Dure-Mansoor - Al-Hadid : 16
اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ١ۙ وَ لَا یَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ
اَلَمْ يَاْنِ : کیا نہیں وقت آیا لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے ہیں اَنْ تَخْشَعَ : کہ جھک جائیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل لِذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کے ذکر کے لیے وَمَا نَزَلَ : اور جو کچھ اترا مِنَ الْحَقِّ ۙ : حق میں سے وَلَا يَكُوْنُوْا : اور نہ وہ ہوں كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح اُوْتُوا الْكِتٰبَ : جو دیئے گئے کتاب مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل فَطَالَ : تو لمبی ہوگئی عَلَيْهِمُ الْاَمَدُ : ان پر مدت فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ۭ : تو سخت ہوگئے ان کے دل وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ : اور بہت سے ان میں سے فٰسِقُوْنَ : نافرمان ہیں
کیا ایمان والوں کے لیے اس کا وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر کے لیے اور جو دین حق نازل ہوا ہے اس کے سامنے جھک جائیں اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں اس سے پہلے کتاب دی گئی پھر ان پر زمانہ دراز گزر گیا سو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے بہت سے فاسق تھے
1۔ عبد بن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس کو یوں پڑھا آیت۔ الم یان للذین اٰمنوا۔ 2۔ ابن مردویہ نے انس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے مرفوع حدیث بیان کی کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے قرآن کے نازل ہونے کے سترہ سال بعد مہاجرین کے دلوں میں جھکنے میں تاخیر اور آہستگی کو پایا۔ تو یہ آیت اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی آیت الم یان للذین اٰمنوا ان تخشع قلوبہم لذکر اللہ۔ کیا ایمان والوں کے لیے ابھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی نصیحت اور اس دین حق کے سامنے جھک جائیں یاد الٰہی کے لیے۔ 6۔ ابن المبارک نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت اعلموا ان اللہ یحییٰ الارض بعد موتہا۔ تم جان لو کہ اللہ تعالیٰ زمین کو زندہ فرماتے ہیں اس کے مرنے کے بعد یعنی دلوں کو نرم کردیتے ہیں ان کی سختی کے بعد۔ 8۔ ابن المنذر وابن مردویہ والطبرانی والحاکم وصححہ نے عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ ابن مسعود ؓ نے اس بات کی خبردی کہ ان کے اسلام اور آیت کے نازل ہونے کے درمیان جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انکو عتاب فرمایا چارسال کا وقفہ ہے۔ اور وہ نہیں ہوں گے ان اہل کتاب کی طرح جن کو کتاب دی گئی اس سے پہلے۔ اور ان پر مدت لمبی ہوگئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں۔ 9۔ ابو یعلی وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت۔ الم یان للذین اٰمنوا ان تخشع قلوبہم لذکر اللہ نازل ہوئی ہم میں سے بعض لوگ بعض کے پاس آئے اور پوچھنے لگے کہ ہم نے کون سی بات کی ہے۔ اور ہم نے کون ساکام کیا ؟ کہ ہم پر عتاب نازل ہوا۔۔ 10۔ ابن ابی حاتم وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مہاجرین کے دلوں کو ذرا سست پایا تو نزول قرآن کے تیرھویں سال کے شروع پر ان کو عتاب فرمایا اور فرمایا آیت الم یان للذین اٰمنوا۔ الایۃ۔ 11۔ ابن ابی شیبہ نے المصنف میں عبدالعزیز بن ابی رداد ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ کے اصحاب سے ہنسی مذاق کا اظہار ہوا تو یہ آیت۔ الم یان للذین اٰمنو نازل ہوئی۔ 12۔ ابن ابی حاتم نے مقاتل بن حیان ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ کے اصحاب کسی چیز کے بارے میں مذاق کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آیت الم یان للذین اٰمنو۔ 13۔ ابن المبارک وعبد الرزاق وابن المنذر نے اعمش (رح) سے روایت کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ کے اصحاب مدینہ منورہ آئے اور ان کو زندگی کی خوش حالی پہنچی جبکہ اس سے پہلے ان کی زندگی سختی اور مشقت والی تھی۔ تو انہوں نے بعض ایسے کام چھوڑدئیے جو پہلے کرتے تھے۔ تو اس پر وہ عتاب کیے گئے اور یہ آیت۔ الم یان للذین اٰمنوا ان تخشع قلوبہم نازل ہوئی۔ 14۔ ابن ابی حاتم نے سدی کے طریق سے قاسم (رح) سے روایت کیا کہ نبی ﷺ کے اصحاب سخت اکتاگئے اور عرض کیا یارسول اللہ ! ہم کو بیان کیجیے توا للہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ آیت نحن نقص علیک احسن القصص (یوسف : آیت 2) ہم تیرے پاس بہت اچھا قصہ بیان کرتے ہیں) پھر وہ اکتائے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ہم کو بیان فرمائیے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت۔ الم یان للذین اٰمنوا نازل فرمائی۔ 15۔ ابن مردویہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم پر مدت طویل نہیں ہوئی کہ تمہارے دل سخت ہوجائیں خبردار ! ہر وہ چیز جو آنے والی ہے وہ قریب ہے۔ خبردار وہ چیز دور ہے جو آنے والی نہیں ہے۔ 16۔ ابن مردویہ نے ابن مسعود ؓ سے مرفوعا روایت کیا۔ بنی اسرائیل کی سخت دلی کا ذکر 17۔ سعید بن منصور اور بیہقی نے شعب میں عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ بنی اسرائیل پر جب مدت لمبی ہوگئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور انہوں نے اپنے پاس سے ایک کتاب کو گھڑ لیا۔ ان کے دل اس سے متحیر ہوگئے ان کی زبانوں نے اسکو حلال کرلیا۔ اور حق ان کے اور ان کی بہت سی شہوات کے درمیان حائل تھا۔ یہاں تک کہ انہوں نے اللہ کی کتاب کو اپنی پیٹھ پیچھے پھینک دیا گویا کہ وہ اس کو جانتے بھی تھے اور کہجے لگے اس کتاب کو بنی اسرائیل پر پیش کرو اگر وہ تمہاری تابعداری کریں تو ان کو چھوڑ دو اگر وہ تمہاری مخالفت کریں تو ان کو قتل کردو۔ انہوں نے کہا نہیں بلکہ اس کو ان علماء میں فلاں آدمی کو بلابھیجو اور اس پر یہ کتاب پیش کرو۔ اگر اس نے تمہاری تابع داری کی تو اس کے بعد ہرگز تمہاری کوئی مخالفت نہیں کرے گا۔ اگر وہ تمہاری مخالفت کرے تو اسے قتل کردو۔ اس کے بعد پھر کوئی تمہاری مخالفت نہیں کرے گا۔ تو انہوں نے اس کو بلابھیجا تو اس نے ایک ورقہ لیا اور اس کے اوپر لکھا اس میں کتاب اللہ ہے۔ پھر اس کو اپنی گردن میں ڈال دیا۔ اس کے اوپر کپڑے پہن لیے پھر انہوں نے اس پر کتاب کو پیش کیا اور کہا کیا تو اس پر ایمان لایا اس نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا اور کہا میں اس پر ایمان لایا اور میرے لیے کیا ہے کہ میں اس پر ایمان نہ لاؤں۔ یعنی وہ کتاب جس میں قرآن ہے تو انہوں نے اس کا راستہ چھوڑدیا اس کے کچھ ساتھی تھے جو اس کے ساتھ رہا کرتے تھے جب وہ مرگیا تو انہوں نے اس کتاب کو پایا جس میں قرآن ہے تو انہوں نے اس کا راستہ چھوڑدیا اس کے کچھ ساتھی تھے جو اس کے ساتھ رہا کرتے تھے جب وہ مرگیا تو انہوں نے اس کتاب کو پایا جس میں قرآن تھا جو اس پر لٹکا ہو تھا۔ انہوں نے کہا کیا تم نہیں دیکھتے اس کے قول کی طرف کہ میں اس پر ایمان لایا اور میرے لیے کیا ہے کہ میں اس پر ایمان نہ لاؤں اور بلاشبہ اس کی مراد یہ کتاب تھی۔ بنواسرائیل نے ستر سے کچھ اوپر ملتوں پر اختلاف کیا یعنی ستر سے اوپر فرقوں میں بٹ گئے اور ان میں سے سب سے بہترین مذہب صاحب قرآن کے اصحاب کا ہے۔ عبداللہ ؓ نے فرمایا جو تم میں سے باقی ہوگا وہ عنقریب منکر اور گناہ کے عمل کو دیکھے گا۔ اور آدمی کے لیے یہ کافی ہوگا کہ وہ گناہ کو دیکھے گا مگر اس کو تبدیل نہیں کرسکے گا اس طرح پر کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل کو جانتے ہیں کہ وہ اس کو ناپسند کرنے والا ہے۔ 18۔ ابن المنذر نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ جب آپ اس آیت الم یان للذین اٰمنوا ان تخشع قلوبہم لذکر اللہ کی تلاوت کرتے تھے تو فرماتے تھے کیوں نہیں اے میرے رب، کیوں نہیں اے میرے رب۔ 19۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے اس بارے میں روایت کیا کہ شداد بن اوس ؓ نے فرمایا کہ سب سے پہلی چیز جو لوگوں سے اٹھالی جائے گی وہ خشوع ہوگا۔ 20۔ عبد بن حمید وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ” الامد “ سے مراد ہے زمانہ۔ 21۔ ابن ابی شیبہ نے ابو حرب بن ابی الاسود سے روایت کیا اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ابوموسی اشعری ؓ نے قاریوں کو جمع کیا اور فرمایا تم پر ہرگز کوئی داخل نہ ہو قرآن جمع کرنے والون خے سوا یعنی حفاظ قرآن داخل ہوں تو ہم تین سو آدمی اندر داخل ہوئے اور آپ نے ہم کو وعظ فرمایا اور فرمایا تم لوگ اس شہر کے قراء ہو اللہ کی قسم ! تم پر مدت ضرور لمبی ہوجائے گی پھر تمہارے دل سخت ہوجائیں گے۔ جیسے اہل کتاب کے دل سخت ہوگئے۔
Top