Dure-Mansoor - Adh-Dhaariyat : 41
وَ فِیْ عَادٍ اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الرِّیْحَ الْعَقِیْمَۚ
وَفِيْ عَادٍ : اور عاد میں اِذْ اَرْسَلْنَا : جب بھیجا ہم نے عَلَيْهِمُ : ان پر الرِّيْحَ الْعَقِيْمَ : بےنفع ہوا کو۔ بیخبر ہوا کو۔ بانجھ ہوا کو
اور عاد کے قصہ میں عبرت ہے جبکہ ہم ان پر ہوا بھیج دی جو ہر خیر سے خالی تھی
1:۔ الفریابی وابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) وابن ابی حاتم (رح) والحاکم (وصححہ) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) '' الریح العقیم '' (نامبارک آندھی) یعنی سخت ہوا آندھی جو کسی قسم کا نفع نہیں دیتی۔ 2:۔ ابن جریر (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) '' وفی عاد اذارسلنا علیہم الریح العقیم '' (اور عاد کے قصہ میں بھی عبرت ہے جبکہ ہم نے ان پر نامبارک آندھی بھیجی) یعنی (آیت ) '' الریح العقیم '' سے وہ ہوا مراد ہے جو درخت کا گابھن نہیں کرتی اور بادل کو نہیں چلاتی اور فرمایا (آیت ) '' الا جعلتہ کالرمیم '' (مگر اس کو ریزہ ریزہ خاک کی طرف کرکے چھوڑ دیتی ہے) یعنی ہوا نے اسے ہلاک ہونے والی چیز کی طرح کردیا۔ بے برکت ہواؤں کے ذریعہ عذاب : 3:۔ ابوالشیخ نے العظمہ میں ابن عباس ؓ سے (آیت ) '' الریح العقیم '' کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد وہ ہوا ہے جس میں نہ برکت ہو نہ کوئی اور نفع ہو اور نہ اس سے بارش نازل ہو اور نہ اس سے درختوں کی پیوندکاری ہو۔ 4:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک (خاص) قسم کی ہوا دوسری زمین میں قید کی ہوئی ہے جب اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کو ہلاک کرنے کا ارادہ فرمایا تو ہوا کے نگران کو حکم فرمایا کہ ان پر ایسی ہوا کو بھیج دے تاکہ وہ عاد کو ہلاک کردے اس نے کہا اے میرے رب کہ میں ان پر بیل کے نتھنے کی مقدار (یعنی سوارخ ہے) ہوا کو بھیجوں گا تو جبار مطلق یعنی اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا نہیں کیونکہ اس سے زمین اور جو کچھ اس پر ہے سب ختم ہوجائے گا لیکن ان پر انگوٹھی کی مقدار (سوراخ) سے ہوا کو بھیج دے۔ اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) '' ما تذر من شیء اتت علیہ الاجعلتہ کالرمیم '' (وہ جس چیز پر سے گزرتی ہے اس کو ریزہ ریزہ کی طرح کرکے چھوڑتی ہے ) 5:۔ الفریابی وابن المنذر (رح) نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) '' الریح العقیم '' سے مراد ہے ٹیڑھی چلنے والی ہوا۔ 6:۔ ابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) نے وابو الشیخ نے العظمہ میں سعید بن المسیب (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) '' الریح العقیم '' سے مراد ہے جنوبی ہوا۔ 7:۔ ابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) '' الریح العقیم '' سے مراد ہے وہ ہوا جو کسی چیز کو پیوند نہ لگائے۔ اور (آیت ) '' کالرمیم '' سے مراد ہے ہلاک ہونے والی چیز۔ 8:۔ عبدالرزاق (رح) ابن جریر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) '' الریح العقیم '' سے مراد ہے کہ وہ ہوا جو کوئی چیز نہ لگائے (آیت ) '' الا جعلتہ کالرمیم '' (مگر اس کو ریزہ ریزہ کردیتی ہے) یعنی اس کو کھائے ہوئے بوسیدہ درخت کی طرح کردیتی ہے۔ 9:۔ احمد والترمذی والنسائی وابن ماجہ وابن مردویہ (رح) نے ربیعہ کے ایک آدمی سے روایت کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس مدینہ طیبہ میں آیا اور آپ کے پاس عاد کے ایلچی کا ذکر کیا اور اس نے یہ بھی کہا کہ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں عاد کے ایلچی کی طرح ہوجاؤں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عاد کا ایلچی کون تھا میں نے عرض کیا میں خبر رکھنے والے کے پاس حاضر ہوں۔ قوم عاد پر جب قحط پڑا تو انہوں نے ایک سردار کو بھیجا وہ بکر بن معاویہ کے پاس آیا اس نے اس کو شراب پلائی اور دو ٹڈیاں اس کے پاس بھنبھناتی رہی پھر وہ مہرہ کے پہاڑوں کے ارادہ سے نکلا اور کہا اے اللہ کہ میں تیرے پاس کسی مریض کے لئے نہیں آیا کہ میں اس کا علاج کروں اور نہ میں کسی قیدی کے لئے آیا ہوں کہ میں اس کا فدیہ دوں تو اپنے بندے کو پلاتو اسے پلاسکتا ہے۔ اور اس کے ساتھ بکر بن معاویہ کو بھی پلا کہ یہ اس کے لئے اس شراب کا شکر یہ ادا کرنا چاہتا تھا تو جو اس نے اس کو پلائی تھی اتنے میں اس کے لئے ہلاکت اور مدد کے لئے جو قوم عاد میں سے کسی کو نہ چھوڑے گا اور آپ نے بیان فرمایا کہ ان پر ہوا نہیں بھیجی گئی مگر انگوٹھی کے حلقہ کے بقدر پھر یہ آیت پڑھی (آیت ) '' وفی عاد اذارسلنا علیہم الریح العقیم (41) ما تذر من شیء اتت علیہ الا جعلتہ کالرمیم '' (اور عاد کے قصہ میں بھی عبرت ہے جبکہ ہم نے ان پر نامبارک آندھی بھیجی وہ جس چیز پر سے گزری تھی اس کو ریزہ ریزہ خاک کی طرح کرکے چھوڑتی تھی )
Top