Dure-Mansoor - Al-Hashr : 9
وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَیْهِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ١۫ؕ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ
وَالَّذِيْنَ : اور جن لوگوں نے تَبَوَّؤُ : انہوں نے قرار پکڑا الدَّارَ : اس گھر وَالْاِيْمَانَ : اور ایمان مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے يُحِبُّوْنَ : وہ محبت کرتے ہیں مَنْ هَاجَرَ : جس نے ہجرت کی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف وَلَا يَجِدُوْنَ : اور وہ نہیں پاتے فِيْ : میں صُدُوْرِهِمْ : اپنے سینوں (دلوں) حَاجَةً : کوئی حاجت مِّمَّآ : اس کی اُوْتُوْا : دیا گیا انہیں وَيُؤْثِرُوْنَ : اور وہ اختیار کرتے ہیں عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانوں پر وَلَوْ كَانَ : اور خواہ ہو بِهِمْ خَصَاصَةٌ ڵ : انہیں تنگی وَمَنْ يُّوْقَ : اور جس نے بچایا شُحَّ نَفْسِهٖ : بخل سے اپنی ذات کو فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ هُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
اور جنہوں نے گھر کو ٹھکانے کے طور پر دیا اور ایمان کو ٹھکانہ دیا اس سے پہلے وہ محبت رکھتے ہیں ان سے جو ان کی طرف ہجرت کر کے جاتے ہیں اور اپنے فلوں میں کوئی حاجت نہیں پاتے اس کی طرف سے جو انہیں دیا گیا اور وہ اپنی جانوں پر مہاجرین کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود ان کے ساتھ فاقہ ہی کیوں نہ ہو اور جسے اپنے نفس کے بخل سے بچالیا گیا تو یہی فلاح پانے والے ہیں
2۔ عبد بن حمید وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے آیت والذین تبوؤ الدار والایمان (آیت کے آخر تک) کے بارے میں روایت کیا کہ آیت میں انصار کے قبیلے کے وہ لوگ مراد ہیں جو اپنے گھروں میں مشرف باسلام ہوئے اور نبی ﷺ کی تشریف آوری کے دو سال پہلے انہوں نے مسجدیں بنالیں تھیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہاں تعریف فرماکر ان پر احسان فرمایا اور یہی وہ پہلی دو جماعتیں ہیں جنہوں نے اس آیت سے اپنی فضیلت کو پالیا۔ اور دونوں اس خیر اور بھلائی پر چلتے رہے اور اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کا حصہ اس مال فئی میں بیان فرمادیا پھر تیسری جماعت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا آیت والذین جاء و من بعدہم یقولون ربنا اغفرلنا ولاخواننا۔ اور وہ لوگ جو ان کے بعد آئے وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب ہم کو بخش دیجیے اور ہمارے بھائیوں کو بھی آیت کے آخرت۔ فرمایا وہ حکم دئیے گئے کہ وہ نبی ﷺ کے اصحاب کے لیے استغفار کریں اور ان کو گالیاں دینے کی اجازت نہیں دی گئی۔ 3۔ عبد بن حمید وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے آیت والذین تبوؤ الدار والایمان من قبلہم کے بارے میں روایت کیا کہ اس آیت میں انصار کی سخاوت کی تعریف ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان میں اس ایمان اور مہاجرین کے لیے ان کے ایثار اور قربانی کو دیکھا کیو کہ اس مال فے سے انصار کو کوئی چیز نہیں ملی تھی۔ انصار صحابہ کا ایثار 4۔ عبد بن حمید وابن المنذر نے یزید بن اصم ؓ سے روایت کیا کہ انصار نے کہا یا رسول الہ ! کہ ہمارے اور ہمارے مہاجرین بھائیوں کے درمیان زمین کو آدھا آدھا تقسیم کردیجیے۔ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ وہ تمہارے ساتھ محنت ومشقت میں مدد کریں گے اور تم ان کو پھلوں میں سے حصہ عطا کروگے اور زمین تمہاری ہی رہے گی تو انہوں نے کہا ہم اس پر راضی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی آیت والذین تبوؤ الدار والایمان من قبلہم آیت کے آخرتک۔ 5۔ عبدالرزاق وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن المنذر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ مہاجرین کو انصار پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے سینوں میں ان کے بارے میں کوئی حسد نہیں پایا۔ 6۔ ابن ابی شیبہ والبخاری وابن مردویہ نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو مہاجرین اولین کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ ان کے حقوق کو پہچانے اور ان کی عزت کی حفاظت کرے اور میں اسے ان انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں جو نبی مکرم ﷺ کی ہجرت سے پہلے دار الہجرت میں مقیم رہے اور ایمان میں ثابت قدم رہے کہ وہ ان کی نیکیوں اور اعمال خیر کو قبول کرے اور ان کی خطاؤں اور غلطیوں کو معاف کرے۔ 7۔ زبیر بن بکار نے اخبار المدینہ میں زید بن اسلم ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مدینہ کے لیے دس نام ہیں وہ مدینہ ہے، طیبہ ہے، طابہ ہے، مسکینہ ہے، جابرہ ہے، مجبورہ ہے، تبدد ہے، یثرب ہے، اور دار ہے۔ 8۔ ابن ابی شیبہ والبخاری ومسلم والترمذی والنسائی وابن جریر وابن المنذر والحاکم وابن مردویہ اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ ! مجھے مشقت اور فاقہ پہنچ گیا ہے۔ آپ نے اپنی بیویوں کی طرف پیغام بھیجا مگر ان کے پاس کچھ نہ پایا۔ تو پھر آپ نے فرمایا کون آدمی ہے جو اس رات مہمان نوازی کرے اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے۔ انصار میں سے ایک آدمی نے کہا اور دوسری روایت میں ہے کہ ابو طلحہ انصاری ؓ نے کہا یا رسول اللہ ! میں مہمان نوازی کروں گا۔ وہ اس کو اپنے گھر لے گیا اور اپنی بیوی سے فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ کے مہمان کا اکرام کرے تو کوئی چیز بچا کر رکھنا۔ اس نے کہا اللہ کی قسم ! میرے پاس کچھ نہیں ہے سوائے بچوں کی خوراک کے، صحابہ نے کہا جب بچوں کے رات کے کھانے کا وقت ہو۔ ان کو سلادینا اور چراغ کو بجھا دینا۔ آج رات ہم اپنے پیٹ کو بھوکا رکھیں گے۔ رسول اللہ ﷺ کے مہمان کے لیے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ پھر صبح کو وہ مہمان نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فلاں مرد اور فلاں عورت سے خوش ہوئے اور ان دونوں کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی آیت ویثرون علی انفسہم ولوکان بہم خصاصہ۔ اور ان کو اپنے سے مقدم رکھتے ہیں خواہ ان پر خود فاقہ ہو۔ ثابت بق قیس انصاری ؓ کا واقعہ 9۔ مسدد فی مسندہ وابن ابی الدنیا فی کتاب قری الضیف وابن المنذر نے ابو المتوکل الناجی (رح) سے روایت کیا کہ مسلمانوں میں سے ایک آدمی نے تین دن مسلسل روزہ رکھا شام ہوتی تو افطار کے لیے کوئی چیز نہ پاتا۔ پھر صبح کو روزہ رکھ لیتا یہاں تک کہ انصار میں سے ایک آدمی جس کو ثابت بن قیس ؓ کہا جاتا تھا اسے اس بارے میں معلوم ہوا تو اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ آج رات میں اپنے ایک مہمان کو لاؤں گا۔ جب تم اپنا کھانا رکھ دو پھر تم میں سے کوئی آدمی چراغ کی طرف کھڑا ہوجائے گویا کہ وہ اس کی اصلاح کر رہا ہے۔ پھر وہ اس کو بچھا دے۔ پھر تم اپنے ہاتھوں کو کھانے کی طرف بڑھاتے رہنا گویا کہ تم کھا رہے ہو اور ان لوگوں نے نہ کھایا یہاں تک کہ ان کے مہمان نے پیٹ بھرلیا۔ اور ان کا کھانا ایک روٹی ہوتی تھی۔ اور یہ ان کی خوراک تھی۔ جب ثابت ؓ صبح کے وقت رسول اللہ ﷺ کی طرف پہنچے آپ نے فرمایا اے ثابت گزشتہ رات اللہ تعالیٰ تم سے اور تمہارے مہمان سے بہت خوش ہوئے۔ تو یہ آیت نازل ہوئی آیت ویوثرون علی انفسہم ولو کان بہم خصاصہ۔ 10۔ الحاکم وصححہ وابن مردویہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے ایک صحابی کو بکری کا سر بطور ہدیہ دیا گیا۔ تو اس نے کہا بلاشبہ میرا فلاں بھائی اور اس کے اہل و عیال میری نسبت اس کے زیادہ ضرورت مند ہیں تو اس نے وہ سر ان کی طرف بھیج دیا۔ اسی طرح ایک آدمی مسلسل دوسرے کی طرف بھیجتا رہا۔ یہاں تک کہ سات گھروں سے گھوم کر بکری کا سر دوبارہ پہلے والے آدمی کے پاس آگیا۔ تو یہ آیت نازل ہوئی۔ آیت ویوثرون علی انفسہم ولوکان بہم خصاصہ۔ 11۔ ابن ابی حاتم نے مقاتل (رح) سے روایت کیا کہ آیت ویوثرون علی انفسہم ولوکان بہم خصاصہ سے مراد ہے فاقہ۔ 12۔ فریابی و سعید بن منصور وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والطبرانی والحاکم وصححہ وابن مردویہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے ان سے کہا میں خوف کرتا ہوں کہ میں ہلاک ہوجاؤں گا۔ تو آپ نے پوچھا یہ کیسے ؟ اس نے کہا میں نے اللہ تعالیٰ کو یہ فرماتے ہوئے سنا آیت ومن یوق شح نفسہ فاولئک ہم المفلحون اور جو شخص اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا جائے پس وہی لوگ کامیاب ہیں۔ اور میں حریص اور لالچی آدمی ہوں۔ قریب نہیں ہے کہ مجھ سے کوئی چیز خارج ہوجائے۔ ابن مسعود ؓ نے اس سے فرمایا۔ حرص نہیں ہے لیکن وہ بخل ہے اور بخل میں کوئی خیر نہیں۔ اور وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر فرمایا (وہ یہ ہے) کہ تو اپنے بھائی کا مال ظلم کے طور پر کھائے۔ 13۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن مردویہ نے ابن عمر ؓ نے آیت ومن یوق شح نفسہ فاولئک ہم المفلحون کے بارے میں روایت کیا کہ شحیح وہ نہیں ہے جو اپنے مال کو روک لے لیکن یہ تو بخل ہے اور یہ برا ہے۔ اور شح کا معنی یہ ہے کہ آدمی کی آنکھ کا اٹھنا اس چیز کی طرف جو اس کی نہیں ہے۔ 14۔ ابن المنذر نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ ایسی عورت کی طرف دیکھنا جس کا وہ مالک نہیں ہے یہ شح ہے۔ 15۔ ابن المنذر نے طاؤس (رح) سے روایت کیا کہ بخل یہ ہے کہ انسان اس چیز میں بخل کرے جو اس کے ہاتھوں میں ہے اور ” شح “ یہ ہے کہ ان چیزوں پر حریص ہو جو لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ 16۔ ابن جریر وابن المنذر وابن عساکر نے عبدالرحمن بن عوف ؓ سے روایت کیا کہ وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے تو یہ دعا کر رہے تھے۔ اے اللہ مجھے نفس کے حرص سے بچا اور اس سے زیادہ کچھ نہیں کہتے تھے ان سے کہا گیا کہ آپ صرف یہ دعا کیوں پڑھتے ہیں تو انہوں نے فرمایا جب مجھے میرے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو میں نہ چوری کروں گا نہ زنا کروں گا اور نہ ہی میں نے اس قسم کا کوئی کام کیا۔ 17۔ عبد بن حمید وابن المنذر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ آیت سے مراد ہے حرام کو داخل کرنا زکوٰۃ کو روکنا۔ 18۔ ابن المنذر نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کی تو وہ اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا۔ حرص اور بخل میں فرق 19۔ الخرائطی نے مساوی الاخلاق میں ابن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ حرص زیادہ سخت ہے بخل سے، کہ حریص اس چیز کا حریص ہوتا ہے جو اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے، اور اس کو روک لیتا ہے اور حرص کرتا ہے ان چیزوں میں جو لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں یہاں تک کہ وہ اسے لے لے۔ اور بخیل صرف اس چیز پر بخل کرتا ہے جو اس کے اپنے ہاتھ میں ہو۔ 20۔ ابن ابی الدنیا نے کتاب ذم البخل میں انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جنت عدن کو پیدا فرمایا پھر اس سے فرمایا بول اس نے کہا آیت قد افلح المومنون ایمان والے کامیاب ہوگئے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا میری عزت اور میرے جلال کی قسم ! کہ تجھ میں کوئی بخیل داخل نہ ہوگا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی آیت ومن یوق شح نفسہ فاولئک ہم المفلحون۔ 21۔ ابن مردویہ نے جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو میں نے یہ فرماتے ہوئے سنا : تین عمل جس میں ہوں گے وہ حرص سے بری ہوگا۔ جس نے اپنے مال میں سے زکوٰۃ ادا کی۔ اور مہمان کی مہمان نوازی کی اور مصائب اور قحط کے وقت لوگوں کو اپنے مال سے عطا کیا۔ 22۔ الحکیم الترمذی وابو یعلی وابن مردویہ نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی چیز اسلام کو ثابت کرنے والی کبھی بھی شح کو ثابت نہیں کرتی۔ 23۔ ابن مردویہ نے ابو زرعہ (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کے دل میں فقر ہو اس کو مال کی کثرت بھی غنی نہیں کرسکتی جو اس کو دنیا میں مل جائے اور بلاشبہ اسے نفس کا حرص نقصان دیتا ہے۔ 24۔ عبد بن حمید نے مجمع بن یحییٰ بن جاریہ (رح) سے روایت کیا کہ مجھے میرے چچا خالد بن یزید بن جاریہ ؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شخص حرص سے بری ہے جس نے زکوٰۃ ادا کی۔ مہمان کی مہمان نوازی کی اور مصیبت و تکلیف کی حالت میں کسی کو کچھ دیا۔ 25۔ ابن ابی شیبہ والنسائی والحاکم وصححہ اور بیہقی فی الشعب میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے راستے کا غبار اور جہنم کا دھواں کسی بندے کے پیٹ میں کبھی جمع نہیں ہوگا۔ اور ایمان اور حرص بھی کسی بندے کے پیٹ میں کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔ بخل وبدگمانی کی مذمت 26۔ ترمذی و بیہقی نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو چیزیں کسی مسلمان کے پیٹ میں جمع نہیں ہوسکتیں بخل اور بدگمانی۔ 27۔ ابن ابی شیبہ وابوداوٗد ابن مردویہ اور بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کسی آدمی میں سب سے بڑا شر غمزدہ کردینے والا حرص ہے اور وہ بزدلی ہے جو خواہشات کا بندہ بنادے۔ 28۔ احمد و بخاری فی الادب ومسلم اور بیہقی نے جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ظلم کرنے بچو، کیونکہ ظلم قیامت کے دن اندھیریاں ہوں گی۔ اور حرص سے بچو کیونکہ حرص نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا ان کو ان کے خون بہانے پر آمادہ کیا اور اپنے محارم کو حلال سمجھنے پر آمادہ کیا۔ 29۔ ابن مردویہ اور بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حرص اور بخل سے بچو۔ ان چیزوں نے تم سے پہلے لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا۔ کہ وہ اپنے رحموں کو قطع کریں تو انہوں نے رحموں کو قطع کیا اور انہیں اس پر ابھارا کہ وہ محارم کو حلال سمجھیں تو وہ انہیں حلال سمجھنے لگے اور ان کو اس طرف دعوت دی کہ وہ اپنے خونوں کو بہائیں تو انہوں نے نے خونوں کو بہایا۔ 30۔ ترمذی و بیہقی نے انس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی وفات پا گیا تو صحابہ ؓ نے کہا اس کو جنت کی خوشخبری ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم نہیں جانتے کہ اس نے بےمقصد بات کی ہو یا ایسی چیز کے بارے میں بخل کیا ہو جو اس کو نہ نفع دے۔ 31۔ بیہقی نے دوسری سند سے انس ؓ عہن سے روایت کیا کہ ایک آدمی احد کے دن مقتول ہوا۔ ایک عورت آئی اور کہا اے میرے بیٹے تجھے شہادت مبارک ہو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو نہیں جانتی شاید اس نے بےمقصد بات کی ہو یا ایسی شیء کے بارے میں بخل کرتا ہو جو اس کے لیے فائدہ مند نہ ہو۔ 2۔ بیہقی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ دو خصلتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں اور دو خصلتیں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں۔ وہ خصلتیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں وہ سخاوت اور سماحت یعنی بخشش کرنا اور دو خصلتیں جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں وہ ہیں برے اخلاق اور بخل۔ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے خیر کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کو لوگوں کی ضروریات پورا کرنے میں لگا دیتے ہیں۔ 33۔ ابن جریر وابن مردویہ اور بیہقی نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سخاوت اللہ تعالیٰ سے دور نہیں لے جاتی۔ بلکہ سخی اللہ کے قریب ہے جب وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ کو پکڑیں گے اور اس کے گناہ معاف کردے گا۔ 35۔ بیہقی نے عمرو بن شعیب سے روایت کیا اور وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس امت کے پہلے دور کے لوگوں کی اصلاح اور سلامتی زہد اور تقویٰ میں ہے اور اس کے آخری دور کے لوگوں کی ہلاکت بخل اور فجور سے ہے۔ سخی اللہ تعالیٰ کا مقرب ہے 36۔ بیہقی وضعفہ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سخی اللہ تعالیٰ کے اور جنت کے قریب ہے اور دوزخ سے دور ہے اور بخیل اللہ تعالیٰ اور جنت سے دور ہے اور دوزخ سے قریب ہے اور جاہل سخی اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے عابد بخیل سے۔ 37۔ بیہقی نے جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سخی اللہ تعالیٰ سے اور جنت سے اور لوگوں سے قریب ہے دوزخ سے دور ہے اور بخیل اللہ تعالیٰ ، جنت سے اور لوگوں سے دور ہے اور دوزخ کے قریب ہے۔ اور جاہل سخی اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے عابد بخیل سے۔ 38۔ ابن عدی فی الکامل اور بیہقی وضعفہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ سخی قریب ہے اللہ تعالیٰ سے جنت سے اور لوگوں کے بھی قریب ہے اور دوزخ سے دور ہے اور بخیل دور ہے اللہ تعالیٰ سے جنت سے اور لوگوں سے اور قریب ہے دوزخ سے۔ اور فاجر سخی اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ محبوب ہے عابد بخیل سے۔ اور بخل سے بڑھ کر کوئی بیماری نہیں۔ 39۔ بیقہی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے قبیلہ بنو سلمہ ! آج تمہارا سردار کون ہے ؟ انہوں نے کہا جد بن قیس لیکن ہم اس کو بخیل پاتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کون سی بیماری ہے جو بخل سے بڑھ کر بیمار کرنے والی ہے لیکن تمہارا سردار عمرو بن الجموح ؓ ہے۔ 40۔ بیہقی نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو آپ نے پوچھا اے بنو سلمہ تمہارا سردار کون ہے ؟ انہوں نے کہا جد بن قیس اور ہم اس کو بخیل پاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا بخیلی سے بڑھ کر مہلک بیماری کون سی ہے۔ بلکہ تمہارا سردار سراپا خیر و برکت عمرو بن الجموع ہے۔ پھر فرمایا زمانہ جاہلیت میں وہ مہمان نوازی کرتا تھا۔ اور فرمایا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی دعوت ولیمہ کیا کرتا تھا جب آپ شادی کرتے تھے۔ 41۔ بیہقی نے الزہری کے طریق سے عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا۔ اے بنو سلمہ ! تمہارا سردار کون ہے ؟ انہوں نے کہا جد بن قیس آپ نے فرمایا تم اسے کس سبب سے سردر مانتے ہو تو انہوں نے کہا کیونکہ وہ ہم میں سے زیادہ مال والا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہم اس کو بخیل بھی گمان کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بخیلی سے بڑھ کر مہلک بیماری کونسی ہے وہ تمہارا سردار نہیں ہے۔ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! پھر ہمارا سردار کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا براء بن معرور تمہارا سردار ہے۔ بیہقی نے کہا یہ روایت مرسل ہے۔ (مرسل ضعیف) 42۔ حاکم نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے بنوعبید ! تمہارا سردار کون ہے ؟ انہوں نے کہا جد بن قیس اس کے باوجود کے وہ بخیل ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا بخیلی سے بڑھ کر مہلک بیماری کونسی ہے ؟ بلکہ تمہارا سردار تمہارے سردار کا بیٹا بشر بن البراء بن معرور ؓ ہے۔ بخیل ومکار جنت سے محروم 43۔ بیہقی نے ابوبکرصدیق ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں بخیل مکار، خیانت کرنے والا اور اپنی ملکیت میں رہنے والوں کے ساتھ بدسلوکی کرنے والا داخل نہ ہوں گے اور سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹانے والے غلام ہوں گے۔ بشرطیکہ انہوں نے اپنے اور اللہ کے درمیان اور اپنے آقاؤں کے درمیان اچھا معاملہ کیا ہوگا یعنی ان ذمہ داریوں کو اچھے طریقے سے ادا کیا ہوگا۔ 44۔ بیہقی نے ابو سہل الواسطی (رح) سے مرفوع حدیث میں روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے اس دین کو چن لیا ہے بلاشبہ اس دین کی سلامتی سخاوت اور اچھے اخلاق کے ساتھ ہے پس تم ان دونوں خصلتوں کے ساتھ اس دین کی تعظیم کرو۔ 45۔ بیہقی من طرق وضعفہ نے جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے جبریل (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بیشک اس دین کو میں نے اپنی ذات کے لیے چن لیا ہے۔ سخاوت اور اچھے اخلاق کے سوا کوئی اس کو سلامت نہیں رکھ سکتا پس تم ان دونوں خصلتوں کے ساتھ اس کی تعظیم کرو جب تک تم اس کے ساتھ زندگی گزارو۔ 46۔ بیہقی وضعفہ نے عبداللہ بن جراد ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم بھلائی کو تلاش کرو۔ تو اس کو چہروں کی خوبصورت کی اور حسن میں تلاش کرو۔ اللہ کی قسم ! نہیں داخل ہوگا دوزخ میں مگ بخیل اور جنت میں کوئی حریص بھی داخل نہ ہوگا۔ بلاشبہ السخاء جنت میں ایک درخت ہے۔ جس کو سخاء کہا جاتا ہے۔ اور الشح دوزخ میں ایک درخت ہے جس کو شح کہا جاتا ہے۔ 47۔ بیہقی وضعفہ نے جعفر بن محمد (رح) سے روایت کیا اور وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اسخاء جنت کے درختوں میں سے ایک درخت ہے اس کی ٹہنیاں دنیا میں لٹکتی ہوئی ہیں۔ جس شخص نے اس کی ٹہنی کو پکڑ لیا تو وہ ٹہنی اس کو وہ جنت کی طرف رہنمائی کرے گی۔ اور بخل دوزخ کے درختوں میں سے ایک درخت ہے اس کی ٹہنیاں دنیا میں لٹکی ہوئی ہیں۔ جس شخص نے اس کی ٹہنی کو پکڑ لیا تو وہ ٹہنی اس کو دوزخ کی طرف لے جائے گی۔ 48۔ بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سخاوت جنت میں ایک درخت ہے جو شخص سخی ہوگا تو اس نے اس میں سے ایک ٹہنی کو پکڑ لیا اور وہ اس ٹہنی کو نہیں چھوڑے گا یہاں تک کہ وہ اس کو جنت میں داخل کردے گی۔ اور بخل دوزخ میں ایک درخت ہے جو شخص بخیل ہوگا تو اس نے اس میں سے ایک ٹہنی کو پکڑ لیا۔ وہ اس ٹہنی کو نہیں چھوڑے گا یہاں تک کہ وہ اس کو دوزخ میں داخل کردے گی۔ 49۔ بیہقی وضعفہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ تیرہ آدمی آئے۔ جو سفر کے کپڑے پہنے ہوئے تھے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا۔ پھر انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! مردوں میں کون سردار ہے ؟ آپ نے فرمایا یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم (علیہم السلام) ہیں پھر انہوں نے کہا۔ آپ کی امت میں کوئی سردار ہے ؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں۔ وہ آدمی جو حلال مال اور رزق اور سخاوت دیا گیا۔ تو وہ فقیر کے قریب ہوا اور لوگوں میں اس کی شکایت کم ہوگئی۔ 50۔ بخاری ومسلم و نسائی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بخیل اور صدقہ کرنے والے کی مثال بیان فرمائی۔ جیسے مثال دو آدمیوں کی کہ ان پر دو لوہے کے جبے ہیں کہ ان کے دونوں ہاتھ ان کی چھاتیوں اور ان کی ہنسلیوں کے ساتھ جکڑے ہوئے ہیں۔ جب بھی اس نے صدقہ دیا تو وہ اس سے کھل گیا۔ یہاں تک کہ وہ اس کے پوروں کو ڈھانپ لیتا ہے اور اس کے نشانات کو مٹا دیتا ہے اور بخیل جب کبھی صدقہ کا ارادہ کرتا ہے تو وہ جبہ اور سکڑ جاتا ہے اور ہر حلقہ اپنی جگہ بنالیتا ہے۔ پس وہ آدمی اس کو کھلا کرتا ہے مگر وہ کھلا نہیں ہوتا۔ سخی آدمی کا قتل سے بچ جانا 51۔ زبیر بن بکار نے الموفقیات میں عبداللہ بن ابی عبیدۃ بن محمد بن عمار بن یاسر ؓ سے روایت کیا کہ خالد بن ولید ؓ روم کی سرزمین کی جانب سے نبی ﷺ کے پاس کچھ قیدی لے آئے۔ آپ نے ان پر اسلام پیش کیا۔ تو انہوں نے انکار کیا۔ تو آپ نے ان کی گردنیں ماردینے کا حکم دے دیا۔ یہاں تک کہ جب ان کے آخری آدمی کے پاس آئے۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا اے خالد ! اس آدمی سے رک جاؤ قتل نہ کرو۔ عرض کیا یارسول اللہ ! پوری قوم میں مجھ پر اس سے بڑھ کر شدید اور سخت آدمی کوئی نہ تھا۔ آپ نے فرمایا یہ جبریل (علیہ السلام) ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ کو یہ خبر دے دے رہے ہیں کہ یہ اپنی قوم میں سخی ہے اس سے رک جاؤ۔ پھر وہ رومی آدمی مسلمان ہوگیا۔
Top