Dure-Mansoor - Al-Haaqqa : 17
وَّ الْمَلَكُ عَلٰۤى اَرْجَآئِهَا١ؕ وَ یَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمٰنِیَةٌؕ
وَّالْمَلَكُ : اور فرشتے عَلٰٓي اَرْجَآئِهَا : اس کے کناروں پر ہوں گے وَيَحْمِلُ : اور اٹھائے ہوئے ہوں گے عَرْشَ رَبِّكَ : تیرے رب کا عرش فَوْقَهُمْ : اپنے اوپر يَوْمَئِذٍ : اس دن ثَمٰنِيَةٌ : آٹھ (فرشتے)
اور فرشتے اس کے کناروں پر آجائیں گے اور اس روز آپ کے پروردگار کے عرش کو آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے
6۔ عبد بن حمید وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت والملک علی ارجاۂا۔ یعنی فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے۔ 7۔ عبد بن حمید وابن المنذر نے ربیع بن انس ؓ آیت والملک علی ارجاۂا کے بارے میں روایت کیا کہ فرشتے آسمان کی ایک طرف پر ہوں گے اور زمین والوں کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ جو ان پر گھبراہٹ اور خوف طاری ہوگا۔ 8۔ ابن المنذر نے سعید بن جبیر اور ضحاک رحمہما اللہ سے روایت کیا کہ آیت والملک علی ارجاۂا یعنی فرشتے آسمان کے اس حصہ پر ہوں گے جو ابھی نہیں پھٹا ہوگا۔ 9۔ عبد بن حمید نے ضحاک قتادہ اور سعید بن جبیررحمہم اللہ سے روایت کیا کہ آیت والملک علی ارجاۂا سے مراد ہے کہ آسمان کے کناروں پر ہوں گے۔ 10۔ فریابی وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے آیت والملک علی ارجاۂا کے بارے روایت کیا کہ فرشتے آسمان کے ان کناروں پر ہوں گے جو ابھی بوسیدہ اور ڈھیلا نہیں ہوا ہوگا۔ 11۔ عبد بن حمید و عثمان بن سعید الدارمی فی الرد علی الجہمیۃ وابویعلی وابن المنذر وابن خزیمہ وابن مردویہ والحاکم وصححہ والخطیب نے تالی التلخیص میں عباس بن عبدالمطلب ؓ سے روایت کیا آیت ویحمل عرش ربک فوقہم یومئذ ثمنیۃ اور تییر رب کے عرش کو اس دن آٹھ فرشتے اٹھائیں گے۔ یعنی وہ آٹھ فرشتے ہوں گے پہاڑی بکروں کی صورت میں۔ 12۔ ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے کئی طرق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ویحمل عرش ربک فوقہم یومئذ ثمنیۃ یعنی فرشتوں کی آٹھ صفیں ہوں گی ان کی گنتی اللہ کی سوا کوئی نہیں جانتا۔ 13۔ عبد بن حمید نے ضحاک (رح) سے آیت ویحمل عرش ربک فوقہم یومئذ ثمنیۃ کے بارے میں روایت کیا کہ کہا گیا وہ آٹھ صفیں ہوں گی ان کی گنتی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور کہا گیا کہ آٹھ فرشتے ہوں گے۔ ان کے سر عرش کے پاس ساتویں آسمان پر ہوں گے اور ان کے قدم سب سے نچلی زمین میں ہوں گے ان کے سینگ ہوں گے جیسے پہاڑی بکروں کے سینگ ان کے ایک سینگ کی جڑ اس کی انتہاتک پانچ سو سال کا فاصلہ ہے۔ 14۔ عبد بن حمید نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ آیت ویحمل عرش ربک فوقہم یومئذ ثمنیۃ سے مراد ہے آٹھ فرشتے۔ 15۔ ابن جریر نے ابن زید ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آج اس کو چار فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں اور قیامت کے دن آٹھ ہوں گے۔ روایت سنداً محل کلام سے۔ 16۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید ؓ سے روایت کیا کہ عرش کے اٹھانے والوں میں سے سوائے اسرافیل (علیہ السلام) کے اور کسی کا نام نہیں لیا گیا اور میکائیل (علیہ السلام) عرش کے اٹھانے والوں میں نہیں ہیں۔ 17۔ ابن ابی حاتم وتمام الرازی فی فوائد وابن عساکر نے ابوزاہر (رح) سے روایت کیا کہ مج کو خبر دی گئی کہ لبنان فرشتہ ان آٹھ عرش کے اٹھانے والوں میں سے قیامت کے دن ایک ہوگا۔ 18۔ ابن عساکر نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ لبنان (فرشتہ) ان آٹھ عرش کے اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک ہوگا قیامت کے دن۔ 19۔ عبد بن حمید وابن المنذر نے میسرہ (رح) سے آیت ویحمل عرش ربک فوقہم یومئذ ثمنیۃ کے بارے میں روایت کیا کہ ان فرشتوں کے پاؤں تحت الثری میں ہوں گے۔ اور ان کے سر عرش کے پاس ہوں گے وہ اپنی آنکھوں کو اوپر اٹھانے کی طاقت نہیں رکھیں گے نور کی شعاعوں کی وجہ سے۔ عرش کو اٹھانے والے فرشتوں کا ذکر 20۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن المنذر وہب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ چار فرشتے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اپنے کندھوں پر۔ ان میں سے ہر ایک کے چار چہرے ہیں۔ بیل کا چہرہ، شیر کا چہرہ، گدھ کا چہرہ اور انسان کا چہرہ۔ ان میں سے ہر ایک کے لیے چار پر ہیں۔ دو پر اس کے چہرے پر ہیں ایسا نہ ہو کہ وہ عرش کی طرف دیکھے اور بےہوش ہوجائے اور دوسرے دو پروں کے ساتھ وہ پھڑپھڑاتا ہے اور دوسرے لفظ میں یوں ہے کہ ان دونوں کے ساتھ اڑتا ہے۔ ان کے قدم نرم مٹی کے اندر ہیں اور عرش ان کے کندھوں پر ہے۔ ان کا کلام صرف یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ آیت قدسوا اللہ القوی ملأ تعظمتہ السموات والارض۔ پاکی بیان کرو اس اللہ کی جو قوی ہے اور اس کی عظمت نے زمین و آسمان کو بھردیا ہے۔
Top