Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 156
وَ اكْتُبْ لَنَا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ اِنَّا هُدْنَاۤ اِلَیْكَ١ؕ قَالَ عَذَابِیْۤ اُصِیْبُ بِهٖ مَنْ اَشَآءُ١ۚ وَ رَحْمَتِیْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ١ؕ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَۚ
وَاكْتُبْ
: اور لکھدے
لَنَا
: ہمارے لیے
فِيْ
: میں
هٰذِهِ
: اس
الدُّنْيَا
: دنیا
حَسَنَةً
: بھلائی
وَّ
: اور
فِي الْاٰخِرَةِ
: آخرت میں
اِنَّا
: بیشک ہم
هُدْنَآ
: ہم نے رجوع کیا
اِلَيْكَ
: تیری طرف
قَالَ
: اس نے فرمایا
عَذَابِيْٓ
: اپنا عذاب
اُصِيْبُ
: میں پہنچاتا ہوں (دوں)
بِهٖ
: اس کو
مَنْ
: جس
اَشَآءُ
: میں چاہوں
وَرَحْمَتِيْ
: اور میری رحمت
وَسِعَتْ
: وسیع ہے
كُلَّ شَيْءٍ
: ہر شے
فَسَاَكْتُبُهَا
: سو میں عنقریب لکھدوں گا
لِلَّذِيْنَ
: ان کے لیے جو
يَتَّقُوْنَ
: ڈرتے ہیں
وَيُؤْتُوْنَ
: اور دیتے ہیں
الزَّكٰوةَ
: زکوۃ
وَالَّذِيْنَ
: اور وہ جو
هُمْ
: وہ
بِاٰيٰتِنَا
: ہماری آیات پر
يُؤْمِنُوْنَ
: ایمان رکھتے ہیں
اور لکھ دیجئے ہمارے لئے اس دنیا میں بھلائی اور آخرت میں بھی، بیشک ہم نے تیری طرف رجوع کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرا عذاب ہے میں اسے پہنچاتا ہوں جسے چاہوں اور میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے سو میں اس کو ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور ان لوگوں کے لئے جو ہماری آیات پر یقین رکھتے ہیں
(1) امام سعید بن منصور نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واکتب لنا فی ھذہ الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ موسیٰ کو نہیں دی گئی پھر فرمایا لفظ آیت ” قال عذابی اصیب بہ من اشاء “ سے لے کر ” المفلحون “ تک۔ (2) امام ابن ابی حاتم نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واکتب لنا فی ھذہ الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ “ کے بارے میں فرمایا کہ اس دن اس امت کے لئے رحمت کو لکھ دیا گیا۔ (3) امام ابو الشیخ نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واکتب لنا فی ھذہ الدنیا حسنۃ “ سے مراد مغفرت ہے۔ (4) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے چند طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” انا ھدنا الیک “ سے مراد ہے کہ ہم نے تیری طرف رجوع کیا۔ (5) امام ابن ابی شیبہ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” انا ھدانا الیک “ سے مراد ہے کہ ہم نے رجوع کیا (6) امام ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابو وجزۃ السعدی (رح) سے روایت کی ہے اور وہ لوگوں میں سب سے زیادہ عربی زبان کو جاننے والے تھے فرمایا نہیں اللہ کی قسم میں اس کو نہیں جانتا عرب کی کس کلام میں یعنی ھدنا کہا گیا وہ کیسے فرمایا یہ لفظہ ھاء کے کسرہ کے ساتھ اور اس کا مطلب ہے : ہم مائل ہوئے۔ (7) امام عبد الرزاق، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے حسن و قتادہ رحمۃ اللہ علیہما سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” ورحمتی وسعت کل شیء “ کے بارے میں فرمایا کہ دنیا میں میری رحمت وسیع ہے۔ نیک اور بدکار کے لئے اور یہ قیامت کے دن تقویٰ والوں کے لئے خاص ہوگی۔ (8) امام ابو الشیخ نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” ورحمتی وسعت کل شیء “ کے بارے میں فرمایا اس کی رحمت دنیا میں پوری مخلوق پر ہے۔ (9) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے سماک بن فضل (رح) سے روایت کیا کہ ان کے پاس یہ بات ذکر کی گئی کہ کونسی چیز بڑی ہے تو پاس موجود لوگوں نے آسمانوں اور زمین کا ذکر کیا مگر وہ خاموش رہے تو لوگوں نے کہا اے ابو الفضل ! تم کیا کہتے ہو ہو تو انہوں نے فرمایا اس کی رحمت سے کوئی چیز بڑی نہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ورحمتی وسعت کل شیء “۔ (10) امام احمد اور ابو داؤد نے جندب بن عبد اللہ بجلی ؓ سے روایت کیا کہ ایک دیہاتی آیا اس نے اپنی اونٹنی کو بٹھایا پھر اس کو باندھا پھر رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھیں پھر اس نے پکارا اے اللہ مجھ پر اور محمد ﷺ پر رحمت فرما اور ہماری رحمت میں کسی کو شریک نہ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو نے وسیع رحمت کو روک دیا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے سورحمتیں پیدا فرمائیں (صرف) ایک رحمت کو نازل فرمایا (جس کی وجہ سے) مخلوق جنات انسان اور درندے ایک دوسرے پر شفقت کرتے ہیں اور ننانوے رحمتیں اپنے پاس رکھیں۔ (11) امام احمد اور مسلم نے سلمان ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ کی سو رحمتیں ہیں اس میں سے ایک رحمت کی وجہ سے مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے وحشی جانور اپنی اولاد پر شفقت کرتے ہیں اور دوسرے ننانوے رحمتیں قیامت کے دن ہوں گی۔ ایک دوسرے پر مہربان ہونا اللہ کی رحمت کا حصہ ہے (12) امام ابن ابی شیبہ نے موقوفا اور ابن مردویہ نے مرفوعا سلمان ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے سو رحمتوں کو پیدا فرمایا جس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا ان میں سے ہر رحمت آسمان اور زمین کے درمیان ہر چیز کو محیط ہوسکتی ہے۔ اس میں سے ایک رحمت زمین کی طرف نازل فرمائی اس کی وجہ سے مخلوق ایک دوسرے پر رحمت کرتی ہے اور اس وجہ سے والدہ اپنی اولاد پر مہربانی کرتی ہے اور اس وجہ سے پرندے اور درندے ایک جگہ سے پانی پیتے ہیں اسی وجہ سے ساری مخلوق زندگی گزار رہی ہے۔ جب قیامت کا دن ہوگا تو یہ رحمت اللہ تعالیٰ ساری مخلوق سے کھینچ لیں گے پھر اس کو متقی لوگوں پر بہادیں گے۔ اور ننانوے رحمتوں کا اضافہ بھی کردیں گے۔ پھر یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” ورحمتی وسعت کل شیء، فسا کتبھا للذین یتقون “ (13) امام طبرانی نے حذیفہ بن یمان ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ضرور بالضرور داخل ہوگا بدکار جنت میں اپنے دین کی وجہ سے اور حماقت والے کام کرنے والا اپنی زندگی میں قس ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ضرور ضرور داخکل ہوگا جنت میں وہ شخص جس کے گناہ آگ مٹا دے گی۔ اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ضرور اتنی وسیع محفرت فرمائیں گے کہ شیطان کو بھی رحمت پہنچنے کی امید لگ جائے گی۔ (14) امام احمد، عبدبن حمید نے (مسند میں) ، ابویعلی، ابن خزیمہ، ابن حبان اور ابن مردویہ نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جنت اور دوزخ نے کہا آپس میں فخر کیا، دوزخ نے کہا : اے میرے رب مجھ میں بڑے جابرحکمران اور سردار ہوں گے۔ اور جنت نے کہا مجھ میں فقیر ضعیف اور مسکین لوگ داخل ہوں گے اللہ تعالیٰ دوزخ سے فرمایا تو میرا عذاب ہے جس کو میں چاہوں گا تیرے ساتھ عذاب پہنچاؤں گا اور جنت سے فرمایا تو میری رحمت ہے اور اور ہر چیز کے لئے وسیع اور کشادہ ہے تم دونوں میں سے ہر ایک کو بھرنا ہے۔ (15) امام ابن ابی حاتم نے ابوبکر ھذلی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ورحمتی وسعت کل شیء “ نازل ہوئی تو ابلیس نے کہا اے میرے رب اور میں بھی ” شیء “ میں داخل ہوں تو یہ آیت ” فسا کتبھا للذین یتقون “ نازل ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے (اپنی رحمت) ابلیس سے چھین لی۔ (16) امام ابو الشیخ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ جب (یہ آیت) ” ورحمتی وسعت کل “ نازل ہوئی تو ابلیس نے کہا اور میں بھی ” شیء “ میں سے ہوں تو اللہ تعالیٰ نے اس کو منسوخ فرمایا دیا اور (یہ آیت) اتاری ” فسا کتبھا للذین یتقون “ آیت کے آخر تک۔ (17) امام ابن منذر اور ابو الشیخ نے ابن جریر (رح) سے روایت کیا کہ جب (یہ آیت) ” ورحمتی وسعت کل شیء “ نازل ہوئی تو ابلیس نے کہا میں ہر چیز میں سے ہوں اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” فسا کتبھا للذین یتقون ویؤتون الزکوۃ “ (اس پر) یہودیوں نے کہا ہم بھی تقویٰ اختیار کرنے والے ہیں اور ہم بھی زکوٰۃ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” الذین یتبعون الرسول النبی الامی “ تو اللہ تعالیٰ نے ابلیس اور یہودیوں کو اس سے الگ کردیا اور اس کو محمد ﷺ کی امت کے لئے خاص کردیا۔ (18) امام بیہقی نے شعب میں سفیان بن عینیہ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت نا زل ہوئی ” ورحمتی وسعت کل شیء “ تو ابلیس نے اپنی گردن کو لمبا کیا اور کہا کہ میں بھی ” شیء “ میں سے ہوں تو (یہ آیت) ” فسا کتبھا للذین یتقون ویؤتون الزکوۃ والذین ہم بایتنا یؤمنون “ نازل ہوئی تو یہود و نصاری نے اپنی گردنوں کو لمبا کیا اور کہا ہم تورات اور انجہل پر ایمان لائے ہیں اور زکوٰۃ بھی دیتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے ابلیس یہود و نصاری سے حکم کو چھین لیا اور اس کو اس امت کے لئے خاص کردیا اور فرمایا لفظ آیت ” الذین یتبعون “ (الآیہ) (19) امام ابن منذر، ابن ابی حاتم، بزار نے مسند میں اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ موسیٰ نے اپنے رب سے ایک چیز کا سوال کیا مگر (اللہ تعالیٰ ) نے اس کو محمد ﷺ کو عطا فرما دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” واختار موسیٰ قومہ “ سے لے کر ” فسا کتبھا للذین یتقون “ تک (اسی طرح) محمد ﷺ کو ہر چیز سے دی گئی جو کچھ موسیٰ نے اپنے رب سے مانگا۔ (20) امام عبد بن حمید، ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فسا کتبھا للذین یتقون “ سے مراد ہے اللہ تعالیٰ نے رحمت اس امت کے لئے لکھ دی ہے۔ (21) امام حاکم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے ستر آدمیوں کو دوبارہ زندہ کردیا اور آپ کی دعا کو ان کے حق میں قبول فرمایا اس شخص کے لئے جو محمد ﷺ پر ایمان لائے اور آپ کے اس قول کی اتباع کی : فاغفرلنا وارحمنا وانت خیر الغفرین فساکتبھا للذین یتقون ویؤتون الزکوۃ والذین یتبعون محمدا۔ (22) امام ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” فساکتبھا للذین یتقون “ کے بارے میں فرمایا کہ وہ شرک سے بچنے والے ہیں۔ (23) امام ابو الشیخ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” فساکتبھا للذین یتقون “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد محمد ﷺ کی امت ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے کاش مجھ کو امت محمد ﷺ تک مؤخر کردیا جاتا یہودیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کیا تیرا رب مخلوق کو پیدا فرماتا ہے پھر اس کو عذاب دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی اے موسیٰ (علیہ السلام) فصل کاشت کرو عرض کیا میں نے کاشت کردی۔ فرمایا اس کو کاٹ دو عرض کیا میں نے کاٹ دی فرمایا اس کو گاہ لو۔ عرض کیا میں نے گاہ لیا۔ فرمایا صاف کرکے دانے نکال لو عرض کیا دانے نکال لئے۔ فرمایا اب کیا باقی ہے ؟ فرمایا جو کچھ باقی ہے اس میں کوئی خیر اور نفع نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اسی طرح میں عذاب نہیں دوں گا اپنی مخلوق میں سے مگر جس میں سے کوئی خیر نہیں ہوگی۔ (24) امام ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ ان سے ابوبکر اور عمر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا یہ ادونوں ان ستر آدمیوں میں سے ہیں جن کا موسیٰ بن عمران نے سوال کیا تھا فخر کے طور پر یہاں تک کہ ان دونوں حضرات (ابوبکر ؓ و عمر ؓ) کو محمد ﷺ کو عطا کر دئیے گئے۔ پھر یہ آیت تلاوت کی لفظ آیت ” واختار موسیٰ قومہ سبعین رجلا لمیقاتنا “ فرشتوں کی جمعہ کی نماز میں حاضری (25) امام ابن مردویہ نے علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو جبرئیل نازل ہوتے ہیں مسجد حرام کی طرف اور مسجد حرام میں ایک جھنڈا گاڑتے ہیں اور صبح کو سارے فرشتے ان مسجدوں کی طرف جاتے ہیں جن میں جمعہ کی نماز ہوتی ہے اور وہ اپنے جھنڈوں کو مسجدوں کے دروازوں میں گاڑ دیتے ہیں پھر چاندی کے کاغذ پھیلا دیتے ہیں اور سونے کی قلمیں پھر جمعہ کی طرف سب سے پہلے جلدی آنے والوں کو لکھتے ہیں جب مسجد میں ستر آدمی پہنچ جاتے ہیں تو جلدی آگئے تو کاغذوں کو لپیٹ لیتے ہیں یہ وہی ستر آدمی ہیں جن کو موسیٰ نے اپنی قوم میں سے چن لیا تھا۔ اور وہ انبیاء تھے۔ (26) امام ابن مردویہ نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب ہم میں سے ستر آدمی جمعہ کے لئے آئیں تو یہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ان ستر آدمیوں کی طرح ہیں جن کو وفد بنا کر اپنے رب کی طرف لے گئے یا ان سے بھی افضل ہیں۔ (27) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” النبی الامی “ سے مراد ہے کہ وہ نہ لکھتے ہی اور نہ وہ پڑھتے ہیں۔ (28) امام عبد بن حمید، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” الرسول النبی الامی “ سے مراد وہ تمہارے نبی ہیں جو امی تھے، نہیں لکھتے تھے۔ (29) امام ابن مردویہ نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت کیا کہ ایک دن ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے الوداع کہنے والے کی طرح خطبہ ارشاد فرمایا (تین مرتبہ) فرمایا کہ میں محمد نبی امی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں مجھے فواتح الکلم خواتم الکلم اور جوامع الکلم عطا کئے گئے مجھے جہنم کے محافظ فرشتوں اور عرش کے اٹھانے کے بارے میں بتایا گیا میری بات سنو اور اطاعت کرو جب تک میں تمہارے اندر موجود ہوں جب مجھے موت آجائے تو تم لازم پکڑو۔ اللہ کی کتاب کو اس کے حلال کو حلال جانو اور اس کے حرام کو حرام جانو۔ (30) امام ابن شیبہ، بخاری، مسلم، ابو داؤد اور نسائی، ابن مردویہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہم ایک ان پڑھ امت ہیں ہم نہ لکھتے ہیں اور نہ حساب کرتے ہیں بلاشبہ مہینہ اتنے اتنے دنوں کا ہے۔ اور آپ نے چھ مرتبہ اپنے دست مبارک سے ارشاد فرمایا اور ایک انگلی کو بند کرلیا۔ (31) امام ابو الشیخ نے مجاہد سے روایت کیا اور انہوں نے عون بن عبد اللہ بن عتبہ سے روایت کیا کہ والد سے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے وفات پائی یہاں تک کہ پڑھا بھی اور لکھا بھی میں نے یہ حدیث شعبی کو ذکر کی تو فرمایا یہ سچ ہے میں نے اپنے اصحاب سے سنا کہ وہ اسی طرح کہا کرتے تھے۔ قولہ تعالیٰ : الذی یجدونہ مکتوبا عندھم فی التورۃ والانجیل : (32) امام ابن سعد بن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” الذی یجدونہ مکتوبا عندھم فی التورۃ والانجیل “ سے مراد ہے کہ وہ پاتے ہیں اس کی تعریف کو اور اس کے حکم کو اور اس کی نبوت کو جو لکھا ہوا ہے ان کے پاس۔ (33) امام ابن سعد نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اوصاف بعض کتابوں میں اس طرح بیان کئے گئے کہ محمد ﷺ آپ بدخلق اور سخت طبیعت والے نہیں ہیں اور نہ بازاروں میں شور مچانے والے اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دینے والے ہیں لیکن معاف کرنے والے اور درگزر کرنے والے ہیں آپ کی امت بہت حمد کرنے والی ہے ہر حال میں۔ رسول اللہ ﷺ کا دیدار (34) امام ابن سعد اور احمد نے دیہاتیوں میں سے ایک آدمی سے یہ نقل کیا ہے میں کچھ میٹھا پھل لے کر میدنہ منورہ تجارت کے لئے آیا رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں۔ جب میں ان کے بیچنے سے فارغ ہوا تو میں نے کہا میں اس آدمی سے ضرور ملاقات کروں گا اور میں اس سے ضرور سنوں گا۔ پھر میں نے ان سے ملاقات کی ابوبکر اور عمر ؓ کے درمیان جو پیدال چل رہے تھے میں ان دونوں کے پیچھے ہولیا یہاں تک کہ یہ دونوں یہود کے ایک آدمی کے پاس آئے جو تورات کو کھولے ہوئے اس کو پڑھ رہا تھا۔ اور اس کے ذریعہ تسلی دے رہا تھا اپنے آپ کو اپنے بیٹے کے بارے میں جو موت (کی حالت) میں تھا اس کا بیٹا بہت حسین، خوبصورت نوجوان تھا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں اس ذات کی تجھ کو قسم دیتا ہوں جس نے تورات کو اتارا کیا تو میرا ذکر اپنی کتاب میں ان صفات کے ساتھ اور میرے ظہور کی جگہ کو پاتا ہے ؟ اس نے اپنے سر کے ساتھ اس طرح اشارہ کیا کہ نہیں اس کے بیٹے نے کہا اس ذات کی قسم جس نے تورات کو اتارا کہ ہم پاتے ہیں اپنی کتاب میں آپ کی صفات کو اور آپ کے ظہور کی جگہ کو اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں پھر فرمایا اپنے بھائیوں کو یہودیوں کے پاس رہنے دو پھر آپ نے اس کو کفن دیا اور اس پر نماز پڑھی۔ (35) امام ابن سعد، بخاری، ابن جریر اور بیہقی نے (دلائل میں) عطا بن یسار (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عبد اللہ بن عاص ؓ سے ملاقات کی۔ میں نے کہا مجھے رسول اللہ ﷺ کی صفات کے بارے میں بتائیے ؟ فرمایا ہاں کیوں نہیں اللہ کی قسم کہ ان کی صفت بیان کی گئی ہے تورات میں ان بعض صفتوں کے ساتھ جو قرآن میں ہیں (جیسے) لفظ آیت ” یایھا النبی انا ارسلنک شاھدا ومبشرا ونذیرا “ (الاعراف آیت 145) اور آپ امتوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ میرے بندے اور میرے رسول ہیں میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے۔ آپ بدخلق نہیں ہیں اور نہ آپ سخت دل ہیں اور نہ بازاروں میں شور مچانے والے ہیں اور نہ آپ برائی کا بدلہ برائی سے دینے والے ہیں لیکن آپ معاف کرنے والے اور درگزر کرنے والے ہیں ہرگز اللہ تعالیٰ آپ کو قبض نہیں فرمائیں گے یہاں تک کہ آپ کے ذریعہ سب بہکی ہوئی امت کو صراط مستقیم پر لے آئیں اور وہ یہ کہنے لگیں۔ لا الہ الا اللہ اور آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ آندھی آنکھوں کو کھول دیں اور بہرے کانوں کو اور غافل دلوں کو۔ (36) امام ابن سعد اور دارمی نے مسند میں، بیہقی نے دلائل میں اور ابن عساکر نے عبد اللہ بن سلام ؓ سے روایت کیا کہ تورات میں رسول اللہ ﷺ کی یہ صفت ہے ؟ لفظ آیت ” یایھا النبی انا ارسلنا شاھدا ومبشرا ونذیرا “ (الاحزاب آیت 149) اور ان پڑھوں کی حفاظت کرنے والے ہیں آپ میرے بندہ ہے میرے رسول ہیں میں نے آپ کا نام متوکل رکھا ہے۔ آپ نہ تو بدخلق ہیں اور نہ تندخو اور نہ بازاروں میں شور مچانے والے اور آپ برائی کا بدلہ اس کی مثل نہیں دیں گے بلکہ آپ معاف کردیں گے اور درگزر کریں گے اللہ تعالیٰ ہرگز آپ کی روح کو قبض نہیں کرینگے یہاں تک کہ آپ کے سبب بہکی ملت کو صراط مستقیم پر نہ لے آئیں اور وہ یہ نہ کہنے لگے لا الہ الا اللہ اور آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کھول نہ دیں اندھی آنکھوں کو بہرے کانوں کو اور غافل دلوں کو۔ (37) امام دارمی نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ پہلی سطر میں ہے محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں میرے چنے ہوئے بندے ہیں یہ بدخلق ہیں نہ سخت دل ہیں اور نہ بازاروں میں شور مچانے والے ہیں اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دینے والے ہیں لیکن درگزر کرنے والے اور بچنے والے ہیں ان کی پیدائش مکہ میں ہے اور اس کی ہجرت طیبہ یعنی مدینہ منورہ میں ہے اور اس کا ملک شام ہے۔ اور دوسری شطر میں ہے : محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، ان کی امت بہت حمد کرنے والی ہے وہ حمد کرتے ہیں خوشحالی اور تنگی میں (یعنی ہر حال میں) اور وہ اللہ کی حمد کرتے ہیں ہر منزل میں اترتے وقت اور اس کی بڑائی بیان کرتے ہیں ہر اونچی جگہ پر۔ وہ سورج کی رعایت رکھتے ہوئے نماز پڑھتے ہیں جب اس کا وقت آجاتا ہے۔ اور اپنی چادروں کو کمروں پر باندھتے ہیں اور اپنے اعضاء کو اچھی طرح وضو کراتے ہیں اور رات کو ان کی آوازیں آسمان کی فضا میں شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح ہوتی ہیں۔ (38) امام ابن سعد، دارمی اور ابن عساکر نے ابو فروہ سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے کعب احبار سے پوچھا تورات میں رسول اللہ ﷺ کے اوصاف کس طرح بیان کئے گئے ہیں کعب نے فرمایا ہم آپ کا ذکر اس طرح پاتے ہیں کہ محمد بن عبد اللہ میں جو مکہ میں پیدا ہوں گے اور طابہ یعنی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کریں گے اور آپ کا ملک شام ہوگا نہ آپ فاحشی کا ارتکاب کرنے والے اور نہ بازاروں میں شور مچانے والے اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے لینے والے لیکن وہ درگزر کرنے والے اور معاف کرنے والے ہوں گے۔ ان کی امت بہت زیادہ رحم کرنے والی ہوگی جو خوشحالی میں اللہ کی تعریف کریں گے اور اللہ کی بڑائی بیان کریں گے ہر بلند جگہ پر اور اپنے اعضاء کو وضو کے پانی سے دھوئیں گے اور اپنی پہبند کو اپنی پنڈلیوں پر باندھیں گے اور اپنی نمازوں میں ایسی صفیں باندھیں گے جیسے وہ اپنے قتال میں صفیں باندھتے ہیں ان کی آوازیں ان کی مسجدوں میں شہد کی مکھیاں کی بھنبھناہٹ کی طرح ہوں گی اور ان کی اڑان آسمان کی فضا میں سنی جائے گی۔ رسول اللہ ﷺ کے اوصاف (39) امام ابو نعیم اور بیہقی دونوں نے دلائل میں ام الدرداء ؓ سے روایت کیا کہ میں نے کعب ؓ سے پوچھا تم تورات میں نبی ﷺ کے اوصاف کس طرح پاتے ہو ؟ انہوں نے فرمایا ہم اس طرح محمد ﷺ کا تذکرہ پاتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور آپ کا نام متوکل ہے۔ بدخلق ہیں نہ سخت دل ہیں۔ اور نہ بازاروں میں شور مچانے والے ہیں اور ان کو چابیاں دے دی گئیں تاکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ کو دیکھنے والی آنکھیں اور بہروں کے سننے والے کان عطا کردے یہاں تک کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور آپ مظلوم کی مدد کریں گے اور اس سے اس کا دفاع کریں گے کہ اس کو کمزور اور ضعیف سمجھا جائے۔ (40) امام زبیر بن بکار نے اخبار المدینہ میں اور ابو نعیم نے دلائل میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میری صفت یہ ہے کہ میں احمد و متوکل ہے۔ آپ کی جائے پیدائش مکہ ہے اور اس کی ہجرت طیبہ (یعنی مدینہ منورہ) ہے نہ آپ بدخلق ہیں اور نہ سخت دل ہیں کہ نیکی کا بدلہ نیکی سے دیتے ہیں اور برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے آپ کی امت بہت حمد کرنے والی ہے اپنی چادریں آدھی پنڈلیوں پر باندھیں گے اور اپنے اعضاء کو وضو کے ساتھ دھوتے ہیں۔ ان کی اناجیل ان کے سینوں میں ہیں، وہ نماز کیلئے صف اس طرح بناتے ہیں جیسے لڑنے کیلئے بناتے ہیں اور ان کی قربانیاں ایسی ہوتی ہیں جن کے سبب وہ اپنے خون کی قربانی دیتے ہیں۔ اور رات کو عبادت گزار ہوتے ہیں اور دن کے وقت شیر ہوتے ہیں۔ (41) امام ابو نعیم نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ میرا باپ لوگوں میں سے سب سے زیادہ جاننے والا تھا جو کچھ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل فرمایا تھا اور انہوں نے مجھ سے کوئی چیز نہ چھپائی ان چیزوں میں سے جو وہ جانتے تھے جب ان کو موت حاضر ہوئی تو مجھ سے فرمایا اے میرے بیٹے تو جانتا ہے کہ میں نے تجھ سے کوئی چیز نہیں چھپائی ان چیزوں میں سے جو میں جانتا تھا خبردار بیشک میں نے تجھ سے دو کاغذ چھپا رکھے ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ ایک نبی جو بھیجے جائیں گے اور اس کا سایہ اپنے سارے زمانے پر ہوگا میں نے پسند نہیں کیا کہ میں تجھ کو اس بارے میں خبردوں میں تجھ پر اعتماد نہیں پاتا کہ ان کذابین میں سی کوئی ؓ اہر ہوا کہ تو ان کی اطاعت کرے گا۔ اور میں نے وہ کاغذ اس روشندان میں رکھ دئیے ہیں جسے تو دیکھ رہا ہے۔ کہ تو ان دونوں پر مٹی سے لیپ کر دے پس تو اس وقت ان کو نہ چھپڑنا اور نہ ان میں (غور کرنے کے لئے) دیکھنا اگر اللہ تعالیٰ تیرے ساتھ خیر کو چاہے گا اور وہ بھی نبی ﷺ تشریف لائیں گے تو ان کی تابعداری کرے گا پھر جب وہ (یعنی میرے والد) مرگئے ہم نے ان کو دفن کردیا پھر میرے لئے کوئی چیز بھی اس سے محبوب نہ تھی کہ میں ان کاغذوں کو دیکھوں میں نے روشن دان کھولا وہ دونوں کاغذ نکالے ان میں لکھا ہوا تھا محمد رسول اللہ نبیوں کو ختم کرنے والے ہوں گے ان کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ ان کی پیدائش مکہ میں اور ہجرت طیبہ یعنی مدینہ منورہ میں ہوگی۔ نہ بدخلق ہوں گے نہ سخت دل ہوں گے، نہ بازاروں میں شور مچانے والے ہوں گے۔ برائی کا بدلہ نیکی سے دیں گے۔ معاف کرنے والے، درگزر کرنے والے ہوں گے ان کی امت بہت حمد کرنے والی ہوگی جو اللہ کی حمد بیان کریں گے ہر حال میں ان کی زبانیں تکبیر کے ساتھ ہوں گی اور وہ اپنے نبی کی مدد کریں گے ہر اس شخص کے خلاف جو ان کو تکلیف دے گا۔ اپنی شرم گاہوں کو دھوئیں گے اور ان کی چادریں پنڈلیوں پر ہوں گی ان کی کتاب ان کے سینوں میں ہوگی آپس میں ایک دوسرے پر رحم کریں گے جیسے ایک ماں کے بیٹے ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں اور وہ قیامت کے دن ساری امتوں سے پہلے جنت میں جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جتنا وقت چاہا اتنا گزرا پھر مجھ کو یہ خبر پہنچی کہ نبی ﷺ کا ظہور مکہ میں ہوا ہے میں نے تاخیر کی یہاں تک کہ چھان بین کی پھر مجھ کو یہ بات پہنچی کہ ان کی وفات ہوگئی اور ان کے خلیفہ ان کے قائم مقام بنے ہیں۔ پھر ان کے لشکر ہمارے پاس آئے اور میں نے کہا میں ہرگ اس دین میں داخل نہ ہوں گا۔ یہاں تک کہ ان کی سیرت اور اعمال کو نہ دیکھ لوں۔ میں برابر (اس خیال کو) بناتا رہا اور اس کو موخر کرتا رہا تاکہ میں چھان بین کرلوں یہاں تک کہ عمر بن خطاب ؓ کے عمال ہمارے اوپر مقرر ہوگئے جب میں نے ان کے وعدہ پورا کرنے کو دیکھا اور جو اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمنوں کے خلاف جو کچھ کیا اس کا مشاہدہ کیا تو مجھے یقین ہوگیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا میں انتظار کر رہا تھا اللہ کی قسم ایک رات کو میں اپنی چھت پر تھا اچانک مسلمانوں میں سے ایک آدمی اللہ کا یہ قول تلاوت کر رہا تھا۔ لفظ آیت ” یایھا الذین اوتو الکتب امنوا بما نزلنا مصدقا لما معکم من قبل ان نطمس وجوھا “ (النساء آیت 47) جب میں نے یہ آیت سنی تو میں ڈرا کہ میں صبح نہیں کروں گا یہاں تک کہ میرا چہرہ میری گدی کی جانب پھر جائے گا تو صبح کو مجھے کوئی چیز اس سے زیادہ محبوب نہیں کہ میں صبح ہوتے ہی مسلمانوں کے پاس چلا گیا (یعنی مسلمان ہوگیا) (42) امام حاکم اور بیہقی نے دلائل میں علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ پر ایک یہودی کے کچھ دینار تھے اس نے نبی ﷺ سے تقاضا کیا۔ آپ ﷺ نے اس سے فرمایا میرے پاس نہیں جو میں تجھ کو دوں۔ اس نے کہا اے محمد ﷺ میں تجھ سے جدا نہیں ہوں گا جب تک کہ تو مجھ کو نہ دے گا پھر اس نے کہا اب تو میں آپ کے پاس بیٹھا رہوں گا اے محمد ﷺ چناچہ آپ ﷺ کے ساتھ بیٹھ گیا اور نبی ﷺ نے ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور صبح کی نمازیں ادا فرمائیں۔ نبی ﷺ کے صحابہ یہودی کو جھڑکنے لگے اور ڈرانے لگے اور کہنے لگے یا رسول اللہ یہودی نے آپ کو روک دیا ہے فرمایا میرے رب نے مجھ کو منع فرمایا ہے کہ میں کسی ایسے شخص پر ظلم کروں جس کے ساتھ معاہدہ ہے اور نہ اس کے علاوہ (کسی دوسرے پر) جب دن چلا گیا تو وہ یہودی مسلمان ہوگیا اور اس سنے کہا میرا آدھا مال اللہ کے راستے میں (صدقہ) ہے۔ اللہ کی قسم میں نے جو کچھ آپ کے ساتھ کیا ہے صرف اس وجہ سے کہ میں تورات میں آپ کی صفات کی طرف دیکھتا ہوں کہ محمد بن عبد اللہ جو مکہ میں پیدا ہوں گے اور ان کی ہجرت طیبہ (یعنی مدینہ منورہ) میں ہوگی۔ اور ان کا ملک شام ہوگا نہ وہ بدخلق ہوں نہ سخت دل ہوں گتے اور نہ بازاروں میں ور مچانے والے ہوں گے نہ آپ برائی کا ارتکاب کریں گے اور نہ کسی سے فحش کلامی کریں گے۔ (43) امام ابن سعد نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ یہودی نے کہا کہ تورات میں رسول اللہ ﷺ کی صفات بیان کی گئی ہیں ان میں حلم کے سوا سب میں نے دیکھ لیں اور میں نے آپ کو تیس دینار پیشگی دئیے ایک پھل کی بیع میں معلوم مدت تک میں نے آپ کو چھوڑے رکھا یہاں تک کہ مدت میں سے ایک دن باقی رہ گیا میں آپ کے پاس آیا اور کہا اے محمد ﷺ میرا حق ادا کرو کیونکہ تم عبد المطلب کا خاندان دوسروں کا حق مار لیتے ہو۔ عمر ؓ نے فرمایا اے خبیث یہودی اللہ کی قسم اگر تو اس جگہ پر نہ ہوتا تو میں ضرور اس چہرے پر مارتا جس میں تیری آنکھیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابو حفص (حضرت عمر ؓ کی کنیت ہے) اللہ تیری مغفرت فرمائے ہم اس کے سوا تیرے زیادہ ضرورت مند تھے یہاں تک کہ تو مجھے حکم کرنے والا ہوتا کہ جو میرے ذمہ واجب الاداء ہے وہ ادا کروں اور اس کی زیادہ ضرورت تھی کہ تم اس کا حق پورا کرنے کے لئے اس کی مدد کرتے تو اس پر میری جہالت کے مجہول ہونے کے بارے میں سوائے حلم کے اور کچھ اضافہ نہ ہوتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے یہودی ! تیرا حق میں کل ادا کروں گا پھر فرمایا اے ابو حفص ! اس کے ساتھ اس باغ کی طرف جاؤ کہ جہاں اس نے پہلے دن تقاضا کیا تھا اگر یہ راضی ہوجائے تو اس کو اتنے اتنے صاع دو چناچہ وہ میرے ساتھ باغ میں آیا اور وہ ان پر کچھ راضی ہوگیا اور عمر نے اس کو وہ کھجوریں بھی دیں جو رسول اللہ ﷺ نے فرمائیں اور جو آپ نے زیادہ دینے کا حکم فرمایا تھا وہ بھی دے دیں۔ جب یہودی نے کھجور پر قبضہ کرلیا تو کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ کی قسم مجھ کو کسی بات نے اس بات پر آمادہ نہیں کیا اے عمر ! جو تو نے مجھ کو دیکھا مگر یہ کہ میں نے تورات میں رسول اللہ ﷺ کی ساری صفات کے بارے میں دیکھا تھا سوائے حلم کے اس لئے آپ کے حلم کو میں نے آج آزمایا پس میں نے ان کو اسی وصف پر پایا جو توراۃ میں ہے۔ اور میں تجھ کو گواہ بناتا ہوں کہ کچھ اور میرا آدھا مال غریب مسلمانوں کے لئے ہے۔ عمر نے فرمایا کہ میں نے کہا کیا ان میں سے بعض کے لئے اس نے کہا کہ ہاں ان میں سے بعض کے لئے فرمایا کہ یہودی کے سب گھر والے اسلام لے آئے مگر ایک بوڑھا جو سو سالکا تھا (وہ مسلمان نہ ہوا) ۔ پس وہ کفر پر ہی رہا۔ (44) امام ابن سعد نے کثیر بن مرۃ (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں البتہ تحقیق تمہارے پاس ایسے رسول تشریف لائے کہ دن میں کوئی سستی اور کاہلی نہیں وہ ان آنکھوں کو کھول دے گا جو اندھی ہیں ہمارے کانوں کو سنوارے گا جو بہرے ہیں اور دلوں کو کاٹ دے گا جو ڈھانکے ہوئے ہیں۔ اور راستے کو سیدھا کر دے گا جو ٹیڑھا ہے۔ یہاں تک کہ کہا جائے گا۔ لا الہ الہ اللہ۔ (45) امام ابن سعد نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ بیت المدارس میں تشریف لائے اور فرمایا اپنے عالموں کو باہر نکالو ان لوگوں نے کہا عبد اللہ بن صوریا (بڑا عالم) ہے رسول اللہ ﷺ اس کو علیحدگی میں ملے اور اس کو اس کے دین کے بارے میں بتایا اور جو اللہ تعالیٰ نے ان پر انعام فرمایا ان کی قسم دلائی کہ ان کو کھلایا ترنجبین اور بٹیر۔ اور بادلوں نے ان پر سایہ کیا کیا تو جانتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ اس نے کہا ہاں اور قوم بھی البتہ پہچانتی ہے۔ جیسے میں پہچانتا ہوں اور آپ کی ظاہری صفات تورات میں ہیں لیکن یہ لوگ تجھ سے حسد کرتے ہیں پھر آپ نے فرمایا پھر کسی چیز نے تجھ کو (ایمان لانے سے) روکا ہے اس نے کہا میں اپنی قوم کی مخالفت سے ڈرتا ہوں قریب ہے کہ وہ تابعداری کریں گے اور وہ تسلیم کریں گے اور اسلام لے آئیں گے۔ (46) امام طبرانی، ابو نعیم اور بیہقی نے فلتان بن عاصم ؓ سے روایت کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ایک آدمی آیا اس کو نبی ﷺ نے فرمایا کیا تو تورات پڑھتا ہے ؟ اس نے کہا ہاں آپ نے (پھر) فرمایا اور انجیل بھی (پڑھتا ہے) اس نے کہا ہاں ہم نے اس کو قسم دی کیا تو مجھ کو تورات اور انجیل میں پاتا ہے ؟ اس نے کہا ہم اس طرح کے اوصاف پاتے ہیں جو آپ میں ہیں اور جیسی آپ کی ہیئت ہے۔ آپ کے ظہور کی جگہ کو بھی پاتے ہیں اور ہم یہ امید رکھتے تھے کہ آپ ہم میں سے ہوں گے۔ جب آپ کا ظہور ہوگیا تو ہم نے خوف کیا کہ وہ آپ نہ ہوں پھر ہم نے غور و فکر کیا کہ آپ وہ نہیں ہیں آپ نے فرمایا کس لئے اس نے کہا کیونکہ ان کے ساتھ ان کی امت میں سے ستر ہزار ہوں گے نہ ان پر حساب اور نہ عذاب ہوگا۔ اور آپ کے ساتھ تھوڑی سی تعداد ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس رات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں وہی ہوں بلاشبہ وہ میری امت کے افراد ہیں اور بیشک وہ ستر ہزار اور ستر ہزار سے زائد افراد ہیں۔ قریش کا یہود سے استفسار (37) امام ابن سعد نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ قریش نے نصر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط اور ان کے علاوہ دوسروں کو یثرب کے یہودیوں کی طرف بھیجا۔ اور ان سے کہا کہ تم وہاں جاکر ان سے محمد ﷺ کے بارے میں سوالکرو وہ لوگ مدینہ سے آئے اور کہا ہم تمہارے پاس آئے ہیں ایسے کام کے بارے میں جو ہمارے درمیان نیا پیدا ہوا ہے۔ ہم میں سے ایک یتیم بچہ ہے جو بڑی بات کہتا ہے اور وہ گمان کرتا ہے کہ وہ رحمن کا رسول ہے۔ اور انہوں نے کہا ہمارے لئے اس کے اخلاق وصفات کو بیان کرو۔ تو انہوں نے ان کے لئے صفات بیان کیں۔ انہوں نے کہا تم میں سے کن لوگوں نے اس کی اتباع کی۔ انہوں نے کہا ہم میں سے کمزور اور ضعیف لوگوں نے (یہ سنکر) ایک عالم ان میں سے ہنس پڑا۔ اور کہا یہ وہی نبی کہ جس کے اوصاف ہم پاتے ہیں اور ہم آپ کی قوم کے بارے میں یہ پاتے ہیں کہ وہ آپ کے ساتھ دشمنی رکھنے کے اعتبار سے تم لوگوں سے زیاہ سخت ہوگی۔ (48) امام ابو نعیم نے حلیہ میں وھب (رح) سے روایت کیا کہ جو اسرائیل میں ایک آدمی تھا کہ اس نے دو سال تک اللہ کی نافرمانی کی پھر وہ مرگیا اس کو پکڑ کر انہوں نے گوبر کے ڈھیر پر ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ اس کو نکال کر اس پر نماز جنازہ پڑھو۔ عرض کیا اے میرے رب ! بنو اسرائیل نے گواہی دی کہا اس نے دو سو سال تک تیری نافرمانی کی اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ اس طرح ہے لیکن ایک بار اس نے تورات کھولی اور اس کی نظر محمد ﷺ کے نام مبارک پر پڑھی تو اس نے اس کو چوما اور اپنی آنکھوں پر لگایا اور آپ پر درود بھیجا۔ میں نے اس کی قدر دانی کی اور اس کے گناہوں کو بخش دیا ہے اور ستر حوروں سے اس کی شادی کردی ہے۔ (49) امام ابن سعد، حاکم، (ابو نعیم اور بیہقی ان دونوں نے دلائل میں حاکم نے تصحیح کی) عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ انجیل میں لکھا ہوا ہے کہ نبی ﷺ کے اخلاق میں کوئی کجی نہ ہوگی نہ آپ تند مزاج ہوں گے اور نہ بازاروں میں شور مچانے والے ہوں گے اور برائی کا بدلہ اس کی مثل برائی سے نہ دیں گے لیکن معاف کردیں گے اور درگزر فرمائیں گے۔ (50) امام بیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جارود بن عبد اللہ نبی ﷺ کے پاس آئے اور مسلمان ہوگئے اور فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں نے آپ کی صفات کو انجیل میں پایا ہے۔ اور آپ کو بشارت دی گئی ہے ابن بتول کی۔ (51) امام ابن سعد اور ابن عساکر نے موسیٰ بن یعقوب الرابعی کے طریق سے سہل مولی خیثمہ (رح) سے روایت کیا کہ میں نے انجیل میں محمد ﷺ کی تعریف کو پڑھا نہ زیادہ چھوٹے قد والے، نہ زیادہ لمبے قد والے ہوں گے سفید بھپرے ہوئے جسم والے آپ کے کندھوں کے درمیان مہر ہوگی اور آپ گوٹ مار کر بیٹھیں گے (اس طرح پر کہ گھنٹے کھڑے ہوں اور کپڑے کے پیٹھ پیچھے گزار کر گھٹنوں کے ساتھ باندھ دیا جائے) صدقہ کو قبول نہیں کریں گے اور گدھے اور اونٹ پر سواری کریں گے بکری کو رو ہیں گے۔ اور پیوند لگا ہوا کرتا پہنیں گے۔ اور جو ایسا کرے گا تو وہ تکبر سے بری ہوگا اور آپ اس طرح کریں گے اور آپ اسمعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہوں گے۔ نبی امی ﷺ (52) امام ابن ابی حاتم اور ابو نعیم نے دلائل میں وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے شعیب (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ میں ایک امی نبی بھیجنے والا ہوں کہ اس کے ذریعہ بہرے کانوں اور غافل دلوں کو اور اندھی آنکھوں کو کھول دوں گا اس کی پیدائش کی جگہ مکہ ہوگی اور اس کی ہجرت کی جگہ طیبہ ہوگی اور اس کا ملک شام ہوگا وہ میرا بندہ ہے اللہ پر توکل کرنے والا اور چنا ہوا ہے۔ بلند شان والا ہے اور بہت محبت کرنے والا اور مختار ہے۔ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دے گا۔ لیکن معاف کرے گا اور درگزر کرے گا ایمان والوں پر رحم کرنے والا ہوگا بھاری بوجھ اٹھانے والے جانوروں کے لئے اور کسی بیوہ کی گود میں تربیت پانے والے یتیم کے لئے روئے گا نہ بدخلق ہوگا نہ سخت مزاج ہوگا اور نہ بازاروں میں شور مچانے والا ہوگا، نہ اس سے فحش اور برے اعمال کا صدور ہوگا نہ فحش گوئی کرنے والا ہوگا جب وہ کسی چراغ کی جانب سے گزرے گا تو اتنے سکون سے گزرے گا کہ اسے بجھا نہیں دے گا اگر وہ چلے گا خشک گھاس پر تو اپنے پاؤں کے نیچے سے آواز نہیں سنے گا میں اس کو بھیجوں گا خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر رہنمائی کروں گا اس کو ہر خوبصورتی کے لئے سارے اخلاق کریمانہ عطا کروں گا وقار کو اس کا لباس بنا دوں گا اور نیکی اس کی مخصوص علامت بنا دوں گا اور مغفرت اور احسان اس کا زیور بنا دوں گا اور حق کو اس کی شریعت بنا دوں گا اور ہدایت کو اس کا امام اور اسلام کو اس کا دین دار بنا دوں گا احمد اس کا نام ہوگا اس کے ذریعہ ہدایت پائیں گے گمراہی کے بعد اور علم عطا کروں گا جہالت کے بعد اور پستی کے بعد بلندی اور انکار کے بعد شہرت عطا کر دوں گا قلت کے بعد کثرت فقروفاقہ کے بعد غنا اور تفرقہ کے بعد اجتماعیت عطا کروں گا اور دلوں میں اس کی محبت پیدا کردوں گا اور بکھری ہوئی مختلف امتوں کے نزدیک ان کو محبوب بنا دوں گا اور اس کی امت کو میں بہترین امت بنا دوں گا جو لوگوں کے لئے نکلے گی نیکی کا حکم کرے گی اور برائی سے روکے گی مجھے ایک مانے گی مجھ پر ایمان لائے گی میرے لئے اخلاص کو اختیار کرے گی اور تصدیق کرے گی جو میرے رسول لے کر آئیں گے اور وہ دشمنوں کے ساتھ محبت و الفت رکھنے والے ہوں گے۔ خوشخبری ہے ان دلوں کے لئے ان چیزوں کے لئے اور ان روحوں کے لئے جو میرے لئے خالص کر دئیے گئے میں ان کو الہام کروں گا تسبیح کی، تکبیر کی، تحمید کی اور توحید کی ان کی مسجدوں میں اس طرح صف بنائیں گے جیسے فرشتے میرے عرش کے گرد صفت بناتے ہیں وہ میرے دوست ہیں، میرے مددگار ہیں، میں ان کے ذریعہ انتقام لوں گا اپنے دشمنوں کا بتوں کی عبادت کرنے والوں سے، وہ میرے لئے قعود اور سجود کرے گے اور وہ نکلیں گے اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے میری رضا مندی کی وفاداری کو طلب کرتے ہوئے اور وہ میرے راستے میں صفت بستہ اور لشکر بند ہو کر قتال کریں گے۔ میں ختم کروں گا ان کی کتاب کے ساتھ (ساری) کتابوں کو ان کی شریعت کے ساتھ (ساری شریعتوں) کو ان کے دین کے ساتھ سارے دینوں کو جو شخص اس کو پائے اور ان کی کتاب پر ایمان نہ لائے اور ان کے دین اور ان کی شریعت میں داخل نہ ہو تو وہ مجھ سے نہیں ہے اور وہ میں اس سے بری ہو میں ان کو تمام امتوں میں افضل بناؤں گا۔ اور ان کو درمیانی امت بناؤں گا جو لوگوں پر گواہی دے گی جب وہ غصے ہوں گے تو وہ میری تسبیح پڑھیں گے اور جب ان کی روحیں قبض کی جائیں گی تو میری بڑائی بیان کریں گے اور جب (آپس میں) جھگڑا کریں تو میری پاکی بیان کریں گے اور اپنے چہروں اور اپنے اعضاء بدن کو پاک رکھیں گے اور کپڑے آدھی پنڈلی تک باندھیں گے اور ہر ٹیلے اور اونچی جگہ پر لا الہ الا اللہ پڑھیں گے ان کی قربانیاں ان کے خون ہوں گے ان کی اناجیل (یعنی قرآن) ان کے سینے میں ہوں گے رات کو عبادت کریں گے اور دن کے وقت شیر ہوں گے ان کا پکارنا آسمان کی فضا میں ہوگا۔ ان کی (آوازوں کی) بھنبھناہٹ شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ (کی طرح) ہوگی خوشخبری ہے ان کے لئے جو ان کے ساتھ ہوں گے ان کے دین پر ہوں گے، ان کے طریقے اور ان کی شریعت پر ہوں گے، یہ میرا فضل ہے جس کو میں چاہوں گا اور میں بڑے فضل والا ہوں۔ سچا نبی ﷺ (53) امام بیہقی نے دلائل میں وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے زبور میں وحی فرمائی اے داؤد ! عنقریب تیرے بعد ایک نبی آئیں گے اس کا نام احمد اور محمد ہوگا۔ جو سچ بولنے والے نبی ہوں گے میں اس پر کبھی غصہ نہ ہوں گا اور وہ میری نافرمانی کبھی نہیں کرے گا۔ اور میں اگلے پچھلے سب گناہ معاف کر دئیے اور اس کی امت رحم کی ہوئی ہے ان کو میں نے اس طرح نوافل عطا فرمائے ہیں جیسے میں نے انبیاء کو عطا فرمائے۔ اور ان پر وہ فرائض مقرر کئے ہیں جو میں نے انبیاء اور رسولوں پر فرض کئے۔ یہاں تک کہ میرے پاس قیامت کے دن آئیں گے اور ان کا نور انبیاء کے نور کی طرح ہوگا۔ اور یہ اس وجہ سے کہ میں ان پر فرض کر دوں گا کہ وہ میرے لئے ہر نماز میں طہارت یعنی وضو کریں جیسے میں نے انبیاء پر فرض کیا ان سے پہلے اور میں نے ان کو جنابت غسل کا اسی طرح حکم دیا ہے جیسے ان سے پہلے انبیاء کو حکم دیا اور میں نے ان کو حج کا حکم دیا جیسے ان سے پہلے انبیاء کو حکم دیا اور میں نے ان کو جہاد کا حکم دیا جیسے ان سے پہلے رسولوں کو دیا اے داؤد بلاشبہ میں نے محمد ﷺ اور ان کی امت کو (ساری) امتوں پر فضیلت دیں اور ان کو ایسی چھ خصلتیں عطا فرمائی ہیں جو ان کے علاوہ کسی امت کو عطا نہیں کیں ہیں خطا اور نسیان میں ان کو نہیں پکڑوں گا اور ہر گناہ جو انہوں نے بغیر ارادہ کے کئے جب وہ مجھ سے استغفار کریں گے تو میں ان کو بخش دوں گا اور وہ اپنی آخرت کے لئے جو بھی اچھا کام کریں گے تو میں اس پر ان کو کئی گناہ دنیا میں عطا کروں گا اور کئی گنا ان کے لئے اپنے پاس سے محفوظ رکھوں گا اور وہ اس سے افضل و اعلیٰ ہوگا اور آزمائشوں میں مصائب پر جب وہ صبر کریں گے اور انا للہ وانا الیہ راجعون کہیں گے تو میں اس پر ان کو رحمت اور برکت سے نوازوں گا اور نعمتوں والی جنت کی طرف رہنمائی کروں گا اگر وہ تجھ سے دعا کریں گے تو میں ان کے لئے دعا کو قبول کروں گا یا تو وہ اسے دنیا ہی میں دیکھ لیں یا اس کے بدلہ میں کوئی مصیبت ان سے دور کر دوں گا یا ان کے لئے آخرت میں (اپنے اجر کو مؤخر کر دوں گا) اے داؤد ! جو کوئی مجھے اس حال میں ملا محمد ﷺ کی امت میں سے تو اس بات کی گواہی دے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اکیلا ہوں میرا کوئی شریک نہیں اور وہ اس کی تصدیق کرتا ہو تو وہ میرے ساتھ میری جنت میں اور میری عزت کی جگہ میں ہوگا اور جو شخص مجھ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس نے محمد ﷺ کو جھٹلایا اور وہ جو دین لے کر آئے اس کو جھٹلایا اور میری کتاب کا مذاق اڑایا تو میں اس پر اس کی قبر میں شدید عذاب مسلط کر دوں گا اور فرشتے اس کے چہرے اور اس کی پیٹھ پر ماریں گے جب وہ اپنی قبر سے زندہ ہو کر اٹھے گا پھر میں اس کو آگ کے نچلے طبقے میں داخل کروں گا۔ (54) امام حکیم ترمذی نے نوادر الاصول عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے کتاب میں پایا کہ یہ امت اللہ کے ذکر سے محبت کرتی ہے جیسے کبوتری اپنے گھونسلے سے محبت کرتی ہے۔ اور وہ اللہ کے ذکر کی طرف اس اونٹ سے بھی زیادہ تیزی سے آتے ہیں جو اپنے گھاٹ کی طرف پیاس کے دن تیزی سے آتا ہے۔ قولہ تعالیٰ : ویحل لہم الطیبت ویحرم علیہم الخبئث : (55) امام طبرانی نے حبیب بن سلیمان بن سمرہ (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کے پاس ایک دیہاتی حاضر ہوا اور وہ ایک آدمی کے بارے میں پوچھ رہا تھا وہ کونسی چیز اس کے لئے حلال ہے وہ کونسی چیز اس کے لئے حرام ہے اس پر اس کے مال میں اس کی قربانی میں اس کے جانوروں میں اور اس کی بکریوں میں اور حاملہ اونٹنیوں کے بچوں اور یوڑوں میں سے تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا تیرے لئے پاکیزہ چیزیں حلال ہیں اور تجھ پر ناپاک چیزیں حرام ہیں مگر یہ کہ تو محاتج ہوجائے کھانے کی طرف تو اس میں سے کھالے یہاں تک کہ اس سے بےپرواہ ہوجائے اس نے کہا میری محتاجی کی وہ کونسی حالت ہے کہ جب میں اس تک پہنچ جاؤں تو میں وہ شے کھا سکتا ہوں یا میری مالداری کی وہ کونسی کیفیت ہے جو میری اس حاجت کو پورا کر دے (اور اس کے بعد وہ چیزیں میرے لئے حلال نہ ہو) ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا اگر تو امید رکھتا ہو نتائج (بچے جننے کی حالت کا) تو اپنے جانور کے گوشت (یعنی مردار گوشت) کے سبب اپنے نتائج تک پہنچ سکتا ہے یا جب تو امید رکھتا ہو رات کے کھانے کی اور تو اس کی پالے گا تو تو اپنے جانوروں کے گوشت (یعنی مردار گوشت) کے سبب اس تک پہنچ سکتا ہے۔ اور جب تجھے ان میں سے کسی چیز کی بھی امید نہ ہو تو پھر جو تجھے میسر آئے وہی اپنے گھر والوں کو کھلا دے یہاں تک تو اس سے مستغنی ہوجائے۔ دیہاتی نے کہا میرا رات کا کھانا کون سا ہے ؟ جس کو میں چھوڑ دوں جب میں اس کو پالوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جب تو شام کے وقت نکالے گئے دودھ سے اپنے گھر والوں کو سیراب کر دے تو پھر اس کھانے سے رک جا جو تجھ پر حرام کیا گیا ہے لیکن تیرا مال کہ وہ سارے کا سارا خوشحالی اور راحت کا سبب ہے اس میں سے کوئی بھی حرام نہیں ہے مگر تیرے وہ اونٹ جو بچہ جننے کے قریب ہوں اور بکریوں اور بھیڑوں میں سے جو حاملہ ہوں اور بچہ جننے کے قریب ہوں تو ان کا بچہ اپنے مویشیوں کو کھلا سکتا ہے یہاں تک تو مستغنی ہوجائے (یعنی تیری حاجت باقی نہ رہے) پھر اگر تو چاہے تو اپنے گھرالوں کو کھانا کھلا اور اگر تو چاہے تو اس کے گوشت کو صدقہ کر دے اور آپ نے اس کو حکم فرمایا کہ وہ ہر سو بکریوں میں سے دس کو ذبح کر دے۔ (56) امام ابن منذر اور بیہقی نے سنن میں ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ویحل لہم الطیبت “ سے مراد ہے حلال چیزیں ” ویضع عنھم اصرھم والاغلل التی کانت علیہم “ سے مراد ہے وہ ثقیل چیزیں جو اس کے دین میں تھیں (اس بوجھ کو اتار دیا) ۔ (57) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے سنن میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ویحرم علیہم الخبئث “ جیسے سور کو گوشت اور سور اور جو کچھ وہ حلال کرلیتے تھے ان حرام کھانوں میں سے جو انہوں نے حلال کر رکھی تھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا اور فرمایا لفظ آیت ” ویضع عنھم اصرھم والاغلل التی کانت علیہم “ یعنی اس میں اس عہد کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لیا تھا ان چیزوں کے بارے میں جو ان پر حرام قرا دیں۔ (58) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ویضع عنھم اصرھم “ کے بارے میں فرمایا کہ اس کے عہدوں اور معاہدوں کا ذکر ہے جو ایسی چیزوں کے حرام کرنے کے بارے میں تھے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے حلال کی تھیں۔ (59) امام ابن جریر اور ابو الشیخ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” ویضع عنھم اصرھم والاغلل التی کانت علیہم “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بوجھ اتار دیا ان عہدوں اور معاہدوں کا جو ان سے تورات میں لئے گئے تھے اور انجیل میں بھی۔ (60) امام ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ویضع عنھم اصرھم والاغلل التی کانت علیہم “ کو اس سے عبادت میں شدت اور سختی کو اپنایا ہے۔ ان میں سے کوئی گناہ کرتا تھا تو اس کے گھر کے دروازے پر لکھ دیا جاتا تھا تیری توبہ یہ ہے کہ تو اپنے گھر والوں اپنے مال کو لے کر دشمن کی طرف نکل جائے اور پھر واپس نہ لوٹے یہاں تک کہ تمہارے آخری آدمی کو موت آجائے۔ (61) امام ابن ابی شبیہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ویضع عنھم اصرھم “ میں ” اصرھم “ سے مراد ہے شدت اور تکلیف جو بنی اسرائیل کو ہوتی تھی اس مقام کے کانتے وقت جس میں پیشاب یا کوئی غلاظت لگ جاتی تھی۔ (62) امام ابن ابی حاتم نے ابن شوزب (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والاغلل التی کانت علیہم “ یعنی وہ سختیاں جو ان پر تھیں۔ (63) امام عبد بن حمید، ابن جریر اور ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ویضع عنھم اصرھم والاغلل التی کانت علیہم “ سے مراد ہے وہ انتہائی شدید اور سخت احکام ہیں جو قوم پر نافذ تھے تو محمد ﷺ تشریف لائے تو لوگوں سے ان سختیوں کو اٹھالیا گیا۔ (64) امام ابو الشیخ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” ویضع عنھم اصرھم “ کے بارے میں فرمایا کہ جو ان پر سختی تھی پیشاب کے اثر کی جگہ کو کاٹنے کی اور گوشت میں آنتوں کو ڈھونڈنے کی اور اسی طرح کی دوسری سختیاں (جو ان سے دور کردی گئیں) ۔ (65) امام ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ویضع عنھم اصرھم “ یعنی ان کے وعدے۔ (66) امام ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” وعزروہ “ یعنی جنہوں نے آپ کی تعظیم کی اور آپ کا احترام کیا۔ (67) امام ابو الشیخ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وعزروہ وتصروہ “ یعنی جنہوں نے آپ کی تعظیم کی اور تلوار کے ذریعے آپ کی مدد کی۔ (68) امام عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ” وعزورہ “ یعنی بیشک آپ کی مدد کرنے اور آپ کی تعظیم کرنے میں تم سبقت لے گئے۔ لیکن تم میں بہترین آدمی وہ ہوگا جو ایمان لایا اور اس نور کی اتباع کی جو آپ کے ساتھ نازل ہوا (یعنی قرآن مجید) (69) امام عبد بن حمید اور ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” وعزروہ “ یعنی اللہ کے حکم کو مضبوطی کے ساتھ پکڑو اور اس میں رسول اللہ ﷺ کی مدد کرو۔ (70) امام عبد بن حمید نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے یوں پڑھا ” وعزروہ “ مشقلہ (یعنی شدید کے ساتھ)
Top