Dure-Mansoor - An-Najm : 42
وَ اَنَّ اِلٰى رَبِّكَ الْمُنْتَهٰىۙ
وَاَنَّ اِلٰى رَبِّكَ : اور بیشک تیرے رب کی طرف الْمُنْتَهٰى : پہنچنا ہے۔ انتہا ہے
اور یہ کہ تیرے رب کے پاس پہنچنا ہے
1:۔ ابن جریر (رح) وابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس ؓ ، الدارقطنی فی الافراد اور البغوی نے اپنی تفسیر میں ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے (آیت ) '' وان الی ربک المنتھی '' کے بارے میں فرمایا کہ رب تعالیٰ کے بارے میں سوچ وبچار نہیں ہے۔ اور سفیان ثوری (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) '' وان الی ربک المنتھی '' (اور سب کو آپ کے رب کے پاس پہنچنا ہے) سے مراد ہے کہ نہیں ہے سوچ وبچار رب تعالیٰ کے بارے میں۔ 2:۔ ابوالشیخ نے ابن عباس ؓ سے رویت کیا کہ نبی کریم ﷺ ایک قوم پر سے گزرے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں غورفکر کررہے تھے آپ نے فرمایا مخلوق میں غوروفکر کرو اور خالق میں غوروفکر نہ کرو کیونکہ تم اس پر ہرگز قادر نہیں ہوسکتے۔ 3:۔ ابوالشیخ نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کی مخلوق میں غور کرو اور اللہ کے بارے میں غور وفکر نہ کرو ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے۔ اللہ کی مخلوق میں غور کی جائے۔ 4:۔ ابوالشیخ نے یونس بن میسرہ (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کے پاس تشریف لائے اور وہ اللہ کی عظمت کا ذکر کررہے تھے آپ نے پوچھا تم کس چیز کا ذکر کررہے تھے انہوں نے عرض کیا ہم اللہ کی عظمت کے بارے میں غور وفکر کررہے تھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خبردار اللہ کے بارے میں غور وفکر نہ کرو تین مرتبہ فرمایا (اور فرمایا) خبردار اللہ تعالیٰ کی عظیم مخلوق میں غوروفکر کرو جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی اس کو تین مرتبہ فرمایا۔ 5:۔ ابوالشیخ نے ابوامیہ مولی شبرمہ (رح) سے (اس کا نام حکم ہے) اور اس نے کوفہ کے بعض آئمہ کرام سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے کچھ لوگ گفتگو کررہے تھے آپ نے ان کا ارادہ فرمایا (یعنی ان کے پاس تشریف لائے) تو وہ خاموش ہوگئے۔ آپ نے پوچھا تم کیا باتیں کررہے تھے ؟ انہوں نے کہا ہم سورج کی طرف دیکھ رہے تھے اور ہم اس کے بارے میں غور وفکر کررہے تھے کہ یہ کہاں سے آتا ہے اور کہاں جاتا ہے۔ اور ہم اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں غور کررہے تھے آپ نے فرمایا اسی طرح اللہ کی مخلوق میں غور کرتے رہو اور اللہ تعالیٰ کی ذات میں غور نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مغرب کے پیچھے سفید زمین ہے اس کی سفیدی اور اس کا نور سورج سے چالیس دنوں کے فاصلہ پر ہے۔ اس میں ایک مخلوق ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا لہذا تم پلک جھپکنے تک بھی اللہ کی نافرمانی نہ کرو کہا گیا یارسول اللہ ! وہ آدم کی اولاد میں سے ہیں۔ فرمایا وہ نہیں جانتے کہ آدم (علیہ السلام) پیدا کئے گئے یا نہیں پھر پوچھا گیا اے اللہ کے نبی ! ابلیس ان سے کہاں ہے ؟ فرمایا وہ نہیں جانتے کہ ابلیس کو پیدا کیا گیا یا نہیں پیدا کیا گیا۔ 6:۔ ابوالشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم مسجد میں حلقہ بنائے ہوئے بیٹھے تھے ہم کو فرمایا تم کس بارے میں سوچ رہے ہو ؟ ہم نے عرض کیا ہم غور وفکر کررہے ہیں سورج کے بارے میں وہ کس طرح طلوع ہوتا ہے کس طرح غروب ہوتا ہے ؟ـ فرمایا تم نے اچھا کیا تم اس طرح کیا کرو تم مخلوق میں غور وفکر کرو اور خالق میں غوروفکر نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا جو چاہا جب چاہا اور اس سے تم تعجب کرو گے بیشک کے نیچے سات سمندر ہیں ہر سمندرپانچ سو برس کا ہے اور ان سات زمینیں ہیں ان کا نور اس کے رہنے والوں کے لئے چمکتا ہے۔ اور ان سات زمینوں سے آگے ستر ہزار امتیں ہیں جن کو پرندوں کی شکل میں پر پیدا کیا گیا وہ اور اس کے بچے ہوا میں ہیں وہ ایک تسبیح سے بھی غافل اور سست نہیں ہوتے اور اس کے آگے ستر ہزار امتیں اور ہیں جن کو ہو اسے پیدا کیا گیا ان کا کھانا اور ان کا پینا ہوا ہے۔ ان کے کپڑے ہوا کے ہیں ان کے برتن بھی ہوا سے ہیں اور ان کے چوپائے بھی ہوا کے ہیں تم یہ خواہش نہ کرو انکو زمین کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے قیامت کے قائم ہونے تک ان کی آنکھیں ان کے سینوں میں ہیں۔ ان میں سے ہر کوئی ایک ہی بار سوتا ہے پھر وہ جاگ جاتا ہے اور اس کے سر کے پاس اس کا رزق ہوتا ہے اور اس کے آگے عرش کا سایہ ہے اور عرش کے سائے میں ستر ہزار امتیں ہیں وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا فرمایا اور نہ آدم کی اولاد کو اور نہ ابلیس کو اور نہ کی اولاد کو۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے (آیت) '' ویخلق مالا تعلمون '' ( اور وہ پیدا فرماتے ہیں جو تم نہیں جانتے )
Top