Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 167
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْهِمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ یَّسُوْمُهُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ لَسَرِیْعُ الْعِقَابِ١ۖۚ وَ اِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَاِذْ : اور جب تَاَذَّنَ : خبر دی رَبُّكَ : تمہارا رب لَيَبْعَثَنَّ : البتہ ضرور بھیجتا رہے گا عَلَيْهِمْ : ان پر اِلٰي : تک يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت مَنْ : جو يَّسُوْمُهُمْ : تکلیف دے انہیں سُوْٓءَ الْعَذَابِ : برا عذاب اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب لَسَرِيْعُ الْعِقَابِ : جلد عذاب دینے والا وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ لَغَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
اور آپ کے رب نے یہ بات بتادی کہ وہ قیامت کے دن تک ضرور ان پر ایسے اشخاص کو بھیجتا رہے گا جو انہیں برا عذاب چکھائیں گے، بیشک تیرا رب جلد سزا دینے والا ہے اور بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے
(1) امام ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واذتاذن ربک “ (الآیہ) کے بارے میں فرمایا یعنی اللہ تعالیٰ ایسے جابر بھیجتا رہے گا جو ان کو بڑا عذاب دیتے رہیں گے وہ اور محمد ﷺ اور ایک امت سے قیامت تک آنے والی اور ” سوء العذاب “ سے جزیہ مراد ہے۔ (2) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واذ تاذن ربک “ کے بارے میں فرمایا کہ وہ یہودی ہیں ان پر عربوں کو مسلط کیا گیا جو ان سے خراج وصول کرنے لگے اور یہ بڑا عذاب ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے سوا کسی نبی نے خراج وصول نہیں کیا آپ نے تیرہ سال تک خراج پھر اس سے روک دیا گیا اور نبی ﷺ نے ” وقطعنھم “ کے بارے میں فرمایا کہ اس میں بھی یہود کا تذکرہ ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے زمین میں پھیلا دیا اور زمین میں کوئی ٹکڑا ایسا نہیں ہے کہ اس میں سے ایک جماعت اس میں سے نہ ہو۔ (3) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن منذر اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واذ تاذن ربک “ کے بارے میں فرمایا کہ تیرے رب نے یہ اعلان فرمایا کہ ضرور بھیجا جائے گا ان پر یعنی یہود و نصاری پر قیامت کے دن تک لفظ آیت ” من یسومھم سواء العذاب “ (جو انہیں عذاب چکھائیں گے) تو اللہ تعالیٰ نے ان پر محمد ﷺ کی امت کو بھیجا کہ وہ اس سے لیتے ہیں جزیہ اور وہ ذلیل ہوتے ہیں لفظ آیت ” وقطعنھم فی الارض امما “ یعنی یہود (تو ہم نے ان کو کئی گروہوں میں بانٹ دیا) ” ومنھم الصلحون “ ان میں سے کچھ نیک ہیں اور وہ مسلمان اہل کتاب ہیں ” ومنھم دون ذلک “ اور کچھ ان کے سوا ہیں یعنی یہود ” وبلونھم بالحسنت “ اور ہم نے ان کو آزمایا نرمی اور عافیت کے ساتھ ” والسماء “ اور آزمائشوں اور سزا کے ساتھ۔ (4) امام ابن الانباری نے الوقف والابتداء میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق (رح) نے ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ مجھ کو اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” وقطعنھم فی الارض امما “ کے بارے میں بتائیے کہ ” امما “ سے کیا مراد ہے انہوں نے فرمایا اس سے مراد ہے گروہ اور فرقے اور اس میں بشر بن ابی حازم نے فرمایا : من قیس غیلان فی ذوابءھا منھم وھم بعد قادۃ الأہم ترجمہ : وہ قیس غیلان سے ہیں اور انہیں میں سے کچھ پہاڑ کی چوٹیوں پر موجود ہیں اور یہی لوگ بعد میں جماعتوں کے قائد ہے۔ (5) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وبلونھم بالحسنت والسیئات “ یعنی ہم نے ان کو آزمایا خوشحالی اور تنگدسی کے ساتھ۔
Top