Dure-Mansoor - Al-Haaqqa : 24
كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا هَنِیْٓئًۢا بِمَاۤ اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَةِ
كُلُوْا : کھاؤ وَاشْرَبُوْا : اور پیو هَنِيْٓئًۢا : مزے سے بِمَآ اَسْلَفْتُمْ : بوجہ اس کے جو کرچکے تم فِي الْاَيَّامِ : دنوں میں الْخَالِيَةِ : گذشتہ
کھاؤ اور پیو مبارک طریقہ پر ان اعمال کے بدلہ جو تم نے گزشتہ دنوں میں آگے بھیجے تھے
36۔ عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت کلوا واشربو ہنیئا بما اسلفتم فی الایام الخالیۃ کھاؤ اور یو ان کاموں کے بدلے میں جو تم نے گذشتہ دنوں میں کئے تھے۔ یعنی یہ تمہارے یہ دن ایام خالیہ اور فنا ہونے والے ہی۔ جو باقی رہنے والے ایام تک پہنچانے والے ہیں پس تم ان دنوں عمل کرکے خیر اور نیکی آگے بھیجو اگر تم یہ طاقت رکھتے ہو اور اللہ کے سوا کوئی قوت اور طاقت والا نہیں۔ اہل جنت کی مہمان نوازی 37۔ ابن المنذر نے یوسف بن یعقوب حنفی (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے۔ اے میرے دوستو ! طویل عرصہ گزر گیا کہ میں تمہاری طرف دنیا میں متوجہ نہیں ہوا۔ حالانکہ تمہارے ہونٹ مشروبات سے دور رہے اور تمہاری آنکھیں دھنس گئیں اور تمہارے پیٹ خشک ہوگئے۔ آج کے دن تم اپنی نعمتوں میں داخل ہوجاؤ کھاؤ اور پئیو آیت ہنیئا بما اسلفتم فی الایام الخالیہ۔ کھاؤ اور پئیو ان کاموں کے بدلے میں جو تم نے گزشتہ دنوں میں آگے بھیجے تھے۔ 38۔ ابن المنذر وابن عدی فی الکامل اور بیہقی نے شعب الایمان میں عبداللہ بن رفیع (رح) سے روایت کیا کہ آیت بما اسلفتم فی الایام الخالیہ سے مراد روزے ہیں جو تم نے دنیا میں رکھے تھے۔ 39۔ بیہقی نے نافع (رح) سے روایت کیا کہ ابن عمر ؓ مدینہ منورہ کے نواح میں نکلے اور ان کے ساتھ ان کے ساتھی بھی تھے۔ ساتھیوں نے اپنے لیے دسترخوان بچھایا ان کے پاس سے ایک بکریاں چرانے والا گذرا۔ اس نے سلام کیا ابن عمر ؓ نے فرمایا اے گڈریے آجاؤ۔ آجاؤ اور اس دسترخوان میں سے کھالو۔ اس نے کہا میں روزے سے ہوں۔ ابن عمر ؓ نے فرمایا کیا تو اس سخت گرم دن میں روزے رکھے ہوئے ہے اور تو ان پہاڑوں میں بکریوں کو چرا رہا ہے۔ اس نے کہا بلاشبہ اللہ کی قسم میں اپنے گذرے ہوئے دنوں کو جلدی پالوں گا۔ ابن عمر ؓ نے اس سے فرمایا اور وہ اس کی پرہیزگاری کا امتحان لینے کا ارادہ رکھتے تھے کیا تو اپنی بکریوں میں سے ایک بکری ہم کو بیچے گا ؟ ہم تجھ کو اس کی قیمت دیں گے اور ہم تجھ کو اس کے گوشت میں سے بھی دیں گے تاکہ تو اسکے ساتھ روزہ افطار کرے۔ اس نے کہا یہ بکریں میری نہیں ہیں یہ بکریاں میر آقا کی ہیں۔ ابن عمر ؓ نے اس سے فرمایا جب تیرا آقا اس بکری کو گم پائے گا تو تو اس سے کہہ دینا کہ اسے بھیڑیے نے کھالیا ہے۔ چرواہے نے منہ پھیرلیا اور وہ اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے تھا اور کہنے لگا پھر اللہ کہاں ہے ؟ ابن عمر ؓ گڈریے کی بات کو بار بار دھرانے لگے کہ گڈریے نے کہا تو پھر اللہ کہاں ہے ؟ جب آپ واپس مدینہ منورہ واپس آئے تو اس کے آقا کی طرف کسی کو بھیجا اور اس سے ریوڑ اور چرواہے سب کو خرید لیا۔ پھر چرواہے کو آزاد کر کے بکریاں اس کو ہبہ کردیں۔
Top