Dure-Mansoor - Al-Maaida : 89
لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ وَ لٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ١ۚ فَكَفَّارَتُهٗۤ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِیْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ١ؕ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ١ؕ ذٰلِكَ كَفَّارَةُ اَیْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ١ؕ وَ احْفَظُوْۤا اَیْمَانَكُمْ١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
لَا يُؤَاخِذُكُمُ : نہیں مواخذہ کرے گا تمہارا اللّٰهُ : اللہ بِاللَّغْوِ : ساتھ لغو کے فِيْٓ اَيْمَانِكُمْ : تمہاری قسموں میں وَلٰكِنْ : اور لیکن يُّؤَاخِذُكُمْ : وہ مواخذہ کرے گا تمہارا بِمَا : بوجہ اس کے جو عَقَّدْتُّمُ الْاَيْمَانَ ۚ : مضبوط گرہ باندھی تم نے قسموں کی فَكَفَّارَتُهٗٓ : تو کفارہ ہے اس کا اِطْعَامُ : کھانا کھلانا عَشَرَةِ : دس مَسٰكِيْنَ : مسکینوں کا مِنْ اَوْسَطِ : اوسط درجے کا مَا تُطْعِمُوْنَ : جو تم کھلاتے ہو اَهْلِيْكُمْ : اپنے گھروالوں کو اَوْ كِسْوَتُهُمْ : یا کپڑ پہنانا ان کو اَوْ : یا تَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ ۭ : آزاد کرنا ایک گردن کا فَمَنْ : تو جو کوئی لَّمْ يَجِدْ : نہ پائے فَصِيَامُ : تو روزے رکھنا ہیں ثَلٰثَةِ اَيَّامٍ : تین دن کے ۭذٰلِكَ : یہ كَفَّارَةُ : کفارہ ہے اَيْمَانِكُمْ : تمہاری قسموں کا اِذَا حَلَفْتُمْ : جب تم قسم کھاؤ ۭ وَاحْفَظُوْٓا : اور حفاظت کیا کرو اَيْمَانَكُمْ ۭ : اپنی قسموں کا كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ : بیان کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے اٰيٰتِهِ : اپنی آیات کو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : تم شکر ادا کرو
اللہ تعالیٰ ایسی قسموں پر تمہارا مؤاخذہ نہیں فرماتا جو لغو ہوں، لیکن وہ ایسی قسموں پر مؤاخذہ فرماتا ہے جن کو تم باندھ دو ، سو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا دینا ہے جو اس کھانے کا درمیانہ ہو جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑا پہنا دینا ہے یا ایک غلام آزاد کرنا ہے سو جو شخص نہ پائے تو تین دن کے روزے ہیں، یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسمیں کھاؤ اور تم اپنی قسموں کی حفاظت کرو اس طرح اللہ بیان فرماتا ہے، تاکہ تم شکر کرو۔
(1) امام ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کی کہ جب یہ آیت لفظ آیت یایھا الذین امنوا لا تحرموا طیبت ما احل اللہ لکم نازل ہوئی تو قوم میں ایسے لوگ تھے جنہوں نے عورتوں کو اور گوشت کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم اپنی قسموں کا کیا کریں جو ہم نے اس پر کھائی تھیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا لفظ آیت لا یواخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم (2) امام ابو الشیخ نے یعلی بن مسلم ؓ سے روایت کیا کہ میں نے سعید بن جبیر ؓ سے اس آیت لفظ آیت لا یواخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم ولکن یواخذکم بما عقدتم الایمان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا اس سے پہلے والی آیت پڑھ میں نے پوچھا یعنی لفظ آیت یا یھا الذین امنوا لا تحرموا طیبت ما احل اللہ لکم (سے لے کر) لفظ آیت لا یواخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم تک فرمایا لفظ آیت اللغو سے مراد ہے تو اس چیز کو حرام کرے جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے حلال کیا ہے اور اس کے مشابہ اور کسی چیز کو حرام کرے۔ تو اپنی قسم کی طرف سے کفارہ دے دے اور گناہ کا ارتکاب نہ کرے تو یہ لغو ہے کہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ مواخذہ نہیں فرمائیں گے (پھر فرمایا) لفظ آیت ولکن یواخذکم بما عقدتم الایمان یعنی اگر تم اس پر مرگیا تو اس کے ذریعہ پکڑا جائے گا۔ (3) امام عبد بن حمید نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت لا یواخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد وہ آدمی ہے جو کسی حلال چیز پر قسم کھاتا ہے کہ وہ اس کو حرام کردے گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت لا یواخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم یعنی اس کو چھوڑ دے اور اپنی قسم کی طرف سے کفارہ دے دے (پھر فرمایا) لفظ آیت ولکن یواخذکم بما عقدتم الایمان یعنی جب قسم پر تو قائم رہے (اس پر مواخذہ ہوگا) (4) امام عبد بن حمید نے مجاہد ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت لا یواخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم سے وہ آدمی مراد ہیں جنہوں نے آپس میں خریدوفروخت کی۔ ان میں سے ایک کہتا ہے اللہ کی قسم میں تجھ کو اس قیمت کے ساتھ نہیں بیچوں گا۔ اور دوسرا کہتا ہے اللہ کی قسم میں اس قیمت کے بدلے تجھ سے نہیں خریدوں گا۔ (5) امام عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے ابراہیں (رح) سے روایت کیا کہ لغو یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنی بات کو قسم کے ساتھ ملاتا ہے۔ کہ اللہ کی قسم تو ضرور آئے گا۔ اللہ کی قسم تو ضرور کھائے گا۔ اللہ کی قسم تو ضرور پئے گا اور اس طرح ان چیزوں سے وہ قسم کا ارادہ نہیں کرتا۔ اور نہ وہ اس کے ذریعہ چمٹا رہتا ہے تو یہ یمین لغو ہے۔ اس پر کفارہ نہیں ہے۔ قسم کی تین قسمیں ہیں (6) امام عبد بن حمید نے ابو مالک ؓ سے روایت کیا کہ قسمیں تین قسم کی ہیں۔ ایک قسم جس کا کفارہ دیا جاتا ہے اور ایک قسم وہ قسم جس کا کفارہ نہیں دیا جاتا۔ اور ایک وہ قسم ہے جس پر مواخذہ نہیں ہوتا اب وہ قسم جس کا کفارہ دیا جاتا ہے (جسے) ایک آدمی قطع رحمی پر یا اللہ کی نافرمانی پر قسم اٹھایا ہے۔ تو وہ اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے۔ اور وہ قسم کہ جس پر کفارہ ادا نہیں کیا جاتا کہ آدمی قسم اٹھاتا ہے جھوٹ پر جان بوجھ کر۔ تو وہ اس کا کفارہ نہیں دے گا اور وہ قسم جس پر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا وہ ہے کہ ایک آدمی کسی چیز پر قسم اٹھاتا ہے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سچا ہے تو یہ لغو ہے۔ اور اس پر کوئی مواخذہ نہ ہوگا۔ واللہ اعلم (7) امام عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ لغو سے مراد خطاء ہے اگر تو کسی چیز پر قسم کھاتا ہے یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ اس طرح ہوگی جسے تو نے اس پر قسم کھائی مگر وہ اس طرح نہ ہوئی تو اس بارے میں تیرے لئے درگزر کیا جائے گا اور اس میں تیرے اوپر کوئی کفارہ نہیں پڑتا پھر فرمایا لفظ آیت ولکن یواخذکم بما عقدتم الایمان (لیکن) اور جس میں تو گناہ کا ارادہ کرے تو اس میں تیرے اوپر کفارہ ہوگا۔ (8) امام ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ولکن یواخذکم بما عقدتم الایمان سے مراد ہے یعنی جس کا تم ارادہ کرو۔ (9) امام عبدالرزاق، عبد بن حمید، ابن منذر اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ولکن یواخذکم بما عقدتم الایمان یعنی کوئی آدمی کسی چیز پر قسم اٹھائے یہ سمجھتے ہوئے کہ معاملہ اس طرح ہے اس طرح نہ تھا۔ (پھر فرمایا) لفظ آیت ولکن یواخذکم بما عقدتم الایمان یعنی وہ چاہتے ہوئے غلط قسم اٹھائے۔ اس پر اس کا مواخذہ ہوگا۔ (10) امام ابو الشیخ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ لغو وہ قسم ہے جو بات کرتے ہوئے جھگڑتے ہیں۔ مذاق میں اور دل لگی میں اٹھاتے ہیں کہ اس پر دل سے پکا ارادہ نہیں ہوتا (اس پر کوئی کفارہ نہیں) کفارہ اس قسم میں ہے کہ جب وہ کسی معاملہ میں ارادہ سے قسم اٹھاتا ہے۔ غصہ کی حالت میں یا غصہ میں نہ ہو اور وہ کہے کہ وہ ایسا ضرور کرے گا یا ایسا نہیں کرے گا۔ یہ وہ قسم ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے کفارہ کو فرض فرمایا ہے۔ وقولہ تعالیٰ لفظ آیت فکفارتہ اطعام عشرۃ مسکین (11) امام ابن ماجہ اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک صاع کھجور کے ساتھ کفارہ دیا اور لوگوں کو اس کا حکم فرمایا۔ جو شخص اس کو نہ پائے تو وہ آدھا صاع گیہوں کے ساتھ کفارہ دے۔ (12) امام ابن مردویہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ قسم کا کفارہ ایک مد گندم دیا کرتے تھے۔ (13) امام ابن مردویہ نے اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت کیا کہ ہم قسم کا کفارہ اس مد کے ساتھ دیتے تھے کہ جس کے ساتھ (غلہ وغیرہ کو) ناپا جاتا ہے۔ قسم کھانے کے بعد توڑ کر کفارہ دینا (14) امام عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابو الشیخ نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا میں نے قسم اٹھائی کہ میں لوگوں کو نہیں دوں گا۔ پھر میرے لئے بات ظاہر ہوئی کہ میں ان کو دوں۔ تو میں نے وہی مسکینوں کو کھانا دیا (اس طرح پر) کہ ہر مسکین کو جو میں سے ایک صاع دیا۔ یا ایک صاع کھجور میں سے یا آدھا صاع گیہوں میں ہے۔ (15) امام عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید اور ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ قسم کا کفارہ میں دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے (اس طرح پر) کہ ہر مسکین کو آدھا صاع گیہوں میں دیا جاتا ہے۔ (16) امام عبد بن حمید نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ قسم کا کفارہ میں آدھا صاع ہے، گیہوں میں سے دیا جاتا ہے۔ (17) امام عبد بن منصور، عبد بن حمید، اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ قرآن مجید میں جہاں بھی طعام کا ذکر کیا ہے وہ آدھا صاع گندم ہے کفارہ یمین یا کوئی اور صورت ہو۔ (18) امام عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابو الشیخ نے کئی طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ قسم کے کفارہ میں ہر مسکین کے لئے ایک عدد گیہوں ہوتا ہے۔ (19) عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابو الشیخ نے زید بن ثابت (رح) سے روایت کیا کہ قسم کا کفارہ میں ہر مسکین کے لئے ایک عدد گیہوں ہے۔ (20) امام عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابو الشیخ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ قسم کے کفارہ کے بارے میں فرمایا کہ اس میں مسکینوں کو کھلانا ہے یا ہر مسکین کے لئے گیہوں میں سے ایک مد ہے۔ (21) امام ابن منذر نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ تین چیزیں ایسی ہیں جن میں ایک ایک مد لازم ہوتا ہے۔ قسم کا کفارہ، ظہار کا کفارہ اور روزے کا کفارہ۔ (22) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت فکفارتہ اطعام عشرۃ مسکین کے بارے میں فرمایا کہ قسم اٹھانے والا ان کو دن اور رات کا کھانا کھلائے۔ اگر تو چاہے تو روٹی اور گوشت یا روٹی اور تیل یا روتی اور گھی یا روٹی اور کھجور دے۔ (23) امام ابن ابی شیبہ اور عبد بن حمید نے محمد بن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ قسم کا کفارہ میں صرف ایک دفعہ کھانا کھلانا ہے۔ (24) امام ابن ابی شیبہ اور ابو الشیخ نے شعبی (رح) سے روایت کی کہ قسم کا کفارہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ دو روٹی اور ہڈی والا گوشت ہر مسکین کے لئے ہے۔ (25) امام عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ اور ابو الشیخ نے سفیان ثوری سے انہوں نے جابر (رح) سے روایت کیا ہے کہ شعبی (رح) سے کہا گیا (کیا قسم کا کفارہ میں) ایک مسکین کو بار بار دیتا ہوں تو انہوں نے فرمایا مگر دس مسکینوں کے سوا جائز نہیں۔ (26) امام ابن ابی شیبہ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں جانتے تھے یہ کہ ایک ہی مسکین کو دس مرتبہ کھلا دیا جائے قسم کے کفارہ میں۔ (27) امام عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت من اوسط ما تطعمون اھلیکم سے مراد ہے کہ تم اپنی تنگدستی اور خوشحالی کے مطابق اپنے گھر والوں کو جو کھانا کھلاتے ہو اس کے مطابق قسم کے کفارہ میں کھانا کھلاؤ۔ (28) امام ابن ماجہ سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی اپنے اہل و عیال کو وہ کھانا کھلاتا جس میں فراخی ہوتی اور ایک آدمی کھانا کھلاتا جس میں تنگی ہوتی تو اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت من اوسط ما تطعمون اھلیکم (29) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی اپنے اہل و عیال کو کھانا کھلاتا جو بہت اچھا ہوتا اور دوسرا کھانا کھلاتا جو اس سے درجہ میں کم ہوتا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت من اوسط ما تطعمون اھلیکم کہ کھانا نہ تو اعلیٰ ہو اور نہ ہی ادنی ہو (یعنی درمیانی قسم کا کھانا ہونا چھاہئے) ۔ (30) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت من اوسط ما تطعمون اھلیکم سے مراد ہے کہ درمیانی قسم میں سے جو ہم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہیں۔ روٹی اور کھجور یا روٹی اور تیل یا روٹی اور گھی اور افضل کھانے میں سے جو ہم ان کو کھلاتے ہیں وہ روٹی اور گوشت ہے۔ (31) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابو الشیخ نے ابن سیرین (رح) سے روایت کیا ہے کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ افضل کھانا روٹی اور گوشت ہے اور اوسط کھانا روٹی اور گھی ہے اور گھٹیا کھانا روٹی اور کھجور ہے۔ (32) عبد بن حمید، ابن جریر اور ابو الشیخ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ اہل مدینہ آزاد کو فضیلت دیتے تھے غلام پر اور بڑے کو چھوٹے پر اور وہ کہتے تھے کہ چھوٹے کو اس کی حیثیت اور بڑے کو اس کی حیثیت پر (کھانا دو ) تو یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت من اوسط ما تطعمون اھلیکم تو ان کے درمیانی کھانے کا حکم دیا گیا نہ کہ اعلیٰ قسم کا کھانا دینے کا حکم دیا گیا۔ (33) امام ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت من اوسط سے مراد ہے اعدل (یعنی درمیانی کھانا) (34) امام ابن ابی حاتم نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت من اوسط سے مراد ہے امثل یعنی عمدہ (35) امام عبد بن حمید اور ابن منذر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت من اوسط ما تطعمون اھلیکم یعنی ان کے خوراک اور غلہ ایک صاع ہے ہر چیز میں سے سوائے گیہوں کے (جو آدھا صاع ہے) (36) امام عبد بن حمید نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ ہر چیز جس میں مسکین کے لئے کھانا لازم کیا گیا وہ مد ہے۔ جو اہل مکہ والے کے برابر ہو۔ (37) امام طبرانی اور ابن مردویہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے لفظ آیت او کسوتھم کے بارے میں فرمایا کہ ایک چغہ ہے ہر مسکین کے لئے۔ (38) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حذیفہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ ہم نے کہا یا رسول اللہ لفظ آیت او کسوتھم کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ چغہ ہے۔ (39) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت او کسوتھم سے مراد ہر مسکین کے لئے ایک چغہ ہے۔ یا بڑی چادر ہے۔ (40) امام ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت او کسوتھم یعنی ہر انسان کے لئے ایک ایک کپڑا اور ان دنوں کسوہ سے مراد چغہ لیا جاتا تھا۔ (41) امام ابن ابی حاتم نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ کسوہ سے مراد ہے کپڑا یا تہبند ہے۔ (42) امام عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت او کسوتھم سے مراد ہے قمیض یا چادر یا تہبند اور فرمایا قسم کے کفارہ میں یہ کپڑا جائز ہے سوائے لنگوٹ یا ٹوپی کے کہ وہ جائز نہیں۔ (43) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت او کسوتھم میں ادنی کپڑا ہے اور اعلی جو تو چاہے۔ کفارہ قسم میں دس جوڑا دینا (44) امام عبد الرزاق اور ابو الشیخ نے سعید بن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت او کسوتھم سے تہبند اور پگڑی مراد ہے۔ (45) امام ابو الشیخ نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ پاجامہ اور ٹوپی کو (کفارہ کے) بدلہ میں جائز نہیں ہے۔ (46) امام عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم نے عمران بن حصین ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت او کسوتھم کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا اگر ایک وفد تمہارے امیر کے پاس آجائے اور وہ ان کو ایک ایک ٹوپی پہنا دے تو تم کہو گے کہ ٹوپی کو کپڑا پہنا دیا گیا (اس لئے ٹوپی بھی کپڑا پہنانے میں شمار ہوگی) (47) امام ابو الشیخ نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ کسی آدمی پر ہر قسم کا کفارہ ہو تو وہ پانچ مسکینوں کو کپڑا پہنائے اور پانچ کو کھانا کھلا دے کیا یہ جائز ہے۔ (48) امام ابو الشیخ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت اطعام عشرۃ مسکین من اوسط پھر سعید نے فرمایا لفظ آیت او کسوتھم فی الطعام یعنی ان کو کپڑا پہنائے یا کھانا کھلائے۔ (49) امام ابن ابی شیبہ اور ابو الشیخ نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ واما قولہ تعالیٰ لفظ آیت او تحریر رقبۃ یعنی کفارے میں کسی اندھے یا اپاہج غلام کو آزاد کرنا جائز نہیں۔ (50) امام ابو الشیخ نے فضالہ بن عبید ؓ سے روایت کیا کہ (جب) غلام آزاد کرنا واجب ہو تو والدالزنا غلام آزاد کرنا جائز ہے۔ (51) امام ابو الشیخ نے عطا بن ابی رباح سے روایت کیا کہ چھوٹے غلام کو آزاد کرنا بھی جائز ہے۔ (52) امام ابن ابی شیبہ نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ کفارہ میں بھی کافر غلام کو آزاد کرنا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ (53) امام ابن ابی شیبہ نے طاؤس (رح) سے روایت کیا کہ وہ کفارہ میں ولدالزنا کو آزاد کرنا جائز نہیں سمجھتے تھے اور یہودی یا نصرانی غلام کو قسم کے کفارہ میں آزاد کرنا جائز سمجھتے تھے۔ واماقولہ تعالیٰ لفظ آیت فمن لم یجد فصیام ثلثۃ ایام (54) امام ابن جریر اور بیہقی نے سنن میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے کفارہ الیمین کی آیات کے بارے میں فرمایا اس کو اختیار ہے ان تین چیزوں میں الاول فالاول کے تحت اور اگر ان میں سے کسی چیز کو نہ پائے تو لگاتار تین دن کے روزے ہیں۔ (55) امام ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب کفارات کی آیت نازل ہوئی تو حذیفہ ؓ نے فرمایا یا رسول اللہ ! کیا ہم کو اختیار ہے ؟ فرمایا تجھے اختیار ہے۔ اگر چاہے تو غلام آزاد کر اگر چاہے تو کپڑا پہنا۔ اگر چاہے تو کھانا کھلا جو یہ نہ پائے تو تین دن کے لگاتار رورے رکھ لے۔ (56) امام ابو الشیخ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ جس کے پاس دو درہم ہوں تو اس پر لازم ہے کہ کفارہ میں کھانا کھلائے۔ (57) امام ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ جس کے پاس پچاس درہم ہوں تو وہ ان لوگوں میں سے ہوگیا جس نے پا لیا تو اس پر کھانا کھلانا واجب ہے۔ اور اگر اس سے کم ہو تو وہ ان لوگوں میں سے ہے جس نے نہیں پایا اور وہ روزہ رکھے۔ (58) امام ابو الشیخ نے ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا ہے کہ اگر قسم اٹھانے والے کے پاس بیس درہم ہیں تو اس پر کفارہ میں کھانا کھلانا لازم ہے۔ (59) امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی داؤد نے مصاحف میں ابن منذر، الحاکم (اور اس کو صحیح قرار دیا) اور بیہقی نے ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ اس کو یوں پڑھتے تھے لفظ آیت فصیام ثلاثۃ ایام متتابعات (60) امام مالک اور بیہقی نے حمید بن قیس المکی (رح) سے روایت کیا کہ مجاہد (رح) کے ساتھ طواف کرتا تھا ایک آدمی نے کفارہ کے روزوں کے بارے میں پوچھا کہ کیا وہ لگاتار رکھتے ہیں ؟ حمید نے کہا میں نے جواب دیا نہیں مجاہد (رح) نے میرے سینہ میں ہاتھ مارا پھر فرمایا ابی بن کعب کی قرأت میں لفظ آیت متتابعات کے الفاظ ہیں۔ (61) امام عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن الانباء، ابو الشیخ اور بیہقی نے چند طریق سے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ اس کو یوں پڑھتے تھے لفظ آیت فصیام ثلاثۃ ایام متتابعات سفیان (رح) نے فرمایا میں نے ربیع بن خیثم (رح) کے مصحف میں دیکھا تو اس میں یہ تھا (یعنی) لفظ آیت فمن لم یجد من ذلک شیئا فصیام ثلاثۃ ایام متتابعات (62) امام ابن ابی حاتم نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ قرآن میں جہاں بھی صیام کا لفظ ہوتا تو وہ متتابعات ساتھ پڑھتے تھے۔ (63) امام ابو عبید اور ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس کو یوں پڑھتے تھے لفظ آیت فصیام ثلاثۃ ایام متتابعات (64) امام عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر نے مجاہد (رح) نے فرمایا قرآن میں جہاں بھی روزہ کا ذکر ہے وہ لگاتار ہے۔ مگر قضا رمضان کے روزے کیونکہ وہ دوسرے دنوں سے گنتی ہے (یعنی دوسرے سے گنتی پوری کرے) (65) امام ابن ابی شیبہ نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ وہ قسم کے تین دن کے روزوں میں فاصلہ نہیں کرتے تھے (یعنی لگاتار رکھتے تھے) (66) امام ابن ابی شیبہ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ وہ قسم کے کفارہ کے روزہ میں کہا کرتے تھے کہ وہ ان کو لگاتار رکھے اگر کسی عذر کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے تو اس کی جگہ دوسرے دن روزہ رکھے۔ (67) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ذلک سے مراد ہے کہ جو کفارہ کے بارے میں ذکر کیا گیا لفظ آیت ذلک کفارۃ ایمانکم اذا حلفتم یعنی پکے ارادے سے قسم کھانا لفظ آیت واحفظوا ایمانکم یعنی جھوٹی قسم کھانے کا پکا ارادہ نہ کرو لفظ آیت کذلک یعنی اس طرح لفظ آیت یبین اللہ لکم ایتہ یعنی جو کچھ ذکر کیا گیا کفارہ میں سے لفظ آیت لعلکم تشکرون یعنی جو قسم کا کفارہ کا ارادہ رکھے ایک دن یا دو دن پھر کھانے کو پالے تو اس کو چاہئے کہ کھانا کھلا دے اور اپنے روزہ کو نفلی بنا دے۔ (68) امام عبد الرزاق، بخاری، ابن ابی شیبہ اور ابن مردویہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ ابوبکر ؓ جب قسم کھاتے تو اسے نہ توڑتے یہاں تک کہ کفارہ کی آیت نازل ہوئی۔ اس کے بعد وہ فرماتے تھے میں قسم اٹھاؤں گا اگر میں اس کے علاوہ دوسری چیز کو بہتر خیال کرتا ہوں تو میں وہ کرلیتا ہوں جو بہتر ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی رخصت کو قبول کرلیتا ہوں۔ (69) امام ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جس شخص نے ملک یمین (یعنی غلام یا باندی) پر قسم کھائی کہ وہ اس کو ضرور مارے گا تو اس کا کفارہ نہ مارنا ہے۔ اور کفارہ کے ساتھ نیکی بھی ہوگی۔ (70) امام ابو الشیخ نے جبیر بن معطم ؓ سے روایت کیا کہ میں نے اپنی قسم کا کفارہ دس ہزار درہم دیئے اور کہا اس قبلہ کے رب کی قسم اگر میں قسم اٹھاتا ہوں تو سچی قسم اٹھاتا ہوں۔ بلاشبہ یہ وہ چیز ہے جس کے ساتھ میں اپنی قسم کا فدیہ دیتا ہوں۔ (71) امام ابوالشیخ نے ابو نجیح (رح) سے روایت کیا کہ اہل بیت (مکہ کے رہنے والوں) میں سے کچھ لوگوں نے بیت اللہ کے پاس قتل کے بارے میں قسم کھائی۔ پچاس آدمی قسم کھانے والے تھے گویا کہ انہوں نے جھوٹ پر قسم کھائی پھر وہ نکلے یہاں تک کہ جب وہ بعض راستے میں تھے۔ تو انہوں نے ایک چٹان کے نیچے قیلولہ کیا۔ ابھی وہ اس چٹان کے نیچے قیلولہ کر رہے تھے کہ اچانک وہ چٹان اس پر سرک پڑی وہ تیزی سے اس کے نیچے سے نکلے وہ چٹان پچاس ٹکڑوں میں پھٹ گئی اور ہر ایک ٹکڑے نے ایک آدمی کو قتل کردیا۔
Top