Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 104
وَ قَالَ مُوْسٰى یٰفِرْعَوْنُ اِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ
وَقَالَ : اور کہا مُوْسٰي : موسیٰ يٰفِرْعَوْنُ : اے فرعون اِنِّىْ : بیشک میں رَسُوْلٌ : رسول مِّنْ : سے رَّبِّ : رب الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
اور کہا موسیٰ نے کہ اے فرعون بیشک میں رب العالمین کی طرف سے رسول ہوں
(1) امام ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ وہ اس کو یوں پڑھتے تھے لفظ آیت ” حقیق علی ان لا اقول “۔ عصاء موسیٰ آدم (علیہ السلام) کی تھی (2) امام عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے ” فالقی عصاہ “ کے بارے میں فرمایا کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ یہ لاٹھی آدم کی لاٹھی ہے۔ ان کو خاص طور پر ایک فرشتے نے دی تھی جب وہ مدینہ جا رہے تھے۔ یہ رات کو روشنی دیتی تھی اور دن کے وقت آپ اسے ساتھ لے کر زمین میں گھومتے پھرتے اور اپنے لئے رزق تلاش کرتے اور اس کے ساتھ اپنی بکریوں کے لئے پتے بھی جھاڑتے تھے۔ اللہ عزوجل نے فرمایا لفظ آیت ” فاذا ہی ثعبان مبین “ یعنی ایک سانپ تھا قریب تھا کہ آپ پر حملہ کردیتا۔ (3) امام ابن جریر اور ابو الشیخ نے منھال (رح) سے روایت کیا کہ سانپ آسمان میں ایک میل اوپر کو اٹھ جاتا تھا۔ فرعون کی طرف آنے لگا تو اس نے کہنا شروع کیا اے موسیٰ مجھ کو حکم کر جو تو چاہتا ہے۔ اور فرعون نے کہنا شروع کیا۔ اے موسیٰ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس ذات کے ساتھ جس نے تجھ کو بھیجا ہے۔ (کہ اس سانپ کا پکڑ لے) راوی کا قول ہے کہ اس نے آپ کے پیٹ کو پکڑ لیا۔ (4) امام ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ موسیٰ فرعون کے پاس آئے تو وہ اون کا بنا ہوا ایک چغہ پہنے ہوئے تھا جو اس کی گردن سے اوپر تک تھا۔ انہوں نے فرعون سے اندر آنے کی اجازت مانگی اس نے کہا ان کو داخل کر دو ۔ موسیٰ داخل ہوگئے اور فرمایا میرے معبود نے مجھ کو تیرے پاس بھیجا ہے۔ اس نے اپنے اردگرد بیٹھنے والی قوم سے کہا میں نہیں جانتا کہ میرے علاوہ تمہارا کوئی اور بھی معبود ہے اس کو پکڑ لو۔ موسیٰ نے فرمایا میں تیرے پاس ایک نشانی لے کر آیا ہوں لفظ آیت ” قال ان کنت جئت بایۃ فات بھا ان کنت من الصدقین (106) فالقی عصاہ “ جب اپنے عصا کو ڈالا تو وہ سانپ بن گیا اس کے جبڑوں کے درمیان اتنا فاصلہ تھا جتنا چھت سے لے کر زمین تک کا فاصلہ ہے۔ پھر انہوں نے اپنا ہاتھ گریبان میں داخل کیا پھر اس کو بجلی کی طرف چمکتا ہوا نکالا (جس سے) آنکھیں چندھیا گئیں۔ تو وہ اپنے چہروں پر گرپڑے۔ موسیٰ نے اپنی لاٹھی کو پکڑ لیا۔ پھر لوگوں میں سے ہر ایک وہاں سے بھاگ گیا۔ جب افاقہ ہوا اور فرعون سے خوف دور ہوا تو اپنے اردگرد سرداروں سے کہنے لگا تم مجھ کو کیا حکم کرتے ہو انہوں نے کہا اس کو اور اس کے بھائی کو مہلت دیدو۔ کہ تم اسے ادھر لاؤ اور نہ ہی وہ تمہارے قریب آئے۔ اور شہروں میں اکھٹے کرنے والے بھیج دو ۔ جادو گر فرعون سے ڈرتے تھے۔ جب ان کو بلا بھیجا تو انہوں نے کہا تمہاری طرف تمہارا خدا محتاج ہوگیا ہے اور فرعون نے کہا کہ موسیٰ نے ایسا ایسا کیا ہے انہوں نے کہا یہ جادو گر ہے جو جادو کرتا ہے ہمارے لئے کیا اجر ہوگا اگر ہم غالب ہوں گے۔ اور پھر کہا جادو گر لوگوں پر جادو کرتا ہے لیکن جادو گر پر جادو نہیں کرتا۔ فرعون نے کہا ہاں (اگر غالب آگئے) تو تم میرے مقرب لوگوں میں سے ہوگے۔ (5) امام ابنب منذر اور ابن ابی حاتم نے حکم (رح) سے روایت کیا کہ موسیٰ کی لاٹھی عوسج لکڑی کی تھی اور عوسج اس کے بعد کسی کے لئے مسخر نہیں ہوا۔ (6) امام ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ موسیٰ کی لاٹھی کا نام ماشا تھا۔ (7) امام ابن ابی حاتم نے مسلم (رح) سے روایت کیا کہ موسیٰ کا عصا ہی دابۃ الارض تھا۔ (8) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے چند طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” فاذا ہی ثعبان مبین “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ ایک نر سانپ تھا۔ (9) امام عبد الرزاق، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے معمر کے طریق سے قتادہ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” فاذا ہی ثعبان مبین “ کے بارے میں فرمایا کہ (یہ لاٹھی) بڑے سانپ میں تبدیل ہوگئی۔ معمر (رح) نے فرمایا اور اس کے علاوہ کسی اور نے فرمایا کہ وہ شہر کی مثل بڑا سانپ بن گیا۔ (10) امام ابو الشیخ نے کلبی (رح) سے روایت کیا کہ زرد رنگ کا نر سانپ تھا۔ (11) امام ابن ابی حاتم نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ سانپ کء دونوں جبڑوں کے درمیان بارہ ذراع کا فاصلہ تھا جو موسیٰ کی لاٹھی میں سے تھا۔ (12) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے فرقد سنجی (رح) سے روایت کیا کہ جب فرعون کو ضرورت (یعنی قضائے حاجت کی) پوتی تو جادو گر اس کو پچاس فرسخ کے فاصلہ پر لے جاتے۔ جب اپنی حاجت پوری کرلی تو اس کو واپس لے آئے۔ کیونکہ اس دن موسیٰ (علیہ السلام) کے عصانے اپنا منہ کھلا تو اس کے دو جبڑوں کے درمیان چالیس ذراع کا فاصلہ تھا اور اس دن چالیس بار اس نے ایسا کیا۔ (13) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے سدی سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” فاذا ہی ثعبان “ کے بارے میں فرمایا سانپوں میں ایک نر سانپ تھا۔ اس نے اپنا منہ کھولا ہوا تھا اس کا نیچے کا جبڑا زمین پر اور اوپر والا جبڑا محل کی فصیل پر تھا۔ پھر وہ فرعون کی طرف چلاتا کہ اس کو پکڑے جب اس نے اس کو آتا ہوا دیکھا تو خوف زدہ ہوگیا اور کود اور اس نے ایسی بات کہی جو اس سے پہلے کسی نے نہیں کہی تھی۔ اور چیخا کہ اے موسیٰ اس کو پکڑ لے میں تیرے ساتھ ایمان لاتا ہوں اور تیرے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دوں گا۔ موسیٰ نے اس کو پکڑ لیا تو وہ لاٹھی بن گیا۔ (14) امام ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے ” ونزع یدہ “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہتھیلی ہے یعنی اپنی ہتھیلی نکالی۔ (15) امام ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے ” یرید ان یخرجکم “ کے بارے میں فرمایا کہ وہ تم کو تمہاری زمین سے نکالنا چاہتا ہے۔ (16) امام ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” ارجہ “ یعنی اس کو مہلت دے دو (17) امام عبد بن حمید اور ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والوا ارجہ واخاہ “ کہ اس کو اور اس کے بھائی کو روک لو۔ (18) امام عبد بن حمید، ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے چند طریق سے ابن عباس سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وارسل فی المدائن حشرین “ یعنی پولیس یا پہرہ دار (کو بھیج دو ) ۔
Top