Dure-Mansoor - Al-Maaida : 95
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ١ؕ وَ مَنْ قَتَلَهٗ مِنْكُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْكُمُ بِهٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ هَدْیًۢا بٰلِغَ الْكَعْبَةِ اَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسٰكِیْنَ اَوْ عَدْلُ ذٰلِكَ صِیَامًا لِّیَذُوْقَ وَ بَالَ اَمْرِهٖ١ؕ عَفَا اللّٰهُ عَمَّا سَلَفَ١ؕ وَ مَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللّٰهُ مِنْهُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تَقْتُلُوا : نہ مارو الصَّيْدَ : شکار وَاَنْتُمْ : جبکہ تم حُرُمٌ : حالت احرام میں وَمَنْ : اور جو قَتَلَهٗ : اس کو مارے مِنْكُمْ : تم میں سے مُّتَعَمِّدًا : جان بوجھ کر فَجَزَآءٌ : تو بدلہ مِّثْلُ : برابر مَا قَتَلَ : جو وہ مارے مِنَ النَّعَمِ : مویشی سے يَحْكُمُ : فیصلہ کریں بِهٖ : اس کا ذَوَا عَدْلٍ : دو معتبر مِّنْكُمْ : تم سے هَدْيًۢا : نیاز بٰلِغَ : پہنچائے الْكَعْبَةِ : کعبہ اَوْ كَفَّارَةٌ : یا کفارہ طَعَامُ : کھانا مَسٰكِيْنَ : محتاج اَوْ عَدْلُ : یا برابر ذٰلِكَ : اس صِيَامًا : روزے لِّيَذُوْقَ : تاکہ چکھے وَبَالَ اَمْرِهٖ : اپنے کام (کیے) عَفَا اللّٰهُ : اللہ نے معاف کیا عَمَّا : اس سے جو سَلَفَ : پہلے ہوچکا وَمَنْ : اور جو عَادَ : پھر کرے فَيَنْتَقِمُ اللّٰهُ : تو اللہ بدلہ لے گا مِنْهُ : اس سے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب ذُو انْتِقَامٍ : بدلہ لینے والا
اے ایمان والو ! شکار کو قتل نہ کرو اس حالت میں کہ تم احرام میں ہو، اور تم میں سے جو شخص شکار کو قصدا قتل کر دے تو اس کا بدلہ اس جانور جیسا ہوگا جس کو قتل کیا تم میں دو انصاف والے آدمی اس کا فیصلہ کریں گے اس طرح سے کہ وہ بدلہ والا جانور ہدی کے کعبہ تک پہنچنے والا ہو۔ یا مسکینوں کو کفارہ کے طور پر کھانا دے دیا جائے اس کے برابر روزے رکھ لے تاکہ اپنے کئے کی سزا چکھ لے۔ اللہ نے معاف فرمایا جو پہلے گزر چکا ہے اور جو شخص پھر ایسی حرکت کرے گا تو اللہ اس سے انتقام لے گا اور اللہ زبردست ہے انتقام لینے والا۔
حالت احرام میں شکار کرنا حرام ہے (1) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے سعید بن جبیر (رح) کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت لاتقتلوا الصید اونتم حرم محرم کو اس آیت میں اس کے قتل سے اور اس کے کھانے سے روک دیا گیا۔ (2) امام ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت لا تقتلوا الصید وانتم حرم (یعنی) یہاں اس کا شکار اور اس کا کھانا حرام کردیا گیا۔ (3) امام ابن منذر، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے سنن میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ومن قتلہ منکم متعمدا یعنی اگر اس نے شکار کو جان بوجھ کر یا بھول کر یا غلطی سے قتل کیا تو اس پر حکم لگایا جائے گا۔ اگر اس نے جان بوجھ کر دوبارہ ایسا کیا تو اس کے لئے سزا میں جلدی کی جائے گیا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس سے درگزر فرمادیں۔ اور فرمایا لفظ آیت فجزاء مثل ما قتل من النعم یعنی جب محرم شکار میں سے کسی چیز کو قتل کردے تو اس بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ اگر اس نے ہرن یا اس جیسا کے جانور کو قتل کیا تو اس پر ایک بکری لازم ہوگی جو مکہ میں ذبح کی جائے گی۔ اگر اس کو نہ پائے تو چھ مسکینوں کا کھانا کھلائے۔ اگر اس کو نہ پائے تو پھر تین دن کے روزے رکھے اور اگر کسی اونٹ یا اس جیسے جانور کو قتل کرے تو اس پر ایک گائے لازم ہوگی۔ اگر اس کو نہ پائے تو بیس مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ اور اکر شتر مرغ یا وحشی گدھا یا اس جیسے جانور کو قتل کردے تو اس پر ایک اونٹ (ذبح کرنا) لازم ہوگا۔ اگر اس کو بھی نہ پائے تو تیس مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ اگر اس کو بھی نہ پائے تو تیس دن کے روزے رکھے اور غلہ ایک ایک مد دینا ہوگا کہ جس سے ان کا پیٹ بھر جائے۔ (4) امام ابی شیبہ، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حکم (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ نے خط لکھا کہ اس پر غلطی سے یا جان بوجھ کر دونوں حالت میں حکم لگایا جائے۔ (5) امام ابن ابی شیبہ، ابن جریر اور ابن حاتم نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ اس پر حکم لگایا جائے یا جان بوجھ کر کرنے سے یا غلطی سے کرنے سے یا بھول کر کرنے سے۔ (6) امام عبد الرزاق، سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ومن قتلہ منکم متعمدا سے مراد ہے کہ (ضمان اس وقت واجب ہوگا) جب قتل قصد جان بوجھ کر کیا ہو اور اپنے احرام کو بھولا ہوا ہو۔ تو اس صورت میں اس پر حکم لگایا جائے گا۔ اور اگر اس نے قتل کیا اس حال میں کہ اس کو احرام یاد تھا جبکہ قتل بھی ارادہ سے کیا تو اس پر یہ فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔ (اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہوگا اس کو معاف فرمادیں یا عذاب دیں) (7) امام ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے جان بوجھ کر (شکار کو) قتل کیا حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ مجرم ہے اور پھر بھی قصدا اس کو قتل کردیا۔ تو اس کا کیا حکم ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا نہیں اس پر حکم نہیں لگایا جائے گا اور اس کا حج بھی نہیں ہوگا۔ (8) امام ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ عمد سے مراد وہ قتل ہے جو خطاء سے ہو اس کا کفارہ ذکر کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ شکار کو مار ڈالتا ہے جبکہ اس کا ارادہ اس کے علاوہ (دوسرے کسی چیز) کی طرف تھا مگر وہ (شکار کو) لگ گیا۔ (9) امام ابن جریر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ومن قتلہ منکم متعمدا یعنی جس نے کسی شکار کو قتل کیا اس حال میں کہ وہ اپنے احرام کو بھول گیا تھا۔ اور جس شخص نے احرام کو یاد ہوتے ہوئے قصدا شکار کو قتل کیا تو اس پر حکم نہیں لگایا جائے گا (یعنی اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے) (10) امام ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ومن قتلہ منکم متعمدا کے بارے میں فرمایا کہ اپنے احرام کو بھولا ہوا تھا اور شکار کو قصدا قتل کیا۔ (11) امام ابو الشیخ نے محمد بن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ جس شخص نے اپنے احرام کو بھولتے ہوئے کسی شکار کو قصدا قتل کیا تو اس پر جزا لازم ہوگی۔ اور جس شخص نے احرام کو بھولے بغیر کسی شکار کو قصدا قتل کیا تو اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے اگر چاہے اس کو عذاب دے اور اگر چاہے تو اس کو معاف کر دے۔ (12) امام شافعی، عبد بن حمید اور ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ جس شخص نے کسی شکار کو قصدا قتل کیا جبکہ اس کو احرام یاد تھا اور اس کا کسی اور چیز کے قتل کرنے کا ارادہ بھی نہیں تھا تو وہ حلال ہوگیا۔ (یعنی اس کا احرام ختم ہوگیا) اب اس کے لئے کوئی رخصت نہیں اور جس شخص نے اپنے احرام کو بھولتے ہوئے کسی شکار کو قتل کیا اور اس کے علاوہ کسی اور (جانور کے) قتل کرنے کا ارادہ تھا۔ تو اس نے غلطی کی تو یہ عہد ہے جس کا کفارہ ذکر کیا گیا ہے۔ (13) امام شافعی، ابن منذر اور ابو الشیخ نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا ہے کہ میں نے عطا (رح) سے لفظ آیت ومن قتلہ منکم متعمدا کے بارے میں پوچھا کہ جو آدمی اس کو خطاء قتل کرے تو وہ جرمانہ دے گا جبکہ اس آیت میں تو اس پر جرمانہ لازم کہا گیا ہے۔ جس نے اس کو قصدا قتل کیا انہوں نے فرمایا ہاں اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کی تعظیم ہوتی۔ اور یہی طریقہ چلا آرہا ہے۔ اس لئے بھی تاکہ لوگ اس میں نہ پڑجائیں۔ (14) امام شافعی اور ابن منذر نے عمرو بن دینار (رح) سے روایت کیا کہ میں نے سب لوگوں کو دیکھا کہ وہ خطا سے قتل کرنے کی صورت میں بھی تاوان لازم کرتے ہیں۔ (15) امام ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ کفارہ اس صورت میں ہے کہ جب کوئی مجرم جان بوجھ کر شکار کرے لیکن ان پر قتل خطا میں بھی سختی کی گئی تاکہ وہ (غلطی کرنے سے) بچیں۔ (16) امام ابن جریر نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ قرآن عمد کے بارے میں نازل ہوا اور سنت جاری ہوئی خطا کے بارے میں یعنی اس مجرم کے بارے میں جو شکار کو قتل کرتا ہے۔ (17) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید اور ابن منذر نے زہری (رح) سے روایت کیا ہے کہ اس پر حکم لگایا جائے گا عمد میں بھی اور خطا میں بھی۔ (18) امام ابن ابی شیبہ اور ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب محرم کسی شکار کو پکڑے تو اس پر کوئی چیز نہیں۔ (19) امام ابن منذر نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ اگر محرم میں کوئی شکار خطا سے مارے تو اس پر کوئی چیز لازم نہ ہوگی۔ اور اگر جان بوجھ کر مارے تو اس پر جزا ہوگی۔ (20) امام عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے طاؤس (رح) سے روایت کیا کہ اس پر کوئی حکم نہیں لگایا جائے گا جس نے غلطی سے شکار کیا۔ یہ حکم اس شخص پر لگایا جائے گا جس نے جان بوجھ کر شکار کیا۔ اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لفظ آیت ومن قتلہ منکم متعمدا احرام میں شکار کرنے کی سزا (21) سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا انہوں نے لفظ آیت فجزاء مثل ما قتل من النعم کے بارے میں فرمایا کہ جب کوئی مجرم کسی کو مار ڈالے تو اس کو جزا کے طور پر اس پر جانور میں سے حکم لگایا جائے گا۔ اور وہ اس کی جزا کو پالے تو اس کو ذبح کر کے گوشت کو صدقہ کردے۔ اس کی جزا کو نہ پائے تو جزاء کے ساتھ قیمت لگائی جائے۔ پھر دراھم کی قیمت گندم کے ساتھ لگائی جائے۔ پھر یہ ہر نصف صاع کے بدلہ میں ایک دن کا روزہ رکھ لے۔ اسی کو فرمایا لفظ آیت او کفارہ طعام مسکین او عدل ذلک صیاما آیت میں طعام سے مراد روزے ہیں کیونکہ جب وہ طعام کو پالے تو اس کی جزاء کو پا لیا۔ (22) امام عبد بن حمید نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جو احرام کی حالت میں شکاری کو مار ڈالے کہ اس پر جزاء کا حکم لگایا جائے گا اگر وہ نہ پائے تو اس میں اس کی قیمت کا حکم لگایا جائے گا کہ وہ اس سے غلہ کی قیمت لگائے اور اس کو صدقہ کر دے۔ اگر اس کو نہ پائے تو اس پر دونوں کا حکم لگایا جائے گا۔ (23) امام ابن منذر نے عطا خراسانی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت فجزاء مثل کے بارے میں فرمایا کہ یہاں مثل سے مراد ایسی چیز ہے جو اس کے مشابہ ہو۔ (24) امام ابن منذر نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت فجزاء مثل ما قتل من النعم سے مراد ” ندہ “ یعنی اس کے برابر جانور ہے۔ (25) امام ابن ابی شیبہ اور ابن منذر نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ مروان بن الحکم (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے وہ وادی ازرق میں تھے تو انہوں نے فرمایا آپ بتایئے اگر ہم ایسا شکار کرتے ہیں اور اس کے برابر جانور نہیں پاتے تو کیا حکم ہے۔ تو ابن عباس ؓ نے فرمایا اس کی قیمت مکہ کی طرف بھیج دی جائے۔ (26) امام ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ اس پر جانوروں میں سے اس کی مثل (کوئی جانور) لازم ہوگا۔ (27) امام ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ اس آیت کے بارے میں فرمایا اگر اس نے شتر مرغ یا وحشی گدھے کو قتل کیا تو اس پر بدلہ لازم ہوگا۔ اگر اس نے گائے، بارہ سنگھا یا پہاڑی بکر مار ڈالا تو اس پر گائے لازم ہوگی۔ اگر ہرن یا خرگوش مار ڈالا تو اس پر بکری لازم ہوگی۔ اگر اس نے گوہ گرگٹ یا چوہا مارا تو اس پر بکری کا ایسا بچہ لازم ہوگا جو گھاس کھاتا ہو اور دودھ پیتا ہو۔ (28) امام ابن جریر نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا کہ چھوٹے چھوٹے شکار میں بھی تاوان ہوگا۔ جیسے بڑے شکار میں ہوتا ہے۔ تو انہوں نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ نہیں فرماتے لفظ آیت فجزاء مثل ما قتل من النعم (29) امام ابن ابی حاتم نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت فجزاء مثل ما قتل کے بارے میں فرمایا اگر اس کے مشابہ اس طرح کا کوئی جانور ہو تو یہی اس کی جزاء اور قضا ہوگی۔ (30) امام ابن ابی حاتم نے مقاتل بن حبان (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت فجزاء مثل ما قتل کے بارے میں فرمایا اگر وہ خشکی کے شکار میں سے ہے ان جنگلی جانوروں میں سے جن کے سینگ نہ ہوں۔ جیسے جنگلی گدھا اور شتر مرغ تو اس کی جزاء اونٹ سے ہوگی۔ اور اگر وہ خشکی کے ایسے جانور میں سے ہے جن کے سینگ ہوں تو اس کی جزا گائے سے ہے۔ اگر وہ ہرن میں سے ہے تو اس میں بکری ہوگی اور خرگوش میں بھیڑ کا ثنیہ اور چوہے میں میمنہ اگر وہ کبوتر یا اس جیسے پرندے میں سے ہو تو اس میں ایک بکری لازم ہوگی۔ اگر وہ مکڑی یا اس جیسی کوئی چیز ہو تو اس میں ایک مٹھی غلہ لازم ہوگا۔ محرم کے لئے ہر طرح کا شکار ممنوع ہے (31) امام ابن جریر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عطا (رح) سے کہا آپ بتایئے اگر میں ایک ایسا شکار قتل کروں جو کانا یا لنگڑا اس کے پر کٹے ہوئے ہوں کیا میں اس چیز کا تاوان دوں گا ؟ فرمایا ہاں۔ اگر تو چاہے عطا (رح) نے فرمایا اگر تو جنگلی گائے کے بچے کو قتل کرے تو اس میں اس کے مثل یا تو گائے کا بچہ ہوگا یہ سب اسی طرح ہیں۔ (32) امام ابن جریر نے ضحاک بن مزاحم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت فجزاء مثل ما قتل من النعم کے بارے میں فرمایا اگر وہ خشکی کے ایسے شکار میں سے ہے جن کے سینگ نہیں ہوتے جیسے جنگلی گدھا یا شتر مرغ تو اس میں اس کی مثل اونٹ میں سے ہوگا اگر وہ سینگ والا ہے خشکی کے شکار میں سے، جیسے پہاڑی بکرا یا بارہ سنگھا تو اس کی جزاء گائے ہوگی اگر وہ ہرن میں سے ہے تو اس کی مثل بکری ہوگی۔ اگر وہ خرگوش میں سے ہے تو چھ ماہ کے بھیڑ کا بچہ لازم ہوگا۔ اگر وہ جنگلی چوہے میں سے ہے یا اس سے مشابہ تو اس میں چھوٹا بکری کا بچہ ہے۔ اگر وہ مکڑی میں سے ہے یا اس طرح کی کوئی چیز تو اس میں ایک مٹھی غلہ میں سے ہے۔ اگر وہ خشکی کے پرندے میں سے ہے تو اس کی قیمت لگائی جائے گی۔ پھر اس کو صدقہ کردیا جائے گا اور اگر چاہے روزہ رکھ لے ہر آدھے صاع کے بدلہ میں ایک روزہ اور اگر پرندے کا چوزہ یا اس کا انڈہ لے لیا تو اس میں اس کی قیمت کا غلہ یا اس کے مثل روزے لازم ہوں گے۔ (33) امام ابن ابی شیبہ، الحاکم نے (اور انہوں نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بچو شکار سے۔ اگر کوئی محرم اس کو شکار کرے تو اس میں ایک سال کا دنبہ لازم ہوگا اور اس کو کھایا جائے گا۔ (34) امام ابن ابی شیبہ نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر، عثمان، زید بن ثابت اور ابن عباس اور معاویہ ؓ نے فرمایا کہ شتر مرغ (کے شکار میں) اونٹ لازم ہے۔ (35) امام ابن ابی شیبہ نے جابر ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے خرگوش کے بدلہ میں جفرہ (یعنی درمیانی چیز) کا فیصلہ فرمایا۔ (36) امام ابن ابی شیبہ نے عطا، طاؤس اور مجاہد (رح) تینوں حضرات سے روایت کیا کہ وحشی گدھے کے بدلہ میں گائے لازم ہوگی۔ (37) امام ابن ابی شیبہ نے عروہ (رح) سے روایت کیا کہ جب کوئی محرم وحشی گائے کو قتل کر دے تو اس کے بدلہ میں ایک اونٹ لازم ہوگا۔ (38) امام ابن ابی شیبہ نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے کبوتری اور اس کے بچوں پر دروازہ بند کردیا۔ پھر وہ عرفات اور منی کی طرف چلا گیا۔ جب واپس آیا تو کبوتری مرچکی تھی۔ ابن عمر ؓ کو یہ بات ذکر کی گئی تو انہوں نے (ان کے بدلہ میں) تین بکریاں صدقہ کرنے کا حکم فرمایا اور ایک اور آدمی کو ساتھ ہی حکم بنایا۔ (39) امام ابن ابی شیبہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ حرم کے پرندہ (کے بدلہ) میں ایک بکری لازم ہوگی۔ (40) امام ابن ابی شیبہ نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عثمان ؓ نے سب سے پہلے حرم کے پرندہ (کے بدلہ) میں ایک بکری لازم کی۔ (41) امام ابن ابی شیبہ نے عمر ؓ سے روایت کیا کہ مکڑی کے بدلہ میں ایک مٹھی غلہ لازم ہے۔ (42) امام ابن ابی شیبہ نے عمر ؓ سے روایت کیا کہ ایک کھجور بہتر ہے مکڑی سے۔ (43) امام ابن ابی شیبہ نے قاسم (رح) سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ سے اس مجرم کے بارے میں پوچھا گیا جس نے مکڑی شکار کی تھی تو انہوں نے فرمایا ایک کھجور بہتر ہے مکڑی سے۔ (44) امام ابن جریر نے ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا کہ محرم جس چیز کو مارے گا تو اس میں قیمت کا حکم لگایا جائے گا۔ (45) امام ابو الشیخ نے ابو الزناد کے طریق سے اعرج سے اور انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا شتر مرغ کے انڈے میں ایک دن کا روزہ ہے یا ایک مسکین کو کھانا کھلانا۔ امام شافعی نے ابو موسیٰ الاشعری اور ابن مسعود ؓ سے اسی طرح موقوفاً روایت کیا۔ (46) امام ابن ابی شیبہ سے معاویہ بن قرۃ سے اور امام احمد نے انصار میں سے ایک آدمی سے روایت کیا کہ وہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی کے اونٹ نے شتر مرغ کے گھونسلے کو کچل دیا اور اس کے انڈوں کو توڑ دیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر انڈہ کے بدلہ میں تجھ پر ایک روزہ ہے یا ایک مسکین کا کھانا کھلانا ہے۔ (47) امام ابن ابی شیبہ نے عبد اللہ بن ذکوان ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ سے ایک محرم آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے شتر مرغ کے انڈے توڑ دیئے تھے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا تو اس پر ہر انڈہ کے بدلہ میں ایک دن کا روزہ ہے یا ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔ (48) امام ابن ابی شیبہ نے ابو الزناد سے اور انہوں نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ وہ نبی ﷺ نے اسی طرح روایت کرتی ہیں۔ (49) امام ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے ابو المحزم کے طریق سے نبی ﷺ سے روایت فرمایا کہ شتر مرغ کے انڈوں میں اس کی قیمت ہوگی۔ (50) امام ابن ابی شیبہ نے عمر ؓ سے روایت کیا کہ شتر مرغ کے انڈوں کے بدلہ میں اس کی قیمت ہوگی۔ (51) امام ابن ابی شیبہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ شتر مرغ کے انڈوں کے بدلہ میں اس کی قیمت لازم ہوگی۔ (52) امام ابن ابی شیبہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ہر دو انڈوں کے بدلہ میں ایک درھم ہے اور ہر انڈہ کے بدلہ میں آدھا درہم ہے۔ شکار کا بدلہ تعین کرنا (53) امام ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، طبرانی، الحاکم نے (اور انہوں نے اس کو صحیح بھی کیا ہے) قبیصہ بن جابر ؓ سے روایت کیا کہ ہم نے حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں حج کیا اور ہم نے ایک ہرن کو دیکھا ہم میں سے ایک آدمی نے اپنے ساتھی سے کہا مجھ کو دکھاؤ میں اس کو پہنچ سکتا ہوں۔ اس نے ایک پتھر پھینکا جو سیدھا اس کی کنپٹی پر جا لگا۔ اور اس کو قتل کردیا ہم لوگ عمر بن حطاب ؓ کے پاس آئے۔ اور ہم نے اس بارے میں اس نے سوال کیا۔ آپ کے پہلو میں ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ وہ عبد الرحمن بن عوف ؓ تھے۔ حضرت عمر ؓ ان کی طرف متوجہ ہوئے۔ اور اس نے بات کی پھر ہمارے ساتھیوں پر متوجہ ہوئے۔ اور پوچھا کیا تم نے اس کو عمدا قتل کیا یا غلطی سے ؟ اس آدمی نے کہا میں نے قصدا اس پر پتھر پھینکا تھا۔ اور میں نے اس کے قتل کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ عمر ؓ نے فرمایا میں نہیں دیکھتا ہوں تجھ کو کہ تو نے عمدا اور خطا کو ملا دیا ہے۔ جاؤ ایک بکری لاؤ اس کو ذبح کرو اور اس کا گوشت صدقہ کرو۔ اور اس کی کھال کسی مسکین کو دیدو جو اس کی مشکیزہ بنائے گا۔ ہم ان کے پاس سے کھڑے ہوگئے۔ اور میں نے اپنے ساتھی سے کہا اے آدمی اللہ کے شعائر کی تعظیم کرو۔ اللہ کی قسم امیر المؤمنین نے جو تجھ کو فتوی دیا ہے وہ خود نہیں جانتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے ساتھی سے مشورہ کیا اپنی اونٹنی لو اور اس کو ذبح کرو شاید شعائر کی تعظیم کا یہی اندازہ ہے قبیصہ نے کہا کہ مجھے سورة مائدہ کی یہ آیت یعنی لفظ آیت یحکم بہ ذوا عدل منکم یاد نہ تھی راوی نے کہا میری یہ بات عمر ؓ کو پہنچی۔ تو انہوں نے ہمارے پاس آنے میں دیر نہ لگائی اور ان کے ساتھ ایک درہ تھا۔ اور میرے ساتھی کو اس کے ساتھ مارنا شروع کیا۔ اور وہ فرماتے تھے کہ تو حرم میں شکار کو قتل کرتا ہے اور تو فتوی کا مذاق اڑاتا ہے پھر مجھ پر متوجہ ہوئے اور مجھے مارنے لگے میں نے عرض کیا امیر المؤمنین میں کسی چیز کو اپنی طرف سے آپ کے لئے حلال نہیں کرتا ان چیزوں میں سے جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر حرام کی ہیں پھر فرمایا اے قبیصہ ! میں تجھ کو نوجوان نئی عمر والا فصیح اللسان اور کشادہ سینے والا دیکھتا ہوں بعض ایک آدمی میں اخلاق اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے اخلاق بھی ہوتے ہیں، اور کبھی برا اخلاق غالب ہوجاتا ہے اچھے اخلاق پر اور تجھے نوجوانوں کی غلطیوں سے باز رہنا چاہیے۔ (54) امام عبد بن حمید اور ابن ابی حاتم نے میمون بن مھران (رح) سے روایت کیا کہ ایک دیہاتی ابوبکر ؓ کے پاس آیا اور کہا میں نے احرام کی حالت میں ایک شکار کو قتل کیا۔ اب مجھے بتایئے کہ مجھ پر کیا جزاء ہے ؟ ابوبکر ؓ نے ابی بن کعب ؓ سے فرمایا اور وہ ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ اس بارے میں کیا جانتے ہیں ؟ اعرابی نے کہا میں آپ کے پاس آیا ہوں اور آپ رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ ہیں میں نے آپ سے سوال کیا ہے۔ اور آپ اپنے علاوہ دوسرے سے سوال کر رہے ہیں۔ ابوبکر ؓ نے فرمایا تجھے کیا چیز متعجب کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت یحکم بہ ذوا عدل منکم میں نے اپنے ساتھی سے مشورہ کیا۔ یہاں تک کہ ہم ایک کام پر متفق ہوجائیں جس کا تجھ کو حکم دیں۔ حالت احرام میں شکار کی مدد بھی جائز نہیں (55) امام عبد بن حمید اور ابن جریر نے بکر بن عبد اللہ مزنی (رح) سے روایت کیا کہ دیہاتیوں میں سے دو آدمی احرام باندھے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک نے ہرن کو بھگایا اور دوسرے نے اس کو قتل کردیا۔ دونوں حضرت عمر ؓ کے پاس آئے اور ان کے پاس عبد الرحمن بن عوف ؓ بیٹھے ہوئے تھے۔ عمر ؓ نے ان سے فرمایا آپ کی کیا رائے ہے ؟ (اس مسئلہ میں) انہوں نے فرمایا (اس کی جزاء) بکری ہے عمر ؓ نے فرمایا میری بھی یہی رائے ہے۔ (پھر اس نے فرمایا) تم لوگ جاؤ اور ایک بکری ذبح کرو۔ جب یہ دونوں (وہاں سے) چلے گئے۔ تو ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا امیر المؤمنین کو اس کا علم نہ تھا بلکہ اپنے ساتھی سے پوچھا حضرت عمر نے ان کی بات کو سن لیا اور ان کو واپس بلایا اور اس کہنے والے کو درے سے مارا اور فرمایا احرام کی حالت میں شکار کو قتل کرتے ہو اور فتوی کا مذاق اڑاتے ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت یحکم بہ ذوا عدل منکم پھر فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ اکیلے عمر کے فیصلے پر راضی نہیں ہوتا ہو اس لئے میں نے اپنے اس ساتھی سے مدد لی۔ (56) امام شافعی، عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، ابن جریر اور ابن منذر نے طارق بن شہاب ؓ سے روایت کیا کہ اربد نے ایک گوہ کو روند ڈالا پھر اس کو مار ڈالا جبکہ وہ احرام میں تھے وہ حضرت عمر ؓ کے پاس آئے تاکہ وہ اس پر فیصلہ فرمائیں۔ عمر ؓ نے اس سے فرمایا میرے ساتھی مل کر فیصلہ کرو دونوں نے میمنہ کا فیصلہ کیا جو پانی اور گھاس کھاتا تھا۔ پھر عمر ؓ نے یہ آیت پڑھی لفظ آیت یحکم بہ ذوا عدل منکم (57) امام ابن جریر نے ابو مجلز (رح) سے روایت کیا کہ ابن عمر ؓ سے ایک آدمی نے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جس نے احرام کی حالت میں شکار کو قتل کیا تھا۔ اس نے پاس عبد اللہ بن صفوان ؓ بیٹھے ہوئے تھے۔ ابن عمر ؓ نے ان سے فرمایا تو آپ فیصلہ فرمائیں اور میں اس کی تصدیق کروں یا میں فیصلہ کرتا ہوں اور آپ اس کی تصدیق کریں۔ ابن صفوان (رح) نے فرمایا بلکہ آپ فرمائیے۔ ابن عمر ؓ نے فیصلہ فرمایا۔ اور اس پر عبد اللہ بن صفوان ؓ نے تصدیق کی۔ (58) امام ابن سعد، ابن جریر اور ابو الشیخ نے ابو حریز بجلی (رح) سے روایت کیا کہ میں نے احرام کی حالت میں ایک ہرن کو قتل کردیا۔ میں نے عمر ؓ کو یہ بات ذکر کی تو انہوں نے فرمایا اپنے دو بھائیوں کے پاس جاؤ۔ وہ تمہارے بارے میں فیصلہ کریں گے۔ میں عبد الرحمن بن عوف اور سعد ؓ کے پاس آیا انہوں نے مجھ پر ایک بکری ذبح کرنے کا فیصلہ فرمایا جو سفید رنگ کی ہو۔ (59) امام ابن جریر نے عمرو بن حبشی (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ایک آدمی کو سنا جو عبد اللہ بن عمر ؓ سے ایک ایسے آدمی کے بارے میں سوال کر رہا تھا جس نے خرگوش کے بچے قتل کردیا تھا تو انہوں نے فرمایا میری رائے میں اس میں بکری کا ایک بچہ لازم ہے پھر مجھ سے فرمایا کیا اسی طرح ہوتا ہے ؟ میں نے عرض کیا آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت یحکم بہ ذوا عدل منکم (60) امام ابو الشیخ نے ابن ابی ملیکہ (رح) سے روایت کیا کہ قاسم بن محمد (رح) سے ایک محرم کے بارے میں پوچھا گیا جس نے ایک بکری کا بچہ حرم میں قتل کردیا تھا۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا تو فیصلہ کر میں نے کہا میں فیصلہ کروں اور آپ یہاں موجود ہیں پھر فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت یحکم بہ ذوا عدل منکم (61) امام ابو الشیخ نے عکرمہ بن خالد (رح) سے روایت کیا کہ دو ثالثوں کے بغیر فیصلہ درست نہیں اور دونوں ثالث آپس میں اختلاف نہ کریں۔ (62) امام ابن ابی حاتم نے ابو جعفر بن محمد بن علی (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے علی ؓ سے ہدی کے بارے میں سوال کیا کہ وہ کس جانور سے ہوتی ہے ؟ فرمایا آٹھ جوڑوں میں سے، گویا کہ آدمی نے شک کیا۔ علی ؓ نے فرمایا کیا تو قرآن کو پڑھتا ہے۔ اس نے کہا ہاں فرمایا کیا تو نے اللہ تعالیٰ کو یہ فرماتے ہوئے سنا لفظ آیت یایھا الذین امنوا اوفوا بالعقود احلت لکم بھیمۃ الانعام اس نے کہا میں نے یہ ارشاد سنا ہے پھر فرمایا اور تو نے یہ بھی فرماتے ہوئے سنا لفظ آیت لیذکروا اسم اللہ علی ما رزقھم من بھیمۃ الانعام (اور) لفظ آیت ومن الانعام حمولۃ وفرشا یعنی تم کھاؤچوپاؤں کے جانوروں میں سے۔ اس نے کہا ہاں (یہ سنا ہے) پھر فرمایا کیا تو نے یہ فرماتے ہوئے سنا لفظ آیت من الضان اثنین ومن المعز اثنین قلء الذکرین حرم ام الانثیین اما اشتملت علیہ ارحام الانثیین نبونی بعلم بن کنتم صدقین۔ و من الابل اثنین ومن البقر اثنین میں نے کہا ہاں (میں نے سنا) پھر فرمایا تو نے یہ فرماتے ہوئے سنا لفظ آیت یایھا الذین امنوا لا تقتلوا الصید وانتم حرم سے لے کر لفظ آیت ھدیا بلغ الکعبۃ (المائدہ آیت 95) تک اس آدمی نے کہا (میں نے سنا ہے) پھر فرمایا اگر میں ایک ہرن کو قتل کردو تو مجھ پر کیا جرمانہ ہوگا ؟ اس نے کہا بکری علی ؓ نے فرمایا ہدی کا جانور جو کعبہ کو پہنچنے والا ہو۔ اس آدمی نے کہا ہاں علی ؓ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے بالغ الکعبۃ فرمایا جیسے تو نے سنا۔ (63) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ہدی وہ جانور ہیں جو پیٹ والے ہیں۔ (64) امام ابن ابی حاتم نے مقاتل بن حیان (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ھدیا بلغ الکعبۃ یعنی اس کے ذبح کی جگہ مکہ ہے۔ (65) امام ابن جریر اور ابو الشیخ نے عطا (رح) سے روایت کیا ہدی نسک، اور طعام مکہ میں ہوں اور روزہ جہاں تو چاہے رکھ لے۔ (66) امام ابو الشیخ نے حکم (رح) سے روایت کیا کہ شکار کی قیمت وہاں لگائی جائے گی جہاں اس نے شکار کیا۔ (67) امام ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت او کفارۃ طعام مسکین کے بارے میں فرمایا یعنی خرگوش سے چھوٹی چیز کے قتل میں کھانا کھلانا ہے۔ (68) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید اور ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ جس شخص نے کسی شکار کو قتل کیا بھول کر یا کسی اور چیز کا ارادہ کیا وہ غلطی سے شکار کو لگ گیا تو یہ ایسا عمد ہے۔ جس کا کفارہ ہے تو اس پر شکار کی مثل دیت ہوگی فرمایا لفظ آیت ھدیا بلغ الکعبۃ جس کا کعبہ تک پہنچنا لازم ہے۔ اگر وہ جانور نہ پائے تو اس کی قیمت کی غلہ خرید لے۔ اور اگر وہ بھی نہ پائے تو ہر مد کے بدلہ ایک دن کا روزہ رکھ لے۔ (69) امام ابن جریر اور ابن منذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ مجھ سے حسن بن مسلم (رح) نے فرمایا جو شخص شکار کو قتل کر دے اور اس کی قیمت کے برابر بکری کے برابر یا اس سے بھی زیادہ ہو اس کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت فجزاء مثل ما قتل من النعم پھر فرمایا لفظ آیت او کفارۃ طعام مسکین او عدل ذلک صیاما یہ وہ جزاء ہے جو ہدی (کی قیمت کہ نہ پہنچے) جیسے چڑیا قتل کی گئی تو اس میں ہدی (کا جانور) نہ ہوگا۔ پھر فرمایا لفظ آیت او عدل ذلک صیاما یعنی شتر مرغ کے برابر یا چڑیا کے برابر سب کے بدلہ ہوگا۔ ابن جریج (رح) نے فرمایا میں نے یہ بات عطا کو ذکر کی۔ تو انہوں نے فرمایا اور قرآن میں جو بھی حکم ” أو “ کے ساتھ ہوا ان میں آدمی کو اختیار ہوتا ہے۔ (70) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابو الشیخ نے ابراہیم نخعی (رح) سے روایت فرمایا کرتے تھے جب محرم کسی شکار کو قتل کر دے تو اس کی جزاء جانوروں میں سے ہے اگر وہ اس کو نہ پائے تو جزا کی قیمت لگائی جائے گی دراھم سے۔ پھر دراھم کی قیمت لگائی جائے گی اس دن کے غلہ کی قیمت کے ساتھ اور اس کو صدقہ کیا جائے گا۔ اگر اس کے پاس غلہ نہیں ہے تو ہر نصف صاع کے برابر ایک دن کا روزہ رکھے۔ (71) امام ابو الشیخ نے عطاء مجاہد (رح) دونوں حضرات سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت او کفارۃ طعام مسکین او عدل ذلک صیاما کے بارے میں فرمایا کہ محرم نے کسی شکار کو مارڈالا اور اس کی قیمت ہدی کی (قیمت کو) نہیں پہنچتی (یعنی کم ہے) تو اس میں اس کی قیمت کے برابر غلہ لازم ہوگا۔ شتر مرغ کا قتل اور اس کا بدلہ (72) امام ابن جریر اور ابن منذر نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ اگر کسی محرم نے شتر مرغ کو مار ڈالا اگر وہ وسعت والا ہے تو اس کو چاہئے کہ اونٹ کو دے یا اس کے برابر غلہ دے یا اس کے برابر روزہ رکھے جو بھی ان میں سے چاہے۔ (جزا دے) اللہ عزوجل کے قول کی وجہ سے اس کی جزا اس طرح ہوگی۔ پھر فرمایا قرآن مجید میں جو بھی حکم ہے تو اس کے کرنے والے کو اختیار ہوگا جو چاہے کرے۔ میں نے ان سے کہا آپ بتایئے اگر وہ غلہ دینے پر قادر ہے اس شکار کی قیمت کے برابر جس کو اس نے مار ڈالا۔ تو انہوں نے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رخصت ہے ہوسکتا ہے کہ اس کے پاس غلہ اور اس کے پاس اونٹ کی قیمت نہ ہو تو یہ رخصت ہے (کہ غلہ کا ہی صدقہ کرے) (73) امام ابن ابی حاتم نے عطا خراسانی (رح) سے روایت کیا کہ عمر بن خطاب، عثمان بن عفان، علی بن ابی طالب، ابن عباس، زید بن ثابت اور معاویہ ؓ اس سب حضرات نے ہدی کا فیصلہ کیا تھا اس محرم کے بارے میں جس نے شکار کو قتل کیا تھا جزا کے طور پر پھر انہوں نے اس کی قیمت کا اندازہ لگایا اور اس کے بدلے میں کھانا کھلانے کا حکم دیا۔ (74) امام ابن ابی شیبہ، ابن جریر اور ابن منذر نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا جو کچھ قرآن میں ہے لفظ أو کے ساتھ ہے۔ تو اس میں اختیار ہے۔ جب پہلا حکم نہ پائے تو بعد والے کو اپنا لے۔ شعبی (رح) نے مجاہد حسن ابراہیم اور ضحاک (رح) سے اس طرح روایت کیا ہے۔ (75) امام ابن جریر نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس محرم کے بارے میں فرمایا جس نے خراسان میں شکار کرلیا کہ وہ مکہ میں یا منی میں کفارہ دے گا غلہ کی قیمت اس جگہ کی لگائے جہاں اس پر کفارہ واجب ہوگا۔ (76) امام ابن ابی شیبہ اور ابن جریر نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ جانور کی قربانی دینی ہو تو مکہ میں دے صدقہ یا روزے رکھنے ہوں تو جہاں چاہے۔ امام ابن ابی شیبہ نے فاؤس اور عطا سے اسی طرح روایت کیا۔ (77) ابن جریر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عطا سے کہا غلہ کا صدقہ کہاں کرے ؟ انہوں نے فرمایا مکہ میں اس وجہ سے کہ وہ بمنزلہ ہدی کے ہے۔ (78) امام ابن جریر اور ابو الشیخ نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ حج کا کفارہ مکہ میں ادا کیا جائے۔ (79) امام ابن جریر نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ جب میں شکار کی جزا لے کر مکہ آتا ہوں تو وہاں ذبح کرتا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ھدیا بالغ الکعبۃ ہاں ذوالحجہ کے دس دن ملازم ہوں تو ایام نحر تک موخر کرتا ہوں۔ (80) امام ابن جریر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عطاء (رح) سے کہا کیا روزہ کے لئے کوئی وقت ہے ؟ فرمایا نہیں ! جب چاہے، جہاں چاہے اور اس کا جلدی کرنا میرے نزدیک افضل ہے۔ (81) امام ابن جریر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا ہے کہ میں نے عطاء سے کہا کتنا غلہ برابر ہے ایک روزہ سے ؟ فرمایا ہر مد کے لئے، ایک دن کا روزہ رکھ لے۔ انہوں نے گمان کیا رمضان کے اور ظہار کے روزوں کا اور انہوں نے گمان کیا کہ یہ ایک رائے ہے جو انہوں نے ظاہر کی اور اس کو کسی ایک سے بھی نہیں سنا۔ (82) امام ابن جریر اور ابو الشیخ نے سعید بن جبیررحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ لفظ آیت او عدل ذلک صیاما یعنی روزے رکھے تین دن سے دس دنوں تک۔ (83) امام عبد الرزاق اور عبد بن حمید نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ غلہ کا حکم اس لئے دیا گیا (جزاء کے طور پر) تاکہ اس کے ساتھ روزوں کا علم ہوجائے۔ (84) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت لیذوق وبال امرہ عفا اللہ عما سلف یعنی اپنے کام کی سزا (چکھ لے) (85) امام ابو الشیخ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت لیذوق وبال امرہ یعنی تاکہ وہ اپنے عمل کا انجام چکھے۔ (86) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے نعیم بن قعنب کے طریق سے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت عفا اللہ عما سلف یعنی جو کچھ جاہلیت میں تھا اللہ نے اسے معاف کردیا (اور فرمایا) لفظ آیت ومن عاد فینتقم اللہ منہ یعنی جو اسلام میں پھر ایسا کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے انتقام لے گا۔ (87) امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابو الشیخ نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت عفا اللہ عما سلف یعنی ان کاموں میں جو زمانہ جاہلیت میں تھے۔ (اللہ تعالیٰ نے درگزر فرمایا) اور لفظ آیت ومن عاد یعنی جس نے اسلام میں دوبارہ کیا (جو کچھ جاہلیت میں تھا) لفظ آیت فینتقم اللہ منہ یعنی اس پر اس کے ساتھ کفارہ بھی ہوگا ابن جریج نے کہا میں نے عطا سے پوچھا کیا اس پر گناہوں کی سزا بھی ہوگی فرمایا نہیں ! (88) امام عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے عکرمہ کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جو آدمی احرام کی حالت میں شکار کرے تو اس پر ان چیزوں میں سے ایک کا فیصلہ ہوگا۔ اگر اس نے دوبارہ ایسا کیا تو اس پر حکم نہیں لگایا جائے گا۔ اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہوگا۔ اگر چاہے اس کو سزا دے اگر چاہے تو معاف کردے۔ پھر یہ آیت لفظ آیت ومن عاد فینتقم اللہ منہ پڑھی۔ اور ابو الشیخ کے الفاظ یہ ہیں۔ اور جو شخص دوبارہ جرم کرے گا اس سے کہا جائے گا چلے جاؤ اللہ تعالیٰ تجھ سے انتقام لے گا۔ (89) امام ابن جریر اور ابن منذر نے علی (رح) کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جس شخص نے شکار میں سے کسی چیز کو غلطی سے قتل کردیا اور وہ مجرم بھی تھا تو اس پر حکم لگایا جائے گا جب بھی وہ اس کو قتل کرے گا۔ اور جس شخص نے اس کو جان بوجھ کر قتل کیا تو اس پر ایک مرتبہ حکم لگایا جائے گا۔ اگر اس نے دوبارہ جرم کیا تو اس سے کہا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ تجھ سے انتقام لیں گے۔ جیسے اللہ عز وجل نے فرمایا۔ (90) امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن منذر نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے شکار کو قتل کیا حالانکہ وہ محرم تھا تو اس نے شریح (رح) سے سوال کیا شریح (رح) نے پوچھا کیا اس سے پہلے کسی شکار کو مارا تھا۔ اس نے کہا نہیں ! تو انہوں نے فرمایا اگر تو نے ایسا کیا ہوتا تو میں تجھ پر حکم نہ لگاتا۔ اور میں تجھ کو اللہ کے سپرد کردیتا کہ وہ تجھ سے انتقام لیتا۔ (91) امام ابن جریر اور ابو الشیخ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ شکار کو قتل کرنے میں ایک مرتبہ رخصت دے دی گئی اگر اس نے دوبارہ (جرم کیا) تو اللہ تعالیٰ اس کو نہیں چھوڑیں گے یہاں تک کہ اس سے انتقام لیں گے۔ (92) امام عبد بن حمید اور ابن جریرنے ابراہیم (رح) سے اس شخص کے بارے میں قول نقل کیا ہے کہ حالت احرام میں شکار کو قتل کرتا ہے پھر اس طرح عمل کرتا ہے تو انہوں نے کہا کہ علماء کہا کرتے تھے۔ جس نے دوبارہ (جرم) کیا اس پر حکم نہیں لگایا جائے گا۔ اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ جھوٹ بول کر آخرت کی سزا سے نہیں بچ سکتا (93) امام عبد بن حمید اور ابن جریر نے سعید بن جبیر سے روایت کیا کہ عمد میں ایک مرتبہ حکم لگایا جائے گا۔ اگر اس نے دوبارہ وہ (جرم) کیا تو اس پر حکم نہیں لگایا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا چلا جا اللہ تعالیٰ تجھ سے انتقام لیں گے اور غلطی میں اس پر ہمیشہ حکم لگایا جائے گا۔ (94) امام سعید بن منصور، عبدبن حمید اور ابن جریر نے عطا بن کی رباح (رح) سے روایت کیا کہ اس پر حکم لگایا جائے گا جب بھی قتل کرے گا۔ (95) امام ابن جریر نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ جب کبھی بھی محرم شکار کو قتل کرے گا تو اس پر حکم لگایا جائے گا۔ (96) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے زید ابو المعلی کے طریق سے حسن (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے شکار کو قتل کیا اور وہ محرم تھا۔ اس سے درگزر کردیا گیا۔ پھر اس نے دوبارہ دوسرے شکار کو قتل کیا تو ایک آگ آسمان سے نازل ہوئی اور اس کو جلا دیا۔ (97) امام ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کا یہی مطلب ہے ہم کو بتایا گیا کہ ایک آدمی نے دوبارہ جرم کیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس پر آگ کو بھیج دیا جو اس کو کھا گئی۔ (98) امام ابن ابی شیبہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چاہیے کہ مؤمن قتل کرے چوہے کو، بچھوکو، چیل کو، کوے کو، اور باولے کتے کو اور رعایت میں ہے کہ سانپ کو بھی مار ڈالے۔ (99) امام ابن ابی شیبہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا پانچ چیزیں فاسق ہیں میں حرم شریف میں ان کو قتل کر ڈالو۔ چیل، کوا، کتا، چوہا اور بچھو۔ (100) امام حاکم نے (اور انہوں نے اس کی تصحیح بھی کی ہے) ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے محرم کو حکم فرمایا کہ حرم میں یا منی میں سانپ کو قتل کر ڈالے۔ (101) امام ابن ابی شیبہ نے سعید بن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ محرم بھیڑیئے کو قتل کردے۔
Top