Dure-Mansoor - Al-Maaida : 79
كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ١ؕ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ
كَانُوْا لَا يَتَنَاهَوْنَ : ایک دوسرے کو نہ روکتے تھے عَنْ : سے مُّنْكَرٍ : برے کام فَعَلُوْهُ : وہ کرتے تھے لَبِئْسَ : البتہ برا ہے مَا كَانُوْا : جو وہ تھے يَفْعَلُوْنَ : کرتے
یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کو برے کام سے نہیں روکتے تھے جو انہوں نے کیا، واقعۃ برے تھے وہ افعال جو وہ کرتے تھے۔
(1) امام عبد الرزاق، احمد، عبد بن حمید، ابو داؤد، الترمذی (نے اس کو حسن بھی کہا ہے) ابن ماجہ، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ، ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی دوسرے آدمی سے ملتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ (اے آدمی) اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دے جو (برا) کام کررہا ہے۔ یہ تیرے لئے حلال نہیں۔ پھر اس سے اگلے دن ملاقات کرتا تھا تو اس کا یہ کردار اسے نہ روکتا تھا۔ اس کے ساتھ سے اس کے ساتھ اور اس کے ساتھ بیٹھنے سے جب انہوں نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ایک دوسرے سے ٹکڑا دیئے (یعنی ایک جیسا کردیا) اسی کو فرمایا لفظ آیت لعن الذین کفروا من بنی اسرائیل علی لسان داؤد (سے لے کر) لفظ آیت فاسقون تک پھر فرمایا ہرگز نہیں اللہ کی قسم تم ضرور نیکی کا حکم کرتے رہو اور ضرور برائی سے روکتے رہو اور ظالم کے ہاتھوں کو ضرور پکڑتے رہو اور حق پر آمادہ کرتے رہو۔ (2) امام عبد بن حمید، ابو الشیخ، طبرانی اور ابن مردویہ ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بنی اسرائیل جب کوئی برا کام کرتے تھے تو ان کے علماء ان کو سرزنش کرتے ہوئے ان کو روکتے تھے۔ پھر ان کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ اور ان کے ساتھ کھاتے پیتے تھے۔ گویا کہ گزشتہ روز انہوں نے کوئی برائی نہ کی تھی۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس طرز عمل کو دیکھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بعض کے دلوں کو بعض سے ٹکرا دیا (یعنی ایک جیسا کردیا) اور انبیاء میں سے ایک نبی کی زبان کے ساتھ ان پر لعنت کی، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم ! تم ضرور نیکی کا حکم کرتے رہو، برائی سے روکتے رہو اور تم ضرور حق پر آمادہ کرتے رہو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے بعض کے دلوں کو بعض سے ٹکرا دے گا۔ (یعنی ایک جیسا کردیں گے) اور ضرور تم پر لعنت کریں گے جیسے ان پر لعنت کی۔ دین پر قائم رہنے کی تاکید (3) امام عبد بن حمید نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عطیہ کو لے لو جب تک وہ عطیہ ہے جب تمہارے دین سے دور کرنے کے لئے رشوت ہو تو اس کو مت لو۔ اور ہرگز تم اس کو نہ چھوڑو گے کہ تم کو روکے گا اس سے فقرا اور خوف۔ یاجوج کی اولاد آچکی ہے۔ اور اسلام کی چکی عنقریب گھومے گی۔ جہاں قرآن گھومے تم بھی اس طرف گھوم جاؤ۔ (یعنی اس پر عمل کرو) قریب ہے کہ بادشاہ اور قرآن آپس میں ایک دوسرے سے جھگڑیں اور مختلف حکم دیں۔ عنقریب تم پر ایسے بادشاہ ہوں گے جو تمہارے لئے ایک حکم سے فیصلہ کریں گے جب کہ ان کے لئے اور حکم ہوگا۔ اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو وہ تم کو گمراہ کردیں گے۔ اور اگر ان کی نافرمانی کرو گے تو وہ تم کو قتل کردیں گے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اگر ہم ان کو پالیں تو ہم کیا کریں ؟ آپ نے فرمایا اللہ کی اطاعت میں موت بہتر ہے گناہ کی زندگی سے۔ سب سے پہلے بنی اسرائیل میں جو نقص پیدا ہوا وہ یہ تھا کہ وہ ان کو نیکی کا حکم کرتے تھے اور ان کو برائی سے روکتے تھے سرزنش کرتے ہوئے پھر جب ان میں سے ایک اپنے دوست سے ملتا تھا جس پر کل اس نے عیب لگایا تھا تو اس کے ساتھ کھاتا اور پیتا تھا اس طرح گویا کہ اس پر عیب ہی نہ تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے داؤد (علیہ السلام) کی زبان سے ان پر لعنت فرمائی۔ یہ اس وجہ سے کہ وہ نافرمانی کرنے والے اور حد سے گزرنے والے تھے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم ضرور نیکی کا حکم کرتے رہو اور برائی سے روکتے رہو۔ اللہ تعالیٰ تم پر ضرور برے لوگوں کو مسلط کردے گا۔ پھر تمہارے نیک لوگ دعا کریں گے تو تمہاری دعائیں قبول نہ کی جائیں گی۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم ضرور نیکی کا حکم کرتے رہو، برائی سے روکتے رہو، اور ظالم کے ہاتھ پکڑے رہو۔ اور حق پر آمادہ کرو۔ ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے بعض کے دلوں کو بعض سے ٹکرا دے گا۔ (یعنی ایک جیسا کردیں گے) ۔ (4) ابن راھویہ اور بخاری نے وحدانیات میں ابن السکن، ابن منذر، الباوردی سے معرفۃ الصحابہ میں، الطبرانی، ابو نعیم، ابن مردویہ نے ابن ابزی (رح) سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ ارشاد کرتے ہوئے اللہ کی حمد اور تعریف بیان فرمائی پھر مسلمانوں کی جماعتوں کا ذکر فرمایا اور ان کی اچھی تعریف فرمائی۔ پھر فرمایا ان لوگوں کا کیا حال ہوگا۔ جو اپنے ہمسایوں کو تعلیم نہیں دیتے ان کو فقہ نہیں سکھاتے اور ان کو نہیں سمجھاتے نہ ان کو نیکی کا حکم کرتے ہیں اور نہ برائی سے روکتے ہیں۔ اور ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو نہ اپنے پڑوسیوں سے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور نہ ان سے سمجھ حاصل کرتے ہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم ضرور اپنے پڑوسیوں کو تعلیم دو یا ان سے سیکھو یا ان سے سمجھ حاصل کرو ورنہ میں دنیا میں اسے جلدی سزا دوں گا پھر آپ منبر سے نیچے اترے اور اپنے گھر میں داخل ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب ؓ نے کہا کہ آپ نے اس سے کون لوگ مراد لئے ہیں، پھر انہوں نے کہا کہ ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ اس سے مراد اشعری ہیں۔ یعنی ان کے فقہا اور علماء ان کے پڑوسی چشموں والے ظالم اور جاہل ہیں اشعر میں سے ایک جماعت جمع ہو کر نبی ﷺ کے پاس آئی۔ اور عرض کیا مسلمانوں میں سے ایک جماعت کے بارے میں آپ نے خیر کے ساتھ ذکر فرمایا جبکہ ہمارا ذکر برائی کے ساتھ کیا۔ ہمارا کیا قصور ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اپنے پڑوسیوں کو تعلیم دو ان کو دین سمجھاؤ ان کو نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو ورنہ ان کو دنیا میں ہی جلدی سزا دوں گا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ، ہم کو ایک سال کی مہلت دیں ایک سال میں ہم تعلیم نہ دیں اور وہ نہ سیکھیں تو ہم کو ایک اور سال کی مہلت دیں پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی لفظ آیت لعن الذین کفروا من بنی اسرائیل علی لسان داؤد و عیسیٰ ابن مریم ذلک بما عصوا وکانو یعتدون۔ کانوا لا یتناھون عن منکر فعلوہ لبئس ماکانوا یفعلون (5) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت لعن الذین کفروا من بنی اسرائیل علی لسان داؤد یعنی زبور (میں ان پر لعنت کی گئی) اور عیسیٰ یعنی انجیل میں (ان پر لعنت کی گئی) (6) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت لعن الذین کفروا کے بارے میں فرمایا کہ ان پر یہ نبی کی زبان میں لعنت کی گئی اور محمد ﷺ کے زمانہ میں قرآن میں ان پر لعنت کی گئی۔ (7) امام ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت لعن الذین کفروا کے بارے میں فرمایا کہ نبی کے بعد بھی انہوں نے اس فاسقوں کے ساتھ میل جول رکھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے بعض کے دلوں کو بعض کے ساتھ ٹکڑا دیا۔ اور وہ لعنت کیئے گئے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان پر۔ (8) امام ابو عبیدہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابو مالک غفاری (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اسی آیت کے بارے میں فرمایا کہ وہ لوگ داؤد (علیہ السلام) کی زبان پر لعنت کئے گئے۔ اور ان کو بندر بنا دیا گیا۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان پر لعنت کئے گئے اور ان کو سور بنا دیا گیا۔ (9) امام عبد بن حمیدا ور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ قتادہ ؓ نے اس آیت کے بارے میں فرمایا اللہ تعالیٰ نے داؤد کی زبان پر اس کے زمانہ میں ان پر لعنت کی اور ان کو ذلیل بندر بنا دیا۔ اور انجیل میں عیسیٰ کی زبان پر ان پر لعنت کی گئی اور ان کو سور بنا دیا گیا۔ (10) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ذلک بما عصوا وکانوا یعتدون پوچھا کہ ان میں سے بعض کا کیا قصور تھا انہوں نے کہا یعنی وہ لوگ اس برائی کو نہ روکتے تھے جن کو وہ لوگ کرتے تھے۔ (11) امام ابو الشیخ نے ابو عمرو بن عاص سے روایت کیا ابن زبیر (رح) نے کعب ؓ سے پوچھا اللہ تعالیٰ کی کیا کوئی نشانی ہوتی ہے بندوں میں جب وہ ان پر ناراض ہوتے ہیں۔ فرمایا ہاں۔ ان کو ذلیل کرتے ہیں۔ اس حال میں کہ نہ وہ نیکی کا حکم کرتے ہیں اور نہ برائی سے روکتے ہیں۔ اور قرآن میں ہے لفظ آیت لعن الذین کفروا من بنی اسرائیل (12) امام دیلمی نے مسند الفردوس میں ابو عبیدہ بن جراح ؓ سے روایت کیا ہے کہ بنو اسرائیل نے تینتالیس 43 نبیوں کو دن کے اول حصہ میں قتل کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ کے ایک سو بارہ بندے اٹھے۔ انہوں نے ان کو نیکی کا حکم دیا اور ان کو برائی سے روکا تو دن کے آخری حصے میں ان سب کو قتل کردیا گیا۔ سو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا (اس طرح) ذکر فرمایا کہ لفظ آیت لعن الذین کفروا من بنی اسرائیل (الایہ) ۔ نہی عن المنکر کے ترک پر سخت عذاب ہوگا (13) امام احمد، ترمذی، (انہوں نے اس کو حسن بھی کہا ہے) اور امام بیہقی نے حذیفہ بن یمان ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم ضرور نیکی کا حکم کرتے رہو۔ اور برائی سے روکتے رہو۔ یا عنقریب اللہ تعالیٰ تم پر اپنے پاس سے عذاب کو بھیج دیں گے۔ پھر تم دعا کرو گے تو قبول نہ ہوگی۔ (14) امام ابن ماجہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ نیکی کا حکم کرو اور برائی سے روکو۔ پہلے اس کے کہ تم دعا کرو اور تمہاری دعا قبول نہ کی جائے۔ (15) امام مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص تم میں سے کسی برائی کو دیکھے تو اس کو چاہئے کہ اس کو اپنے ہاتھ سے بدل دے اگر اس کی طاقت نہیں رکھتا تو اپنی زبان سے (ان کو سمجھائے) اگر یہ بھی نہیں کرسکتا تو دل سے برا مانے اور یہ ضعیف ایمان ہے۔ (16) امام احمد نے عدی بن عمیر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کو عذاب نہیں دیتے۔ خاص لوگوں کے علم کی وجہ سے یہاں تک کہ جب وہ برے کام کو اپنے درمیان سے دیکھیں حالانکہ اس کو روکنے پر قادر دیکھیں تاکہ جب انہوں نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ عام اور خاص کو عذاب میں مبتلا کردیتے ہیں۔ (17) امام خطیب نے مالک کی روایت میں ابو سلمہ سے روایت کیا کہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ عام لوگوں کو خاص لوگوں کی وجہ سے عذاب نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ وہ برائی کو اپنے درمیان دیکھیں۔ حالانکہ وہ اس بات پر قادر ہوں کہ ان کو روک دیں مگر وہ ان لوگوں کو نہیں روکتے۔ جب انہوں نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ نے عام اور خاص سب کو عذاب میں مبتلا کردیتے ہیں۔ (18) امام خطیب نے روایت مالک میں ابو سلمہ ؓ سے وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ میری امت میں سے کچھ لوگ اپنی قبروں سے بندر اور سور کی شکل میں نکلیں گے۔ انہوں نے نافرمانی کے ساتھ نرمی کی ہوگی اور ان کو روکنے سے خاموشی اختیار کی ہوگی۔ جبکہ وہ اس کی طاقت رکھتے تھے۔ (19) امام حکیم ترمذی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب میری امت دنیا کو بڑی چیز سمجھنے لگے گی۔ تو اسلام کی ہیبت ان کے قلوب سے نکل جائے گی اور جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑ بیٹھے گی تو وحی کی برکات سے محروم ہوجائے گی۔ اور جب آپس میں گالی گلوچ اختیار کریں گے۔ تو اللہ جل شانہ کی نگاہ میں گرجائے گی۔ (20) امام طبرانی ابن عباس ؓ سے روایت کیا گیا کہا یا رسول اللہ ! کیا بستی والے ہلاک ہوں گے۔ جب ان میں نیک لوگ ہوں۔ فرمایا ہاں ! کہا گیا یا رسول اللہ ! (یہ کیسے ہوگا) فرمایا ان کی لاپرواہی اللہ کی نافرمانی میں اور خاموشی (ان کے لئے ہلاکت کا باعث بنے گی) ۔ (21) امام طبرانی نے ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا تم سے پہلے بنی اسرائیل میں جب کوئی گناہ کرتا تھا تو منع کرنے والا بطور تعذیر اسے روکتا۔ جب اگلا دن آتا تھا تو اس کے ساتھ بیٹھ کر کھاتا اور پیتا گویا اس نے کل کو کوئی برائی دیکھی ہی نہیں تھی۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس بات کو دیکھا تو اس کے بعض کے دلوں کو بعض کے ساتھ ٹکڑا دیا اور داؤد (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے ان پر لعنت کی۔ (فرمایا) لفظ آیت ذلک بما عصوا وکانوا یعتدون اور قسم سے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد ﷺ کی جان ہے تم ضرور نیکی کا حکم کرتے رہو اور برائی سے روکتے رہو اور برائی کرنے والے کا ہاتھ پکڑتے رہو۔ اور حق پر آمادہ کرو اللہ تعالیٰ ضرور تمہارے بعض کے دلوں کو بعض کے ساتھ ٹکڑا دیں گے۔ (یعنی دشمنی پیدا کریں گے) اور تم پر لعنت کریں گے جیسے ان پر لعنت کی۔ (22) امام دیلمی نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب عورتیں عورتوں سے اور مرد مردوں سے خواہش پوری کرنے لگے۔ تو ان کو خوشخبری دے دیں سرخ ہوا کی مشرق کی طرف سے بعض کو مسخ کر دے گی اور بعض کو دھنسا دے گی۔ اسی کو فرمایا لفظ آیت ذلک بما عصوا وکانوا یعتدون
Top