Dure-Mansoor - Al-Maaida : 41
یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاَفْوَاهِهِمْ وَ لَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُهُمْ١ۛۚ وَ مِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا١ۛۚ سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ١ۙ لَمْ یَاْتُوْكَ١ؕ یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهٖ١ۚ یَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ هٰذَا فَخُذُوْهُ وَ اِنْ لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوْا١ؕ وَ مَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ فِتْنَتَهٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ شَیْئًا١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللّٰهُ اَنْ یُّطَهِّرَ قُلُوْبَهُمْ١ؕ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ١ۖۚ وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الرَّسُوْلُ : رسول لَا يَحْزُنْكَ : آپ کو غمگین نہ کریں الَّذِيْنَ : جو لوگ يُسَارِعُوْنَ : جلدی کرتے ہیں فِي : میں الْكُفْرِ : کفر مِنَ : سے الَّذِيْنَ : جو لوگ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاَفْوَاهِهِمْ : اپنے منہ سے (جمع) وَ : اور لَمْ تُؤْمِنْ : مومن نہیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَمِنَ : اور سے الَّذِيْنَ هَادُوْا : وہ لوگ جو یہودی ہوئے سَمّٰعُوْنَ : جاسوسی کرتے ہیں لِلْكَذِبِ : جھوٹ کے لیے سَمّٰعُوْنَ : وہ جاسوس ہیں لِقَوْمٍ : جماعت کے لیے اٰخَرِيْنَ : دوسری لَمْ يَاْتُوْكَ : وہ آپ تک نہیں آئے يُحَرِّفُوْنَ : وہ پھیر دیتے ہیں الْكَلِمَ : کلام مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَوَاضِعِهٖ : اس کے ٹھکانے يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں اِنْ اُوْتِيْتُمْ : اگر تمہیں دیا جائے هٰذَا : یہ فَخُذُوْهُ : اس کو قبول کرلو وَاِنْ : اور اگر لَّمْ تُؤْتَوْهُ : یہ تمہیں نہ دیا جائے فَاحْذَرُوْا : تو اس سے بچو وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّرِدِ اللّٰهُ : اللہ چاہے فِتْنَتَهٗ : گمراہ کرنا فَلَنْ تَمْلِكَ : تو ہرگز نہ آسکے گا لَهٗ : اس کے لیے مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ شَيْئًا : کچھ اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَمْ يُرِدِ : نہیں چاہا اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يُّطَهِّرَ : پاک کرے قُلُوْبَهُمْ : ان کے دل لَهُمْ : ان کے لیے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں خِزْيٌ : رسوائی وَّلَهُمْ : اور ان کے لیے فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
اے رسول ! آپ کو وہ لوگ رنجیدہ نہ کریں جو دوڑ دوڑ کر کفر میں گرتے ہیں جو ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے منہ سے کہا کہ ہم ایمان لائے اور حال یہ ہے کہ ان کے دل ایمان نہیں لائے، اور ان لوگوں میں سے ہیں جو یہودی ہیں یہ لوگ جھوٹ کو بہت زیادہ سننے والے ہیں، جو لوگ تمہارے پاس نہیں آئے ان کو باتیں پہنچانے کے لئے خوب دھیان سے سنتے ہیں۔ یہ لوگ کلمات کو ان کی جگہ سے بدل دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اگر تم کو یہ حکم ملے تو اس کو لے لینا اور اگر تم کو یہ حکم نہ ملے تو اس سے پرہیز کرنا اور اللہ تعالیٰ جس کو فتنہ میں ڈالنے کا ارادہ فرمائے تو اے مخاطب اس کے لئے اللہ تعالیٰ پر تیرا کوئی زور نہیں چل سکتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارادہ نہیں فرمایا کہ ان کے دلوں کو پاک کرے، ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے، اور ان کے لئے آخرت میں بڑا عذاب ہے۔
(1) امام ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت یایھا الرسول لا یحزنک الذین یسارعون فی الکفر من الذین قالوا امنا بافواھھم ولم تو من قلوبھم کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد یہودی ہیں۔ (اور) لفظ آیت من الذین قالوا امنا بافواھھم ولم تو من قلوبھم سے منافق مراد ہے۔ (2) امام احمد، ابو داؤد، ابن جریر، ابن منذر، الطبرانی، ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت لفظ آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکفرون اللہ تعالیٰ نے یہود کی دو جماعتوں کے بارے میں اتاری ہے کہ وہ ان میں سے ایک دوسری پر غالب آگئی۔ زمانہ جاہلیت میں یہاں تک کہ دونوں جماعتیں آپس میں راضی ہوگئیں۔ اور آپس میں صلح کی۔ اس بات پر کہ غالب جماعت نے مغلوب جماعت کا جو آدمی قتل کیا ہے۔ تو اس کی دیت پچاس وسق ہوگی اور مغلوب جماعت نے غالب جماعت کا آدمی قتل کیا تو اس کی دیت سو وسق ہوگی۔ وہ اسی طریقہ پر چل رہے تھے کہ نبی ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے ابھی ان پر رسول اللہ ﷺ کا غلبہ نہیں ہوا تھا کہ دونوں جماعتیں کسی مسئلہ پر اکھٹا ہوئیں۔ کمزور جماعت اٹھی اور کہا کہ دو قبیلوں میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دونوں کا دین ایک ہو، نسب ایک ہو، شہر ایک ہو اور ان کی دیت ایک دوسرے سے آدھی ہو۔ اور ہم تم کو یہ دیت تمہارے ظلم اور تمہارے خوف کی وجہ سے دیتے رہے ہیں۔ اب جبکہ محمد ﷺ تشریف لے آئے ہیں تو ہم تم کو یہ دیت نہیں دیں گے قریب تھا کہ ان کے درمیان جنگ بھڑک اٹھتی۔ پھر وہ آپس میں راضی ہوئے اس بات پر کہ رسول اللہ ﷺ ان کے درمیان فیصلہ فرما دیں۔ غالب جماعت کو فکر لاحق ہوئی۔ اللہ کی قسم محمد ﷺ تم کو اس سے دگنا لے کر نہیں دیں گے جو وہ تم سے لے کر انہیں دیں گے سچ بات یہی ہے کہ وہ ہمیں ہمارے ظلم اور غلبہ ہی کی وجہ سے دی۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے چھپایا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو خبر دی اس سارے کام کے بارے میں اور جو کچھ انہوں نے ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری لفظ آیت یایھا الرسول لا یحزنک الذین یسارعون فی الکفر سے لے کر لفظ آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الفسقون تک پھر فرمایا اللہ کی قسم ان کے بارے میں (یہ آیت) اتری۔ (3) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور امام ابو الشیخ نے عامر شعبی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت یایھا الرسول لا یحزنک الذین یسارعون فی الکفر سے مراد ہے کہ یہودیوں میں سے ایک آدمی نے اپنے دین والوں میں سے ایک آدمی کو قتل کردیا۔ اور انہوں نے اپنے مسلمان حلیفوں سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے یہ پوچھ لو اگر وہ دیت کا فیصلہ کریں تو ہم ان سے جھگڑا کریں۔ اگر وہ قتل کا فیصلہ کریں تو ہم اس کے پاس نہ آئیں۔ یہود مرد و عورت کی سنگساری (4) امام ابن اسحاق، ابن جریر، ابن منذر اور بیہقی نے سنن میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کی کہ یہود کے علماء بیت المدارس میں جمع ہوئے۔ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ میں تشریف لا چکے تھے۔ ایک شادی شدہ مرد نے ایک شادی شدہ عورت سے زنا کرلیا تو انہوں نے کہا کہ اس آدمی اور اس عورت کو محمد ﷺ کے پاس بھیجو تاکہ ان سے پوچھیں کہ ان دونوں کے بارے میں کیا حکم ہے۔ اور ان دونوں میں اسے فیصلہ کرنے کا اختیار دے دو ۔ اگر وہ وہی فیصلہ کریں جو تم کرتے ہو یعنی زانی کے ہاتھ زمین پر رکھواؤ اور جھال کی ایسی رسی سے کوڑے مارے جس کو تارکول میں رنگا گیا ہو۔ پھر ان کے چہرے سیاہ کرے پھر ان کو دو گدھوں پر اس طرح بٹھائے کہ ان کے منہ پچھلی جانب ہوں تو فیصلہ مان لینا کیونکہ وہ اپنی قوم کے سردار اور بادشاہ ہے۔ اور اگر وہ ان دونوں کے بارے میں نفی کا فیصلہ دیں کیونکہ وہ نبی ہے۔ تو اس سے بچو کہیں وہ تم سے وہ چیز نہ چھین لے جو تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ وہ یہودی آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے اے محمد ﷺ اس آدمی نے شادی کے بعد ایسی عورت سے بدکاری کی جو شادی شدہ تھی۔ ان کے درمیان حکم فرمائیے۔ ہم نے آپ کو ان دونوں کے بارے میں ثالث مقرر کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ بیت المدارس میں ان (یہودیوں) کے بڑے علماء کے پاس تشریف لے گئے۔ اور فرمایا اے یہود کے گروہ ! اپنے علماء کو میری طرف نکالو۔ تو آپ کی طرف (ان کے علماء) عبداللہ بن صور یا۔ یاسر بن اخطب اور وھب بن یہود آئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے علماء ہیں۔ تو ان سے رسول اللہ ﷺ نے پوچھا پھر آخر کار انہوں نے کہا عبد اللہ ابن صوریا کے بارے میں کہ یہ تورات کا سب سے زیادہ جاننے والا ہے جو کچھ اس میں سے باقی ہے تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے تنہائی میں ملاقات فرمائی اور سوال کرنے میں سختی کی۔ اور فرمایا اے ابن صوریا میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر جو احسانات کئے ہیں وہ یاد دلاتا ہوں۔ کیا تو جانتا ہے کہ جس نے شادی کرنے کے بعد زنا کیا ہو اللہ تعالیٰ نے تورات میں رجم کا حکم فرمایا ہے ؟ اس نے کہا ہاں (ایسے ہی ہے) اللہ کی قسم ! اے ابو القاسم ! بلاشبہ وہ جانتے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہیں لیکن وہ آپ سے حسد کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے ان کے لئے (رجم کا) حکم فرمایا تو مسجد کے دروازے کے پاس ان کو رجم کردیا گیا۔ پھر ابن صوریا ! کافر ہوگیا اور رسول اللہ ﷺ کی نبوت کا انکار کردیا تو (اس پر) اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت یایھا الرسول لا یحزنک الذین یسارعون فی الکفر (5) امام عبد الرزاق، احمد و عبد بن حمید، ابو داؤد، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور امام بیہقی نے دلائل میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا سب سے پہلے جو رجم کیا گیا وہ ایک یہودی تھا۔ جن کو رسول اللہ ﷺ نے رجم فرمایا۔ ان میں سے ایک آدمی اور ایک عورت نے زنا کیا۔ ان کے بعض نے بعض سے کہا اس نبی کی طرف ان کو لے جاؤ۔ کیونکہ یہ ایسے نبی ہیں جن کو احکام میں سہولت کے ساتھ بھیجا گیا۔ اگر وہ ہم کو رجم سے کم کا فتوی دیں تو ہم اس کو قبول کرلیں گے۔ اور ہم اس کے ذریعہ اپنے رب کے پاس دلیل پکڑیں گے اور ہم کہیں گے تیرے انبیاء میں سے ایک نبی نے یہ فتوی دیا ہے راوی نے کہا کہ یہ لوگ نبی ﷺ کے پاس آئے آپ مسجد میں اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اے ابو القاسم ! آپ کیا فرماتے ہیں کہ ان میں سے ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کیا ؟ آپ ﷺ نے کوئی گفتگو نہیں کی بلکہ آپ ان کے بیت المدارس میں تشریف لائے۔ دروازے پر کھڑا ہو کر فرمایا کہ میں تم کو اس اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ جس نے توراۃ کو موسیٰ پر اتارا۔ تم توراۃ میں کیا پاتے ہو۔ جب کسی شادی شدہ آدمی نے زنا کی ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ان کا منہ کالا کیا جاتا ہے۔ اور ان کے تحبیہ کیا جاتا ہے اور اس کو کوڑے مارے جاتے ہیں اور تحبیہ یہ ہے کہ دونوں کو گدھے پر سوار کیا جاتا ہے۔ اور دونوں کے منہ پیچھے کردیئے جاتے ہیں اور ان کو پھرایا جاتا ہے پھر وہ نوجوان خاموش ہوگیا۔ جب نبی ﷺ نے اس کو دیکھا کہ وہ خاموش ہوگیا۔ تو فرمایا میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ تو اس نے کہا اے اللہ ہم کو قسم دی گئی ہے۔ ہم تورات میں رجم کو پاتے ہیں کہ ایک آدمی نے دوسرے خاندان میں زنا کیا۔ اس نے اس کے رجم کا ارادہ کیا لیکن اس کی قوم اس میں حائل ہوگئی۔ اور انہوں نے کہا اللہ کی قسم، ہم اپنے ساتھی کو رجم نہیں کریں گے۔ یہاں تک کہ تو اپنے ساتھی نہیں لاؤگے اور اسے رجم نہیں کرو گے۔ پھر انہوں نے اپنے درمیان موجودہ سزا پر آپس میں صلح کرلی۔ نبی ﷺ نے فرمایا میں تمہارا فیصلہ کروں گا اس حکم کے ساتھ جو تورات میں ہے۔ تو پھر دونوں کو رجم کا حکم فرمایا اور ان کو رجم کردیا گیا۔ زہری (رح) نے فرمایا ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ یہ آیت ان کے بارے میں نازل ہوگی۔ لفظ آیت انا انزلنا التورۃ فیھا ھدی ونور یحکم بھا النبیون الذین اسلموا نبی ﷺ ان انبیاء میں شامل ہیں۔ (6) امام احمد مسلم، ابو داؤد، النسائی، نحاس نے ناسخ میں، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے براء بن عازب ؓ سے روایت کیا کہ ایک یہودی نبی ﷺ کے پاس سے گزرا جو منہ کالا کیا ہوا تھا اور کوڑے لگے ہوئے تھے۔ آپ نے ان کو بلوا کر فرمایا کیا تم اپنی کتاب میں زنا کی حد اس طرح پاتے ہو ؟ انہوں نے کہا ہاں ! آپ نے ان کے علماء میں سے ایک آدمی کو بلوایا۔ اور فرمایا میں تجھ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے توراۃ کو موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل فرمایا اس طرح تم اپنی کتاب میں زنا کی حد کو پاتے ہو ؟ اس نے کہا اگر آپ مجھ کو اللہ کی قسم نہ دیتے تو میں یہ بات آپ کو نہ بتاتا۔ ہم اپنی کتاب میں زنا کی حد رجم پاتے ہیں۔ لیکن ہمارے بڑے لوگوں میں زنا زیادہ ہوگیا، جب ہم کسی بڑے آدمی کو پکڑتے تھے تو اس کو چھوڑ دیتے تھے اور جب ہم کسی ضعیف کو پکڑتے تھے تو اس پر حد قائم کرتے تھے۔ ہم نے کہا آجاؤ ہم ایسی سزا مقرر کریں جس کو ہم شریف اور کمزور آدمی پر قائم کریں۔ تو ہم نے منہ کالا کرنا اور کوڑے مارنے پر اتفاق کرلیا نبی ﷺ نے فرمایا اے اللہ میں پہلا آدمی ہوں جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا اس پر عمل مٹ جانے کے بعد جب کہ ان لوگوں نے تیرے حکم کو ضائع کردیا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے رجم کا حکم فرمایا تو ان کو رجم کردیا گیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اتارا لفظ آیت یایھا الرسول لا یحزنک الذین یسارعون فی الکفر سے لے کر لفظ آیت ان اوتیتم ھذا فخذوہ تک (پھر ان لوگوں سے کہا) اگر وہ تم کو رجم کا فتوی دیں فاحذر وہ تو اس سے بچنا اور یہود کے بارے میں فرمایا لفظ آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الظلمون اور نصاری کے بارے میں فرمایا لفظ آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الفسقون پھر فرمایا یہ کافروں کے بارے میں ہے۔ (7) امام بخاری اور مسلم نے ابن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو انہوں نے ان میں سے ایک آدمی اور ایک عورت کے زنا کرنے کا ذکر کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا توراۃ میں کیا پاتے ہو ؟ انہوں نے کہا ہم ان کو رسوا کرتے ہیں اور ان کو کوڑے لگاتے ہیں۔ عبد اللہ بن سلام ؓ نے فرمایا تم نے جھوٹ کہا۔ اس میں رجم کی آیت موجود ہے ؟ تورات لے آؤ انہوں نے اس کو کھولا اس میں سے ایک آدمی نے رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ دیا اور اس آیت سے پہلے اور اس کے بعد والی آیت کو پڑھ دیا عبد اللہ بن سلام نے فرمایا اپنے ہاتھ کو اٹھا لے تو اس نے جب ہاتھ اٹھایا تو رجم کی آیت موجود تھی۔ انہوں نے کہا یہ سچ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کا حکم دیا اور ان دونوں کو رجم کردیا گیا۔ (8) امام ابن جریر، طبرانی اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ان اوتیتم ھذا فخذوہ وان لم توتوہ فاحذروا سے مراد یہودی ہیں ان میں سے ایک عورت نے زنا کیا اور تورات میں اللہ کا حکم زنا کے بارے میں رجم تھا۔ انہوں نے اس عورت پر رجم کرنے سے گریز کیا۔ اور کہنے لگے محمد ﷺ کے پاس چلو ہوسکتا ہے کہ ان کے پاس کوئی رخصت ہو۔ اگر ان کے پاس رخصت ہو تو اس کو قبول کرلینا وہ لوگ آئے اور کہا اے ابو القاسم ہم میں سے ایک عورت نے زنا کیا اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تورات میں زانی کا کیا حکم ہے ؟ انہوں نے کہا اس کو چھوڑ دو جو کچھ تورات میں ہے۔ بتاؤ تمہارے پاس اس کا کیا حکم ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا لے آؤ میرے پاس جو تم میں سے اس تورات کو زیادہ جاننے والا ہو جو موسیٰ پر اتاری گئی۔ اور ان سے فرمایا اس ذات کی قسم جس نے تم کو فرعون والوں سے نجات دی۔ اور اس ذات کی قسم۔ جس نے تمہارے لئے دریا کو پھاڑا اور تم کو نجات دی اور فرعون والوں کو غرق کردیا۔ خبردار تم مجھ کو بتاؤ کیا حکم فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تورات میں زنا کے بارے میں ؟ انہوں نے کہا اس کا حکم رجم ہے تو رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا اور اس عورت کو رجم کردیا گیا۔ (9) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن منذر اور ابو الشیخ نے جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ومن الذین ھادوا سمعون للکذب سے مدینہ کے یہودی مراد ہیں (اور) لفظ آیت سمعون لقوم اخرین لم یاتوک سے فدک کے یہودی مراد ہیں (اور) لفظ آیت یحرفون الکلم سے فدک کے یہودی مراد ہیں لفظ آیت یقولون سے مراد مدینہ کے یہودی ہیں لفظ آیت اوتیتم ھذا یعنی کوڑے لگانا لفظ آیت فخذوہ وان لم توتوہ فاحذروا یعنی اگر رجم کا حکم ہو تو چھوڑ دینا۔ (10) امام حمیدی نے اپنی مسند میں، ابو داؤد، ابن ماجہ، ابن منذر اور ابن مردویہ نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ اہل فدک میں سے ایک آدمی نے زنا کیا۔ فدک والوں نے مدینہ کے یہودیوں کو لکھا کہ اس کے بارے میں محمد ﷺ سے سوال کرو۔ اگر وہ تم کو کوڑے مارنے کا حکم دیں تو اس کو مان لو۔ اور اگر وہ تم کو رجم کا حکم دیں تو اس کو نہ مانو۔ انہوں نے اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا۔ تو آپ نے فرمایا تم میں سے دو آدمی (تورات کو) زیادہ جاننے والے میرے پاس بھیجو۔ وہ ایک کانا اور دوسرا آدمی لے آئے جس کو ابن صوریا کہا جاتا تھا نبی ﷺ نے ان دونوں سے فرمایا کیا تمہارے پاس تورات نہیں ہے۔ جس میں اللہ کا حکم ہو ؟ انہوں نے کہا ہاں ہے۔ فرمایا میں تم کو اس ذات کی قسم دیتا ہوں۔ جس نے بنی اسرائیل کے لئے دریا کو پھاڑ دیا۔ اور تم پر بادلوں کا سایہ کیا۔ اور فرعون والوں سے تم کو نجات دی۔ اور موسیٰ پر تورات اتاری اور بنی اسرائیل پر من وسلوی نازل فرمایا تم تورات میں کیا پاتے ہو رجم کے بارے میں۔ ان دونوں میں سے ایک نے دوسرے سے کہا مجھے تو اس طرح کبھی کسی نے قسم نہیں دی پھر دونوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ اگر چار آدمی گواہی دے دیں کہ انہوں نے مرد کو (بدکاری) کرتے ہوئے اور دوبارہ داخل کرتے ہوئے دیکھا جیسے کہ سرمہ کی سلائی، سرمہ دانی میں داخل کرتے ہیں۔ تو رجم واجب ہوجائے گا نبی ﷺ نے فرمایا حکم اسی طرح سے ہے پھر آپ ﷺ نے رجم کا حکم فرمایا تو اس کو رجم کردیا گیا۔ تو (یہ آیت) نازل ہوئی۔ لفظ آیت فان جاءوک فاحکم بینکم سے لے کر لفظ آیت یحب المقسطین تک۔ (11) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت یایھا الرسول لا یحزنک الذین یسارعون فی الکفر (یہ آیت) انصار میں سے ایک آدمی کے بارے میں نازل ہوئی۔ انہوں نے گمان کیا کہ وہ ابو البابہ ؓ ہیں کہ بنو قریظہ نے اس نے مشورہ کیا محاصرہ کے دن ان کے ساتھ کیا سلوک ہونے والا ہے۔ تو انہوں نے ان کی طرف اشارہ کیا کہ وہ ذبح کئے جائیں گے۔ (12) امام ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ومن الذین ھادوا سمعون للکذب کے بارے میں فرمایا کہ ابوہریرہ اور اس کے ساتھی مراد ہیں۔ (13) امام ابن ابی حاتم نے مقاتل (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت سمعون لقوم اخرین کے بارے میں فرمایا کہ اس سے خیبر کے یہودی مراد ہیں۔ (14) امام عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن منذر نے مجاہد ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے لفظ آیت سمعون لقوم اخرین کے بارے میں فرمایا کہ وہی یہودی کے چغل خور ہیں۔ تحریف توراۃ کی شکلیں (15) امام ابو الشیخ نے ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت یحرفون الکلم من بعد مواضعہ سے کلمات کی تعریف کے بارے میں یہ قول نقل کیا ہے یا نبی احباری انہوں نے تحریف کر کے یا نبی ابکاری بنا دی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان لفظ آیت یحرفون الکلم من بعد مواضعہ کا یہی مطلب ہے۔ اور ابراہیم اس کو پڑھتے تھے لفظ آیت یحرفون الکلم من بعد مواضعہ (یعنی عن کی جگہ من کا لفظ پڑھتے تھے) (16) امام عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت یحرفون الکلم من بعد مواضعہ کے بارے میں فرمایا ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ یہ آیت بنو قریظہ اور بنو نضیر کے مقتولین کے بارے میں نازل ہوئی۔ جب بنو قریظہ کا ایک آدمی قتل ہوا جسے بنو نضیر کے آدمی نے کیا تھا۔ اور اگر بنو نضیر جب بنو قریظہ کے کسی آدمی کو قتل کردیتے تھے تو ان کو قصاص نہ دیتے اور ان کو وہ دیت دے دیتے تھے کیونکہ وہ اپنے آپ کو نبی قریظہ پر فضیلت دیتے تھے۔ نبی ﷺ مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو رسول اللہ ﷺ ان سے اس بارے میں پوچھا اور انہوں نے (اس معاملے کو) نبی ﷺ کی طرف اٹھانے کا ارادہ کیا تاکہ ان کے درمیان آپ ﷺ فیصلہ فرمائیں۔ تو منافقین میں سے ایک آدمی نے ان سے کہا کہ تمہارا یہ مقتول جان بوجھ کر قتل کیا گیا ہے اور جب تم اس کا معاملہ محمد ﷺ کے پاس لے جاؤ گے تو میں ڈرتا ہوں کہیں وہ تم پر قصاص کا فیصلہ کردیں۔ وہ تم سے دیت کو قبول کرلیں تو اس کے لے لو ورنہ ان سے محتاط رہو۔ (17) امام عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت یقولون ان اوتیتم ھذا فخذوہ اگر (ان کا حکم) تمہارے موافق ہوجائے تو اس کو مان لو۔ اور اگر تمہارے موافق نہ ہو (تو اس سے بچ جاؤ) یعنی لفظ آیت فخذوہ کہ یہ بات یہودی منافقین سے کہتے تھے۔ (18) امام ابن ابی حاتم، ابن منذر نے اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت یحرفون الکلم کے بارے میں فرمایا یعنی تورات میں اللہ کی حدود کو (بدل ڈالتے تھے) اور فرمایا لفظ آیت یقولون ان اوتیتم یعنی وہ کہتے تھے کہ اگر محمد ﷺ تم کو ایسا حکم کریں جس پر تم ہو تو اس کو قبول کرلو اور اگر وہ تمہاری مخالفت کریں تو اس سے اجتناب کرو (یعنی قبول نہ کرو) اور فرمایا لفظ آیت ومن یرد اللہ فتنہ میں فتنہ سے مراد گمراہی ہے۔ لفظ آیت فلن تملک لہ من اللہ شیئا سے مراد ہے کہ وہ اللہ کی پکڑ سے کوئی نفع نہ دے گا۔ (19) امام ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت لھم فی الدنیا خزی اور ان کی دنیا میں رسوائی سے مراد یہ ہے کہ جب اسلام مضبوط ہوگیا تو قسطنطنیہ فتح ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو قتل کیا۔ تو یہ (ان کی) رسوائی ہوئی۔ (20) امام ابن جریر، ابن منذر اور ابو الشیخ نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت لھم فی الدنیا خزی سے مراد ہے روم کے ملک میں ان کا شہر فتح ہونا جس میں قید کر لئے جاتے تھے۔ (21) امام عبد الرزاق نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت لھم فی الدنیا خزی سے مراد ہے کہ وہ جزیہ دیتے ہیں اپنے ہاتھ سے اس حال میں کہ وہ ذلیل ہونے والے ہیں۔
Top