Dure-Mansoor - Al-Maaida : 33
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْۤا اَوْ یُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ١ؕ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ
اِنَّمَا : یہی جَزٰٓؤُا : سزا الَّذِيْنَ : جو لوگ يُحَارِبُوْنَ : جنگ کرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَ : اور يَسْعَوْنَ : سعی کرتے ہیں فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں فَسَادًا : فساد کرنے اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا : کہ وہ قتل کیے جائیں اَوْ : یا يُصَلَّبُوْٓا : وہ سولی دئیے جائیں اَوْ : یا تُقَطَّعَ : کاٹے جائیں اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھ وَاَرْجُلُهُمْ : اور ان کے پاؤں مِّنْ : سے خِلَافٍ : ایکدوسرے کے مخالف سے اَوْ يُنْفَوْا : یا، ملک بدر کردئیے جائیں مِنَ الْاَرْضِ : ملک سے ذٰلِكَ : یہ لَهُمْ : ان کے لیے خِزْيٌ : رسوائی فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَلَهُمْ : اور ان کے لیے فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
جو لوگ اللہ سے اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد کے لئے دوڑتے ہیں ان کی سزا یہی ہے کہ ان کو قتل کیا جائے یا ان کو سولی پر چڑھایا جائے، یا ان کے ہاتھ پاؤں جانب مخالف سے کاٹ دیئے جائیں یا زمین سے نکال دیئے جائیں، یہ دنیا میں ان کی رسوائی اور ان کے لئے آخرت میں بڑا عذاب ہے۔
(1) امام ابو داؤد اور نسائی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت انما جزؤا الذین یحاربون اللہ ورسولہ کے بارے میں فرمایا کہ (یہ آیت) مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی۔ ان میں سے جس نے پہلے ہی توبہ کرلی اس سے پہلے کہ تم قابو پالو۔ اس پر کوئی سزا نہیں ہے اور اس آیت میں کسی مسلمان آدمی کو حد لگانے میں کوئی بچاؤ نہیں اگر وہ قتل کرے یا زمین میں فساد کرے یا اللہ اور اس کے رسول کے لڑے پھر وہ گرفتار ہونے سے پہلے کافروں سے مل جائے تو کوئی رکاوٹ نہیں کہ اس پر حد کو قائم کیا جائے جس جرم میں سے پکڑا جائے۔ (2) امام ابن جریر اور طبرانی نے الکبیر میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ اہل کتاب میں سے ایک قوم تھی۔ ان کے اور رسول اللہ ﷺ سے درمیان ایک عہد تھا۔ انہوں نے عہد کو توڑا اور زمین میں فساد مچایا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو ان کے بارے میں اختیار دیا اگر وہ چاہیں تو قتل کردیں۔ اگر چاہیں سولی پر لٹکا دیں۔ اور اگر چاہیں تو ان کے ہاتھ اور پاؤں اسی طرف سے کاٹ دیں۔ اور نفی سے مراد زمین میں بھاگ جانا ہے۔ اگر وہ توبہ کر کے آجائے اور اسلام میں داخل ہوجائے تو اس کا اسلام قبول کیا جائے گا۔ اور جو پہلے گزر چکا اس کے بارے میں اس کو نہیں پکڑا جائے گا۔ (3) امام ابن مردویہ سے ابن سعد ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت حروریہ (قبیلہ) کے بارے میں نازل ہوئی۔ یعنی (یہ آیت) لفظ آیت انما جزؤا الذین یحاربون اللہ ورسولہ (4) امام عبد الرزاق، البخاری، مسلم، ابوداؤد، الترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن جریر، ابن منذر اور نحاس نے ناسخ میں اور بیہقی نے دلائل میں انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ قبیلہ عکل میں سے چند افراد رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے۔ وہ مسلمان ہوگئے اور ایمان لائے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو حکم فرمایا کہ وہ صدقہ کے اونٹوں کے پاس چلے جائیں۔ اور ان کے پیشاب پئیں۔ انہوں نے (صدقہ کے اونٹوں) کے چرواہے کو قتل کردیا اور اونٹ ہانک کرلے گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی طلب میں (کچھ لوگ) بھیجے۔ وہ ان کو لے آئے تو ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے گئے۔ اور ان کی آنکھوں میں سلائیاں بھر دی گئیں۔ ان کے زخموں کو تیل میں نہ جلایا گیا۔ اور ان کو (اس حال میں) چھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ وہ مرگئے اس پر آیت اتاری گئی لفظ آیت انما جزؤا الذین یحاربون اللہ (5) امام داؤد، نسائی اور ابن جریر نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت محاربین عرنیین کے بارے میں نازل ہوئی۔ ڈاکوؤں کی سزا (6) ابن جریر نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس اہل مدینہ کے لوگ حاضر ہوئے اور وہ بیمار تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو حکم فرمایا۔ جب وہ صحت یاب ہوگئے تو انہوں نے اونٹنیوں کے چرواہوں کو باندھ کر قتل کردیا۔ پھر وہ اونٹنیوں کو اپنی قوم کی زمین کی طرف لے جانے لگے۔ جریر نے کہا مجھے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ بھیجا۔ ہم ان کو پکڑ لائے تو ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمت سے کاٹ دیئے گئے۔ اور ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر دی گئیں۔ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری لفظ آیت انما جزؤا الذین یحاربون اللہ ورسولہ (7) امام ابن جریر نے یزید بن ابی حبیب سے روایت کیا کہ عبد الملک بن مردان نے انس ؓ کی طرف ایک خط لکھا۔ اور اس آیت کے بارے میں ان سے سوال کیا تو انس ؓ نے اس کی طرف (جواب) لکھا اور یہ خبر دی کہ یہ آیت عرنیین کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی۔ جو بجیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انس ؓ نے فرمایا وہ لوگ اسلام سے پھرگئے۔ چرانے والوں کو قتل کیا اور اونٹوں کو ہانک کرلے گئے۔ راستہ کو خوفزدہ کیا اور انہوں نے زنا بھی کیا تو رسول اللہ ﷺ نے جبرئیل (علیہ السلام) سے ان لوگوں کے فیصلہ کے بارے میں پوچھا جو جنگ کرتے ہیں۔ تو انہوں نے فرمایا جو شخص چوری کرے، راستہ کو خوف والا (پرخطر) بنادے، حرام کو حلال کرے (یعنی زنا کرے) تو اس کو سولی پر لٹکا دو ۔ (8) امام حافظ عبد الغنی نے ایضاع الاشکال میں ابوقلابہ کے طریق سے انس ؓ سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ سے لفظ آیت انما جزؤا الذین یحاربون اللہ ورسولہ کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ لوگ عکل قبیلہ میں سے تھے۔ (9) امام عبد الرزاق نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے۔ دبلے اور لاغر ہونے کی وجہ سے (ان میں سے کچھ آدمی) مرگئے۔ نبی ﷺ نے ان کو اپنی دودھ والی اونٹنیوں کی طرف بھیج دیا۔ انہوں نے اونٹنی کی چوری کی تو صحابہ کرام ؓ نے ان کا پیچھا کیا تو ان کو نبی ﷺ کے پاس لے آئے تو ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے گئے اور ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر دی گئیں ابوہریرہ ؓ نے فرمایا ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ لفظ آیت انما جزؤا الذین یحاربون اللہ ورسولہ فرمایا (اس کے بعد) نبی ﷺ نے آنکھوں کا حکم ترک فرما دیا۔ (یعنی سلائیاں پھیرنا ترک فرمایا) (10) امام عبدالرزاق اور ابن جریر نے سعید ابن جبیر ؓ سے روایت کی کہ بنو سلیم میں سے کچھ لوگ نبی ﷺ کے پاس آئے انہوں نے اسلام پر بیعت کی حالانکہ وہ جھوٹے تھے۔ پھر انہوں نے کہا ہم کو مدینہ کی آب وہوا موافق نہیں آتی تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ اونٹنیاں تمہارے پاس صبح و شام آتی ہیں اور ان سے پیشاب پیا کرو۔ او اسی حال میں تھے کہ اچانک ایک چیخ آئی رسول اللہ ﷺ کی طرف اور کہا کہ چرواہوں کو قتل کردیا گیا۔ جانوروں کو (چوری کر کے) لے گئے تو صحابہ ان کی تلاش میں نکل پڑے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ؓ لوٹ آئے اور انہوں نے ان کو گرفتار کیا ہوا تھا۔ ان کو نبی ﷺ کے پاس لایا گیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا لفظ آیت انما جزؤا الذین یحاربون اللہ ورسولہ نبی ﷺ نے ان کو قتل کیا سولی پر لٹکایا ہاتھ پاؤں کاٹے اور آنکھوں میں سلائیاں پھیر دیں۔ راوی نے کہا کہ نبی ﷺ نے پہلے اور نہ اس کے بعد کسی کو مثلہ کیا۔ اور آپ نے مثلہ سے منع فرمایا اور فرمایا کہ (جاندار) چیز کو مثلہ نہ کرو۔ سزا میں برابری (11) امام مسلم اور نحاس نے ناسخ میں اور بیہقی نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیروائیں۔ کیونکہ انہوں نے ان چرواہوں کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری تھیں۔ (12) امام ابن جریر نے سعد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت انما جزؤا الذین یحاربون اللہ ورسولہ کے بارے میں فرمایا کہ (یہ آیت) عرینہ کے حبشیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ لوگ نبی ﷺ کے پاس آئے اور ان کو صفراء کی زیادتی کا مرض تھا انہوں نے اس کی شکایت کی۔ آپ ﷺ نے ان کو صدقہ کے اونٹوں کی طرف جانے کا حکم فرمایا اور فرمایا کہ ان کے پیشاب اور ان کا دودھ پیو۔ انہوں نے پیا تو صحت مند ہوگئے اور تکلیف جاتی رہی۔ (اس کے بعد) انہوں نے اونٹ چرانے والوں کو قتل کردیا اور اونٹوں کو ہانک کرلے گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے (چند صحابہ کو) ان کو پکڑنے کے لئے بھیجا۔ وہ ان کو پکڑ کرلے آئے تو آپ ﷺ نے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرنے کا ارادہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا اور ان کو حکم فرمایا کہ ان میں حدود کو قائم فرمائیں جیسے اللہ تعالیٰ نے (حکم) نازل فرمایا۔ (13) امام ابن جریر نے ولید بن مسلم ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے لیث بن سعد ؓ سے ذکر کیا جو رسول اللہ ﷺ نے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر دیں۔ اور ان کے زخموں میں گرم تیل میں سے داغا۔ یہاں تک کہ وہ مرگئے۔ انہوں نے کہا میں نے محمد بن عجلان کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ آیت رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی کہ اس میں عذاب کرنا تھا۔ اور ان کو اس طرح سزا دینا سکھایا گیا (ہاتھ پاؤں) کاٹنا قتل کرنا یا جلا وطن کرنا ہے۔ حضور ﷺ نے ان کے بعد کسی کی آنکھ میں سلائی نہ پھیروائی۔ راوی نے کہا یہ بات ابن عمر کو بتائی گئی تھی تو انہوں نے اس بات سے انکار کیا کہ (یہ آیت) بطور عتاب کرنے کے نازل کی گئی اور فرمایا یہ سزا خاص انہی لوگوں کے ساتھ ہے پھر یہ آیت نازل ہوئی۔ اس میں ان لوگوں کی سزا کا ذکر ہے۔ جو ان لوگوں کے علاوہ تھے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کی اور ان کی آنکھوں سے سلائیاں پھیرنے کا حکم اٹھا لیا گیا۔ (14) بیہقی نے سنن میں محمد بن عجلان سے اور انہوں نے ابوالزناد ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جب ان لوگوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے اور جو آپ کی اونٹنیوں کو بھگا کرلے گئے تھے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر دی تھیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں عتاب فرمایا۔ اور یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت انما جزؤا الذین یحاربون اللہ ورسولہ (15) امام شافعی نے الام میں، عبداللہ الفریابی، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاکم اور بیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت انما جزؤا الذین یحاربون اللہ ورسولہ کے بارے میں فرمایا جب محارب (یعنی ڈاکو) نکلے صرف مال چھینے اور کسی کو قتل نہ کرے تو مخالف سمت سے اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں گے۔ اور جب وہ نکلے اور قتل کرے اور مال نہ چھینے تو اس کو قتل کیا جائے گا۔ جب وہ نکلے قتل بھی کرے اور مال بھی لے لے تو اس کو قتل کیا جائے اور سولی پر بھی لٹکایا جائے گا۔ اور جب وہ نکلے راستے کو خوفزدہ کرے نہ مال لے نہ قتل کرے تو اس کو جلا وطن کیا جائے گا۔ (16) امام ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور نحاس نے ناسخ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت انما جزؤا الذین یحاربون اللہ ورسولہ کے بارے میں فرمایا کہ جس نے ہتھیار کو لہرایا مسلمان کی مملکت میں اور راستے میں فساد کیا تو (اس پر اگر) قابو پالیا اور قدرت حاصل کرلی تو امام المسلمین کو اس میں اختیار دیا گیا اگر چاہے تو اس کو قتل کردے چاہے تو اس کو سولی پر لٹکا دے اور اگر چاہے تو اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دے۔ پھر فرمایا لفظ آیت او ینفوا من الارض یعنی یا وہ دارالاسلام سے دارالحرب کی طرف بھاگ جائے۔ (17) امام داؤد، النسائی، نحاس نے ناسخ میں اور امام بیہقی نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان کا خون حلال نہیں ہے۔ مگر تین باتوں کی وجہ سے (حلال ہے) شادی شدہ مرد زنا کرے تو رجم کیا جائے۔ اور کسی آدمی کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کو قتل کردیا جائے گا۔ اور وہ آدمی جو اسلام سے نکلا اور لڑنے لگا تو اس کو قتل کیا جائے گا یا سولی پر لٹکایا جائے گا یا (وطن کی) زمین سے جلا وطن کیا جائے گا۔ (18) امام خرائطی نے مکارم الاخلاق میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عرینہ میں سے ایک قوم نبی ﷺ کے پاس آئی۔ اور مسلمان ہوگئی اور ان میں سے کچھ فریب دینے والے تھے۔ ان کے اعضاء شل ہوگئے (یعنی بیکار ہوگئے تھے ) ، ان کے چہرے پیلے پڑگئے تھے اور ان کے پیٹ پھول گئے تھے۔ ان کو نبی ﷺ نے حکم فرمایا کہ صدقہ کے اونٹوں کا پیشاب اور دودھ پئیں۔ انہوں نے پیا یہاں تک کہ (صحت مند اور موٹے ہوگئے پھر انہوں نے نبی ﷺ کے چرواہے پر حملہ کردیا اور اس کو قتل کیا اور اونٹوں کو ہانک کرلے گئے۔ اور اسلام سے پھرگئے۔ جبرئیل (علیہ السلام) نے آکر فرمایا اے محمد ﷺ ان کے پیچھے لشکر بھیجئے۔ آپ نے بھیج دیا پھر جبرئیل (علیہ السلام) نے فرمایا اس دعا کے ساتھ دعا کیجئے۔ (جس کا ترجمہ یہ ہے) اے اللہ بلاشبہ آسمان تیرے آسمان ہیں اور زمین تیری زمین ہے۔ مشرق تیرا مشرق ہے اور مغرب تیرا مغرب ہے۔ اے اللہ ان پر میمنہ کی مشک تنگ کر دے۔ یہاں تک کہ ان پر مجھ کو قدرت عطا فرما۔ ان کو لایا گیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ لفظ آیت انما جزؤا الذین یحاربون اللہ ورسولہ جبرئیل (علیہ السلام) نے حکم فرمایا کہ جس نے مال لیا اور قتل کیا تو سولی پر لٹکایا جائے۔ اور جس نے قتل کیا اور مال نہیں لیا تو اس کو قتل کیا جائے اور جس نے مال لیا اور قتل نہیں کیا تو اس کے ہاتھ پاؤں الٹی جانب سے کاٹ دیئے جائیں ابن عباس ؓ نے فرمایا یہ دعا ہر بھاگنے والے کے لئے ہے اور ہر اس انسان کے لئے ہے جس کا ایک عشریا کوئی اور چیز گم ہوجائے تو اس دعا کے ساتھ دعا کریں اور اس کی کسی شے میں لکھ کر کسی صاف ستھری جگہ میں دفن کیا جائے تو اللہ تعالیٰ اس پر قدرت دے دیں گے۔ (19) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید اور ابن جریر نے قتادہ وعطا خراسانی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت انما جزؤا الذین یحاربون اللہ ورسولہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ شخص جو ڈاکو ہے وہ محارب ہے۔ اگر وہ قتل کر کے اور مال بھی لے تو سولی پر لٹکایا جائے۔ اور اگر قتل کرے اور مال نہ لے تو قتل کیا جائے۔ اور اگر مال لے اور قتل نہ کرے تو اس کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے جائیں۔ اور اگر یہ کام کرنے سے پہلے پکڑا جائے تو جلا وطن کردیا جائے۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول لفظ آیت الا الذین تابوا من قبل ان تقدروا علیھم تو یہ ان لوگوں کے لئے خاص حکم ہے۔ اور جو آدمی قتل کرے اور پھر پکڑے جانے سے پہلے توبہ کرلے اس کا خون باطل ہوجائے گا جو گزر چکا۔ ڈاکوؤں کو سولی پر لٹکانا (20) امام ابن ابی شیبہ اور عبد بن حمید نے عطا اور مجاہد ؓ سے روایت کیا کہ امام کو اس بارے میں اختیار دیا گیا ہے۔ اگر چاہے قتل کرے، اگر چاہے تو ہاتھ پاؤں کاٹ دے، اگر چاہے تو سولی پر لٹکا دے، اگر چاہے تو جلا وطن کردے۔ (21) امام ابن ابی شیبہ نے سعید بن المسیب حسن اور ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ امام کو اختیار ہے ڈاکو کے بارے میں جو چاہے اس کے ساتھ کرے۔ (22) امام عبد بن حمید اور ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ ایک قوم تھی کہ ان کے اور نبی ﷺ کے درمیان معاہدہ تھا۔ انہوں نے معاہدہ کو توڑا اور ڈاکہ مارا اور زمین میں فساد کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس بارے میں اختیار دیا کہ اگر چاہے اس کو قتل کر دے چاہے سولی پر لٹکا دے۔ اگر چاہے تو ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دے الٹی جانب سے۔ یا زمین سے جلا وطن کر دے۔ پھر فرمایا ان کو طلب کریں یہاں تک کہ وہ عاجز ہوجائیں۔ اور اگر پکڑے جانے سے پہلے توبہ کرلے تو اس سے (توبہ) قبول کی جائے گی۔ (23) امام ابو داؤد نے ناسخ میں ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ یہ آیت مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی۔ (24) امام ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نفیہ کا مطلب یہ ہے کہ امام اسے تلاش کرے یہاں تک کہ ان کو پکڑے پھر اس کے عمل کے بدلے میں ان پر ان سزاؤں میں سے ایک سزا کو جاری کر دے جن کو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا۔ (25) امام عبد بن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت او ینفوا من الارض کے بارے میں فرمایا کہ اسے ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف نکالا جاتا ہے۔ (26) امام ابن جریر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ اس کی تلاش اس وقت تک جاری رکھی جائے جب تک اس پر قدرت نہ پائے۔ (27) امام عبد بن حمید اور ابن جریر نے زہرہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت اوینفوا من الارض کے بارے میں فرمایا کہ وہ اس کی تلاش کرے۔ اگر اس پر قادر نہ ہو۔ جب بھی اس کے بارے میں کسی علاقہ میں بسے تو اس کی تلاش کرے (یعنی اس کو پکڑنے کی کوشش کرے) ۔ (28) امام ابن جریر نے ربیع بن انس (رح) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ ان کو زمین سے نکالا جائے گا (یعنی جلا وطن کیا جائے گا) جہاں وہ پائیں جائیں ان کو نکالنا چایئے یہاں تک کہ دشمن کی زمین سے مل جائیں۔ (29) امام ابن جریر نے سعید بن جبیر سے روایت کیا ہے انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا جو شخص ایمان والوں کے راستوں کو امن نہ دے تو اس کو اس کے شہر سے دوسرے شہر کی طرف جلا وطن کردیا جائے۔ (30) امام عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ویسعون فی الارض فسادا سے مراد ہے زنا چوری، کسی جان کو قتل کرنا کھیتی اور نسل کو ہلاک کرنا۔ (31) امام ابن جریر نے محمد بن کعب قرظی اور سعید بن جبیر (رح) دونوں حضرات سے روایت کیا اگر وہ توبہ کرنے والا بن کر آیا اور اس نے مال نہیں لوٹا، خون نہیں بہایا تو اس کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت الا الذین تابوا من قبل ان تقدروا علیھم (32) امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن ابی الدنیا نے کتاب الاشراق میں، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے شعبی ؓ سے روایت کی حارثہ بن بدر التمیمی بصرہ والوں میں سے تھا اس نے زمین میں فساد پھیلایا اور ڈاکہ مارا۔ اس نے قریش کے کچھ آدمیوں سے بات کی کہ اس کے لئے حضرت علی ؓ سے امان طلب کریں مگر انہوں نے انکار کردیا۔ سعید بطن قیس ہمدانی حضرت علی ؓ کے پاس آئے اور عرض کیا اے امیر المؤمنین ! ان لوگوں کی کیا سزا ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کریں اور زمین میں فساد کرنے کی کوشش کریں تو انہوں نے فرمایا کہ ان کو قتل کیا جائے یا سولی پر لٹکایا جائے اور ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمت سے کاٹ دیئے جائیں۔ ان کو جلا وطن کردیا جائے پھر یہ آیت پڑھی لفظ آیت الا الذین تابوا من قبل ان تقدروا علیھم سعید (رح) نے کہا اگرچہ وہ حارثہ بن بدر ہو ؟ یہ حارثہ بن بدر اگر وہ توبہ کرنے والا بن کر آجائے تو وہ امن والا ہوگا فرمایا کیوں ! پھر اس کو ان کے پاس لے آئے اس نے آپ سے بیعت لی اور اس (توبہ) کو انہوں نے قبول کیا۔ اور اس کے لئے امان لکھ دی۔ گرفتاری سے قبل توبہ (33) ابن ابی شیبہ اور عبد بن حمید نے اشعث (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے ایک آدمی سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے ابو موسیٰ اشعری کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی پھر کہا یہ جگہ ہے پناہ چاہنے والے اور توبہ کرنے والے کی میں فلاں ابن فلاں ہوں۔ میں ان لوگوں میں سے تھا۔ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کی۔ اب میں گرفتار ہونے سے پہلے توبہ کرنے والا بن کر آیا ہوں۔ ابو موسیٰ نے فرمایا کہ فلاں بیٹا فلاں کا۔ ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کی اور اب توبہ کرنے والا بن کر آیا ہے گرفتار ہونے سے پہلے۔ پس کوئی آدمی اس کے ساتھ اچھا رویہ رکھے اگر وہ (اپنی بات میں) سچا ہے تو میرا راستہ بھی یہی ہے۔ (یعنی میرا طرز عمل) اگر جھوٹا ہے تو شاید اللہ تعالیٰ اس گناہ کے بدلہ اس کو پکڑ لے۔ (34) عبد بن حمید نے عطا سے روایت کی ہے کہ ان سے ایک ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے چوری کی تھی۔ جو توبہ کرنے والا بن کر آیا مگر گرفتار ہونے سے پہلے کہ اس پر حد ہے ؟ فرمایا نہیں پھر یہ آیت تلاوت کی لفظ آیت الا الذین تابوا من قبل ان تقدروا علیھم (35) امام ابو داؤد نے ناسخ میں سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت انما جزؤا الذین یحاربون اللہ ورسولہ کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے سنا ہے کہ جب کوئی آدمی قتل کرے تو اس کو بھی قتل کیا جائے گا۔ اور جب وہ مال چھینے اور قتل نہ کرے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ مال کے بدلے۔ اور اس کا پاؤں کاٹا جائے گا ڈاکہ ڈالنے کی وجہ سے، اور جب اس نے قتل کیا اور مال بھی لے لیا تو اس کا ہاتھ اور پاؤں کاٹے جائیں گے اور سولی پر بھی لٹکایا جائے گا۔ (پھر فرمایا) لفظ آیت الا الذین تابوا من قبل ان تقدروا علیھم یعنی اگر وہ توبہ کرنے والا بن کر آئے امام کے پاس گرفتار ہونے سے پہلے امام اس کو امان دے دے تو اسے امان حاصل ہوجائے گا۔ اور اگر کسی انسان نے اس کو قتل کردیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ امام اس کو امان دے چکا ہے تو قاتل اس کے بدلے میں قتل کیا جائے گا۔ اور اگر اس کو قتل کیا اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس کو امام نے امان دی ہے تو اس پر یہ دیت ہوگی۔
Top