے صفوں میں تھے۔ ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے کوئی چیز پائی۔ اس کو پکڑنے لگے ہیں۔ پھر آپ پیچھے ہٹ گئے لوگ بھی پیچھے ہٹ گئے پھر دوسری مرتبہ آپ پیچھے ہٹ گئے اور لوگ بھی پیچھے ہٹ گئے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ میں نے آج آپ کو ایسا کام کرتے دیکھا ہے جو آپ نماز میں ایسا نہیں کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا مجھ پر جنت پیش کی گئی۔ اس خوبصورتی اور تازگی کے ساتھ جو اس میں تھی میں نے انگور میں سے ایک گچھا لینا چاہا اگر میں اس کو لے لیتا تو اس میں سے آسمان اور زمین کے درمیان ساری مخلوق کھاتی اگر اسے کھاتے تو اس میں کمی نہ کرسکتے۔ لیکن میرے اور اس کے درمیان (کوئی چیز) حائل ہوگئی۔ (پھر) مجھ پر دوزخ پیش کی گئی۔ جب میں نے اس کی لو کی لپٹ کو پایا تو اس سے پیچھے ہٹ گیا اور میں نے اس میں اکثر عورتوں کو دیکھا (کیونکہ) اگر ان کو امین بنایا جائے تو اس راز کو افشا کردیتی ہیں۔ اگر سوال کریں تو اصرار کرتی ہیں۔ اگر ان سے سوال کیا جائے تو بخل کرتی ہیں۔ جب ان کو دیا جائے تو شکر ادا نہیں کرتی ہیں اور میں نے عمرو بن لحی کو دیکھا کہ وہ دوزخ میں اپنی آنتوں کو گھسیٹ رہا ہے۔ اور میں نے سعید بن اکثم خزاعی کو اس کے مشابہ دیکھا۔ سعید نے کہا یا رسول اللہ کیا آپ میرے بارے میں خوف محسوس کرتے ہیں اس کے ساتھ میری مشابہت پر۔ آپ نے فرمایا نہیں (کوئی خوف نہیں) تو مؤمن ہے اور وہ کافر ہے۔ وہ پہلا آدمی ہے جس نے عربوں کو بتوں کی عبادت پر آمادہ کیا۔ (12) امام عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ولکن الذین کفروا یفترون علی اللہ الکذب واکثرھم لا یعقلون کے بارے میں فرمایا کہ وہ شیطان کے حرام کردینے کو نہیں سمجھتے جس نے ان پر (یہ چیزیں) حرام کیں۔ (13) امام ابو الشیخ نے محمد بن ابی موسیٰ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ آباؤ اجداد نے ایسا کیا کہ وہ مرگئے انہوں نے اپنے بیٹوں کو پالا اور انہوں نے گمان کیا کہ اللہ نے ایسا کیا ہے (لیکن) اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ولکن الذین کفروا یفترون علی اللہ الکذب واکثرھم لا یعقلون آباؤاجداد (پھر ان کے) آباؤ اجداد اللہ تعالیٰ پر انہوں نے جھوٹ باندھا۔ اور ان کے اکثر بیٹے اس بات کو نہیں سمجھتے وہ گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کام کیا۔ (14) امام ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے محمد بن ابی موسیٰ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ولکن الذین کفروا یفترون علی اللہ الکذب کے بارے میں فرمایا کہ یہ اہل کتاب ہیں لفظ آیت واکثرھم لا یعقلون سے مراد بتوں کی پوجا کرنے والے ہیں۔ (15) امام ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ولکن الذین کفروا یفترون علی اللہ الکذب واکثرھم لا یعقلون سے وہ لوگ مراد ہیں جو نہیں سمجھتے تھے وہ پیروکار تھے۔ اور جنہوں نے یہ جھوٹا بہتان باندھا تھا وہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے (اللہ پر) جھوٹ باندھا ہے۔
Top