Dure-Mansoor - Al-An'aam : 96
فَالِقُ الْاِصْبَاحِ١ۚ وَ جَعَلَ الَّیْلَ سَكَنًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ حُسْبَانًا١ؕ ذٰلِكَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ
فَالِقُ : چیر کر (چاک کر کے) نکالنے والا الْاِصْبَاحِ : صبح وَجَعَلَ : اور اس نے بنایا الَّيْلَ : رات سَكَنًا : سکون وَّالشَّمْسَ : اور سورج وَالْقَمَرَ : اور چاند حُسْبَانًا : حساب ذٰلِكَ : یہ تَقْدِيْرُ : اندازہ الْعَزِيْزِ : غالب الْعَلِيْمِ : علم والا
وہ پھاڑنے والا ہے صبح کا اور اس نے بنایا رات کو آرام کی چیز، اور اس نے چاند اور سورج کو ایک خاص حساب سے رکھا ہے، یہ مقرر کرنا ہے اس کا جو غالب ہے علم والا ہے۔
(1) ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت فالق الاصباح یعنی پیدا کیا رات کو اور دن کو۔ (2) ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت فالق الاصباح یعنی دن کے وقت سورج کی روشنی ہے اور رات کے وقت چاند کی روشنی ہے۔ (3) ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت فالق الاصباح سے مراد ہے فجر کا روشن ہونا۔ (4) عبد الرزاق، عبد بن حمید اور ابن منذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت فالق الاصباح یعنی صبح کو نکالنا ہے۔ (5) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت فالق الاصباح یعنی دن کے نور کو نکالنے والا۔ (6) امام ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت وجعل الیل سکنا یعنی آرام کرتا ہے اس میں ہر پرندہ اور جانور۔ (7) امام ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت والشمس والقمر حسبانا یعنی گنتی دنوں کی مہینوں کی اور سالوں کی۔ (8) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت والشمس والقمر حسبانا یعنی سورج کو اور چاند گھومتے ہیں حساب سے۔ (9) امام عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت حسبانا یعنی روشنی۔ (10) امام ابو الشیخ نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت والشمس والقمر حسبانا سے مراد ہے کہ سورج اور چاند خاص حساب کے ساتھ ہیں جب ان کے مقرر دن گزر جائیں گے تو یہ آخری زمانہ ہوگا اور پہلی بڑی گھبراہٹ یعنی قیامت کی ابتداء ہوگی۔ (11) امام ابو الشیخ نے عظمۃ میں سند واہی کے ساتھ ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے سمندر کو پیدا فرمایا آسمان کے نیچے تین فرسخ کی مقدار پر اور وہ ایک موج ہے روکی ہوئی جو قائم ہے ہوا میں اللہ کے حکم سے۔ اس میں سے ایک قطرہ بھی نہیں ٹپکتا وہ جاری ہے تیر کی تیزی کی طرح اس میں سورج چاند اور ستارے چلتے ہیں اس کو فرمایا لفظ آیت کل فی فلک یسبحون (الانبیاء آیت 33) فلک ایک پہیہ کا گھومنا ہے اس سمندر کی گہرائی میں جب اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں کہ سورج گرہن ہوجائے تو سورج گر جاتا ہے پہیہ سے اور اس سمندر کی گہرائی کے ظاہر کرنے کا واقع ہوجاتا ہے۔ جب ارادہ فرماتے ہیں بڑی نشانی پر تو سارے کا سارا نیچے گر جاتا ہے اور پہیہ پر اس میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔ اور جب اس سے کم کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس میں سے آدھا یا تہائی یا دو تہائی پانی میں واقع ہوجاتا ہے۔ اور یہ سارا باقی رہتا ہے پہیہ پر جو فرشتے مقرر ہیں وہ دو گروہوں میں مقسم ہیں ایک گروہ سورج میں مشغول ہوجاتا ہے اور اس کو پہیہ پر جاری کرتا ہے۔ اور ایک گروہ پہیہ میں مشغول ہوجاتا ہے اور اس کو سورج کی طرف جاری کرتا ہے۔ جب وہ غروب ہوتا ہے تو اس کو ساتویں آسمان کی طرف اٹھا لیا جاتا ہے فرشتوں کی اڑان کی تیزی میں۔ اور عرش کے نیچے روک لیا جاتا ہے۔ پھر وہ فرشتے اجازت طلب کرتے ہیں کہ اسے کہاں سے طلوع کرنا ہے۔ پھر اس کو لے کر چلتے ہیں اس جگہ میں جو ساتویں آسمان اور جنت کے درجات میں سے نچلے کے درمیان ہوتی ہے۔ فرشتوں کی اڑان کی تیزی میں پھر وہ نیچے اترتا ہے مشرق کی طرف ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی طرف جب وہ اس آسمان دنیا کی طرف پہنچتا ہے تو اس وقت صبح پھوٹتی ہے۔ اور جب پہنچتا ہے آسمان کی اس جانب کی طرف تو اس وقت سورج طلوع ہوتا ہے۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے مشرق کی جانب تاریکی کے پردے پیدا فرمائے اور اس کو ساتویں سمندر پر رکھا۔ دنیا کی راتوں کے برابر جب سے اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا فرمایا قیامت کے دن تک جب سورج کے غروب کا وقت ہوتا ہے تو وہ فرشتہ متوجہ ہوتا ہے جو رات کو مقرر کیا جاتا ہے۔ وہ اس پردہ کی ظلمت سے ایک مشت ہے غروب آفتاب کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ اور وہ اپنی انگلیوں کے درمیان سے اس اندھیرے کو بھیجتا رہتا ہے تھوڑا تھوڑا کر کے اور وہ نگرانی کرتا ہے شفق جب شفق غیب ہوجائے تو سارے اندھیرے کو بھیج دیتا ہے۔ پھر وہ اپنے پروں کو پھیلاتا ہے تو وہ پہنچ جاتے ہیں زمین کے دونوں قطروں اور آسمان کے کناروں کو پس اس کے پروں کے سبب رات کا اندھیرا چھا جاتا ہے۔ جب صبح قریب ہوتی ہے تو اپنے پروں کو لپیٹ لیتا ہے پھر وہ سارے اندھیرے کو ملا دیتا ہے۔ اس کے بعض کو بعض کی طرف اپنی ہتھیلیوں سے مشرق کی جانب سے اور اس کو رکھ دیتا ہے مغرب کی جانب ساتویں سمندر پر۔ (12) امام ابو الشیخ نے سند واہ کے ساتھ سلمان ؓ سے روایت کیا کہ رات کو ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے جس کو شراھیل کہا جاتا ہے جب رات کا وقت قریب آجائے تو ایک کالا دھاگہ پکڑ کر اس کو مغرب کی جانب لٹکا دیتا ہے۔ جب اس کی طرف سورج دیکھتا ہے تو اس پر آنکھ جھپکنے سے بھی زیادہ ریزی واجب ہوجاتی ہے۔ اور سورج کو حکم دیا گیا ہے کہ غروب نہ ہو یہاں تک کہ اس دھاگہ کو نہ دیکھے۔ جب غروب ہوجاتا ہے تو رات ہوجاتی ہے۔ وہ دھاگہ برابر لٹکا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ دوسرا فرشتہ آتا ہے جس کو ہر اھیل کہا جاتا ہے۔ سفید دھاگہ کو لے کر اور اس کو طلوع ہونے سے پہلے لٹکا دیتا ہے۔ جب اس کو شراھل دیکھتا ہے تو وہ اپنا دھاگہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ اور جب سورج سفید دھاگہ کو دیکھتا ہے تو وہ اس کے ساتھ طلوع ہوجاتا ہے اور اس کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ طلوع نہ ہو یہاں تک کہ سفید دھاگہ دیکھ لے۔ جب طلوع ہوجاتا ہے تو دن آجاتا ہے۔ ذاکرین اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں (13) امام حاکم نے (اور اس کی تصحیح بھی کی ہے) ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب سے زیادہ محبوب اللہ کے بندوں میں سے اللہ کی طرف وہ لوگ ہیں جو نگہداشت کرتے ہیں سورج اور چاند کی اللہ کے ذکر کے لئے۔ (14) امام خطیب نے کتاب النجوم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ کے بندوں میں سب سے زیادہ محبوب اللہ کی طرف وہ لوگ ہیں جو نگہداشت کرنے والے ہیں سورج اور چاند کی یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور اللہ تعالیٰ کو اس کے بندوں کے نزدیک محبوب بنا دیتے ہیں۔ (15) امام ابن شاھین، طبرانی، حاکم اور خطیب نے عبد اللہ بن ابی اوفی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کے بندوں میں بہترین بندے وہ ہیں جو نگہداشت کرتے ہیں سورج اور چاند کی اور ستاروں کی اور سالوں کی اللہ کی یاد کے لئے۔ (16) امام احمد نے زھد میں اور خطیب نے ابو داؤد ؓ سے روایت کیا کہ اللہ کے بندوں میں سب سے زیادہ محبوب اللہ کی طرف وہ لوگ ہیں جو سورج اور چاند کی رعایت یعنی نگہداشت کرتے ہیں۔ (17) امام حاکم نے تاریخ میں اور دیلمی نے کمزور سند کے ساتھ ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں کہ جن کو اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں اس دن جگہ دیں گے جب ان کے سایہ کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہوگا۔ امانت دار تاجر عادل و امام اور سورج کی نگہداشت کرنے والا دن کو۔ (18) عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے زوائدالزھد میں سلمان فارسی ؓ سے روایت کیا کہ سات آدمی اللہ کے سائے میں ہوں گے جس دن ان کے سایہ کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہوگا۔ ایک آدمی جو اپنے بھائی سے ملتا ہے اور کہتا ہے میں تجھ سے اللہ کے لئے محبت کرتا ہوں۔ اور دوسرا بھی اسی طرح کہتا ہے اور وہ آدمی جو اللہ کا ذکر کرتا ہے اور اللہ کے خوف سے اس کی آنکھیں بہہ پڑتی ہیں اور وہ آدمی جو صدقہ کرتا ہے اپنے دائیں ہاتھ سے اور اس کو چھپاتا ہے بائیں ہاتھ سے اور وہ آدمی جو صدقہ کرتا ہے اپنے دائیں ہاتھ سے اور اس کو چھپاتا ہے بائیں ہاتھ سے اور وہ آدمی جس کو کوئی عورت بڑے حسب و جمال والی اپنی ذات کی طرف اس کو بلائے (یعنی برے کام کے لئے) تو وہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور وہ آدمی جس کا دل مسجدوں سے لگا ہوا ہے اس کی محبت کی وجہ سے اور وہ آدمی جو سورج کی نگہداشت رکھتا ہے نماز کے اوقات کے لئے اور وہ آدمی جب بات کرتا ہے تو علم کے ساتھ بات کرتا ہے اور جب چپ ہوتا ہے تو حلم و برباری کی بنا پر چپ ہوتا ہے۔ (19) امام ابن ابی شیبہ نے مسلم بن یسار ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ کی دعاؤں میں یہ دعا تھی۔ لفظ آیت اللھم فالق الصباح وجاعل اللیل سکنا والشمس والقمر حسبانا اقض عنی الدین واعننی من الفقر وامتعننی بسمعی وبصری وقونی فی سبیلک ترجمہ : اے اللہ صبح کو نکالنے والے اور رات کو سکون بنانے والے سورج اور چاند کو حساب کے ذریعے بنانے والے۔ مجھ سے قرض کو دور کردے۔ اور فقیری سے مالدار بنادے اور مجھے نفع پہنچا میرے کانوں سے اور میری آنکھوں سے اور اپنے راستے میں مجھے طاقتور بنا دے۔
Top