Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 152
اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَیَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ ذِلَّةٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ؕ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اتَّخَذُوا : انہوں نے بنالیا الْعِجْلَ : بچھڑا سَيَنَالُهُمْ : عنقریب انہیں پہنچے گا غَضَبٌ : غضب مِّنْ رَّبِّهِمْ : ان کے رب کا وَذِلَّةٌ : اور ذلت فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نَجْزِي : ہم سزا دیتے ہیں الْمُفْتَرِيْنَ : بہتان باندھنے والے
بلاشبہ جن لوگوں نے بچھڑے کو معبود بنا لیا انہیں ان کے رب کی طرف سے ضرور غصہ پہنچے گا اور ذلے پہنچے گی دنیا والی زندگی میں، اور اسی طرح ہم افتراء کرنے والوں کو سزا دیا کرتے ہیں
(1) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ایوب (رح) سے روایت کیا کہ ابو قلابہ (رح) نے یہ آیت ” ان الذین اتخذوا العجل سینالہم حغب من ربھم وذلۃ فی الحیوۃ الدنیا، وکذلک نجزی المفترین “ تلاوت کی اور فرمایا یہ بدلہ ہے برا افتراء باندھنے والے کا قیامت کے دن تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل کریں گے۔ (2) امام ابن ابی حاتم نے سفیان (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وکذلک نجزی المفترین “ سے مراد ہے کہ ہر بدعت والے کے لئے ذلت ہے۔ (3) امام بیہقی نے شعب الایمان میں سفیان بن عینیہ (رح) سے روایت کیا کہ تو کسی بدعتی کو نہیں پائے گا مگر تو اس کو ذلیل و رسوا پائے گا۔ کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا یہ قول نہیں سنا لفظ آیت ” ان الذین اتخذوا العجل سینالہم غضب من ربھم وذلۃ فی الحیوۃ الدنیا “ (4) امام ابو الشیخ نے سفیان بن عینیہ (رح) سے روایت کیا کہ بدعتی زمین میں ایسا نہیں ہے مگر وہ ذلت کا پائے گا جو اس کو ڈھانک لے گی۔ اور وہ اللہ کی کتاب میں ہے لوگوں نے پوچھا وہ کہاں ہے۔ فرمایا کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ قول نہیں سنا لفظ آیت ” ان الذین اتخذوا العجل “ (الآیہ) لوگوں نے کہا اے ابو محمد یہ تو بچھڑے والوں کے بارے میں خاص ہے فرمایا ہرگز نہیں تم پڑھ لو جو اس کے بعد ہے۔ لفظ آیت ” وکذلک نجزی المفترین “ اور یہ ہر افتراء باندھنے والے اور بدعتی کے لئے ہے قیامت کے دن تک۔
Top