Dure-Mansoor - Al-Qalam : 43
خَاشِعَةً اَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ١ؕ وَ قَدْ كَانُوْا یُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ وَ هُمْ سٰلِمُوْنَ
خَاشِعَةً : نیچی ہوں گی اَبْصَارُهُمْ : ان کی نگاہیں تَرْهَقُهُمْ : چھا رہی ہوگی ان پر ذِلَّةٌ : ذلت وَقَدْ كَانُوْا : اور تحقیق تھے وہ يُدْعَوْنَ : بلائے جاتے اِلَى السُّجُوْدِ : سجدوں کی طرف وَهُمْ سٰلِمُوْنَ : اور وہ صحیح سلامت تھے
ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی، ان پر ذلت چھائی ہوئی ہوگی اور یہ لوگ سجدہ کی طرف اس حالت میں بلائے جاتے تھے جبکہ صحیح سالم تھے
23۔ ابن مردویہ نے کعب الحبر (رح) سے روایت کیا کہ اس ذات کی قسم ! جس نے موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات اتاری اور انجیل عیسیٰ (علیہ السلام) پر اور زبور داوٗد (علیہ السلام) اور فرقان محمد ﷺ پر اتاری۔ کہ یہ آیات فرض نمازوں کے بارے میں اتاری گئیں۔ جب ان کے ساتھ آواز لگائی جاتی ہے۔ اور آیت یوم یکشف عن ساق۔ سے لے کر آیت وقد کانوا یدعون الی السجود وہم سلمون تک سے مراد ہے پانچوں نمازیں ہیں جب ان کے ساتھ اذان دی جاتی ہے۔ 24۔ بیہقی نے شعب الایمان میں سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ آیت وقد کانوا یدعون الی السجود سے مراد ہے وہ نمازیں جو جماعت کے ساتھ پڑھی جائیں۔ 25۔ بیہقی نے ابن عباس ؓ سے آیت وقدکانوا یدعون الی السجود کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد وہ آدمی ہے جو اذان کو سنتا ہے اور نماز ادا نہیں کرتا۔ قیامت میں عبادت کے بارے میں سوال 26۔ عبد بن حمید نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کو قیامت کے دن جمع فرمائیں گے۔ پھر ایک آواز دینے والا آواز دے گا۔ جو شخص جس چیز کی عبادت کرتا تھا اسے چاہیے کہ وہ اسی کی اتباع کرے۔ تو ہر قوم اس کے پیچھے ہوجائے گی جس کی وہ عبادت کرتے تھے پھر مسلمان اور اہل کتاب باقی رہ جائیں گے۔ یہودیوں کو کہا جائے گا تم کس کی عبادت کرتے تھے۔ ہو کہیں گے اللہ تعالیٰ کی اور موسیٰ (علیہ السلام) کی۔ ان سے کہا جائے گا کہ تم موسیٰ سے نہیں ہو اور موسیٰ تم میں سے نہیں ہیں۔ پھر ان کو ذات الشمال کی طرف پھیر دیا جائے گا۔ پھر نصاری سے کہا جائے گا کہ تم کس کی عبادت کرے تھے۔ وہ کہیں گے اللہ تعالیٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی ان سے کہا جائے گا تم عیسیٰ سے نہیں ہو اور عیسیٰ تم میں سے نہیں ہیں۔ پھر ان کو ذات الشمال کی طرف پھیر دیا جائے گا۔ پھر مسلمان بچ جائیں گے۔ ان سے پوچھا جائے گا تم کس کی عبادت کرتے تھے ؟ وہ کہیں گے اللہ کی۔ ان سے کہا جائے گا کیا تم اللہ کو پہچانتے ہو ؟ وہ کہیں گے۔ اگر اس نے ہم کو اپنی پہچان کرائی تو ہم اس کو پہچان لیں گے۔ پس اس وقت ان کو سجدوں کے لیے کہا جائے گا تو مومنین کے درمیان منافق علیحدہ ہوجائیں گے تو ان کو پیٹھیں سجدہ نہیں کرسکیں گی۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی۔ آیت ویدعون الی السجود فلا یستطیعون (روایت مرسل ہے) 27۔ اسحاق بن راہویہ فی مسندہ وعبد بن حمید وابن ابی الدنیا والطبرانی والآجری فی الشریعۃ والدارقطنی فی الرویۃ والحاکم وصححہ وابن مردویہ والبیہقی نے البعث میں عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو جمع فرمائیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ بادل کے سائے میں نازل ہوں گے۔ اور ایک آواز دینے والا آواز دے گا۔ اے لوگو ! کیا تم اپنے رب سے راضی نہیں و جس نے تم کو پیدا کیا اور تمہاری صورتیں بنائیں اور تم کو رزق دیا کہ تم میں سے ہر آدمی اس چیز کے پیچھے ہوجائے جس کی وہ دنیا میں عبادت کرتا تھا اور اسے اپنا ولی جانتا تھا کہ یہ تمہارے رب کی جانب سے عدل نہیں وہ جواب میں کہیں گے کیوں نہیں عدل ہے فرمایا تم میں سے ہر انسان اس کی طرف چلے جس کی وہ عبادت کیا کرتا تھا دنیا میں۔ اور ان کے لیے ان تمام چیزوں کی ایک صورت بنادی جائے گی جس کی وہ دنیا میں عبادت کرتے تھے اور ان کے لیے ایک صورت عزیر کے شیطان کی بنا دی جائے گی جو عزیر ﷺ کی عبادت کرتے تھے یہاں تک کہ ان کے لیے درختوں، لکڑیوں اور پتھروں کی بھی تصویریں بنادی جائیں گی اور اہل اسلام بیٹھے رہ جائیں گے تو ان کے لیے نمونہ ہوگا۔ اور وہ ان سے فرمائے گا تم کو کیا ہوا کہ تم نہیں جانتے جیسے لوگ چلے گئے۔ تو وہ کہیں گے بلاشبہ ہمارا رب ہے ہم نے اس کو ابھی تک نہیں دیکھا۔ تو وہ فرمائے گا کیا تم اپنے رب کو پہچان لو گے اگر تم اس کو دیکھو گے ؟ وہ کہیں گے ! ہمارے اور اس کے درمیان ایک نشانی ہے اگر ہم اس کو دیکھ لیں گے تو اس کو پہچان لیں گے۔ وہ فرمائے گا وہ کیا ہے ؟ کہا آیت یکشف عن ساق۔ تو اس وقت ساق سے پردہ اٹھایا جائے گا۔ تو ہر وہ شخص گرپڑے گا، جو سجدہ کرتا تھا، اطاعت و فرمانبرداری سے، اور ایک قوم باقی رہ جائے گی۔ ان کی پیٹھیں گائے کے سینگ کی طرح ہوں گی۔ وہ سجدوں کا ارادہ کریں گے۔ لیکن اس کی طاقت نہ رکھیں گے۔ پھر ان کو حکم دیا جائے گا۔ تو وہ اپنے سروں کو اٹھائیں گے پھر ان کو ان کے اعمال کے مطابق نور عطا کیا جائے گا۔ ان میں سے بعض ایسے ہوں گے کہ ان کا نور ان کے سامنے پہاڑ کی طرح ہوگا اور بعض ان میں وہ ہوں گے کہ ان کو اس سے زیادہ نور دیا جائے گا۔ اور بعض ان میں سے وہ ہوں گے کہ کھجور کے درخت کی طرح ان کی داہنی جانب ان کو نور دیا جائے گا۔ اور بعض ان میں سے وہ ہوں گے کہ ان کو داہنی جانب اس سے کم نور دیا جائے گا۔ یہاں تک کہ ان میں سے جو سب سے آخر میں ہوگا اس کو صرف اس کے پاؤں کے انگوٹھوں پر اس کا نور دیا جائے گا۔ وہ کبھی روشن ہوگا اور کبھی بجھ جائے گا۔ جب وہ چمکے گا تو وہ اپنے قدم کو آگے بڑھائے گا۔ اور جب بجھ جائے گا تو رک جائے گا۔ پس وہ اور دوسرے لوگ بھی پل صراط پر گذریں گے۔ اور پل صراط تلوار کی دھار کی طرح پھسلنے ی جگہ ہے۔ ان سے کہا جائے گا جلدی سے گزر جاؤ اپنے نور کی مقدار کے مطابق۔ بعض ان میں سے گذریں گے ستاروں کے ٹوٹنے کی طرح اور بعض ان میں سے گذریں گے آنکھ کے جھپکنے کی طرح۔ اور بعض ان میں سے گذریں گے ہوا کی طرح۔ اور بعض ان میں سے گذریں گے۔ آدمی کے تیز دوڑنے کی طرح جو کہ ریت اڑاتا ہوا گزرتا ہے۔ المختصر وہ اپنے اعمال کے مطابق گذریں گے یہاں تک کہ وہ آدمی بھی گذرے گا کہ اس کا نور صرف اس کے قدموں کے انگوٹھوں پر تھا۔ وہ ایک بار ہاتھ کھینچے گا اور ایک بار ہاتھ معلق کرے گا اور ایک بار پاؤں کھینچے گا اور ایک بار پاؤں معلق کرے گا۔ اور پل صراط کے اطراف میں جہنم کی آگ ہوگی اور وہ اس سے نجات پاجائیں گے جب وہ نجات پائیں گے تو اس وقت کہیں گے سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہم کو تجھ سے نجات دی۔ اس کے بعد کہ اس نے ہم کو تیر وجود دکھایا اور اللہ تعالیٰ نے ہم کو وہ کچھ عطا فرمایا جو کسی کو عطا نہیں فرمایا وہ کم گہرے تھوڑے پانی کی طرف چلیں گے جو جنت کے دروازے کے پاس ہوگا اور وہ اس میں غسل کریں گے تو ان کی طرف اہل جنت کی خوشبو اور رنگ لوٹ آئے گی اور وہ جنت کے دروازے کے سوراخو میں سے دیکھیں گے اور وہ جنت کے قریب ایک منزل پر کھلے گا اسے دیکھ کر وہ کہیں گے۔ اے ہمارے رب ! ہم کو عطا فرمادیجیے تو حائل ہوجا ہمارے اور جنت کے درمیان یہ وہ دروازہ ہے کہ ہم اس کی آہٹ بھی نہیں سنیں گے اللہ تعالیٰ ان سے فرمائیں گے اگر تم کو وہ دے دی جائے تو شاید تم اس کے علاوہ اور کا سوال کروگے ؟ وہ عرض کریں گے نہیں۔ اور آپ کی عزت کی قسم ! ہم اس کے علاوہ کسی کے بارے میں نہیں کریں گے اور کون سی منزل بھلا اس سے حسین ہوسکتی ہے راوی نے کہا پھر وہ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کے لیے ان کے سامنے ایک اور منزل کو اونچا کردیا جائے گا۔ جو انہوں نے اس سے پہلے نہیں دیکھی تیھ وہ اس کے سامنے ایک چھوٹی سی آرزو ہے پھر وہ کہیں گے اے ہمارے رب ہم کو وہ منزل عطا کیجیے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے۔ اگر تم کو یہ عطا کردی جائے تو شاید تم اس کے علاوہ اور کے بارے میں سوال کرنے لگو وہ کہیں گے نہیں اور آپ کی عزت کی قسم ! ہم اس کے علاوہ کسی اور کی آرزو نہیں کریں گے اس سے زیادہ حسین اور کونسی منزل ہوسکتی ہے تو وہ منزل ان کو دے دی جائے گی پھر ان کے سامنے خواب کی سی ہے پھر وہ کہیں گے اے ہمارے رب ہم کو یہ منزل عطا کردیجیے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے۔ اگر میں نے تم کو یہ منزل عطا کردی تو شاید تم اس کے علاوہ دوسری منزل کا سوال کروگے وہ کہیں گے نہیں آپ کی عزت کی قسم ہم اور کا سوال نہیں کریں گے اور اس سے زیادہ خوبصورت کونسی منزل ہوسکتی ہے۔ پھر وہ خاموش ہوجائیں گے اللہ تعالیٰ ان سے فرمائیں گے تم کو کیا ہوگیا کہ تم مانگ نہیں رہے۔ وہ کہی گے اے ہمارے رب ! ہم آپ سے مانگتے رہے۔ یہاں تک اب ہم کو شرم آنے لگی۔ ان سے کہا جائے گا۔ کیا تم راضی نہیں ہوگے کہ میں تم کو اس دنیا کے برابر جب سے میں نے اس کو پیدا کیا اس کے ختم کرنے کے دن تک جتنی دنیا تھی اور اس سے دس گنا زائد میں تم کو عطا کردوں ؟ وہ کہیں گے کیا آپ ہمارے ساتھ مذاق فرماتے ہیں اور آپ رب العالمین ہیں مسروق (رح) نے کہا جب عبداللہ ؓ حدیث بیان کرتے کرتے اس جگہ پر پہنچے تو ہنس پڑے اور فرمایا کہ میں نے کئی بار رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ جب آپ اس مقام پر پہنچتے تو آپ ہنس پڑتے یہاں تک کہ آپ کے حلق کا کوا ظاہر ہوجاتا اور آپ کی داڑھوں میں سے آخری داڑھ ظاہر ہوجاتی یعنی دانت مبارک ظاہر ہوجاتے راوی نے کہا کہ پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : میں نے مذاق نہیں کیا لیکن اس بات پر قادر ہوں سو تم مجھ سے سوال کرو تو وہ کہیں گے۔ اے ہمارے رب ! ہم کو لوگوں کے ساتھ ملادیجیے ان سے کہا جائے گا تم لوگوں سے مل جاؤ۔ چناچہ وہ جنت میں دوڑتے ہوئے چلیں گے۔ یہاں تک کہ ان کے لیے جنت میں ایک آدمی ظاہر ہوگا۔ اس کے پاس وسعی موتیوں کا محل ہوگا۔ تو وہ سجدہ میں گرپڑے گا اس سے کہا جائے گا اپنے سر کو اٹھا وہ اپنے سر کو اٹھائے گا اور کہے گا میں اپنے رب کو دیکھ لیا ہے تو اس سے کہا گا یہ تیری منزل ہے تیری منزلوں میں سے وہ چلے گا اور کوئی آدمی اس کا استقبال کرے گا تو وہ وہ مسجدوں کے لیے تیار ہوجائے گا۔ اس سے کہا جائے گا تجھے کیا ہوا ؟ وہ کہے گا میں نے فشتے کو دیکھا ہے۔ اس سے کہا جائے گا تیرے وکیلوں میں سے ایک وکیل ہے اور ایک غلام ہے تیرے غلاموں میں سے وہ اس کے پاس آئے اور کہے گا کہ میں تیرے وکیلوں میں سے ایک وکیل ہوں اس محل پر میرے ماتحت ہزار وکیل ہیں وہ تمام کے تمام اسی کیفیت پر ہیں۔ جس پر میں ہوں۔ پس وہ اس کے پاس اس کے ساتھ ساتھ چلے گا یہاں تک کہ اس کے لیے محل کھول دے گا اور وہ کھوکھلے موتی کا ہوگا اس کی چھتیں اس کے تالے اس کے دروازے اور اس کی چابیاں اسی میں سے ہوں گی۔ راوی نے کہا پھر اس کے لیے محل کھولا جائے گا۔ اس کے سامنے سبز رنگ کا ایک قیمتی جوہر ہوگا جس کا اندرونی حصہ ستر ہاتھ تک سرخ ہوگا اور اس میں ساٹھ دروزے ہوں گے۔ ہر دروازہ ایسے جو ہرہ کی طرف کھلے گا جس کا رنگ دوسرے سے مختلف ہوگا ہر جو ہرہ میں پلنگ الماریاں صندوق اور برتن موجود ہوں گے اور فرمایا کہ اس میں کام کرنے والے خادم بھی ہوں گے اور وہ ایک خوبصورت موٹی آنکھوں والی حور کے ساتھ ہوگا اس پر ستر جوڑے ہوں گے ان جوڑوں کے اندر سے اس کی پنڈلیوں کا گودا دکھائی دے گا۔ اس حور کا جگر اس مرد کے لیے آئینہ اور اس کا جگر اس کے لیے آئینہ ہوگا اور جب شوہر اس سے اعراض کرے گا تو اس کی آنکھ کی بینائی کی نسبت ستر گنا زیادہ ہوجائے گی۔ وہ اسے کہے گی میری بینائی ستر گنا بڑھ گئی ہے وہ بھی اسے اسی طرح کہے گا۔ راوی نے کہا وہ اپنی ملکیت پر حدنگاہ تک دیکھے گا اور وہ سو سال کا فاصلہ ہے فرمایا عمر بن خطاب ؓ نے اس وقت فرمایا اے کعب ! کیا تو نے نہیں سنا کہ جو ہم کو ابن ام عبد نے بیان کیا۔ ایک ادنیٰ اہل جنت کے بارے میں جو اس کے لیے ہوگا۔ تو پھر جو ان میں اعلیٰ درجوں پر فائز ہوں گے ان کی کیا کیفیت ہوگی۔ کہا اے امیر المومنین ! وہ جو کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنی شان قدرت کے مطابق عرش اور پانی کے اوپر تھا پھر اس نے اپنے لیے اپنے ہاتھ سے ایک گھر بنایا اور اس کو جس چیز کے ساتھ چاہا اسکو مزین کیا۔ اور پھلوں اور پاکیزہ شراب میں سے جو چاہا اس میں رکھا پھر اپنے ڈھانپ دیا۔ اور مخلوق میں سے کسی نے اس کو نہیں دیکھا۔ جب سے اسے بنایا نہ جبریل نے اور نہ اس کے علاوہ کسی دوسرے فرشتوں نے پھر کعب ؓ نے یہ آیت پڑھی فلاتعلم نفس ما اخفی لہم من قرۃ اعین۔ اور اس کے قریب دو باغ پیدا فرمائے اور ان کو جن چیزوں سے چاہا مزین فرمایا اور ان دونوں میں دیر، سندس اور استبرق اور جو کچھ مذکور ہیں وہ سب رکھ دئیے۔ اور اپنی مخلوق میں سے جن فرشتوں کو چاہا وہ دکھادئیے۔ سو جس شخص کا اعمال نامہ علیین میں ہوگا۔ وہ اس گھر میں اترے گا۔ اہل علیین میں سے ایک آدمی سوار ہوگا اپنے ملک میں۔ نہیں بچے گا کوئی خیمہ اہل جنت کے خیموں میں سے مگر اس کے چہرے کی روشنی اس میں نہیں پہنچے گی۔ یہاں تک کہ وہ اس کی خوشبو کو سونگھیں گے اور کیں گے واہ واہ کیا یہ پاکیزہ اور عمدہ خوشبو ہے۔ اور کہیں گے آج کے دن ہم پر اہل علیین میں سے کسی آدمی نے ہم پر جھانکا ہے۔ عمر ؓ نے فرمایا افسوس ہے تجھ پر اے کعب ! بلاشبہ ان دلوں کو چھوڑدیا گیا اور تو ان کو قبض کرلے۔ کعب ؓ نے کہا اے امیر المومنین ! بیشک جہنم ایک طویل اور گرم سانس نکالے گی تو نہیں ہوگا کوئی فرشتہ اور نہ کوئی نبی مگر وہ گرجائے گا اپنے گھٹنوں پر یہاں تک کہ ابراہیم خلیل اللہ بھی کہیں گے اے میرے رب ! میری جان، میری جان، (یعنی میری جان کو بچائیے) یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر تیرے ستر نبیوں کا عمل بھی تیرے عمل کے ساتھ ہو تو میری گمان یہ ہے کہ تو ہرگز اس سے نجات نہیں پائے گا۔
Top