Dure-Mansoor - At-Taghaabun : 16
فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ١ؕ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
فَاتَّقُوا اللّٰهَ : پس ڈرو اللہ سے مَا اسْتَطَعْتُمْ : جتنی تم میں استطاعت ہے وَاسْمَعُوْا : اور سنو وَاَطِيْعُوْا : اور اطاعت کرو وَاَنْفِقُوْا : اور خرچ کرو خَيْرًا : بہتر ہے لِّاَنْفُسِكُمْ : تمہارے نفسوں کے لیے وَمَنْ يُّوْقَ : اور جو بچالیا گیا شُحَّ : بخیلی سے نَفْسِهٖ : اپنے نفس کی فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ : وہ ہیں فلاح پانے والے ہیں
سو تم اللہ سے ڈرو جہاں تمہاری طاقت ہے اور بات سنو اور فرمانبرداری کرو اور اچھے مال کو اپنی جانوں کے لیے خرچ کرو۔ اور جو شخص اپنے نفس کی کنجوسی سے بچادیا گیا سو یہ وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہیں
11۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ جب یہ آیت اتقوا اللہ حق تقٰتہ (آل عمران آیت 102) اللہ سے ڈرو جیسے حق ہے اس سے ڈرنے کا تو صحابہ کرام ؓ پر یہ عمل کرنا سخت ہوگیا۔ وہ عبادت کرنے کھڑے ہوئے۔ یہاں تک کہ ان کی ٹانگیں سوج گئیں اور ان کی پیشانیوں پر پھوڑے نکل آئے تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر تخفیف کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی آیت فاتقوا اللہ ما استطعتم اللہ سے ڈرو جتنی تم طاقت رکھتے ہو تو اس آیت نے پہلی والی آیت کے حکم کو منسوخ کردیا۔ 12۔ عبد بن حمید وابن المنذر نے ربیع بن انس ؓ سے روایت کیا کہ آیت فاتقوا اللہ ماستطعتم سے مراد ہے کہ اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ 13۔ عبد بن حمید وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا فاتقوا اللہ ماستطعتم یعنی یہ رخصت ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورة آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا تھا آیت اتقواللہ حق تقتہ (اس کے ڈر کا جتنا حق ہے اس سے ڈرو) اور اس کے ڈرنے کا حق یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور اس کی نافرمانی نہ کی جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے تخفیف فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے رخصت نازل فرمائی اور فرمایا آیت فاتقوا اللہ ماستطعتم واسمعوا واطیعوا تو جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کے احکام کو سنو اور مانو یعنی اے ابن آدم اللہ کے احکام کو سنو اور اطاعت کرو جہاں تک تم سے ہوسکے۔ اور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام ؓ سے اللہ کے احکام سننے اور اطاعت پر بیعت کی جن کی وہ طاقت رکھتے تھے۔ 14۔ ابن سعد واحمد وابوداوئد نے ھکم بن حزن الکلفی ؓ سے روایت کیا کہ ہم وفد کی صورت میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کوئی دن ٹھہرے رہے اس دوران ہم ایک جمعہ کی نماز میں بھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حاضر ہوئے۔ آپ ایک کمان پر ٹیک لگائے ہوئے کھڑے ہوئے اور آپ نے اللہ کی حمد بیان کی۔ اور اس کی تعریف بیان کی پاکیزہ ہلکے اور مبارک کلمات کے ساتھ۔ پھر فرمایا اے لوگو ! بیشک تم ہرگز طاقت نہیں رکھتے۔ ہر اس کام کی جس کا تم کو حکم دیا گیا سو تم سیدھے رہو اور خوش رہو۔ 15۔ عبد بن حمید نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ آیت ومن یوق شح نفسہ فاولئک ہم المفلحون اور جو لوگ نفسانی حرص سے محفوظ رہے وہی آخرت میں کامیاب ہوں گے یعنی نفقہ میں کنجوسی نہ کی۔ بخل وحرص سے پناہ مانگنا 16۔ عبد بن حمید نے حبیب بن شہاب (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اپنے بھائی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں عرفہ کے دن ابن عمر ؓ سے ملا اور میں نے ارادہ کیا کہ آپ کی سیرت کی اقتدا کروں اور ان کی بات کو سنوں۔ سو میں نے اکثر آپ کو یہ دعا مانگتے سنا۔ اے اللہ میں آپ سے فحش بخل سے پناہ مانگتا ہوں یہاں تک کہ وہ عرفہ سے واپس لوٹ آئے۔ اور مزدلفہ میں رات گذاری۔ میں نے پھر اسی طرح ان کو کہتے ہوئے سنا پھر جب میں نے ان سے جدا ہونے کا ارادہ کیا تو میں نے کہا اے عبداللہ ! میں نے ارادہ کیا تھا کہ میں آپ کی سیرت کی اقتدا کروں گا۔ لیکن میں نے آپ کو اکثر یہ کہتے ہوئے سنا : کہ آپ فحش بخل سے پناہ مانگتے تھے۔ تو انہوں نے فرمایا میں اعلی اور افضل کچھ نہیں چاہتا بس یہی چاہتا ہوں کہ میں مفلحین میں سے ہوجاؤ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت ومن یوق شح نفسہ فاولئک ہم المفلحون۔ اور جو آدمی اپنے دل کی کنجوسی سے بچالیا گیا تو یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔
Top