Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 163
وَ سْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ١ۘ اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ اِذْ تَاْتِیْهِمْ حِیْتَانُهُمْ یَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَّ یَوْمَ لَا یَسْبِتُوْنَ١ۙ لَا تَاْتِیْهِمْ١ۛۚ كَذٰلِكَ١ۛۚ نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ
وَسْئَلْهُمْ : اور پوچھو ان سے عَنِ : سے (متلع) الْقَرْيَةِ : بستی الَّتِيْ : وہ جو کہ كَانَتْ : تھی حَاضِرَةَ : سامنے (کنارے کی) الْبَحْرِ : دریا اِذْ : جب يَعْدُوْنَ : حد سے بڑھنے لگے فِي السَّبْتِ : ہفتہ میں اِذْ : جب تَاْتِيْهِمْ : ان کے سامنے آجائیں حِيْتَانُهُمْ : مچھلیاں ان کی يَوْمَ : دن سَبْتِهِمْ : ان کا سبت شُرَّعًا : کھلم کھلا (سامنے) وَّيَوْمَ : اور جس دن لَا يَسْبِتُوْنَ : سبت نہ ہوتا لَا تَاْتِيْهِمْ : وہ نہ آتی تھیں كَذٰلِكَ : اسی طرح نَبْلُوْهُمْ : ہم انہیں آزماتے تھے بِمَا : کیونکہ كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ : وہ نافرمانی کرتے تھے
اور آپ اس بستی کے بارے میں ان سے پوچھ لیں جو دریا کے قریب آباد تھی، جبکہ وہ لوگ شنیچر کے دن میں زیادتی کرتے تھے۔ جبکہ ان کے پاس ان کی مچھلیاں سنیچر کے دن اوپر کو ظاہر ہو کر آتی تھیں اور جس دن سنیچر کا دن نہ ہوتا اس دن ان کے پاس نہ آتی تھیں۔ اسی طرح ہم انہیں آزماتے تھے اس سبب سے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے
(1) امام ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ میں ابن عباس ؓ کے پاس آیا اور وہ (یہ آیت) ” وسئلہم رن القریۃ التی کانت حاضرۃ البحر “ پڑھ رہے تھے۔ فرمایا اے عکرمہ ! کیا تو جانتا ہے یہ بستی کو نسی تھی عرض کیا نہیں فرمایا وہ ایلہ تھی۔ (2) امام ابن ابی حاتم نے ابن شہاب (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وسئلہم عن القریۃ “ میں ” قریہ “ سے مراد طبریہ ہے۔ (3) امام ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وسئلہم عن القریۃ “ سے مراد وہ بستی ہے جس کو مقناطیسی کہا جاتا ہے۔ مدین اور عینونا کے درمیان ہے۔ (4) امام عبد بن حمید نے سعید بن جبیر سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وسئلہم عن القریۃ “ سے مدینہ مراد ہے۔ (5) امام ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” اذیعدون فی السبت “ سے مراد ہے کہ وہ ظلم کرتے ہیں۔ (6) امام ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” شرعا “ سے مراد ہے ہر جگہ سے۔ (7) امام ابن جریر نے ابن عباس سے روایت کیا کہ ” شرعا “ سے مراد ہے پانی پر ظاہر ہونا۔ (8) امام ابن جریر نے ابن عباس سے روایت کیا کہ ” شرعا “ سے مراد ہے پانی پر آنے والی مچھلیاں۔ (9) امام ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وسئلہم عن القریۃ التی کانت حاضرۃ البحر “ سے مراد وہ بستی ہے جو ایسے سمندر کے کنارہ پر ہے جو مصر اور مدینہ کے درمیان ہے۔ اس کو ایلہ کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے سنیچر کے دن کو ان پر مچھلیاں حرام کردیں چناچہ ہفتہ کے دن ان کے پاس ہر جانب سے مچھلیاں ساحل سمندر پر آجاتیں جب ہفتہ کا دن گزر جاتا تو وہ ان پر قادر نہ ہوتے تھے اسی طرح وہ ٹھہرے رہے جب تک اللہ نے چاہا پھر ایک جماعت نے ان میں سے سنیچر کے دن مچھلیاں پکڑیں ایک جماعت نے ان کو روکا وہ گمراہی میں اور زیادہ ہوگئے منع کرنے والوں میں سے ایک جماعت نے کہا تم جانتے ہو یہ ایسی قوم ہے کہ ان پر عذاب ثابت ہوچکا ہے (فرمایا) لفظ آیت ” لم تعظون قوما اللہ مھلکم “ اور وہ دوسری جماعت سے سخت ناراض اور غصے ہوتے اور ان تمام افراد سے بھی جو ان کو منع کرتے تھے جب ان پر اللہ کا غضب اور عذاب واقع ہوا تو دو جماعتوں نے نجات پائی جنہوں نے کہا تم کیوں نصیحت کرتے ہو اور وہ لوگ (جنہوں نے کہا تھا لفظ آیت ” قالوا معذرۃ الی ربکم “ اور اللہ تعالیٰ نے گناہ کرنے والوں کو ہلاک کردیا جنہوں نے مچھلیاں پکڑیں۔ (ہفتہ کے دن) تو ان کو بندر بنا دیا۔ یہود ہفتہ کے دن کی تعظیم کرتے ہیں (10) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” وسئلہم عن القریۃ ‘ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر ایک دن کو فرض فرمایا جیسے تم پر جمعہ کا دن فرض فرمایا تو انہوں نے ہفتہ کے دن کی تعظیم کرنے کی مخالفت کی اور جو حکم کئے گئے پھر ان کو چھوڑ دیا جب انہوں نے ہفتہ کے دن زیادتی کی تو اس دن میں امتحان میں مبتلا کئے گئے ان پر مچھلیاں ظاہر ہوجاتی تھیں اور وہ سمندر میں سے ہر طرف ان کو دیکھتے تھے۔ جب ہفتہ کا دن ختم ہوجاتا تو وہ چلی جاتیں۔ پھر وہ مچھلیاں کو نہ دیکھتے مگر آئندہ آنے والے ہفتہ کے دن جب ہفتہ کا دن آتا تو لوٹ آتیں اور ظاہر ہوجاتیں پھر ان میں سے ایک آدمی مچھلی کو پکڑتا اور اس کو ایک دھاگہ سے باندھ دیتا پھر اس دھاگہ کو ساحل میں اور کیل سے باندھ دیتا۔ اور (باندھنے کے بعد) پانی میں چھوڑ دیتا۔ جب کل کا دن ہوتا اس کو پکڑ کر چھپ کر کھا لیتا۔ انہوں نے اس طرح کیا اور وہ لوگ ان کو دیکھ رہے تھے ان کو روکتے تھے مگر جو ان میں باقی تھے (مچھلی کا شکار نہ کرنے والے) انہوں نے ان کو منع کیا یہاں تک کہ جب (یہ مچھلیاں علانیہ طور پر بازاروں میں طاہر ہونے لگیں تو ایک جماعت نے کہا ان لوگوں کے لئے جو منع کرتے تھے لفظ آیت ” لم تعظوا قوما اللہ مہلکہم او معذبھم عذابا شدیدا “ انہوں نے کہا لفظ آیت ” معذرۃ الی ربکم “ تاکہ تمہارے رب کے دربار میں معذرت پیش کرسکیں۔ ” ولعلہم یتقون “ (شائد کہ وہ ڈریں) تو اس طرح تین گروہوں میں بٹ گئے ایک تہائی نے منع کیا اور دوسری تہائی نے کہا ” لم تعظون “ (یعنی تم کیوں نصیحت کرتے ہیں تیسری تہائی گناہ کرنے والے تھے۔ تو نہیں نجات پائی مگر ان لوگوں نے جنہوں نے منع کیا اور باقی سب ہلاک ہوگئے۔ جو لوگ منع کرتے تھے وہ صبح کو اپنی مجلسوں میں آئے تو انہوں نے ان لوگوں کو گم پایا اور ان کو نہ دیکھا اور انہوں نے اس حال میں رات گزاری تھی کہ انہوں نے گھروں کے دروازے بند کر دئیے تھے۔ اور انہوں نے کہنا شروع کیا کہ لوگوں کے کئی حالات ہوئے ہیں تم دیکھو کہ ان کا کیا حال ہے اور ان کے گھروں میں داخل ہوئے تو دیکھا قوم کی شکلیں مسخ کردی گئیں وہ انہوں نے پہچان لیا کہ فلاں آدمی بندر بنا دیا گیا ہے اور فلاں عورت کو بندریا بنا دیا گیا۔ بنی اسرائیل کی سرکشی (11) امام عبد الرزاق، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے سنن میں عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ میں ایک دن ابن عباس ؓ کے پاس آیا اور وہ رو رہے تھے اللہ کی کتاب ان کی گود میں تھی میں نے کہا آپ کیوں روتے ہیں ؟ اے ابن عباس فرمایا یہ وہ اوراق ہیں جن میں سورة اعراف لکھی ہے فرمایا تو ایلہ کو جانتا ہے میں کہا ہاں فرمایا وہاں یہودیوں میں سے ایک قبیلہ تھا کہ ہفتہ کے دن ان کی طرف مچھلیاں آتی تھیں پھر وہ پانی میں غوطہ لگا جاتی تھیں (یعنی غائب ہوجاتی تھیں) تو وہ اس پر ان کو نہ پکڑ سکتے تھے یہاں تک کہ وہ اس پر غوطلہ لگاتے تھے (پکڑنے کے لئے) بڑی کوشش اور سخت محنت کے ساتھ اور ہفتہ کے دن وہ ظاہر ہوتی تھیں سفید اور اتنی موٹی مچھلیاں گویا کہ وہ حاملہ ہیں کچھ عرصہ تک وہ اس حال پر رہے پھر شیطان نے ان کے دل میں ڈالا کہ تم کو کھانے سے منع کیا گیا ہے تو تم ہفتہ کے دن ان کو پکڑ لیا کرو اور دوسرے دنوں میں کھالیا کرو۔ ان میں سے ایک جماعت نے یونہی کہا اور دوسری جماعت نے اپنے آپ کو اپنے بیتوں کو اور اپنی عورتوں کو (شکار کے لئے تیار کیا) اور دائیں طرف والی جماعت الگ ہوگئی اور بائیں طرف والی جماعت بھی الگ ہوگئی اور خاموش ہوگئی دائیں طرف والوں نے کہا تمہارے لئے ہلاکت ہے۔ اللہ کی نافرمانی نہ کرو اور بائیں طرف والوں نے کہا لفظ آیت ” لم تعظون قوما اللہ مہلکہم او معذبھم عذابا شدیدا “ دائیں طرف والوں نے کہا لفظ آیت ” معذرۃ الی ربکم ولعلہم یتقون “ اگر وہ باز آگئے تو وہ زیادہ محبوب ہے ہمارے طرف کہ وہ تکلیف میں مبتلا کئے جائیں اور نہ وہ ہلاک کئے جائیں اگر وہ باز نہ آئے تو معذرت پیش کرسکیں گے تمہارے رب کی طرف (مگر) وہ لوگ گناہ اور غلطی کرتے رہے (یعنی لگے رہے) تو دائیں طرف والوں نے کہا تم اس طرح کیوں کر رہے ہو اے اللہ کے دشمنو ؟ اللہ کی قسم آج کی رات ہم تم کو تمہارے شہر میں چھوڑ کر جائیں گے۔ اور اللہ کی قسم تم صبح دکھائی نہیں دے گے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تم کو صبح تک دھنسا دے گا یا پتھر پھینکے گا یو بعض وہ عذاب تم کو دے گا جو اس کے پاس ہے۔ جب صبح ہوئی لوگوں نے ان کے دروازوں کو کھٹکھٹایا آوازیں دیں مگر جواب نہ ملا پھر انہوں نے سیڑھیاں رکھ کر ایک آدمی کو شہر کی فصیل پر چڑھایا اس نے ان کی طرف دیکھا تو اس نے کہا اللہ کی قسم اللہ کے یہ بندے بندر بن چکے ہیں ان کی دمیں لٹک رہی ہیں انہوں نے دروازوں کو کھولا اور ان پر داخل ہوئے تو بندروں نے پہچان لیا اپنے رشتہ داروں کو انسانوں میں سے مگر انسان نے نہیں پہچانا اپنے رشتہ داروں کو بندروں میں سے وہ بندر آتے اپنے رشتہ داروں کے پاس انسانوں میں سے اس کے کپڑوں کو سونگھتے اور رونے لگے اس نے کہا کیا میں نے تم کو منع نہیں کیا تھا تو اس نے اپنے سر سے (اشارہ کرتے ہوئے) کہا ہاں پھر ابن عباس ؓ نے (یہ آیت) پڑھی لفظ آیت ” فلما نسوا ما ذکروا بہ انجینا الذین ینھون عن السوء واخذنا الذین ظلموا بعذاب بئیس “ فرمایا بئیس کا معنی ہے دردناک اور سخت تکلیف وہ عذاب فرمایا کہ پس ان لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ جنہوں نے منع کیا تھا وہ نجات پاگئے اور دوسروں کو میں نے نہیں دیکھا جن کا ذکر کیا گیا۔ اور ہم کئی چیزوں کو دیکھتے ہیں جن کو ہم انکار کردیتے ہیں اور ہم ان کے بارے میں کچھ نہیں کہتے۔ میں نے کہا یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ پر قربان ہونے کے لئے بنایا ہے کیا آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے ناپسند کیا ان کے عمل کو اور ان کی مخالفت کی اور انہوں نے کہا لفظ آیت ” لم تعظون قوما اللہ مہلکہم “ پھر آپ نے مجھ کو حکم فرمایا تو میں نے دو موٹے کپڑے پہن لئے۔ ایلہ کے رہنے والوں کی سرکشی (12) امام ابع بن حمید نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ دریا کے کنارہ پر ایک بستی تھی جس کو ایلہ کہا جاتا تھا دریا کے کنارہ پر پتھر کے دو بت تھے جن کا منہ پانی کی طرف تھا ان میں سے ایک کو لقیم اور دوسرے کو لقمانہ کیا جاتا تھا اللہ تعالیٰ نے مچھلیوں کو حکم فرمایا کہ ہفتہ کے دن بتوں کی طرف جائیں اور بستی والوں کو حکم فرمایا کہ میں نے مچھلی کو حکم دیا ہے کہ وہ ہفتہ کے دن بتوں کی طرف جائیں تم میں سے کوئی اس دن نہ مچھلیوں سے تعرض کرے اور نہ ان کو کوئی روکے جب ہفتہ کا دن گزر جائے تو تم کو اجازت ہے کہ تم اس کا شکار کرو۔ جب ہفتہ کے دن کی فجر طلوع ہوئی تو مچھلیاں ان بتوں کے پاس آئیں اور کئی پکڑنے والے شکار سے باز نہ رہے اور ہفتہ کے دن شہر میں مچھلی عام ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ ہفتہ کے دن مچھلیاں پکڑیں گے اور ہم اتوار کے دن کو کھائیں گے جب دوسرا ہفتہ آیا تو پہلے کی نسبت زیادہ مچھلیاں آئیں اور دوسرے ہفتہ شہر میں مچھلیوں کی بہتات ہوگئی۔ تو ان میں سے ایک جماعت ان کی طرف ہوگئی ان کو نصیحت کرتے ہوئے کہا اللہ سے ڈرو پھر ایک دوسری جماعت نے ان سے کہا لفظ آیت ” لم تعظون قوما اللہ مہلکہم او معذبھم عذابا شدیدا، قالوا معذرۃ الی ربکم ولعلہم یتقون “ جب ان ہفتوں میں سے ایک ہفتہ تھا تو مچھلیاں شہر میں پھیل گئیں۔ وہ لوگ کھڑے ہوئے جنہوں نے برائی سے روکا تھا اور کہنے لگے ہم نے کہا ہم اس بستی میں تمہارے ساتھ رات نہیں گزاریں گے ان سے کہا گیا اگر تم نے صبح کی تو تم اپنی اولاد اور اپنی عورتوں کے ساتھ انہوں نے کہا ہم اس بشتی میں تمہارے ساتھ آج کی رات نہیں گزاریں گے اگر ہم نے صبح کی تو ہم اپنی اولادوں اور اپنے سامان کو تمہارے درمیان سے نکال لیں گے۔ یہ قوم دونوں کناروں پر آباد تھی جب شام ہوئی تو انہوں نے اپنے دروازے بند کر لئے جب صبح ہوئی تو قوم کی کوئی آواز نہ سنائی دی اور نہ چراغ دیکھا جیسے لے کر کوئی بستی سے باہر نکلا لوگوں نے کہا بستی والوں پر کوئی مصیبت پہنچ گئی ہے انہوں نے اس میں سے ایک آدمی کو بھیجا کہ ان کو دیکھے جب وہ بستی میں آیا تو دروازے بند تھے تو وہ ایک گھر میں جھانکا تو وہ سب کے سب بندر تھے عورتیں مؤنث اور مرد مذکر صنف بنے ہوئے تھے۔ پھر اس نے دوسرے گھر کی طرف جھانکا تو اسی طرح بچھے چھوٹے بندر بنے ہوئے تھے اور بڑے آدمی بڑے بندر بن چکے تھے وہ آدمی قوم کی طرف واپس آیا اور کہا اے میری قوم بستی والوں پر وہ عذاب آچکا ہے جس سے تم ڈراتے تھے وہ سب کے سب بندر بن چکے ہیں اور دروازوں کو نہیں کھول سکتے یہ لوگ ان پر داخل ہوئے تو وہ سب کے سب بندے تھے ایک آدمی نے ان میں سے ایک بندر کی طرف اشارہ کیا کہ تو فلاں ہے اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا ہاں اور وہ رو رہے تھے۔ ان لوگوں نے کہا اللہ تعالیٰ تم کو برباد کرے ہم اس عذاب سے تم کو ڈراتے تھے انہوں نے ان کے دروازے کھول دئیے تو وہ نکل گئے اور جنگل کی طرف چلے گئے۔ (13) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا منع کرنے والے نجات پاگئے اور نافرمانی کرنے والے ہلاک ہوگئے میں تمہیں جانتا کہ خاموش رہنے والوں کے ساتھ کیا ہوا۔ (14) امام عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ کی قسم اگر میں جان لوں کہ وہ قوم جنہوں نے کہا لفظ آیت ” لم تعظون قوما “ کہ وہ نجات پاگئے ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے برے کام سے منع کیا مجھے زیادہ محبوب ہے اس سے جس کے سبب عدول کیا گیا اور دوسرے لفظ میں ہے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ محبوب ہے لیکن میں ڈرتا ہوں کہ وہ عذاب ان سب پر نازل ہوا۔ (15) امام عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن منذر نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا میں ان لوگوں کے بارے میں نہیں جانتا جنہوں نے کہا تم اس قوم کو کیوں نصیحت کرتے ہو کیا انہوں نے نجات پایہ یا نہیں ؟ پھر فرمایا میں مسلسل آپ کے ساتھ غور و فکر کرتا رہا یہاں تک کہ آپ کو معلوم ہوا کہ وہ لوگ تحقیق نجات پاگئے۔ تو پھر آپ نے مجھے ایک جبہ پہنایا۔ (16) امام عبد بن حمید نے لیث بن ابی سلیم (رح) سے روایت کیا کہ وہ لوگ پتھروں (کی شکل میں) مسخ کر دئیے گئے جنہوں نے کہا تھا لفظ آیت ” لم تعظون قوما مہلکہم “ (تم اس قوم کو کیوں نصیحت کرتے ہو جن کو اللہ تعالیٰ ہلاک کرنے والا ہے) ۔ (17) امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” وسئلہم عن القریۃ التی “ کے بارے میں فرمایا کہ وہ ایک مچھلی تھی جسے اللہ تعالیٰ نے ان پر حرام کردیا ایک دن میں۔ اور باقی دنوں میں ان کے لئے حلال کردیا گیا اور مچھلیاں ان کے پاس آتی تھیں اس دن میں جس کو اللہ تعالیٰ نے ان پر حرام کردیا تھا گویا کہ وہ ایک الولادت اونٹنی ہے۔ جس سے ہر ایک کو روکا جاتا ہے چناچہ وہ اسے روکنے اور پکڑنے کی کوشش اور ارداہ کرنے لگے اور میں نے دیکھا ہے کہ جب کوئی بھی کثرت سے گناہ کرتا ہے تو وہ اسے کر گزرتا ہے۔ چناچہ وہ اہتمام کرتے رہے اور اسے روکنے کی کوشش کرتے رہے یہاں تک کہ وہ اسے پکڑنے میں کامیاب ہوگئے اور اسے کھالیا۔ اللہ کی قسم وہ سب سے زیادہ ثقیل اور نہ ہضم ہونے والا کھانا ہے جس قوم نے کبھی بھی اسے کھایا تو اس نے دنیا میں اسے پریشان اور رسوا باقی رکھا۔ اور آخرت میں اس کی سزا انتہائی شدید اور سخت ہے۔ اور اللہ کی قسم ! مؤمن کے لئے بری حرمت ہے اللہ کے نزدیک مچھلی سے بڑھ کر لیکن اللہ عزوجل نے قیامت قائم ہونے کا وعدہ کر رکھا ہے اور قیامت کا دن انتہائی شدید اور سخت تکلیف دہ ہے۔ (18) امام ابن ابی شیبہ اور ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ موسیٰ نے ایک آدمی کو پکڑ لیا۔ جو ہفتہ کے دن لکڑیاں اٹھائے جا رہا تھا اور موسیٰ ہفتہ کا دن منا رہے تھے پھر آپ نے اسے سولی پر چڑھا دیا۔ (19) امام ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے ہفتہ کے دن لکڑیاں چنیں اور داؤد (علیہ السلام) ہفتہ کا دن منا رہے تھے پھر آپ نے اسے سولی پر لٹکا دیا۔ (20) امام عبد بن حمید نے ابوبکر بن عیاش (رح) سے روایت کیا کہ عاصم سے یہ حفظ کیا لفظ آیت ” بعذاب بئیس “ بروزن فعیل پھر مجھ سے اس میں سے شک داخل ہوگیا تو میں نے چھوڑ دیا اس کی روایت کو عاصم (رح) سے اور میں نے اعمش سے لے لیا۔ کہ ” بعذاب بئیس “ فعیل کے معنی پر۔ (21) امام ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” بعذاب بئیس “ سے مراد ہے کہ اس عذاب میں کوئی رحمت (یعنی نرمی) نہ ہوگی۔ (22) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید اور ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” بعذاب بئیس “ یعنی دردناک (عذاب) ۔ (23) امام عبد بن حمید اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” بعذاب بئیس “ سے مراد ہے سخت دردناک۔ (24) امام ابن ابی حاتم نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ تین آوازوں میں پکارا گیا ان لوگوں کو جنہوں نے ہفتہ کے دن میں زیادتی کی تھی ایک آواز لگائی گئی اے بستی والو ! تو ایک جماعت رک گئی پھر آواز دی گئی اے بستی والوں ! تو ایک جماعت رک گئی جو پہلے سے زیادہ تھی۔ پھر آواز دی گئی اے بستی والو ! تو مرد عورتیں اور بچے رک گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ لفظ آیت ” کونوا قردۃ حسبین “ جن لوگوں نے ان کو منع کیا تھا وہ ان پر داخل ہوئے اور کہتے تھے اے فلاں میں نے تم کو منع نہیں کیا تھا تو وہ اپنے سروں کو ہلا کر جواب دیتے ہاں کیوں نہیں۔ (25) امام عبد بن حمید نے سعید بن جبیر اور ماھان حنفی (رح) دونوں حضرات سے روایت کیا کہ جب وہ مسخ کر دئیے گئے تو ہر آدمی کے مشابہ بند بنا دیا گیا جب اسے کہا جاتا کہ تو فلاں ہے تو وہ اپنے ہاتھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا کہ میرے ہاتھوں کا کیا ہوا ہے۔ حرام کو حلال کرنے کا حیلہ بھی حرام ہے (26) امام ابن بطہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (ایسے گناہوں کا) ارتکاب نہ کرو جو یہودیوں نے ارتکاب کیا اور انہوں نے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو ادنی حیلے بہانے سے حلال کرلیا۔ (27) امام ابو الشیخ نے سفیان (رح) سے روایت کیا کہ لوگوں نے عبد اللہ بن عبد العزیز العمری (رح) سے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے بارے میں کہا کہ آپ ان کو حکم کرتے ہو جو وہ آپ سے قبول نہیں کریں گے تو انہوں نے فرمایا کہ یہ معذرت ہوگی (میری طرف سے اللہ کے دربار میں) اور یہ آیت پڑھیں لفظ آیت ” قالوا معذرۃ الی ربکم “۔
Top