Dure-Mansoor - Al-Maaida : 82
لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَهُوْدَ وَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا١ۚ وَ لَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰى١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَ رُهْبَانًا وَّ اَنَّهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ
لَتَجِدَنَّ : تم ضرور پاؤگے اَشَدَّ : سب سے زیادہ النَّاسِ : لوگ عَدَاوَةً : دشمنی لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا : اہل ایمان (مسلمانوں) کے لیے الْيَھُوْدَ : یہود وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا : اور جن لوگوں نے شرک کیا وَلَتَجِدَنَّ : اور البتہ ضرور پاؤگے اَقْرَبَهُمْ : سب سے زیادہ قریب مَّوَدَّةً : دوستی لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ان کے لیے جو ایمان لائے (مسلمان) الَّذِيْنَ قَالُوْٓا : جن لوگوں نے کہا اِنَّا : ہم نَصٰرٰى : نصاری ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّ : اس لیے کہ مِنْهُمْ : ان سے قِسِّيْسِيْنَ : عالم وَرُهْبَانًا : اور درویش وَّاَنَّهُمْ : اور یہ کہ وہ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ : تکبر نہیں کرتے
تو اہل ایمان کے لئے سب سے زیادہ دشمن یہودیوں اور مشرکین کو پائے گا اور ضرور بالضرور اہل ایمان سے محبت میں سب سے زیادہ قریب تر ان لوگوں کو پائے گا جنہوں نے کہا کہ ہم نصاری ہیں، یہ اس وجہ سے کہ ان میں علماء ہیں اور درویش ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔
(1) امام ابن مردویہ اور ابو الشیخ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں تنہا ہوتا کوئی یہودی کسی مسلمان کے ساتھ مگر وہ اس کے قتل کا ارادہ کرتا ہے۔ اور دوسرے الفاظ میں یوں ہے۔ مگر اس کا نفس اس کو قتل کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ (2) امام عبد بن حمید، ابن مردویہ، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ولتجدن اقربھم مودۃ للذین امنوا الذین قالوا انا نصری سے مراد وہ وفد ہے جو جعفر اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ حبشہ سے آیا تھا۔ (3) امام ابن ابی حاتم نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے جن نصاری کا ذکر فرمایا وہ حبشہ کے لوگ مراد ہیں۔ جو ایمان لائے جب ان کے پاس ایمان والے لوگ ہجرت کر کے آئے یہ آیت ان (نصاری) کے متعلق ہے۔ (4) امام نسائی، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، طبرانی، ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے عبد اللہ بن ربیر ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت لفظ آیت واذا سمعوا ما انزل الی الرسول تری اعینھم تفیض من الدمع نجاشی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ نجاشی بادشاہ کا قبول اسلام (5) امام ابن ابی شیبہ، ابن ابی حاتم اور ابو نعیم نے حلیہ میں اور امام واحدی نے ابن شہاب (رح) سے روایت کیا کہ مجھے سعید بن مسیب ابوبکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام اور عروہ بن زبیر (رح) نے خبر دی اور انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے عمرو بن امیہ ضمری ؓ کو بھیجا اور ایک خط بھی ان کے ہاتھ نجاشی کی طرف روانہ کیا۔ عمرو بن امیہ نجاشی کے پاس آئے اس نے رسول اللہ ﷺ کے خط کو پڑھا۔ پھر جعفر بن ابی طالب اور ان کے ساتھ مہاجرین کو بلایا اور نجاشی نے اپنے علماء اور درویشوں کو بھی بلایا اور ان سب کو جمع کیا پھر جعفر بن ابی طالب ؓ کو ان کے ساتھ قرآن پڑھنے کا حکم دیا۔ انہوں نے ان پر سورة مریم پڑھی۔ وہ لوگ قرآن پر ایمان لے آئے اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے یہ لوگ ہیں جن کے بارے میں یہ آیت لفظ آیت ولتجدن اقربھم مودۃ (سے لے کر) لفظ آیت مع الشھدین تک نازل ہوئی۔ (6) امام عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ذلک بان منھم قسیسین ورھبانا کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد نجاشی کے قاصد ہیں جن کو اس نے اپنے اسلام اور اپنی قوم کے اسلام (کے قبول کرنے کی خبر) کے ساتھ بھیجا۔ یہ ستر آدمی تھے جن کو اس نے اپنی قوم میں سے چنا۔ جو عمر اور سمجھ میں بہترین لوگ تھے اور دوسرے الفاظ میں یوں ہے کہ اس نے اپنے بہترین ساتھیوں میں سے تیس آدمی بھیجے۔ یہ لوگ جب رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے ان پر سورة یسین پڑھی۔ یہ لوگ قرآن کو سن کر رونے لگے۔ اور انہوں نے پہچان لیا کہ یہ حق ہے۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اتارا۔ لفظ آیت ذلک بان منھم قسیسین ورھبانا اور ان کے بارے میں یہ بھی اتارا لفظ آیت الذین اتینھم الکتب من قبلہ ھم بہ یومنون (سے لے کر) لفظ آیت اولئک یوتون اجرھم مرتین بما صبروا تک۔ (7) امام ابن ابی شیبہ اور ابو الشیخ نے عروہ (رح) سے روایت کیا کہ لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ یہ آیت نجاشی کے بارے میں نازل ہوئی۔ یعنی لفظ آیت واذا سمعوا ما انزل الی الرسول پھر فرمایا کہ یہ لوگ ملاح تھے۔ اور جعفر بن ابی طالب ؓ کے ساتھ حبشہ سے آئے تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے ان پر قرآن کو پڑھا تو یہ لوگ ایمان لے آئے اور ان کی انکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم اپنی زمین کی طرف لوٹ کر جاؤ تو ( اپنے سابقہ) دین سے پھرجانا۔ انہوں نے کہا ہم اپنے دین اسلام سے ہرگز نہیں پھریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں (یہ آیت) لفظ آیت واذا سمعوا ما انزل الی الرسول نازل فرمائی۔ (8) امام ابو الشیخ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو حضرت کے ساتھ حبشہ کی زمین سے آئے تھے۔ جعفر ؓ حبشہ چلے گئے تھے اور ان کے ساتھ قریش میں چالیس آدمی اور بھی تھے۔ اور پچاس اشعریین میں سے تھے۔ ان میں سے چار عک قبیلہ میں سے تھے۔ ان میں سے بڑے ابو عامر اشعری اور ان کے چھوٹے عامر اور ہم کو یہ بات بھی پہنچی ہے کہ قریش نے ان کی طلب میں عمرو بن عاص اور عمارہ بن الولید کو بھیجا تھا۔ یہ دونوں نجاشی کے پاس آئے اور کہا کہ ان لوگوں نے اپنے قوم کے دین میں فساد پھیلایا ہے۔ نجاشی نے مہاجرین کی طرف پیغام بھیجا۔ یہ لوگ آئے تو ان سے سوال کیا۔ تو ان لوگوں نے کہا اللہ تعالیٰ نے ہمارے درمیان ایک نبی بھیجا ہے۔ جیسے ہم سے پہلے امتوں میں بھیجے تھے۔ اللہ وحدہ لا شریک کی طرف ہمیں بلاتا ہے۔ اور ہم کو نیکی کا حکم کرتا ہے۔ اور برائی سے روکتا ہے۔ اور ہم کو صلہ رحمی کا حکم کرتا ہے اور ہم کو قطع رحمی سے روکتا ہے۔ اور ہم کو وعدہ کے پورا کرنے کا حکم کرتا ہے اور اس کے توڑنے سے منع کرتا ہے۔ ہماری قوم نے ہم پر ظلم کیا اور ہم کو نکال دیا۔ جب ہم نے اس کی تصدیق کی اور اس کے ساتھ ایمان لائے۔ ہم نے تیرے سوا کہیں جگہ نہیں پائی۔ نجاشی نے کہا اچھی بات ہے۔ اور عمرو اور اس کے ساتھی نے کہا یہ لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں ایسی بات کہتے ہیں جو اس سے مختلف ہیں جو تم کہتے تھے نجاشی نے کہا تم لوگ عیسیٰ کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ انہوں نے کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اس کا کلمہ اور اس کی روح ہیں جسے کنواری پاک دامن نے جنا ہے۔ نجاشی سے کہا تم نے کوئی غلطی نہیں کی۔ پھر اس نے عمرو اور اس کے ساتھیوں سے کہا اگر تم میری پناہ میں نہ ہوتے۔ تو میں تمہارے ساتھ ایسا کرتا۔ اور ہم کو یہ بات بھی ذکر کی گئی کہ جعفر اور اس کے ساتھی واپس آئے تو یہ لوگ (یعنی حبشہ کے لوگ) بھی ان کے ساتھ آئے۔ اور محمد ﷺ پر ایمان لائے ایک کہنے والے نے کہا۔ اگر یہ اپنی زمین کی طرف لوٹ گئے تو اپنے دین کی طرف پلٹ جائیں گے۔ ہم کو بھی بیان کیا گیا کہ جعفر ؓ کے ساتھ ستر آدمی ان کے آئے تھے۔ نبی ﷺ نے جب ان پر قرآن پڑھا تو ان کی آنکھیں بھر پڑیں۔ نجاشی کا وفد دربار نبوی ﷺ (9) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ نجاشی نے رسول اللہ ﷺ کی طرف بارہ آدمی بھیجے سات درویش اور پانچ علماء تھے۔ تاکہ وہ حضور ﷺ کو دیکھیں اور ان سے سوال و جواب کریں۔ جب ان لوگوں نے آپ سے ملاقات کی۔ تو آپ نے ان پر وہ کلام پڑھی جو اللہ نے اتاری تو وہ لوگ ایمان لے آئے۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) لفظ آیت واذا سمعوا ما انزل علی الرسول اتاری۔ (10) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں تھے اور آپ اپنے ساتھیوں کے بارے میں مشرکین سے بہت ڈرتے تھے۔ آپ نے جعفر بن ابی طالب بن مسعود اور عثمان بن مظعون ؓ کو اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی طرف بھیجا۔ جب مشرکین کو یہ بات پہنچی تو انہوں نے عمرو بن عاص کی قیادت میں ایک جماعت بھیجی۔ یہ بات بھی ذکر کی گئی کہ یہ لوگ نبی ﷺ کے اصحاب سے پہلے نجاشی کے پاس پہنچ گئے اور کہنے لگے کہ ہمارے اندر ایک ایسا آدمی ظاہر ہوا ہے جس نے قریش کی عقلوں کو اور ان کے خوابوں کے بیوقوف قرار دیا۔ اس نے گمان کیا کہ وہ نبی ہے۔ اور اس نے آپ کی طرف ایک جماعت بھیجی ہے تاکہ تیری قوم میں تیرے خلاف بگاڑ پیدا کریں۔ ہم نے اس بات کو پسند کیا کہ ہم آپ کے پاس آکر آپ کو ان لوگوں کی خبر دیں نجاشی نے کہا کہ اگر وہ میرے پاس آئے ہیں تو میں دیکھوں گا کہ وہ کیا کہتے ہیں۔ جب رسول اللہ ﷺ کے اصحاب نجاشی کے دروازہ پر آئے تو انہوں نے کہا اولیا کو اجازت دو ۔ اس نے کہا ان کو اجازت دے دوں اور اللہ کے دوستوں کو خوش آمدید۔ جب یہ لوگ داخل ہوئے تو انہوں نے سلام کیا مشرکین میں سے کچھ لوگوں نے کہا اے بادشاہ کیا آپ نے دیکھا ہم نے آپ سے سچ کہا تھا انہوں نے آپ کو ایسے طریقے کے ساتھ سلام کیا جس طریقہ پر آپ کو سلام نہیں کیا جاتا ہے نجاشی نے اس سے کہا کس بات نے تم کو روکا ہے کہ میرے طریقے پر تم نے مجھے سلام نہیں کیا ؟ انہوں نے کہا ہم نے تجھ کو جنت والوں اور فرشتوں کا سلام کیا ہے۔ نجاشی نے ان سے کہا تمہارا ساتھی (یعنی محمد ﷺ عیسیٰ اور اس کی ماں کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ انہوں نے کہا وہ کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں اس کی طرف سے کہ جس کو مریم کی طرف القاء کیا گیا۔ اور مریم کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ کنواری پاکیزہ بتول ہیں۔ نجاشی نے ایک لکڑی زمین سے اٹھائی اور کہا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اور اس کی والدہ وہی ہیں۔ جو تمہارے نبی نے فرمایا اور اس لکڑی کے برابر تھی زیادہ نہیں۔ مشرکوں نے اس بات کو ناپسند کیا اور ان کے چہروں کا رنگ تبدیل ہوگیا۔ پھر اس نے کہا کیا تم مجھے کچھ سناؤ گے جو تم پر نازل ہوا۔ مہاجرین نے جواب دیا جی ہاں ! پھر ان لوگوں نے (قرآن کو) پڑھا اور نجاشی کے ارد گرد علماء درویش اور نصاری بیٹھے ہوئے تھے۔ مہاجرین جب بھی کوئی آیت پڑھتے تو درویشوں کی آنکھوں میں سے آنسو بہہ پڑتے۔ جب انہوں نے حق کو پہچان لیا۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ذلک بان منھم قسیسین ورھبانا وانھم لا یستکبرون واذا سمعوا ما انزل الی الرسول تری اعینھم تفیض من الدمع مما عرفوا من الحق سلمان فارسی ؓ کا قبول اسلام (11) امام طبرانی نے سلمان ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اپنے اسلام کے بارے میں بتایا کہ نبی ﷺ جب مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو میں کھانا پکا کر آپ کے پاس آیا آپ نے فرمایا یہ کیا ہے میں نے عرض کیا یہ صدقہ ہے۔ آپ ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا اس کو کھالو اور خود نہیں کھایا۔ پھر میں لوٹ آیا تو (دوسرا) کھانا تیار کیا اور آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا یہ ہدیہ ہے۔ آپ ﷺ نے خود بھی کھایا اور اپنے اصحاب سے بھی فرمایا کہ کھاؤ۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ مجھے آپ نصاری کے بارے میں بتائیے آپ نے فرمایا ان میں خیر نہیں میں اور نہ ان لوگوں میں جو ان سے محبت رکھتے ہیں میں کھڑا ہوگیا اور میں (اس بات سے) بوجھل تھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری لفظ آیت لتجدن اشد الناس عداوۃ للذین امنوا الیھود یہاں تک پہنچے۔ لفظ آیت تفیض من الدمع رسول اللہ ﷺ نے مجھے بلا بھیجا اور مجھ سے فرمایا اے سلیمان ! اللہ تعالیٰ نے تیرے ان دوستوں کا ذکر فرمایا۔ (12) امام عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ولتجدن اقربھم مودۃ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے اہل کتاب میں سے کچھ لوگ مراد ہیں۔ جو اس شریعت حقہ پر تھے ان چیزوں میں سے جو عیسیٰ لے کر آئے اسی کے ساتھ وہ ایمان لاتے اور اس کے مطابق فیصلہ کرتے۔ جب اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو بھیجا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی اور ان پر ایمان لے آئے اور انہوں نے پہچان لیا جو آپ لائے ہیں وہ حق ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جو کچھ تم سنتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف کی۔ (13) امام ابو عبید سے فضائل میں، ابن ابی شیبہ نے مسند میں عبد بن حمید، بخاری نے تاریخ میں، الحارث بن ابی اسامہ نے مسند میں، حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں، ابن الانباری نے مصاحف میں، ابن منذر، ابن ابی حاتم، طبرانی اور ابن مردویہ نے سلمان ؓ سے لفظ آیت ذلک بان منھم قسیسین ورھبانا کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ رھبان سے وہ لوگ مراد ہیں جو گرجا گھروں میں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ پر (یہ آیت نازل ہوئی) لفظ آیت ذلک بان منھم قسیسین ورھبانا اور براز کے الفاظ میں ہے کہ قسیسین کو چھوڑ دو مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے پڑھایا لفظ آیت ذلک بان منھم صدقین اور حکیم ترمذی سے منقول ہے کہ میں نے نبی ﷺ پر یوں پڑھا لفظ آیت ذلک بان منھم قسیسین اور آپ نے مجھ کو اس طرح پڑھایا لفظ آیت ذلک بان منھم صدیقین ورھبانا رھبان کسے کہتے ہیں ؟ (14) بیہقی نے دلائل میں سلمان ؓ سے روایت کیا کہ میں رامھرمز کے ہاں یتیم تھا۔ اور دھقان کا بیٹا رامھرمز اختلاف کرتا تھا معلم سے جو اس کو سکھاتا تھا۔ میں اس کے ساتھ رہتا تاکہ میں اس کی نگرانی میں ہوجاؤں۔ میرا ایک بڑا بھائی تھا جو غنی تھا۔ اور میں ایک فقیر نوجوان تھا جب وہ اس کی مجلس میں کھڑا ہوتا تو وہ نوجوان چلے جاتے جو اس کی حفاظت کرتا تھا۔ جب وہ چلے جاتے تو وہ اپنا کپڑا اوڑھ کر پہاڑ پر چڑھ جاتا۔ اور اس نے کئی مرتبہ ایسا کیا اجنبی بنتے ہوئے میں نے کہا تو یہ عمل کرتا ہے۔ اور مجھے اپنے ساتھ نہیں لے جاتا۔ اس نے کہا تو ایک لڑکا ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ تجھ سے کوئی چیز ظاہر نہ ہوجائے میں نے کہا تو خوف نہ کر۔ پھر اس نے کہا اس پہاڑ میں ایک قوم ہے۔ اور وہ عبادت اور نیکی میں لگے ہوئے ہیں اللہ عزوجل کو اور آخرت کو یاد کرتے ہیں۔ وہ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ میں آگ اور بتوں کی عبادت کرنے والا ہوں میرا کوئی دین نہیں۔ میں نے کہا مجھے اپنے ساتھ ان کی طرف لے چل اس نے کہا میں اس پر قادر نہیں ہوں یہاں تک کہ ان سے اجازت لے لوں۔ اور میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تجھ سے کوئی چیز ظاہر نہ ہوجائے۔ جس کا علم میرے باپ کو ہوجائے اور وہ اس قوم کو قتل کر دے گا تو ان لوگوں کی ہلاکت کا سبب میں بنوں گا۔ میں نے کہا ہرگز میری طرف سے یہ بات ظاہر نہ ہوگی۔ اس نے ان سے اجازت طلب کرتے ہوئے کہا میرے پاس ایک یتیم لڑکا ہے وہ تمہارے پاس آکر تمہارا کلام سننا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر تجھے اس پر بھروسہ ہے (تو اس کو لے آؤ) اس نے کہا میں امید کرتا ہوں کہ میری پسند کے علاوہ کوئی بات اس سے سامنے نہیں آئے گی۔ انہوں نے کہا اس کو لے آؤ مجھ سے اس نے کہا قوم نے اجازت دے دی ہے کہ تو میرے ساتھ آجائے جب وہ وقت آئے جس میں تو مجھے جاتے ہوئے دیکھتا تھا۔ تو میرے پاس آجانا۔ مگر کسی کو بھی تیرے بارے میں علم نہ ہو۔ کیونکہ اگر میرے باپ کو ان کا علم ہوا ان کو قتل کر دے گا۔ جب وہ وقت آیا جس میں وہ جاتا تھا تو میں اس کے ساتھ ہو لیا۔ ہم پہاڑ پر چڑھے یہاں تک کہ ان کے پاس پہنچ گئے۔ اچانک وہ لوگ لمبی غار میں تھے۔ میں نے ان کو دیکھا تو وہ چھ یا سات تھے اور ان کی روح عبادت کی وجہ سے نکل چکی تھی۔ دن بھر روزہ رکھتے اور رات بھر قیام کرتے۔ درخت اور جو کچھ وہ پاتے کھالیتے۔ ہم ان کے پاس بیٹھ گئے۔ ابن دہقان نے میری تعریف کی خیر کے ساتھ۔ انہوں نے بات چیت کی اور اللہ کی حمد بیان کی اور اس کی تعریف بیان کی۔ اور ساتھ رسولوں اور انبیاء کا ذکر کیا۔ یہاں تک کہ وہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) تک پہنچے۔ پھر کہا اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا کیا اور بغیر باپ کے ان کو پیدا کیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنا رسول بھیجا۔ اور مسخر کئے ان کے لئے وہ کام جو وہ مردوں کو زندہ کرتے اور پرندہ کو پیدا کرتے اور اندھے کو اور برص والی بیماری والے کو اچھا کرتے۔ قوم نے ان کا انکار کیا اور قوم ان کے پیچھے لگ گئی۔ اور وہ اللہ کے بندے اور رسول تھے کہ اس کے ذریعہ اپنی مخلوق کو آزمائش میں ڈالا۔ اس سے پہلے انہوں نے کہا اے لڑکے تیرا ایک رب ہے اور تیرے لئے لوٹنے کی جگہ ہے۔ اور تیرے سامنے جنت ہے اور دوزخ ہے جس کی طرف تو جائے گا اور یہ لوگ جو آگ کی پوجا کرتے ہیں کفر اور گمراہی والے ہیں جو وہ کرتے ہیں اللہ ان سے راضی نہیں ہوگا اور یہ لوگ دین حق پر نہیں ہیں۔ جب وقت آیا تو وہ واپس آیا اور میں بھی اس کے ساتھ چلا آیا پھر ہم اگلے دن ان کے پاس گئے۔ انہوں نے پہلے کی طرح اچھی اچھی باتیں کیں۔ میں بھی ان کے ساتھ رہنے لگا۔ تو انہوں نے کہا اے لڑکے تو نوجوان ہے اور تو ایسا نہیں کرسکتا۔ جو ہم کرتے ہیں کھاؤ پیو عبادت کرو اور سو جاؤ۔ بادشاہ کو اپنے بیٹے کے کام پر اطلاع ہوئی تو وہ گھوڑے پر سوار ہوا اور ان کی غار تک جا پہنچا اس نے کہا اے لوگو ! تم میری پناہ میں آئے میں نے تم کو اچھی پناہ دی۔ اور تم نے مجھ سے کوئی برائی نہیں دیکھی۔ تم نے میرے بیٹے کی طرف ارادہ کیا۔ اور تم نے اس کو مجھ پر بگاڑ دیا۔ میں تم کو تین دن کی مہلت دیتا ہوں۔ اگر میں تم کو تین دن کے بعد پاؤں تو میں تم پر تمہارے یہ غار جلا دوں گا۔ اس کے ساتھ اپنے شہروں کی طرف چلے جاؤ۔ میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ میری طرف سے کوئی تکلیف پہنچے۔ انہوں نے کہا ہاں (ٹھیک ہے) ہم کو تجھے تکلیف دینے کا کوئی ارادہ نہیں۔ اور ہم نے نہیں ارادہ کیا تھا مگر خیر کا۔ اس نے ان کے پاس جانے سے اپنے بیٹے کو روک دیا تھا میں نے اس سے کہا اللہ سے ڈر۔ بلاشبہ تو پہچانتا ہے کہ یہ دین اللہ کا دین ہے۔ اور بلاشبہ تیرا باپ اور ہم سب اللہ کے دین پر ہیں وہ آگ کی عبادت کرنے والے ہیں۔ وہ اللہ کو نہیں پہچانتے نہ بیچ تو اپنی آخرت کو دوسرے کی دنیا کے بدلے میں، اس نے کہا اے سلیمان ؓ وہ ایسا ہی ہے جیسے تو کہتا ہے میں نے قوم کے پاس اس لئے جانا چھوڑ دیا تاکہ ان کی زندگیاں سلامت رہیں اگر میں ان لوگوں کے ساتھ جاؤں گا تو میرا والد گھوڑوں کے ساتھ پیچھا کرے گا۔ اور ان کے پاس میرے آنے سے گھبرایا ہوا ہے۔ اس وجہ سے اس نے ان کو بھگایا ہے۔ میں جانتا ہوں بلاشبہ حق ان کے ہاتھوں میں ہے۔ میں نے کہا تو زیادہ جاننے والا ہے۔ پھر میں اپنے بھائی سے ملا۔ اور میں نے اس پر یہ بات پیش کی اس نے کہا میں اپنے آپ کو معیشت کی طلب میں مشغول کرنے والا ہوں۔ میں ان کے پاس اس دن آیا جس میں وہ جانے کا ارادہ کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا اے سلیمان ہم ڈرتے تھے وہی بات ہوئی جو کچھ تو نے دیکھا ہے۔ اللہ سے ڈر اور تو جان لے کہ دین وہ ہے جس کی ہم نے تجھ کو نصیحت کی ہے۔ اور یہ لوگ آگ کی عبادت کرنے والے اللہ تعالیٰ کو نہیں پہچانتے۔ اور نہ اس کا ذکر کرتے ہیں اور تجھ کو کوئی اس بارے میں دھوکہ نہ دے۔ میں نے کہا میں تم سے جدا ہونے والا نہیں۔ انہوں نے کہا تو اس بات پر قدرت نہیں رکھتا کہ تو ہمارے ساتھ ہوجائے ہم دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات کو قیام کرتے ہیں اور درخت کو کھاتے ہیں۔ اور جو کچھ ہم کو مل جائے (اس کو کھالیتے ہیں) تو اس کی طاقت نہ رکھے گا۔ میں نے کہا میں تم سے جدا نہیں رہوں گا۔ انہوں نے کہا تو جانتا ہے اور ہم نے تجھ کو اپنا حال بتادیا ہے۔ جب تو نہیں مانتا تو کوئی ساتھی کی تلاش کر جو تیرے ساتھ رہے۔ اور اپنے ساتھ کھانا کھانے کے لئے کسی چیز کو اٹھائے تو اس کی طاقت نہیں رکھتا ہم طاقت رکھتے ہیں۔ میں نے ایسا ہی کیا اور میں اپنے بھائی سے ملا اس پر میں نے یہ بات پیش کی تو اس نے انکار کردیا۔ میں ان کے پاس آیا انہوں نے اپنا سامان اٹھایا اور وہ پیدل چل رہے تھے۔ اور میں بھی ان کے ساتھ پیدل چل رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہم کو موصل سلامتی کے ساتھ پہنچا دیا۔ ہم موصل کے ایک کلیسا میں آئے۔ جب وہ داخل ہوئے تو انہوں نے ان کو گھیر لیا۔ اور پوچھا تم کہاں تھے ؟ انہوں نے کہا ہم ایک شہر میں تھے جو اللہ تو یاد نہیں کرتے تھے۔ اس میں آگ پوجا کرنے والے ہیں۔ انہوں نے ہم کو نکال دیا تو ہم تمہارے پاس آئے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے کہا اے سلیمان ! ان پہاڑوں میں ایک قوم ہے اور وہ دین والے ہیں میں ان کی ملاقات کا ارادہ رکھتا ہوں۔ اور تو ان کے ساتھ ہوجا کیونکہ وہ دین والے ہیں۔ عنقریب تو وہ طرز عمل دیکھے گا۔ اس میں سے جو تو پسند کرتا ہے۔ میں نے کہا میں تم کو نہیں چھوڑوں گا اور انہوں نے کلیسا والوں کو میرے ساتھ حسن سلوک کرنے کو کہا اور اس گرجا کے رہنے والے لوگوں سے کہا ہمارے ساتھ ہی رہو۔ تجھے کوئی ایسی چیز عاجز نہیں کرے گی۔ جو ہمارے لئے سہولت پیدا کرے گی۔ میں نے کہا میں تم سے جدا نہیں ہوں گا۔ وہ نکلے اور میں ان کے ساتھ تھا۔ ہم صبح کو پہاڑوں کے درمیان تھے اچانک ایک چٹان تھی۔ اور گھڑوں میں پانی بہت تھا اور روٹیاں بہت تھیں۔ ہم اس چٹان کے پاس بیٹھ گئے۔ جو سورج طلوع ہوا۔ ان پہاڑوں کے درمیان سے لوگ نکلے ایک ایک آدمی اپنی جگہ سے نکلتا گویا کہ روحیں ان کے جسموں سے نکل چکی تھی۔ یہاں تک کہ بہت زیادہ ہوگئے۔ انہوں نے ان کو خوش آمدید کہا اور ان کو گھیر لیا۔ اور پوچھا تم کہاں تھے ہم نے تم کو نہیں دیکھا۔ ان لوگوں نے کہا ہم ایسے شہروں میں تھے جہاں کے لوگ اللہ کا ذکر نہیں کرتے۔ اور آگ کی عبادت کرنے والے ہیں اور ہم اس میں اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ مگر ہم کو انہوں نے نکال دیا۔ انہوں نے پوچھا یہ لڑکا کون ہے۔ تو انہوں نے میری تعریف کرنی شروع کی اور کہا یہ ہمارے ساتھ ہو لیا۔ ان شہروں میں سے اور ہم نے اس سے خیر کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم ! یہ لوگ اسی حال میں تھے کہ اچانک ایک لمبا آدمی غار میں سے نکلا۔ وہ آیا یہاں تک کہ اس نے سلام کیا اور بیٹھ گیا میرے ان ساتھیوں نے اس کو گھیر لیا جو میرے ساتھ تھے۔ اور اس کی تعظیم کی اور اس کا احاطہ کرلیا۔ اس نے ان سے پوچھا تم کہاں تھے ؟ ہم نے اس کو بتایا تو اس نے کہا یہ لڑکا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے میری تعریف کی اور اس کو بتایا کہ یہ ان کا پیروکار ہے۔ جتنی انہوں نے اس آدمی کی تعظیم کی۔ میں نے ایسی تعظیم نہیں دیکھی۔ اس نے اللہ کی حمد بیان کی۔ اور اس کی تعریف کی۔ پھر اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اس کے رسولوں اور اس کے انبیاء کا ذکر گیا۔ انہوں نے جو مشکلات اٹھائیں اور جو ان کے ساتھ کیا گیا یہاں تک کہ عیسیٰ بن مریم کی پیدائش کا ذکر کیا کہ وہ بغیر مرد کے پیدا کئے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو رسول بنا کر بھیجا اور ان کے ہاتھ پر مردہ کو زندہ کرنا اور اندھا اور برص والی بیماری والے کا اچھا ہونا جاری کیا۔ اور وہ مٹی سے پرندے کی شکل بناتے تھے اس میں پھونک مارتے تھے تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا۔ ان پر انجیل کو اتارا گیا۔ اور ان کو تورات سکھائی گئی اور ان کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا۔ ایک قوم نے ان کا انکار کیا اور ایک قوم ان پر ایمان لے آئی۔ اور ان میں سے بعض کا ذکر کیا جو عیسیٰ نے تکلیفیں اٹھائی تھیں۔ اور بلاشبہ وہ بندہ تھا جس پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا اور اس پر عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اللہ تعالیٰ راضی رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اٹھا لیا جبکہ وہ ان کو نصیحت کر رہے تھے۔ اور پھر کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور لازم پکڑو اس کو جو عیسیٰ لے کر آئے اور ان کی مخالفت نہ کرو وہ تمہاری مخالفت کریں۔ پھر فرمایا جو شخص اس میں سے کچھ لینے کا ارادہ کرے جو اس کو چاہئے اس کو کہ لے لے۔ تو ایک آدمی کھڑا ہوتا اور پانی کا گھڑا اور کھانا اور دوسری چیز لے لیتا۔ اس کی طرف میرے ساتھی بھی اٹھے جن کے ساتھ میں آیا تھا۔ انہوں نے اس کو سلام کیا اور اس کی تعظیم کی۔ اس نے ان سے کہا اس دین کو لازم پکڑو اور متفرق ہونے سے بچو اور غلام کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ اور مجھ سے کہا اے لڑکے یہ اللہ کا دین ہے جس سے بڑھ کر کوئی دین نہیں۔ اس کے علاوہ جو دین ہے وہ کفر ہے۔ میں نے کہا میں تجھ سے جدا نہیں ہوں گا۔ اس نے کہا تو اس کی طاقت نہیں رکھتا کہ میرے ساتھ جائے میں اپنی اس غار سے نہیں نکلتا مگر اتوار کے دن تو میرے ساتھ رہنے پر قادر نہ ہوگا۔ وہ اپنے ساتھیوں پر متوجہ ہوا تو انہوں نے کہا اے لڑکے تو اس کی طاقت نہیں رکھتا کہ تو اس کے ساتھ ہوجائے۔ میں نے کہا میں اس سے جدا نہیں ہوں گا۔ اس نے کہا اے (لڑکے) میں تجھے اب بتارہا ہوں۔ اور میں داخل ہوتا ہوں اس غار میں اور اس سے آئندہ اتوار کے دن تک نہیں نکلوں گا اور تو جانتا ہے۔ میں نے کہا میں تجھ سے جدا نہیں ہوں گا۔ اس کے ساتھیوں نے اس سے کہا اے فلاں ! یہ لڑکا ہے اور ہم اس پر خوف کرتے ہیں اس نے مجھ سے کہا کہ تو خوب جانتا ہے۔ میں نے کہا میں تجھ سے جدا نہیں ہوں گا۔ میرے پہلے ساتھی رونے لگے جو میرے ساتھ تھے میری جدائی کی وقت۔ اور اس نے کہا اس کھانے میں سے لے لے جو تجھ کو اگلے ہفتہ کے دن تک کافی ہوجائے۔ اور اس پانی میں سے بھی لے لو جو تجھے کافی ہوجائے۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ وہ لوگ جدا ہوگئے اور ہر انسان اپنی جگہ پر چلا گیا جس میں رہتا تھا۔ اور میں اس کے پیچھے ہو لیا۔ یہاں تک کہ پہاڑ کی غار میں داخل ہوگیا۔ اس نے کہا جو کچھ تیرے ساتھ ہے رکھ دے اور کھا اور پی۔ اور کھڑے ہو کی نماز پڑھ میں اس کے ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگا۔ وہ میری طرف پھرا اور کہا تو اس کی طاقت نہیں رکھتا لیکن نماز پڑھ کر سو جا۔ کھا اور پی۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ میں نے اس کو نہیں دیکھا۔ نیند کرتے ہوئے اور نہ کھاتے ہوئے تو رکوع کرتے ہوئے اور سجدہ کرتے ہوئے آئندہ اتوار تک۔ جب ہم نے صبح کی اور اس نے کہا اپنے اس گھوڑے کو لے لو اور چلو۔ میں اس کے ساتھ نکلا اور اس کے پیچھے چلا۔ یہاں تک کہ ہم ایک چٹان کی طرف پہنچے۔ جب کہ وہ لوگ بھی ان پہاڑوں سے نکل چکے تھے۔ چٹان کی طرف سب اکٹھے ہوگئے۔ اس کے نکلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ سب لوگ بیٹھ گئے تو اس نے پہلے کی طرح اپنی بات شروع کی۔ اور کہا اس دین کو لازم پکڑو۔ اور آپس میں اختلاف نہ کرو۔ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ اور تم جان لو کہ عیسیٰ بن مریم اللہ کے بندے تھے۔ جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا۔ پھر انہوں نے میرا ذکر کیا اور کہنے لگے۔ اے فلاں ! تو نے اس لڑکے کو کیسے پایا ؟ اس نے میری تعریف کی اور خیر کی بات کہی۔ انہوں نے اللہ کی حمد بیان کی۔ اچانک روٹیاں اور پانی بہت تھا۔ انہوں نے لے لیں اور اس آدمی نے اتنی مقدار کو لیا جو اس کو کافی ہوجائے۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ پھر وہ ان پہاڑوں میں متفرق ہوگئے۔ وہ آدمی اپنی غار میں لوٹ آیا اور میں بھی اس کے ساتھ لوٹ آیا۔ جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا میں لوٹ آیا۔ ہر اتوار کے دن وہ نکلتا تھا۔ اور وہ لوگ بھی اس کے ساتھ نکلتے تھے۔ وہ ان کو وصیت کرتا ساتھ اس چیز کے کہ جن کے ساتھ ان کو وصیت کی جاتی تھی۔ وہ اتوار کے دن میں نکلا جب سب لوگ جمع ہوگئے۔ اس نے اللہ کی تعریف بیان کرکے ان کو نصیحت کی۔ اور ان سے ایسی گفتگو کی جیسے وہ پہلے کیا کرتا تھا۔ پھر اس نے آخر میں یہ بات کی۔ اے لوگو ! میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں۔ میری موت قریب آگئی ہے۔ میں اتنے عرصہ سے اس گھر کی زیارت کو نہیں گیا۔ اب میرے لئے وہاں جانا ضروری ہے۔ اس نوجوان کا اچھی طرح خیال رکھنا۔ اور میں نے اس کو دیکھا کہ اس میں کوئی کجی نہیں۔ وہ لوگ رونے لگے میں نے ایسا رونا نہیں دیکھا۔ انہوں نے کہا اے فلاں کے باپ تو بڑا ہے اور اکیلا ہے۔ ہم کو اس سے کوئی اطمینان نہیں کہ تم کو موت آجائے اور ہم کو آپ کی سخت ضرورت ہے۔ اس نے کہا میرے ساتھ بحث نہ کرو۔ میرے لئے وہاں جانا ضروری ہے۔ لیکن اس غلام کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، ایسا کرنا ایسا کرنا۔ میں نے کہا میں تجھ سے جدا نہیں ہوں گا۔ اس نے کہا اے سلمان ! تو نے میرا حال دیکھ لیا اور جس کیفیت پر میں ہوتا ہوں اسے بھی دیکھ لیا۔ اور اب تیرے بس میں نہیں ہے۔ میں دن بھر روزہ رکھتا ہوں اور رات بھر قیام کرتا ہوں۔ اور میں طاقت نہیں رکھتا کہ میں اپنے ساتھ زاد کو اور اس کے علاوہ کسی دوسری چیز کو اٹھالوں اور میں اس پر قادر نہیں ہوں۔ میں نے کہا میں تجھ سے جدا نہیں ہوں گا۔ اس نے کہا تو زیادہ جانتا ہے۔ انہوں نے کہا اے فلاں کے باپ ! ہم تجھ سے ڈرتے ہیں اور اس نوجوان کے بارے میں بھی اس نے کہا یہ زیادہ جانتا ہے۔ میں نے اس کو سب کچھ بتادیا ہے۔ اور اس نے دیکھ لیا ہے سابقہ حالات کو۔ میں نے کہا میں تجھ سے جدا نہیں ہوں گا۔ وہ لوگ رو پڑے اور اس کو الوداع کہا۔ اس نے کہا اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس پر قائم رہو۔ میں نے تم کو اس کے ساتھ وصیتیں کی ہیں اگر میں زندہ رہا تو شاید میں تمہاری طرف لوٹ آؤں اگر میں مرگیا تو اللہ تعالیٰ زندہ ہیں جن کو موت نہیں آئے گی۔ اس نے ان پر سلام کیا اور باہر نکلا تو میں بھی اس کے ساتھ نکل آیا۔ اس نے مجھ سے کہا۔ اس روٹی میں سے کچھ لے لو تاکہ اس کو کھاؤ۔ وہ چلا تو میں بھی ان کے ساتھ چل پڑا۔ اور اس کے پیچھے ہو لیا وہ اللہ کو یاد کر رہا تھا اور کسی چیز کی طرف متوجہ نہ ہوتا تھا۔ اور نہ کسی چیز پر ٹھہرتا تھا یہاں تک کہ جب شام ہوتی تو کہنے لگا۔ اے سلمان ! تو نماز پڑھ لے اور سو جا۔ کھالے اور پی لے۔ پھر وہ رات کو عبادت کرتا رہتا۔ یہاں تک کہ بیت المقدس تک پہنچ گیا۔ وہ اپنی آنکھ کو نہیں اٹھاتا تھا آسمان کی طرف یہاں تک کہ ہم بیت المقدس پہنچ گئے اور دروازہ پر ایک اپاہج بیٹھا ہوا ہے۔ اس نے کہا اے عبداللہ تو نے میرا حال دیکھ لیا پس تو مجھ پر کوئی چیز صدقہ کر، اور اس کی طرف متوجہ نہ ہوا۔ وہ مسجد میں داخل ہوا اور میں بھی اس کے ساتھ داخل ہوا۔ اس نے مسجد میں مختلف جگہیں ڈھونڈنی شروع کیں جہاں وہ نماز پڑھتا پھر کہتا اے سلمان ! میں فلاں وقت نہیں سویا۔ اور میں نے نیند کا ذائقہ بھی نہیں پایا۔ اگر تو ذمہ لے کے مجھے جگا دے۔ جب سایہ فلاں جگہ پہنچ جائے۔ میں پسند کرتا ہوں کہ میں اس مسجد میں سو جاؤں۔ میں اس مسجد میں سونا پسند کرتا ہوں۔ ورنہ میں نہ سوؤں۔ میں نے کہا میں ایسا کرلوں گا یعنی تم کو جگا دوں گا۔ تو دیکھ لے جب سایہ فلاں جگہ تک پہنچ جائے تو مجھ کو جگا دینا جب مجھ پر نیند کا غلبہ ہو۔ وہ سو گیا تو میں نے اپنے دل میں کہا یہ اتنے عرصے سے نہیں سویا۔ اور میں نے اس کے بعض (حالات کو) دیکھا بھی ہے۔ میں اس کو نیند میں چھوڑ دوں گا۔ یہاں تک کہ وہ نیند سے صحت یاب ہوجائے۔ سلمان فارسی ؓ کا تذکرہ اس درمیان کہ وہ چل رہا ہوتا تھا اور میں اس کے ساتھ ہوتا تھا۔ وہ مجھ پر متوجہ ہوتا اور مجھ کو نصیحت کرتا اور مجھ کو بتاتا کہ میرا ایک رب ہے اور اس کے آگے جنت اور دوزخ اور حساب ہے۔ وہ مجھ کو وہ چیز سکھاتا جیسے قوم کو اتوار کے دن نصیحت کرتا تھا۔ حتیٰ کہ ان باتوں میں مجھ سے یہ بھی کہا اے سلیمان ! اللہ تعالیٰ عنقریب ایک رسول بھیجے گا جس کا نام احمد ہوگا۔ جو تہمامہ سے ظاہر ہوگا۔ اور یہ آدمی عجمی تھا تھامہ (کے لفظ) کو اور محمد (کے لفظ) کو اچھے طریقے سے نہ کہہ سکا۔ اس کی نشانی یہ ہوگی کہ وہ ہدیہ کو کھائے گا اور صدقہ کو نہ کھائے گا۔ اس کے کندھوں کے درمیان ایک چیز ہوگی۔ وہ زمانہ جس میں وہ نکلنے والا ہے وہ قریب ہے۔ میں بوڑھا ہوں میں خیال کرتا ہوں کہ میں ان کو یہاں نہیں پا سکوں گا۔ اگر تو اس کے پاس جائے تو اس کی تصدیق کرنا اور اس کی اتباع کرنا۔ میں نے کہا اگر وہ مجھ کو اپنے دین کو چھوڑنے کا حکم دے جس پر تو ہے۔ (تو کیا اس کا حکم مان لوں ؟ ) اس نے کہا کہ اگر وہ تجھ کو حکم دیں کیونکہ حق وہی ہوگا جو وہ لے کر آئیں گے اور رحمن کی رضا اسی میں ہوگی جو وہ کہے گا۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ وہ جاگ گیا اور گھبرا کر اللہ کا ذکر کرنے لگا۔ اور کہا اے سلمان ! سایہ اس جگہ سے گزر گیا اور میں نے اللہ کو یاد نہیں کیا۔ کہاں ہے جو میں نے اپنے لئے تجھ سے وعدہ لیا تھا ؟ (کہ مجھ کو جگا دینا) میں نے کہا آپ نے مجھ کو بتایا تھا کہ میں اتنی مدت سے نہیں سویا۔ اور میں بعض دفعہ دیکھ بھی چکا تھا۔ (کہ آپ بالکل نہیں سوئے) اب میں نے اس بات کو پسند کیا کہ تو اچھی طرح نیند کرلے۔ اس نے اللہ کی حمد بیان کی۔ اور کھڑا ہو کر باہر نکل آیا تو میں بھی پیچھے لگ گیا۔ اپاہج نے کہا اے عبداللہ ! تو مسجد میں داخل ہوا تو میں نے آپ سے سوال کیا تھا آپ نے مجھ کو کچھ بھی عطا نہیں کیا اور آپ نکلے تو میں نے آپ سے سوال کیا تو آپ نے مجھ کو کچھ نہیں دیا۔ وہ کھڑے ہو کر دیکھنے لگے کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا پھر کسی کو نہ دیکھا اور اس اپاہج کے قریب ہوگیا اور کہا اپنا ہاتھ مجھ کو پکڑا اس نے اپنا ہاتھ دے دیا۔ اس نے کہا بسم اللہ تو وہ اپاہج کھڑا ہوگیا۔ وہ گویا کہ وہ پھندے سے آزاد ہوگیا اب وہ تندرست تھا اس میں کوئی عیب نہیں تھا۔ پھر اس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور چلا گیا۔ وہ کسی کی طرف متوجہ نہ ہوتا اور نہ ہی کسی کے پاس ٹھہرتا اپاہج نے مجھ سے کہا اے لڑکے میرا کپڑا مجھ پر ڈال دے تاکہ میں چلوں اپنے اہل و عیال کو خوشخبری دوں۔ میں نے اس کے کپڑے اس پر ڈال دیئے وہ چلا گیا۔ اور مجھ پر متوجہ نہ ہوا۔ میں ان کو ڈھونڈتے ہوئے ان کے نشانات پر باہر نکلا جس سے بھی پوچھا انہوں نے کہا تیرے آگے ہے۔ یہاں تک بنو کلف کا ایک قافلہ ملا۔ میں نے ان سے پوچھا انہوں نے میری زبان کو سنا تو ان میں سے ایک آدمی نے اپنا اونٹ بٹھا کر مجھے سوار کرلیا۔ مجھے اپنے پیچھے بٹھا لیا۔ یہاں تک کہ مجھ کو لے کر وہ اپنے شہروں میں پہنچے۔ اور مجھ کو بیچ دیا۔ انصار میں سے ایک عورت نے مجھ کو خرید لیا۔ اور مجھ کو اس نے اپنے باغ میں رکھ لیا۔ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے مجھ کو خبر دی گئی تو میں نے اپنے باغ کی کچھ کھجوریں لیں ان کو ایک چیز میں رکھ کر آپ ﷺ کی خدمت میں آیا آپ کے پاس لوگوں کو پایا اور ابوبکر قوم میں سب سے قریب تھے۔ میں نے آپ کے سامنے (کھجوریں) رکھ دیں۔ آپ نے فرمایا یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا یہ صدقہ ہے۔ آپ نے اپنی قوم یعنی صحابہ ؓ سے فرمایا اس کو کھالو اور خود نہ کھایا۔ پھر میں ٹھہرا رہا جب تک اللہ نے چاہا۔ پھر میں اسی طرح کچھ کھجوریں آپ کی خدمت میں لے آیا میں نے آپ کے پاس لوگوں کو پایا۔ اور ابوبکر قوم یعنی صحابہ کی جماعت میں سب سے زیادہ قریب تھے۔ میں نے ان کو آپ کے پاس رکھ دیا۔ آپ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا یہ ہدیہ ہے۔ آپ ﷺ نے بسم اللہ پڑھ کر کھایا اور صحابہ نے بھی کھایا۔ میں نے دل میں کہا کہ یہ اس نشانیوں میں سے ہے۔ میرا ایک ساتھی عجمی آدمی تھا جو تمامہ لے لفظ کو صحیح نہ کہ سکتا تھا بلکہ اس نے یہ کہا تھا کہ تہمہ اور احمد کہا تھا (اس کے بعد) میں آپ کے پیچھے آگیا۔ آپ نے میرے (پیچھے آنے کو) سمجھ لیا اور اپنے کپڑے کو ہٹایا تو آپ کے بائیں کندھے کی جانب میں مہر نبوت تھی۔ میں نے (ان نشانیوں) کو سمجھ لیا پھر میں گھوما اور آپ کے آگے بیٹھ گیا۔ میں نے کہا لفظ آیت اشھد ان لا الہ الا اللہ وانک رسول اللہ آپ ﷺ نے فرمایا تو کون ہے ؟ میں نے عرض کیا غلام ہوں۔ میں نے اپنا اور اپنے ساتھی کا واقعہ سنایا اور وہ بھی بتایا جو اس نے مجھ کو بتایا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا تو کس کا غلام ہے ؟ میں نے کہا انصار کی ایک عورت کا اس نے مجھے اپنے باغ میں رکھا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے ابوبکر ! انہوں نے فرمایا لبیک (میں حاضر ہوں) فرمایا اس کو خرید لو تو مجھے ابوبکر ؓ نے خرید لیا۔ اور مجھ کو آزاد کردیا۔ میں ٹھہرا رہا۔ جب تک اللہ نے چاہا۔ پھر میں آپ کی خدمت میں آیا آپ کو سلام کیا اور آپ کے سامنے بیٹھ گیا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! انصاری کے دین کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا نہ ان میں اور نہ ان کے دین میں خیر ہے۔ مجھے سخت پریشانی ہوئی۔ میں نے اپنے دل میں کہا اس میں کوئی بھلائی نہیں جس کے ساتھ میں تھا اور میں نے اس سے جو کچھ دیکھا۔ اس نے اپاہج کا ہاتھ پکڑا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ پر اس کو سیدھا کردیا (پھر آپ ﷺ نے فرمایا) نہیں ہے خیر ان میں اور نہ ان کے دین میں (اس کے بعد) میں چلا آیا اور میرے دل میں وہ اساو تھے جو اللہ تعالیٰ نے چاہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے بعد میں نبی ﷺ پر (یہ آیت) اتاری لفظ آیت ذلک بان منھم قسیسین ورھبانا وانھم لا یستکبرون آخری آیت تک۔ نبی ﷺ نے فرمایا میرے پاس سلیمان کو لے آؤ میرے پاس ایک قاصد آیا۔ آپ نے مجھے (اپنے پاس) بلایا اور میں ڈرنے والا تھا۔ میں آپ ﷺ کے پاس آیا یہاں تک کہ آپ کے سامنے بیٹھ گیا آپ ﷺ نے پڑھا لفظ آیت بسم اللہ الرحمن الرحیم ذلک بان منھم قسیسین ورھبانا اونھم لا یستکبرون آخری آیت تک پھر فرمایا اے سلمان ! وہ لوگ کہ تو جن کے ساتھ تھا اور تیرا ساتھی وہ نصاری نہیں تھے بلاشبہ وہ مسلمان تھے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ اس نے مجھے آپ کی اتباع کا حکم دیا میں نے اس سے کہا تھا اگر وہ مجھے اپنے دین کو چھوڑنے کا حکم دیں۔ جس پر میں ہوں کیا میں اس کو چھوڑ دوں ؟ اس نے کہا تھا ہاں اسے چھوڑ دو کیونکہ وہ حق ہے اور جسے اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں وہ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے۔ (15) امام ابن ابی حاتم نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ قسیسین سے مراد ہے ان کے علماء۔ (16) امام ابن جریر نے ابن زید ؓ سے روایت کیا کہ قسیسین سے مراد ہے ان کے عبادت گزار۔ (17) امام ابن جریر نے ابن اسحاق (رح) سے روایت کیا کہ میں نے زھری (رح) سے اس آیت کے بارے میں پوچھا یعنی لفظ آیت ذلک بان منھم قسیسین ورھبانا وانھم لا یستکبرون اور لفظ آیت واذا خاطبھم الجھلون قالوا سلما (سورۃ فرقان آیت 63) کے بارے میں تو انہوں نے فرمایا میں نے برابر اپنے علماء کو سنا کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ نجاشی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ (18) امام ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، الحاکم (اور انہوں نے اس کو صحیح بھی قرار دیا) اور امام ابن مردویہ نے چند طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت فاکتبنا مع الشھدین سے مراد محمد ﷺ کی امت ہے اور دوسرے لفظ میں یوں ہے کہ وہ لوگ گواہی دینے والوں سے محمد ﷺ کی امت مراد لیتے ہیں۔ حضور ﷺ کی امت نے آپ ﷺ کے بارے میں گواہی دی کہ آپ نے اللہ کا پیغام پہنچایا اور رسولوں کے بارے میں بھی گواہی دی کہ انہوں نے بھی اللہ کا پیغام پہنچایا۔ (19) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ونطمع ان یدخلنا ربنا مع القوم الصلحین میں قوم صالحون سے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب مراد ہیں۔
Top