Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 143
وَ لَمَّا جَآءَ مُوْسٰى لِمِیْقَاتِنَا وَ كَلَّمَهٗ رَبُّهٗ١ۙ قَالَ رَبِّ اَرِنِیْۤ اَنْظُرْ اِلَیْكَ١ؕ قَالَ لَنْ تَرٰىنِیْ وَ لٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهٗ فَسَوْفَ تَرٰىنِیْ١ۚ فَلَمَّا تَجَلّٰى رَبُّهٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَهٗ دَكًّا وَّ خَرَّ مُوْسٰى صَعِقًا١ۚ فَلَمَّاۤ اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَكَ تُبْتُ اِلَیْكَ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَلَمَّا : اور جب جَآءَ : آیا مُوْسٰي : موسیٰ لِمِيْقَاتِنَا : ہماری وعدہ گاہ پر وَكَلَّمَهٗ : اور اس نے کلام کیا رَبُّهٗ : اپنا رب قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اَرِنِيْٓ : مجھے دکھا اَنْظُرْ : میں دیکھوں اِلَيْكَ : تیری طرف (تجھے) قَالَ : اس نے کہا لَنْ تَرٰىنِيْ : تو مجھے ہرگز نہ دیکھے گا وَلٰكِنِ : اور لیکن (البتہ) انْظُرْ : تو دیکھ اِلَى الْجَبَلِ : پہاڑ کی طرف فَاِنِ : پس اسْتَقَرَّ : وہ ٹھہرا رہا مَكَانَهٗ : اپنی جگہ فَسَوْفَ : تو تبھی تَرٰىنِيْ : تو مجھے دیکھ لے گا فَلَمَّا : پس جب تَجَلّٰى : تجلی کی رَبُّهٗ : اس کا رب لِلْجَبَلِ : پہاڑ کی طرف جَعَلَهٗ : اس کو کردیا دَكًّا : ریزہ ریزہ وَّخَرَّ : اور گرا مُوْسٰي : موسیٰ صَعِقًا : بیہوش فَلَمَّآ : پھر جب اَفَاقَ : ہوش آیا قَالَ : اس نے کہا سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے تُبْتُ : میں نے توبہ کی اِلَيْكَ : تیری طرف وَاَنَا : اور میں اَوَّلُ : سب سے پہلا الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
اور جب موسیٰ ہمارے مقرر کئے وقت پر آئے اور ان کے رب نے ان سے کلام فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ اے میرے رب مجھے دکھا دیجئے کہ میں آپ کو دیکھ لوں، فرمایا تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے لیکن پہاڑ کی طرف دیکھو، سو اگر پہاڑ اپنی جگہ برقرار ریا تو تم مجھے دیکھ سکو گے، پھر جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو پہاڑ کو چورا کردیا۔ اور موسیٰ نے ہوش ہو کر گرپڑے، پھر جب ان کو ہوش آیا تو کہنے لگے آپ کی ذات پاک ہے میں آپ کے حضور میں توبہ کرتا ہوں۔ اور میں ایمان لانے والوں میں پہلا شخص ہوں
(1) امام ابن جریر اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” قال رب ارنی “ یعنی مجھ کو قوت عطا فرمائیے کہ میں آپ کی طرف دیکھ لوں۔ (2) امام عبد بن حمید اور ابن منذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” قال رب ارنی انظر الیک “ کے بارے میں فرمایا کہ جب کلام کو سنا تو لالچ کی دیکھنے میں۔ (3) امام ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب موسیٰ نے اپنے رب تبارک و تعالیٰ سے عرض کیا کہ لفظ آیت ” قال رب ارنی انظر الیک “ تو اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا اے موسیٰ تو مجھے ہرگز نہیں دیکھا سکتا۔ پھر فرمایا اے موسیٰ ! کبھی بھی اس طرح نہیں ہوگا کہ کوئی مجھے دیکھے اور زندہ بھی رہے۔ موسیٰ نے عرض کیا اے میرے رب اگر میں آپ کو دیکھ لوں پھر میں مرجاؤں تو مجھے زیادہ محبوب ہے کہ آپ کو نہ دیکھوں اور پھر زندہ رہوں اور اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے فرمایا اے موسیٰ اس بڑے لمبے سخت پہاڑ کی طرف دیکھ لفظ آیت ” فان استقر مکانہ “ اگر یہ اپنی جگہ پر ٹھہرا رہے یہ عاجز اور ذلیل نہ ہو۔ اور اپنے وہ حصے گر اکر پاش پاش نہ کر دے جو میری عظمت کو دیکھیں گے تو پھر تو اپنی کمزوری اور عاجزی کے باوجود دیکھ سکے گا۔ اور اگر پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا اور اس نے اپنی عظمت کے باوجود اپنے آپ کو گرا دیا تو پھر تم تو اس کے مقابلے میں بہت کمزور اور عاجز ہو۔ (4) امام حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں اور ابو نعیم نے حلیہ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے (یہ آیت) ” رب اربی انظر الیک “ تلاوت فرمائی کہ اللہ عزوجل نے فرمایا اے موسیٰ کہ مجھے کوئی زندہ نہیں دیکھتا ہے کہ وہ مرجاتا ہے اور کوئی خشک (جامد) مجھے نہیں دیکھے گا مگر لڑھک جائے گا۔ اور کوئی تر مجھے نہیں دیکھے گا مگر وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا۔ اور بلاشبہ جنت والے مجھے دیکھیں گے کہ جن کی آنکھیں نہیں مریں گی اور ان کے جسم بوسیدہ نہیں ہوں گے۔ (5) امام عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکے گا لیکن اس پہاڑ کی طرف دیکھ کیونکہ وہ تجھ سے بڑا ہے اور پیدائش کے لحاظ سے سخت ہے ” فلما تجلی ربہ للجبل “ پھر جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی ڈالی اور آپ نے پہاڑ کی طرف دیکھا تو وہ اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکا۔ اور پہاڑ پہلی دفعہ ہی ہمورار کرنا شروع ہوگیا۔ جب موسیٰ نے دیکھا جو کچھ پہاڑ کو ہو رہا تھا تو موسیٰ بیہوش ہو کر گرپڑے۔ (6) امام ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ بن عمران کی طرف وحی فرمائی میں تجھ سے بات کرنے والا ہوں طور سینا پہاڑ پر تو موسیٰ کے مقام سے طور سینا پہاڑ سولہ فرسخ کا فاصلہ تھا۔ گرج تھی بجلی چمک رہی تھی اور انتہائی ٹھنڈی رات تھی موسیٰ آئے یہاں تک کہ طور پہاڑ کی چٹان کے آگے کھڑے ہوگئے اچانک ایک سبز درخت تھا اس میں پانی کے قطرے گر رہے تھے۔ اور اس کے اندر سے آگ ظاہر ہونے لگی۔ موسیٰ تعجب کرتے ہوئے کھڑے ہوگئے۔ اس درخت کے اندر سے آواز آئی اے موسیٰ ! موسیٰ آواز کو سننے کے لئے کھڑے ہوگئے۔ موسیٰ نے کہا کیا یہ کوئی عبرانی زبان میں مجھ سے بات کر رہا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا اے موسیٰ ! میں عبرانی نہیں ہوں میں اللہ رب العالمین ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے اس مقام پر ستر لغات میں بات کی اس میں ہر لغت دوسری لغت سے مختلف تھی۔ اور اسی جگہ آپ کو تورات عطا فرمائی۔ موسیٰ نے عرض کیا اے میرے خدا مجھے اپنا دیدار کرائیے میں ایک نظر آپ کو دیکھ لوں۔ فرمایا اے موسیٰ جو مجھ کو دیکھتا ہے تو وہ مرجاتا ہے۔ موسیٰ نے کہا اے میرے خدا مجھ کو اپنا دیدار کرائیے میں آپ کو دیکھ لوں اور میں مرجاؤں موسیٰ کو طور سینا پہاڑ نے جواب دیا اے موسیٰ بن عمران تو نے ایک بڑے کام کا سوال کیا۔ خوف کے مارے کانپ اٹھی ساتوں آسمان اور جو کچھ ان میں ہے اور ساتوں زمینیں اور جو کچھ ان میں ہے اور پہاڑ ہل گئے ہیں۔ اور سمندر مضطرب ہوگئے ہیں اے ابن عمران جو تو نے سوال کیا ہے۔ موسیٰ نے کہا اور بات کو دوبارہ لوٹایا کہ میرے رب مجھے اپنا دیدار کرائیے تاکہ میں آپ کو دیکھ لوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ پہاڑ کی طرف دیکھ اگر یہ اپنی جگہ پر کھڑا رہا تو بیشک تو مجھ کو دیکھ لے گا۔ لفظ آیت ” فلما تجلی ربہ للجبل جعلہ وکا وخر موسیٰ صعقا “ ایک جمعہ کی مقدار (تک بیہوش رہے) جب موسیٰ کو افاقہ ہوا تو اپنے چہرے سے مٹی کو پونچھا اور فرما رہے تھے لفظ آیت ” سبحنک تبت الیک وانا اول المؤمنین “ اس مقام کے بعد موسیٰ کو جو بھی دیکھتا تھا وہ مرجاتا تو موسیٰ نے اپنے چہرہ پر برقعہ لے لیا اور آپ اپنی گردن پھیر کر لوگوں سے بات کرنے لگے۔ اس درمیان کہ موسیٰ ایک دن صحرا میں تھے کہ اچانک تین آدمی ایک قبر کھود رہے تھے یہاں تک کہ ایک قبر انہوں نے بنا ڈالی موسیٰ آئے اور ان پر جھانکتے ہوئے ان سے پوچھا یہ قبر کس کے لئے کھود رہے ہو۔ انہوں نے کہا ایک آدمی کے لئے گویا کہ تو ہو یا تیری مثل ہو۔ یا تیری لمبائی میں کوئی اور آدمی ہو یا تیرے جیسا کوئی ہو۔ اگر تو نیچے اترے گا تو ہم تجھ پر اس قبر کو تنگ کردیں گے (یعنی بند کردیں گے) موسیٰ نیچے اترے اور قبر میں انگڑائی لی تو اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم فرمایا اور وہ آپ پر بند ہوگئی۔ (7) امام احمد، عبد بن حمید، ترمذی، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن عدی نے کامل میں ابو الشیخ، حاکم، ابن مردویہ اور بیہقی نے کتاب الرویۃ میں چند طریق سے (امام ترمذی اور حاکم نے اس کو تصحیح بھی کی ہے) انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” فلما تجلی ربہ للجبل جعلہ دکا “ اور فرمایا اسی طرح اپنی انگلی مبارک سے ارشاد فرمایا اور اپنے انگوٹھے کی جانب انگلی پر رکھ دیا اور دوسرے لفظ میں یوں ہے کہ پہاڑ زمین میں دھنس گیا اور وہ قیامت کے دن تک اس میں نیچے دھنسا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ کی تجلی فرمانا (8) امام ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے ثابت کے طریق سے انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے لفظ آیت ” فلما تجلی ربہ للجبل “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اتنی مقدار کو ظاہر فرمایا اور آپ نے انگوٹھے کو اپنی انگلی پر رکھا حمید نے کہا اے ابو محمد تو اس (مثال) سے کیا اور ارادہ رکھتا ہے تو انہوں نے اس کے سینے میں مارا اور فرمایا تو کون ہے اے حمید اور تو کیا ہے اے حمید مجھ سے بیان کیا ہے انس بن مالک ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اور تو کہتا ہے کہ تو نے اس سے کیا ارادہ کیا ہے ؟ (9) امام ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ پہاڑ جس کی طرف دیکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا تھا وہ طور تھا۔ (10) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور بیہقی نے رویۃ میں روایت کیا کہ ابن عباس نے لفظ آیت ” فلما تجلی ربہ للجبل “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں سے انگلی کے برابر تجلی فرمائی تھی ” جعلہ دکا “ تو اس نے اسے مٹی بنا دیا ” وخر موسیٰ صعقا “ یعنی ان پر غشی طاری ہوگئی۔ (11) امام ابو الشیخ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کے لئے تجلی فرمائی تو انہوں نے اندھیری رات میں صفا پہاڑ پر چونٹی کو رینگتے ہوئے دیکھا۔ دس فرسخ کے فاصلہ سے۔ (12) امام ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے انس بن مالک (رح) سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو اس کی عظمت جلال کے سبب چھ پہاڑ اڑے تین مدینہ منورہ میں واقع ہوئے۔ احد، ورقان اور رضوی اور تین مکہ میں واقع ہوئے اور وہ حرا، بیثر اور ثور ہیں۔ (13) امام طبرانی نے الاوسط میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب الہ تعالیٰ نے موسیٰ کے لئے تجلی فرمائی تو سات پہاڑ اڑے۔ ان میں سے پانچ حجاز میں دو یمن میں ہیں۔ حجاز میں یہ ہیں : احد، بیثر، حرا، ثور اور ورقان۔ اور یمن میں حصور اور صیر ہیں۔ (14) امام ابن مردویہ نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” فلما تجلی ربہ للجبل جعلہ دکا “ کے بارے میں فرمایا کہ موسیٰ کو ندا دی اور فرمایا کہ بلاشبہ میں اللہ ہوں۔ اور یہ عرفہ کی رات تھی۔ وہ (جو پہاڑ موقف میں تھا تو اس کے سات ٹکڑے ہوگئے ایک ٹکڑا ان کے آگے گرا اور یہ وہی جگہ ہے کہ جہاں امام عرفہ کے دن موقف میں کھڑا ہوتا ہے اور مدینہ منورہ میں تین ٹکڑے گرے جو تین پہاڑ ہیں طیبہ، احد ررضوی اور طور سینا شام میں ہے۔ اس کا نام طور اسی کے لئے ہے کیونکہ یہ شام کی طرف ہوا میں اڑ گرگیا تھا۔ (15) امام ابن مردویہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے لفظ آیت ” فلما تجلی ربہ للجبل جعلہ دکا “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے چھوٹی انگلی کو ظاہر فرمایا۔ (16) امام ابن مردویہ نے انس ؓ سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے یوں پڑھا لفظ آیت ” فلام تجلی ربہ للجبل جعلہ دکا “ تشدید اور مد کے ساتھ۔ (17) امام ابن مردویہ اور حاکم نے (حاکم نے اس کو صحیح بھی کیا ہے) انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے یوں پڑھا ” دکا “ تنوین کے ساتھ بغیر مد کے۔ (18) امام ابو نعیم نے حلیہ میں معاویہ بن قرہ سے روایت کیا کہ انہوں نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب رب تعالیٰ نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو اس کی عظمت کے سبب چھ پہاڑ اڑ گئے میدنہ منورہ میں احد، ورقان اور رضوی واقع ہوئے۔ اور مکہ میں ثور، بثیر اور حرا واقع ہوئے۔ (19) امام ابن جریر، ابن مردویہ اور حاکم نے (اور امام حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ موسیٰ کے ساتھ جب ان کے رب نے کلام فرمایا تو انہوں نے رب کو دیکھنا چاہا۔ تو سوال کیا مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” لن ترنی ولکن انظر الی الجبل “ راوی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑ کے اردگرد فرشتوں کو کھڑا کردیا۔ پھر فرشتوں کو آگ کے ساتھ گھیر لیا پھر آگ کے اردگرد فرشتوں کو کھڑا کیا پھر ان کے اردگرد آگ جمع کردی۔ پھر رب تیرے نے چھوٹی انگلی کے برابر پہاڑ پر تجلی فرمائی تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا اور موسیٰ بیہوش ہو کر گرپڑے جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا بےہوش رہے جب افاقہ ہوا تو فرمایا لفظ آیت ” سبحنک تبت الیک وانا اول المؤمنین “ یعنی بنی اسرائیل میں سے پہلا ایمان لانے والا ہوں۔ (20) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” فلما تجلی ربہ للجبل “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بعض پردے اٹھا دئیے۔ (21) امام ابن منذر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ وہ اس حرف کو یوں پڑھتے تھے۔ لفظ آیت ” فلما تجلی ربہ للجبل جعلہ دکا “ اور فرمایا کہ وہ ٹھوس پتھر تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے تجلی فرمائی تو وہ ریزہ ریزہ ہو کر مٹی کا ٹیلا بن گیا دکا، دکوات میں سے ہے یعنی ریزہ ریزہ ہوجانا۔ (22) امام ابن ابی حاتم، ابن منذر اور ابو الشیخ نے سفیان (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” فلما تجلی ربہ للھبل جعلیہ دکا “ کے بارے میں فرمایا کہ پہاڑ زمین میں دھنس گیا یہاں تک کہ سمندر میں واقع ہوگیا۔ اور وہ اس کے بعد بھی زمین میں دھنستا جا رہا ہے۔ (23) امام ابو الشیخ نے ابو معشر (رح) سے روایت کیا کہ موسیٰ چالیس رات ٹھہرے اور جو کوئی آپ کی طرف دیکھتا وہ رب العالمین کے نور سے مرجاتا تھا اور اس بات کی تصدیق اللہ کی کتاب میں ہے۔ یعنی لفظ آیت ” فلما تجلی ربہ للجبل جعلہ دکا “ (یعنی جب آپ کے رب نے پہاڑ پر تجلی ڈالی تو اس نے اسے مٹی بنا دیا) ۔ (24) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے عروہ بن رویم سے روایت کیا کہ موسیٰ کے لئے اللہ تعالیٰ کی تجلی ڈالنے سے پہلے طور پہاڑ ٹھوس اور ہموار میدان تھا۔ اس میں درآڑیں اور پھٹن نہیں تھے۔ جب موسیٰ کے لئے اللہ تعالیٰ نے طور پر تجلی فرمائی تو طور ریزہ ریزہ ہوگیا۔ اور پہاڑ پھٹ گیا اور اس میں غاریں اور دراڑیں بن گئیں۔ (25) امام ابن ابی حاتم نے اعمش (رح) سے روایت کیا کہ ” دکا “ سے مراد ہے ہموار زمین۔ (26) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے ” جعلہ دکا “ کے بارے میں فرمایا کہ پہاڑ کے بعض حصوں کو گرا کر ہمورا کردیا۔ (27) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وخر موسیٰ صعقا “ یعنی ان پر بیہوشی طاری ہوگئی مگر ان کی روح کے جسم میں تھی۔ ” فلما افاق قال “ جب افاقہ ہوا تو فرمایا سبحانک اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کی جو انہوں نے دیکھا ” تبت الیک “ یعنی میں رجوع کرتا ہوں اپنے سابقہ امر سے ” وانا اول المؤمنین “ یعنی پہلے تصدیق کرنے والا ہوں ان کہ کوئی آپ کو نہیں دیکھ سکتا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا پختہ ایمان (28) امام ابن جریر اور ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وانا اول المؤمنین “ یعنی میں پہلا آدمی ہوں جو اس بات پر ایمان رکھنے والا ہوں کہ تیری مخلوق میں سے کوئی بھی آپ کو (دنیا میں) نہیں دیکھ سکتا۔ (29) امام عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وخر موسیٰ صعقا “ یعنی موسیٰ مردہ حالت میں گرپڑے۔ ” فلما افاق “ یعنی جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح اور جان کو واپس لوٹا دیا لفظ آیت ” قال سبحنک تبت الیک وانا اول المؤمنین “ یعنی کوئی زندہ آدمی آپ کو نہیں دیکھ سکتا اور اس وقت سارا عالم خوف زدہ ہوجائے گا۔ (30) امام عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” تبت الیک “ یعنی میں توبہ کرتا ہوں تیرے دیدار کے سوال کرنے سے۔ لفظ آیت ” وانا اول المؤمنین “ یعنی اپنی قوم میں سے پہلا ایمان لانے والا ہوں۔ (31) امام عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وانا اول المؤمنین “ سے مراد ہے اگرچہ آپ سے پہلے ایمان والے تھے لیکن آپ یہ فرما رہے تھے کہ میں پہلا آدمی ہوں جو اس بات پر ایمان لایا کہ تیری مخلوق میں سے قیامت کے دن تک تجھ کو کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ (32) امام احمد، بخاری، مسلم، ابو داؤد اور ابن مردویہ نے ابو سعید ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا دوسرے انبیاء سے مجھ کو افضل نہ کہو کیونکہ لوگ قیامت کے دن بےہوش ہو کر پڑیں گے اور میں پہلا آدمی ہوں گا جس کو ہوش آئے گا اچانک موسیٰ کے پایوں میں سے ایک کو پکڑے ہوئے ہوں گے میں نہیں جانتا کہ ان کو وہ مجھ سے پہلے افاقہ ہوا کوہ طور پر بےہوش ہو کر گرنے کے بدلہ اب ان سے درگزر کیا گیا۔
Top