Dure-Mansoor - Al-Maaida : 97
جَعَلَ اللّٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ وَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ الْهَدْیَ وَ الْقَلَآئِدَ١ؕ ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ اَنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
جَعَلَ : بنایا اللّٰهُ : اللہ الْكَعْبَةَ : کعبہ الْبَيْتَ الْحَرَامَ : احترام ولا گھر قِيٰمًا : قیام کا باعث لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ : اور حرمت والے مہینے وَالْهَدْيَ : اور قربانی وَالْقَلَآئِدَ : اور پٹے پڑے ہوئے جانور ذٰلِكَ : یہ لِتَعْلَمُوْٓا : تاکہ تم جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ يَعْلَمُ : اسے معلوم ہے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ بِكُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
کعبہ جو احترام والا گھر ہے اللہ نے اسے لوگوں کے قائم رہنے کا سبب قرار دیا ہے اور رحمت والے مہینے کو اور ہدی کے جانوروں کو اور ان کے گلے میں جو پٹے پڑے ہوئے ہوں ان سب کو لوگوں کے قائم رہنے کا ذریعہ بنایا ہے یہ اس لئے کہ تم جان لو کہ بلا شبہ اللہ جانتا ہے جو آسمانوں میں سے اور جو کچھ زمین میں ہے اور بیشک اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
(1) امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ کعبہ اس لئے نام رکھا گیا کہ یہ مربع (شکل میں بنا ہوا) ہے۔ (2) امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن منذر نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ اس کے مربع شکل ہونے کی وجہ سے اس کا نام کعبہ رکھا گیا۔ (3) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت جعل اللہ الکعبۃ البیت الحرام قیما للناس سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کعبہ کے لوگوں کے دین کو قائم رکھنے والا اور ان کے حج کی نشانی بنا دیا۔ (4) امام ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے اس آیت کے بارے میں فرمایا اس کے قیام کے معنی یہ ہے کہ (جو آدمی) اس کی طرف رخ کرتا ہے وہ محفوظ ہوجاتا ہے۔ (5) امام ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت قیما للناس میں قیام کو قوام نقل کیا ہے یعنی یہ لوگوں کا سہارا ہے۔ (6) امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابو الشیخ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت قیما للناس میں قیام کا معنی ہے صلاح یعنی یہ ان کے دین کی صلاح کا باعث ہے۔ (7) امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت قیما للناس یعنی ان کے دامن کی قوت کا باعث ہے۔ (8) امام ابن منذر اور ابو الشیخ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت قیما للناس سے مراد ہے کہ ان کے دین کی عظمت کا باعث ہے۔ (9) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ سب لوگوں میں بادشاہ تھے جو ان کے بعض کو بعض سے ظلم و زیادتی سے روکتے لیکن عرب میں کوئی بادشاہ نہیں تھا جو ان کے بعض کو بعض سے ظلما و زیادتی سے روکتا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے بیت الحرام کو ان کے لئے سہارا بنایا جو لوگوں کو ایک دوسرے پر ظلم کرنے سے روکتا اور فرماتا لفظ آیت والشھر الحرام اسی طرح اللہ تعالیٰ ان کو حرمت والے مہینوں اور قلادوں کے ذریعے بھی محفوظ رکھتا۔ ایک آدمی اپنے باپ کے قاتل سے یا اپنے چچا کے بیٹے کے قاتل کو ملتا تو اس سے تعرض نہیں کرتا اور یہ سب کا سب منسوخ کردیا گیا۔ (10) امام ابن ابی حاتم نے ابن شہاب (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے بیت الحرام اور شہر الحرام کو لوگوں کے لئے سہارا بنایا کہ اس کے ذریعے دور جاہلیت میں امن حاصل کرتے ہیں جب وہ بیت اللہ شریف حرم کی حدور اور حرمت والے مہینوں میں ملتے تو ان کو ایک دوسرے سے کچھ ڈر نہ ہوتا۔ دور جاہلیت میں حرم میں احترام (11) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابو الشیخ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت جعل اللہ الکعبۃ البیت الحرام قیما للناس والشھر الحرام والھدی والقلائد کے بارے میں فرمایا کہ وہ رکاوٹیں جن کو اللہ تعالیٰ نے زمانہ جاہلیت میں لوگون کے درمیان باقی رکھا تھا (جیسے) اگر ایک آدمی جتنا بھی جرم کرلیتا پھر وہ حرم شریف کی پناہ لے لیتا تو اس کو کوئی نہ پہنچتا اور نہ اس کے قریب کوئی آتا اور اگر کوئی حرمت والے مہینے میں اپنے باپ کے قاتل سے بھی ملاقات کرتا تو اس سے کوئی تعارض نہ کرتا اور نہ اس کے قریب آتا۔ اور اگر کوئی آدمی پٹہ ڈالے ہوئے کسی ہدی کے جانور سے ملتا اگرچہ وہ بھوک کی وجہ سے آکاس بیل کھائے ہوتا تو پھر بھی اس سے کوئی تعارض نہ کرتا اور نہ اس کے قریب جاتا اور جب کوئی آدمی بیت اللہ کا ارادہ کرتا تو بالوں سے بنا ہوا ایک پٹہ گلے میں ڈال لیتا تو وہ اس کو بچا لیتا اور لوگوں کو اس سے روک دیتا جب وہ کوئی دوسرے علاقہ کے سفر کا ارادہ کرتا تو اذخر یا سمر کا قلادہ بنا لیتا تو (قلادہ) اس کو لوگوں سے محفوظ رکھتا یہاں تک کہ اپنے گھر پہنچ جاتا یہ وہ رکاوٹیں تھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے زمانہ جاہلیت میں لوگوں کے درمیان باقی رکھا تھا۔ (12) امام عبد بن حمید، ابن منذر اور ابو الشیخ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے آیت لفظ آیت جعل اللہ الکعبۃ البیت الحرام قیما للناس کی تلاوت کی اور فرمایا کہ لوگ برابر دین پر ہوں گے۔ جب تک وہ بیت اللہ کا حج اور قبلہ کا استقبال کرتے رہیں گے۔ (13) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان چار چیزوں کو لوگوں کے لئے قیام بنایا۔ اور ان کے لئے معاملات کا سہارا ہیں۔ (14) امام ابن ابی حاتم جعفر بن محمد (رح) سے اور وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ لفظ آیت قیما للناس سے مراد ہے کہ خاص طور پر لوگ ان چیزوں کی تعظیم کریں۔ (15) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مقاتل بن حیان (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت قیما للناس سے مراد ہے کہ یہ ان کے قبلہ کی علامت اور امن بنایا جس میں امن سے رہتے ہیں۔ (16) امام ابو الشیخ نے زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت قیما للناس سے امن مراد ہے۔ (17) امام ابو الشیخ نے عبید اللہ بن مسلم (رح) سے روایت کیا کہ مجھ سے اس آدمی نے بیان کیا جو سب سے زیادہ سچ بولنے والا ہے۔ کہا کعبہ کو قیامت کے دن لوگوں کے لئے رکھا جائے گا۔ جو لوگوں کو ان کے اعمال کی خبر دے گا۔ (18) امام ابو الشیخ نے ابو مجلز (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی جاہلیت والوں میں سے جب احرام باندھتا۔ تو بالوں کا ایک پٹہ گلے میں ڈال لیتا تو اس سے کوئی آدمی تعرض نہ کرتا۔ جب وہ حج کرتا اور حج کو پورا کرلیتا اذخر گھاس کا پٹہ ڈال لیتا۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت جعل اللہ الکعبۃ البیت الحرام قیما للناس والشھر الحرام (19) امام ابو الشیخ نے عطا خراسانی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا جب یہ لوگ عظمت والے مہینہ میں داخل ہوتے تو ہتھیار کو رکھ دیتے اور ایک دوسرے کے پاس چلے جاتے۔ (20) امام ابو الشیخ نے زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے زمانہ میں عرب لوگوں کے لئے ان کے درمیان یہ چیزیں رکھ دیں کہ جس کے ذریعہ وہ زندگی گزارتے۔ جو آدمی اس میں سے یا کسی ایک کی حرمت کو پامال کرتا تو اللہ تعالیٰ اس کو ڈھیل نہ دیتے۔ یہاں تک کہ بعد اس کے فرمایا لفظ آیت ذلک لتعلموا ان اللہ یعلم ما فی السموت و ما فی الارض یعنی تاکہ وہ جان لیں کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں جو کچھ آسمانوں میں لوگ جو کچھ زمین میں ہے واللہ تعالیٰ اعلم
Top